فکری انحطاط اور عدم رواداری پر مبنی معاشرہ
ہم اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کی بنیاد پر معاشروں یا لوگوں کو تقسیم نہیں بلکہ جوڑتے ہیں
معاشرے کا حسن سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، اخلاقی ، علمی و فکری بنیادوں پر اس کی تشکیل نو ہوتی ہے ۔ایک ایسا معاشرہ جہاں رواداری ہو اور ایک دوسرے کے لیے احترام کا رشتہ ہو وہی معاشروں کی سماجی ساکھ کو قائم بھی کرتا ہے۔
وہ معاشرے جہاں مختلف خیالات، سوچ ، فکر اور مہذب یا فرقوں یا برادری کے لوگ رہتے ہوں ان کے درمیان سیاسی وسماجی ہم آہنگی کو قائم رکھنا ہی مضبوط سماج اور ریاست کی بنیادی ذمے داری سمجھی جاتی ہے۔
ہم اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کی بنیاد پر معاشروں یا لوگوں کو تقسیم نہیں بلکہ جوڑتے ہیں اور مختلف سوچ اور فکر کے لوگوں کے ساتھ اختلافات یا نقطہ نظر میں فرق کے باوجود مل جل کر رہنا ہی ہماری ضرورت بنتا ہے ۔
لیکن بدقسمتی سے اگر ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو اس میں کئی طرح کے سیاسی ، سماجی ، اخلاقی معیارات سے جڑے مسائل غالب نظر آتے ہیں ۔ ہم ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے ان میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں ۔
مسئلہ کسی ایک ادارے ، فرد، جماعت یا فکر کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشرے کا اجتماعی ضمیر یا سوچ میں مثبت پہلوؤں کے مقابلے میں ہم منفی پہلوؤں کو زیادہ نمایاں کررہے ہیں یا وہ منفی پہلو ہم پر غالب ہوگئے ہیں ۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مجموعی علم وفکر منفی بنیادوں پر کھڑا ہے اور ہم منفی آنکھ کی بنیاد پر معاشرے کو دیکھ رہے ہیں اور اسی بنیاد پر معاشرے کی تصویر کو مضبوط بنارہے ہیں۔
ایسا نہیں کہ یہاں پڑھے لکھے نمایاں لوگ موجود نہیں یا ان کے علم و فکر میں کوئی مسائل ہیں ۔بلکہ اس سے بