کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد سیاسی پارہ ہائیمیئر کے لیے رسا کشی
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نتائج کو متنازع بنانے کی کوشش کررہی ہیں، میئر ہمارا ہوگا، سعید غنی
کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے سیاسی پارہ ہائی کررکھا ہے بار بار ملتوی ہونے کے بعد15 جنوری کو پولنگ ڈے تک کسی کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ الیکشن ہوں گے کیونکہ سندھ حکومت نے آخری وقت تک اس معاملے پر ایم کیو ایم کے اعتراضات پر الیکشن کمیشن کو دوبارہ حلقہ بندیوں کے لیے خط لکھ کر یہ درخواست کی تھی کہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے جائیں۔
ایم کیو ایم نے اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیا تھا مگر ایم کیو ایم کی سندھ ہائی کورٹ سے درخواست رد ہوئی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے بھی الیکشنز کوملتوی کرنے کی درخواستیں ردکردیں جس کے بعد مجبوراً ان انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا۔
تاہم ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ بندیوں کو جواز بناکر ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیا جس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ن لیگ، مہاجرقومی موومنٹ، جے یوآئی( ف) تحریک لبیک میدان میں مد مقابل تھیں کل246 یونین کونسلز میں سے235 پر انتخابات ہوئے11 نشستوں پر امیدواروں کے انتقال کے باعث الیکشن ملتوی کردیے گئے۔
پیپلزپارٹی 91 یونین کونسلز میں کامیابی کے ساتھ سر فہرست ہے جبکہ جماعت اسلامی دوسرے اور تحریک انصاف کا تیسرا نمبر ہے، مسلم لیگ ن7 یونین کونسل میں کامیاب ہوئی ہے جے یو آئی (ف) کی3 تحریک لبیک کے پاس1 یونین کونسل ہے تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان تاحال حتمی نتائج جاری نہیں کرسکا ہے۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف پیپلزپارٹی اور الیکشن کمیشن کے عملے پر دھاندلی کے الزامات عائد کررہی ہیں اور جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کراچی میں اکثریت حاصل کی ہے اور میئر شپ پر ان کا حق ہے،تحریک انصاف بھی اسی طرح کی باتیں کر بیانات دے رہی ہے مگر اس سے ہٹ کر پاکستان پیپلزپارٹی میئرشپ حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ پرامید ہے اور اس کے ساتھ ن لیگ، جے یوآئی ف اور تحریک لبیک کے معاملات تقریباً فائنل ہوچکے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم دیکھنے میں آیا، اس صورت حال کو ایم کیو ایم اپنی فتح قرار دے رہی ہے، انتخابی نتائج پر تحفظات اور دھاندلی کے الزامات نے ان بلدیاتی انتخابات کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
کس جماعت کا میئر بنے گاکس کا نہیں یہ فیصلہ ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے لیکن ڈھائی کروڑ سے زیادہ کی آبادی کا شہر اس نظام پر بھی اعتماد کا بھرپور اظہار نہیں کررہا91 لاکھ ووٹرز میں سے صرف12 لاکھ نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے شہری،پانی، سیوریج، بجلی، صحت، تعلیم سمیت انفرااسٹرکچر کے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔
اس ساری صورتحال پر ایکسپریس نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ایکسپریس فورم میں گفتگو کی جو قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
سعید غنی
(صوبائی وزیر محنت و صدر پاکستان پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن)
کراچی میں 15 جنوری کو پرامن بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا جس پر ہم سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے قبل ہمارے سیاسی مخالفین کی جانب سے یہ الزام تراشی کی جارہی تھی کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتی ہے اسی لیے بار بار الیکشن کے انعقاد کو ملتوی کیا جا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن نے جب فیصلہ کیا کہ 15 جنوری کوکراچی میں لازمی بلدیاتی انتخابات ہوں گے تو سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کیا جس کے نتیجے میں کراچی میں پرامن بلدیاتی الیکشن ہوئے، الیکشن سے قبل ہم بھرپور کوشش کرتے رہے کہ پی ڈی ایم کے ساتھ وفاق میں اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرے تاہم ایم کیو ایم نے اپنی سوچ کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔
پیپلز پارٹی کی ہر ممکن کوشش تھی کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایم کیو ایم کے تحفظات کو دور کیا جائے تاہم اب بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوگیا ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہی ہیںجبکہ کراچی کے شہریوں نے پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے۔
کراچی میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں اس لیے نتائج کے مطابق میئر پیپلز پارٹی کا ہونا چاہیے، سیاست میں بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے، پیپلز پارٹی تمام جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتی ہے ہم نے کھلے دل سے جماعت اسلامی سے رابطہ کیاان سے مذاکرات ہوئے اور بات چیت کا سلسلہ جاری ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل کا معاملہ جلد سے جلد مکمل ہو تاکہ منتخب بلدیاتی نمائندے عوام کی خدمت کرسکیں۔
اگر کسی کو انتخابی نتائج پر تحفظات ہیں تو وہ الیکشن ٹریبونل سمیت متعلقہ فورم پر رجوع کرے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات سے قبل بھی کراچی کی خدمت کی انفرااسٹرکچر ، پینے کے پانی ، سیوریج ، صحت ، تعلیم اور دیگر مسائل کے حل کے لیے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے،کچھ پر کام مکمل ہو گیا ہے، اب کراچی کا سیاسی نقشہ تبدیل ہوگیا ہے حالیہ بلدیاتی انتخابات پیپلز پارٹی کراچی کی اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور کراچی کا میئر پیپلز پارٹی کا ہوگا۔
بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل کے بعد مقامی حکومتیں اپنے اختیارات کے مطابق عوام کے مسائل کو حل کریں گی، مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی حمایت کی ہے دیگر جماعتوں سے بھی بات چیت جاری ہے ہم کوشش کریں گے کہ بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل میں ہم اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے یہ مرحلہ مکمل کریں، پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ جلد مکمل ہو جائے گا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ ہم کسی صورت میں اپنا مینڈیٹ کسی کو چوری کرنے نہیں دیں گے،اس کے لیے قانونی اقدامات کریں گے۔
سید امین الحق
( وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و رکن رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان )
کراچی میں جو حالیہ بلدیاتی انتخابات ہوئے انہیں شہر قائد کے باسیوں نے مسترد کر دیا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی اپیل پر عوام نے لبیک کہا اور ان بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا اسی لیے حالیہ بلدیاتی انتخابات کا کم ٹرن آؤٹ سب کے سامنے ہے۔
کراچی میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اپنی مرضی کے مطابق غلط حلقہ بندیاں کیں، اپنے من پسند علاقوں میں کم آبادیوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی حلقہ بندیاں کرکے زیادہ یوسیز بنائی گئیں جبکہ ایم کیو ایم کے اکثریتی علاقوں میں زیادہ آبادی ہونے کے باوجود اس انداز میں حلقہ بندیاں کی گئیں کہ یوسیز کی تعداد کم ہو سکے، ان جعلی حلقہ بندیوں میں اصل علاقوں کے بجائے اپنے من پسند علاقے شامل کیے گئے۔
غلط حلقہ بندیوں کے موقف کو وفاقی اور سندھ حکومت نے تسلیم کیا سندھ حلومت نے ان حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن واپس لیا لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا، یہ الیکشن جعلی ہیں۔ ان حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے تحفظات سے الیکشن کمیشن سمیت تمام متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا لیکن اس کے باوجود ہمارا موقف حل کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا، زبردستی کراچی کے عوام پر بلدیاتی انتخابات مسلط کیے گئے اسی وجہ سے ان الیکشن کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔
الیکشن ہونے کے بعد سامنے آنے والے نتائج پر تمام جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اب شہر میں یہ لڑائی چل رہی ہے کہ کون میئر بنے گا ہر جماعت جیت کا دعویٰ کر رہی ہے، سب کی یہ خواہش ہے کہ میئر کراچی ان کا ہو۔ ایم کیو ایم پاکستان کے بغیر شہر قائد میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کی کوئی حیثیت نہیں۔ جب مقامی حکومتوں کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے تو وہ کس طرح عوام کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی جیت کا دعویٰ تو کر رہی ہے لیکن عملی طور پر اس کی صوبائی حکومت نے شہر قائد کی کوئی خدمشت نہیں ہے۔ آج شہر کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ شہر مسائل کا گڑ بن چکا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے ان جعلی بلدیاتی انتخابات ، حلقہ بندیوں پر اپنے تحفظات ، مقامی حکومتوں کے اصل اختیارات کے حصول ، عوام مسائل اور دیگر معاملات پر عوامی رابطہ مہم شروع کر دی ہے تمام پارٹی راہنما تمام علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں جلد ایم کیو ایم پاکستان بڑا عوامی دھرنا دے گی۔ کراچی اور حیدر آباد میں بڑے عوامی جلسے منعقد کیے جائیں گے۔
ایم کیو ایم کا واضح موقف ہے کہ پہلے درست حلقہ بندیاں کرائی جائیں اور حالیہ بلدیاتی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر نئی حلقہ بندیوں کے مطابق کراچی اور حیدر آباد میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ہم نے اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں رکھ دیا ہے،عوام کی مشاورت سے ایم کیو ایم اپنے اگلے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ اس کے علاوہ حلقہ بندیوں پر ہم تمام قانونی آپشن کا استعمال کریں گے، ایم کیو ایم نے اپنے تحفظات سے پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کو آگاہ کر دیا ہے، امید ہے کہ وفاق اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی قیادت سے بات کرے گا۔
حافظ نعیم الرحمن
(امیر جماعت اسلامی کراچی )
جماعت اسلامی نے گذشتہ چند سال کے دوران میں شہر کے مسائل کو اجاگر کرنے اور حل کے لیے عوامی سطح سمیت ہر فورم پر آواز بلند کی، ماضی میں بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے دو میئر عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان نے بلارنگ و نسل ، مذہب اس شہر کی بھرپور خدمت کی۔ ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے۔
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم پاکستان بلدیاتی الیکشن سے راہ فرار اختیار کر رہی تھیں لیکن ہماری کوششوں اور عوامی جدوجہد کے نتیجے میں کراچی میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا، نتائج سب کے سامنے ہیں، سب سے زیادہ نشستیں جماعت اسلامی کو حاصل ہوئی ہیں اسی لیے میئر کراچی کا عہدہ ہمیں ملنا چاہیے۔انتخابی نتائج پر ہمیں جو تحفظات ہیں اس کے لیے ہم نے الیکشن کمیشن سمیت دیگر فورمز پر رجوع کیا ہے۔
ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں، ہم نے پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ن) سے ملاقات کی ہے، مقامی حکومتوں کی تشکیل کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے لیکن ہمارا موقف واضح ہے کہ پہلے ہمارے انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے پھر ہم میئر کے لیے مزید بات چیت کریں گے۔ بلدیاتی انتخابات میں شاندارکامیابی اور نمبر ون پارٹی کی حیثیت سے عوامی مینڈیٹ حاصل کرکے جماعت اسلامی نے کراچی میں جو انتخابی پیش رفت کی ہے اسے مزید مستحکم کیا جائے گا، آئندہ دنوں میں ہماری کوشش ہوگی کہ اتفاق رائے سے میئر بنایا جائے میئرکے معاملے پرکوئی مفاہمت یا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے پاس باصلاحیت افراد کی ٹیم ہے،ہم مسائل کو حل کریں گے۔
کوشش ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تمام جماعتیں متحد ہو کر کام کریں۔کراچی ملک کا معاشی حب ہے اگرکراچی ترقی کرے گا توپاکستان بھی ترقی کرے گا۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کھلے دل سے ہمارے مینڈیٹ کو تسلیم کریں تو ہم مقامی حکومتوں کی تشکیل کے لیے بات چیت کومزید آگے بڑھائیں گے۔
ہم نے کراچی کی ترقی کے لیے ایک بڑا پیکیج بنایا ہے میئر کراچی بننے کے بعد میری کوشش ہو گی کہ میں کراچی کے تعلیمی اداروں ، اسپتالوں ، صحت ، انفرااسٹرکچر ، ٹرانسپورٹ ، پینے کے پانی ، سیوریج اور دیگر مسائل کو حل کروں، پیپلز پارٹی کو مقامی حکومتوں کو اختیارات دینا ہوں گے۔ اگر ہمیں اختیارات نہیں دیے گئے تو ہم عوامی سطح پر جدوجہد کرنے کے علاوہ متعلقہ فورم سے رجوع کریں گے۔
علی زیدی
(صدر پاکستان تحریک انصاف سندھ )
مقامی حکومتیں جمہوریت کی نرسری ہوتی ہیںکراچی میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات میں جو کچھ ہوا کیا اسے الیکشن کہتے ہیں؟ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا، الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابات کرانے میں ناکام ہو گیا۔
پیپلز پارٹی کے ایما پر سندھ حکومت کی انتظامی مشینری نے دھاندلی کے ذریعے پیپلزپارٹی کو زیادہ نشستیں دلوانے میں اپنا کردار ادا کیا، ہماری 40 سے زیادہ کامیاب نشستوں کے نتائج میں ردوبدل کرکے ہمیں ہرایا گیا، ہم نے اس پر احتجاج کیا، دھاندلی کے خلاف پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سمیت تمام متعلقہ فورم پر رجوع کیا ہے اور مشاورت کے بعد مزید لائحہ عمل طے کریں گے۔
ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ پیپلز پارٹی نے کس طرح دھاندلی کی ہے، پیپلز پارٹی کئی برسوں سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے لیکن اس نے کراچی کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ اگر پیپلز پارٹی کا میئر بن بھی جائے تو وہ اس شہر کے لیے کوئی کام نہیں کرے گا۔ پی ٹی آئی حالیہ بلدیاتی انتخابات کو مسترد کرتی ہے اور الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر نئے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔
ایم کیو ایم کے بائیکاٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر وہ الیکشن میں حصہ لیتے تو انھیں پتہ تھا کہ وہ بری طرح ہار جائیں گے۔ جماعت اسلامی سے ہمارا رابطہ ہوا ہے، مقامی حکومتوں کی تشکیل کے حوالے سے ہم اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان جلد کریں گے۔ اگر ہمارا چوری شدہ مینڈیٹ واپس نہیں کیا گیا تو پھر پورے سندھ میں احتجاج ہو گا۔
پی ڈی ایم حکومت نے ملک کو تباہ کر دیا ہے آج معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے لیکن موجودہ وفاقی اور سندھ حکومتوں کے پاس عوامی مسائل کے حل کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے، اس ملک کے مسائل کا واحد حل عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ پی ٹی آئی جلد کراچی سمیت سندھ بھر میں عوامی رابطہ مہم شروع کرے گی اور بڑے جلسے کیے جائیں گے۔
شاہ محمد شاہ
(صدر مسلم لیگ (ن) سندھ )
بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو بھرپور کامیابی ملی ہے، ہم انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں کراچی میں امن قائم ہوا آج کراچی کی روشنیاں لوٹ آئی ہیں جس کا سہرا نواز شریف اور سیکیورٹی اداروں کو جاتا ہے۔ گرین لائن بس پروجیکٹ اور دیگر بڑے منصوبے کراچی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیے۔ سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر لڑنے اور احتجاج کرنے کے بجائے اپنے مسائل کے حل کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ کراچی میں متفقہ میئر آنا چاہیے۔ جسے تمام جماعتوں کی حمایت حاصل ہو یہ اس لیے ضروری ہے کہ کراچی ترقی کرے۔کراچی میں کافی مسائل ہیں اس کی ترقی کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہے کہ وہ متفقہ میئر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اس حوالے سے میں ذاتی طور پر مختلف جماعتوں سے رابطے میں ہوں امید ہے کہ کراچی کا میئر سب جماعتوں کا حمایت یافتہ ہوگا۔
مفتی محمد قاسم فخری
(امیر تحریک لبیک کراچی)
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی گئی ہے، ہم ان انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ کئی یوسیز میں ہمارے کامیاب امیدواروں کے نتائج تبدیل کرکے ان کو ہرایا گیا، ٹی ایل پی حالیہ بلدیاتی انتخابات کو مسترد کرتی ہے اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان انتخابات کو کالعدم قرار دے کر فوج کی نگرانی میں دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔
حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے ٹی ایل پی نے الیکشن کمیشن سمیت متعلقہ فورمز پر رجوع کیا ہے اگر ہمیں انصاف نہیں ملا تو ہم بھرپور احتجاج کریں گے۔ مقامی حکومتوں کی تشکیل کے حوالے سے کئی جماعتوں نے ہم سے رابطہ کیا ہے، اس حوالے سے مرکزی قیادت کی منظوری سے ٹی ایل پی آئندہ کا لائحہ عمل بنائے گی۔
ایم کیو ایم نے اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیا تھا مگر ایم کیو ایم کی سندھ ہائی کورٹ سے درخواست رد ہوئی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے بھی الیکشنز کوملتوی کرنے کی درخواستیں ردکردیں جس کے بعد مجبوراً ان انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا۔
تاہم ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ بندیوں کو جواز بناکر ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیا جس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ن لیگ، مہاجرقومی موومنٹ، جے یوآئی( ف) تحریک لبیک میدان میں مد مقابل تھیں کل246 یونین کونسلز میں سے235 پر انتخابات ہوئے11 نشستوں پر امیدواروں کے انتقال کے باعث الیکشن ملتوی کردیے گئے۔
پیپلزپارٹی 91 یونین کونسلز میں کامیابی کے ساتھ سر فہرست ہے جبکہ جماعت اسلامی دوسرے اور تحریک انصاف کا تیسرا نمبر ہے، مسلم لیگ ن7 یونین کونسل میں کامیاب ہوئی ہے جے یو آئی (ف) کی3 تحریک لبیک کے پاس1 یونین کونسل ہے تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان تاحال حتمی نتائج جاری نہیں کرسکا ہے۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف پیپلزپارٹی اور الیکشن کمیشن کے عملے پر دھاندلی کے الزامات عائد کررہی ہیں اور جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کراچی میں اکثریت حاصل کی ہے اور میئر شپ پر ان کا حق ہے،تحریک انصاف بھی اسی طرح کی باتیں کر بیانات دے رہی ہے مگر اس سے ہٹ کر پاکستان پیپلزپارٹی میئرشپ حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ پرامید ہے اور اس کے ساتھ ن لیگ، جے یوآئی ف اور تحریک لبیک کے معاملات تقریباً فائنل ہوچکے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم دیکھنے میں آیا، اس صورت حال کو ایم کیو ایم اپنی فتح قرار دے رہی ہے، انتخابی نتائج پر تحفظات اور دھاندلی کے الزامات نے ان بلدیاتی انتخابات کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
کس جماعت کا میئر بنے گاکس کا نہیں یہ فیصلہ ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے لیکن ڈھائی کروڑ سے زیادہ کی آبادی کا شہر اس نظام پر بھی اعتماد کا بھرپور اظہار نہیں کررہا91 لاکھ ووٹرز میں سے صرف12 لاکھ نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے شہری،پانی، سیوریج، بجلی، صحت، تعلیم سمیت انفرااسٹرکچر کے مسائل سے دوچار ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔
اس ساری صورتحال پر ایکسپریس نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ایکسپریس فورم میں گفتگو کی جو قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
سعید غنی
(صوبائی وزیر محنت و صدر پاکستان پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن)
کراچی میں 15 جنوری کو پرامن بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا جس پر ہم سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے قبل ہمارے سیاسی مخالفین کی جانب سے یہ الزام تراشی کی جارہی تھی کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتی ہے اسی لیے بار بار الیکشن کے انعقاد کو ملتوی کیا جا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن نے جب فیصلہ کیا کہ 15 جنوری کوکراچی میں لازمی بلدیاتی انتخابات ہوں گے تو سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کیا جس کے نتیجے میں کراچی میں پرامن بلدیاتی الیکشن ہوئے، الیکشن سے قبل ہم بھرپور کوشش کرتے رہے کہ پی ڈی ایم کے ساتھ وفاق میں اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرے تاہم ایم کیو ایم نے اپنی سوچ کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔
پیپلز پارٹی کی ہر ممکن کوشش تھی کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایم کیو ایم کے تحفظات کو دور کیا جائے تاہم اب بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوگیا ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہی ہیںجبکہ کراچی کے شہریوں نے پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے۔
کراچی میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں اس لیے نتائج کے مطابق میئر پیپلز پارٹی کا ہونا چاہیے، سیاست میں بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے، پیپلز پارٹی تمام جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتی ہے ہم نے کھلے دل سے جماعت اسلامی سے رابطہ کیاان سے مذاکرات ہوئے اور بات چیت کا سلسلہ جاری ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل کا معاملہ جلد سے جلد مکمل ہو تاکہ منتخب بلدیاتی نمائندے عوام کی خدمت کرسکیں۔
اگر کسی کو انتخابی نتائج پر تحفظات ہیں تو وہ الیکشن ٹریبونل سمیت متعلقہ فورم پر رجوع کرے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات سے قبل بھی کراچی کی خدمت کی انفرااسٹرکچر ، پینے کے پانی ، سیوریج ، صحت ، تعلیم اور دیگر مسائل کے حل کے لیے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے،کچھ پر کام مکمل ہو گیا ہے، اب کراچی کا سیاسی نقشہ تبدیل ہوگیا ہے حالیہ بلدیاتی انتخابات پیپلز پارٹی کراچی کی اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور کراچی کا میئر پیپلز پارٹی کا ہوگا۔
بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل کے بعد مقامی حکومتیں اپنے اختیارات کے مطابق عوام کے مسائل کو حل کریں گی، مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی حمایت کی ہے دیگر جماعتوں سے بھی بات چیت جاری ہے ہم کوشش کریں گے کہ بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل میں ہم اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے یہ مرحلہ مکمل کریں، پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ جلد مکمل ہو جائے گا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ ہم کسی صورت میں اپنا مینڈیٹ کسی کو چوری کرنے نہیں دیں گے،اس کے لیے قانونی اقدامات کریں گے۔
سید امین الحق
( وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و رکن رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان )
کراچی میں جو حالیہ بلدیاتی انتخابات ہوئے انہیں شہر قائد کے باسیوں نے مسترد کر دیا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی اپیل پر عوام نے لبیک کہا اور ان بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا اسی لیے حالیہ بلدیاتی انتخابات کا کم ٹرن آؤٹ سب کے سامنے ہے۔
کراچی میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اپنی مرضی کے مطابق غلط حلقہ بندیاں کیں، اپنے من پسند علاقوں میں کم آبادیوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی حلقہ بندیاں کرکے زیادہ یوسیز بنائی گئیں جبکہ ایم کیو ایم کے اکثریتی علاقوں میں زیادہ آبادی ہونے کے باوجود اس انداز میں حلقہ بندیاں کی گئیں کہ یوسیز کی تعداد کم ہو سکے، ان جعلی حلقہ بندیوں میں اصل علاقوں کے بجائے اپنے من پسند علاقے شامل کیے گئے۔
غلط حلقہ بندیوں کے موقف کو وفاقی اور سندھ حکومت نے تسلیم کیا سندھ حلومت نے ان حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن واپس لیا لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا، یہ الیکشن جعلی ہیں۔ ان حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے تحفظات سے الیکشن کمیشن سمیت تمام متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا لیکن اس کے باوجود ہمارا موقف حل کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا، زبردستی کراچی کے عوام پر بلدیاتی انتخابات مسلط کیے گئے اسی وجہ سے ان الیکشن کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔
