خواتین کے تولیدی اعضا مسخ کرنے کا چلن
جو نوعمر لڑکیاں اور خواتین اس تکلیف دہ جبری عمل سے گذاری جاتی ہیں ان کو اکثر طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے
متعدد ممالک میں خواتین کے تولیدی اعضا مسخ کرنے کے رواج کی حوصلہ شکنی کے لیے اقوامِ متحدہ نے چھ فروری کا دن بطور یومِ آگہی مخصوص کیا ہے۔
یہ دن دو ہزار بارہ سے ہر سال منایا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے سماجی و معاشی زندگی کا معیار بہتر کرنے کے لیے دو ہزار تیس تک کے جو عالمی اہداف مقرر کیے ہیں ان میں خواتین کے مخصوص اعضا مسخ کرنے کے رواج کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
طبی مجبوری کے سوا خواتین کے مخصوص اعضا کی ساخت میں جبری بدلاؤ یا ضرر رسانی کے تمام طریقے نہ صرف انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی خلاف ورزی شمار ہوتے ہیں بلکہ خواتین کی جسمانی و نفسیاتی صحت اور انفرادی توقیر کو بھی بٹہ لگاتے ہیں۔
جو نوعمر لڑکیاں اور خواتین اس تکلیف دہ جبری عمل سے گذاری جاتی ہیں ان کو اکثر طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے تولیدی نظام کو بھی بعض اوقات ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے بہبودِ آبادی سے متعلق ذیلی ادارے ( یو این ایف پی اے) کے مطابق کم ازکم تیس افریقی و عرب ممالک میں خواتین کے جبری ختنہ کا رواج دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
ان تیس میں سے اٹھارہ ممالک میں خواتین کی متاثرہ آبادی کی تعداد سب سے زیادہ ہے مگر سماجی دباؤ اور مقامی مذہبی حلقوں کی خاموش یا اعلانیہ تائید اور ریاستی سطح پر درگذر یا تادیبی قوانین کی عدم موجودگی نے مل ملا کے خواتین کی مزاحمتی آواز دبانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ذرایع کے مطابق پندرہ سے انچاس برس تک کی لڑکیوں اور خواتین کے تولیدی اعضا میں تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر صومالیہ کی آبادی ہے۔
جہاں اٹھانوے فیصد خواتین عمر کے کسی نہ کسی حصے میں اس اذیت سے گذری ہیں۔مغربی افریقہ کے ملک گنی کی ستانوے فیصد خواتین اس تکلیف دہ تجربے سے دوچار ہوئی ہیں۔
جب کہ جبوتی کی ترانوے فیصد، مالی اور مصر کی اکیانوے فیصد، لائیبریا کی نوے فیصد، سوڈان کی اٹھاسی فیصد ، برکینا فاسو کی چھہتر فیصد ، گیمبیا کی پچھتر فیصد ، ماریطانیہ کی انہتر فیصد ، گنی بساؤ کی پینتالیس فیصد، ایتھوپیا کی چونتیس فیصد ، سینیگال کی چھبیس فیصد اور نائیجیریا کی پچیس فیصد ، کینیا کی اکیس فیصد ، یمن کی انیس ، عراق کی چودہ فیصد جب کہ یوگنڈا کی ایک فیصد خواتین تولیدی اعضا کی قطع و برید کا شکار ہوئی ہیں۔
ہر سماج میں اس رسم کے دفاع میں بھی طرح طرح کے جواز پیش کیے جاتے ہیں۔کہیں یہ دلیل ہے کہ لڑکیوں کو بے راہروی سے بچانے میں خفتہ اعضا کی ختنہ کارآمد ہے ، کہیں یہ تک کہا جاتا ہے کہ جس طرح لڑکوں کی ختنہ جسمانی صحت کے لیے بہتر ہے اسی طرح لڑکیوں پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔
ان تیس ممالک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ بعض مقامی علما اس رسم کی سند مذہب میں ڈھونڈتے ہیں،حالانکہ نہ قرآن میں اس کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی کوئی واضح حدیثِ مبارکہ ہے جس سے ثابت ہو کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی ختنہ بھی لازم یا سنت ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو ریاستِ مدینہ میں اس کے شواہد ضرور پائے جاتے یا ایسی کسی رسم کے وسیع رواج کے بارے میں صحابہ کرام کی معرفت کوئی نہ کوئی تفصیلی گواہی ضرور ملتی۔
شیخِ الازہر محمد سعید تنتاوی نے اپنے ایک فتوی میں اس رسم کو دین کا حصہ قرار دینے سے منع کیا ہے۔پھر بھی مصر میں خواتین کی اکثریت اس عمل سے گزاری جاتی ہے۔فقہ جعفریہ میں بھی اس بابت کوئی سند نہیں ملتی۔
بعض مورخین اس رواج کے ڈانڈے قبل از اسلام کی تہذیبِ فراعین سے جوڑتے ہیںجب کہ شرعی تعلیمات کے مطابق بلا طبی جواز جسمانی اعضا میں تبدیلی کو تکرار کے ساتھ ایک ناپسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے، چونکہ عوامی اکثریت بھی ازخود کسی مسئلے کی بابت کھوج لگانے کے بجائے اپنی آسانی کے لیے کسی بھی جواز پر اعتبار کرنے کی عادی ہے۔
لہٰذا ایسی رسومات کا یکسر خاتمہ ایک طویل المیعاد کام ہے۔ اس بابت آگہی پھیلانے میں علما کا کردار بھی اہم ہے لیکن اکثر علما اس رسم کو برا یا خلافِ شرع سمجھنے کے باوجود مصلحتاً خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
افریقی اور مشرقِ وسطی کے کچھ ممالک کی مثال دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ باقی ممالک مبرا ہیں۔ عراق ، ایران ، پاکستان اور بھارت کے کئی علاقوں یا فرقوں میں محدود پیمانے پر ہی سہی مگر یہ رسم آج بھی نبھائی جاتی ہے اور اکثر یہ کام خاموشی سے انجام دیا جاتا ہے۔
کل ملا کے اندازہ یہ ہے کہ ہر سال پندرہ سے پچاس برس کی بیس لاکھ خواتین کے نازک اعضا کو مسخ کرنے یا غیر صحت مند تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اکثر یہ کام نیم اتائی ہاتھوں سے انجام پاتا ہے۔موجودہ آبادی میں اب تک باون ملین خواتین ختنہ کے تجربے سے گذری ہیں۔
ان ممالک کے جو تارکینِ وطن مغربی ممالک میں آباد ہوتے ہیں۔ وہ یہ رسم بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔
مگر کچھ امید کی کرن بھی نظر آ جاتی ہے۔مثلاً آبادی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ، یونیسیف اور اسلامک ایڈ جیسی تنظیموں کی کوششوں سے گزشتہ پندرہ برس میں سترہ افریقی ممالک میں ساٹھ لاکھ بچیوں کو اس بابت تحفظ اور آگہی فراہم کی گئی۔ ساڑھے پانچ لاکھ بچیوں کو اس رواج سے بچایا گیا۔
پینتالیس ملین مردوں نے ان تنظیموں کے زور دینے پر عہد کیا کہ وہ اس فرسودہ رواج سے تائب ہو جائیں گے،مگر دو ہزار تیس تک اس رسم کے مکمل خاتمے کا امکان شاید ایک عاجلانہ ہدف ہے اگر اس ہدف کا پچاس فیصد بھی حاصل ہو جائے تو بھی ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔
پاکستان میں خواتین کی جسمانی صحت کے تحفظ کے بارے میں حالیہ برسوں میں مثبت قانون سازی ضرور ہوئی ہے مگر خواتین کی جبری ختنہ بھی قانون کے احاطے میں آتی ہے یا نہیں۔اس بابت اگر کوئی آگاہ کر سکے تو عنایت ہوگی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)