الیکشن ہونے کے بعد سامنے آنے والے نتائج پر تمام جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اب شہر میں یہ لڑائی چل رہی ہے کہ کون میئر بنے گا ہر جماعت جیت کا دعویٰ کر رہی ہے، سب کی یہ خواہش ہے کہ میئر کراچی ان کا ہو۔ ایم کیو ایم پاکستان کے بغیر شہر قائد میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کی کوئی حیثیت نہیں۔ جب مقامی حکومتوں کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے تو وہ کس طرح عوام کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی جیت کا دعویٰ تو کر رہی ہے لیکن عملی طور پر اس کی صوبائی حکومت نے شہر قائد کی کوئی خدمشت نہیں ہے۔ آج شہر کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ شہر مسائل کا گڑ بن چکا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے ان جعلی بلدیاتی انتخابات ، حلقہ بندیوں پر اپنے تحفظات ، مقامی حکومتوں کے اصل اختیارات کے حصول ، عوام مسائل اور دیگر معاملات پر عوامی رابطہ مہم شروع کر دی ہے تمام پارٹی راہنما تمام علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں جلد ایم کیو ایم پاکستان بڑا عوامی دھرنا دے گی۔ کراچی اور حیدر آباد میں بڑے عوامی جلسے منعقد کیے جائیں گے۔
ایم کیو ایم کا واضح موقف ہے کہ پہلے درست حلقہ بندیاں کرائی جائیں اور حالیہ بلدیاتی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر نئی حلقہ بندیوں کے مطابق کراچی اور حیدر آباد میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ہم نے اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں رکھ دیا ہے،عوام کی مشاورت سے ایم کیو ایم اپنے اگلے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ اس کے علاوہ حلقہ بندیوں پر ہم تمام قانونی آپشن کا استعمال کریں گے، ایم کیو ایم نے اپنے تحفظات سے پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کو آگاہ کر دیا ہے، امید ہے کہ وفاق اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی قیادت سے بات کرے گا۔
حافظ نعیم الرحمن
(امیر جماعت اسلامی کراچی )
جماعت اسلامی نے گذشتہ چند سال کے دوران میں شہر کے مسائل کو اجاگر کرنے اور حل کے لیے عوامی سطح سمیت ہر فورم پر آواز بلند کی، ماضی میں بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے دو میئر عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان نے بلارنگ و نسل ، مذہب اس شہر کی بھرپور خدمت کی۔ ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے۔
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور ایم کیو ایم پاکستان بلدیاتی الیکشن سے راہ فرار اختیار کر رہی تھیں لیکن ہماری کوششوں اور عوامی جدوجہد کے نتیجے میں کراچی میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا، نتائج سب کے سامنے ہیں، سب سے زیادہ نشستیں جماعت اسلامی کو حاصل ہوئی ہیں اسی لیے میئر کراچی کا عہدہ ہمیں ملنا چاہیے۔انتخابی نتائج پر ہمیں جو تحفظات ہیں اس کے لیے ہم نے الیکشن کمیشن سمیت دیگر فورمز پر رجوع کیا ہے۔
ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں، ہم نے پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ن) سے ملاقات کی ہے، مقامی حکومتوں کی تشکیل کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے لیکن ہمارا موقف واضح ہے کہ پہلے ہمارے انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے پھر ہم میئر کے لیے مزید بات چیت کریں گے۔ بلدیاتی انتخابات میں شاندارکامیابی اور نمبر ون پارٹی کی حیثیت سے عوامی مینڈیٹ حاصل کرکے جماعت اسلامی نے کراچی میں جو انتخابی پیش رفت کی ہے اسے مزید مستحکم کیا جائے گا، آئندہ دنوں میں ہماری کوشش ہوگی کہ اتفاق رائے سے میئر بنایا جائے میئرکے معاملے پرکوئی مفاہمت یا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے پاس باصلاحیت افراد کی ٹیم ہے،ہم مسائل کو حل کریں گے۔
کوشش ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تمام جماعتیں متحد ہو کر کام کریں۔کراچی ملک کا معاشی حب ہے اگرکراچی ترقی کرے گا توپاکستان بھی ترقی کرے گا۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کھلے دل سے ہمارے مینڈیٹ کو تسلیم کریں تو ہم مقامی حکومتوں کی تشکیل کے لیے بات چیت کومزید آگے بڑھائیں گے۔
ہم نے کراچی کی ترقی کے لیے ایک بڑا پیکیج بنایا ہے میئر کراچی بننے کے بعد میری کوشش ہو گی کہ میں کراچی کے تعلیمی اداروں ، اسپتالوں ، صحت ، انفرااسٹرکچر ، ٹرانسپورٹ ، پینے کے پانی ، سیوریج اور دیگر مسائل کو حل کروں، پیپلز پارٹی کو مقامی حکومتوں کو اختیارات دینا ہوں گے۔ اگر ہمیں اختیارات نہیں دیے گئے تو ہم عوامی سطح پر جدوجہد کرنے کے علاوہ متعلقہ فورم سے رجوع کریں گے۔
علی زیدی
(صدر پاکستان تحریک انصاف سندھ )
مقامی حکومتیں جمہوریت کی نرسری ہوتی ہیںکراچی میں 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات میں جو کچھ ہوا کیا اسے الیکشن کہتے ہیں؟ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا، الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابات کرانے میں ناکام ہو گیا۔
پیپلز پارٹی کے ایما پر سندھ حکومت کی انتظامی مشینری نے دھاندلی کے ذریعے پیپلزپارٹی کو زیادہ نشستیں دلوانے میں اپنا کردار ادا کیا، ہماری 40 سے زیادہ کامیاب نشستوں کے نتائج میں ردوبدل کرکے ہمیں ہرایا گیا، ہم نے اس پر احتجاج کیا، دھاندلی کے خلاف پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سمیت تمام متعلقہ فورم پر رجوع کیا ہے اور مشاورت کے بعد مزید لائحہ عمل طے کریں گے۔
ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ پیپلز پارٹی نے کس طرح دھاندلی کی ہے، پیپلز پارٹی کئی برسوں سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے لیکن اس نے کراچی کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ اگر پیپلز پارٹی کا میئر بن بھی جائے تو وہ اس شہر کے لیے کوئی کام نہیں کرے گا۔ پی ٹی آئی حالیہ بلدیاتی انتخابات کو مسترد کرتی ہے اور الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر نئے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔
ایم کیو ایم کے بائیکاٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر وہ الیکشن میں حصہ لیتے تو انھیں پتہ تھا کہ وہ بری طرح ہار جائیں گے۔ جماعت اسلامی سے ہمارا رابطہ ہوا ہے، مقامی حکومتوں کی تشکیل کے حوالے سے ہم اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان جلد کریں گے۔ اگر ہمارا چوری شدہ مینڈیٹ واپس نہیں کیا گیا تو پھر پورے سندھ میں احتجاج ہو گا۔
پی ڈی ایم حکومت نے ملک کو تباہ کر دیا ہے آج معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے لیکن موجودہ وفاقی اور سندھ حکومتوں کے پاس عوامی مسائل کے حل کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے، اس ملک کے مسائل کا واحد حل عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ پی ٹی آئی جلد کراچی سمیت سندھ بھر میں عوامی رابطہ مہم شروع کرے گی اور بڑے جلسے کیے جائیں گے۔
شاہ محمد شاہ
(صدر مسلم لیگ (ن) سندھ )
بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو بھرپور کامیابی ملی ہے، ہم انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں کراچی میں امن قائم ہوا آج کراچی کی روشنیاں لوٹ آئی ہیں جس کا سہرا نواز شریف اور سیکیورٹی اداروں کو جاتا ہے۔ گرین لائن بس پروجیکٹ اور دیگر بڑے منصوبے کراچی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیے۔ سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر لڑنے اور احتجاج کرنے کے بجائے اپنے مسائل کے حل کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ کراچی میں متفقہ میئر آنا چاہیے۔ جسے تمام جماعتوں کی حمایت حاصل ہو یہ اس لیے ضروری ہے کہ کراچی ترقی کرے۔کراچی میں کافی مسائل ہیں اس کی ترقی کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہے کہ وہ متفقہ میئر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اس حوالے سے میں ذاتی طور پر مختلف جماعتوں سے رابطے میں ہوں امید ہے کہ کراچی کا میئر سب جماعتوں کا حمایت یافتہ ہوگا۔
مفتی محمد قاسم فخری
(امیر تحریک لبیک کراچی)
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی گئی ہے، ہم ان انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ کئی یوسیز میں ہمارے کامیاب امیدواروں کے نتائج تبدیل کرکے ان کو ہرایا گیا، ٹی ایل پی حالیہ بلدیاتی انتخابات کو مسترد کرتی ہے اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان انتخابات کو کالعدم قرار دے کر فوج کی نگرانی میں دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔
حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے ٹی ایل پی نے الیکشن کمیشن سمیت متعلقہ فورمز پر رجوع کیا ہے اگر ہمیں انصاف نہیں ملا تو ہم بھرپور احتجاج کریں گے۔ مقامی حکومتوں کی تشکیل کے حوالے سے کئی جماعتوں نے ہم سے رابطہ کیا ہے، اس حوالے سے مرکزی قیادت کی منظوری سے ٹی ایل پی آئندہ کا لائحہ عمل بنائے گی۔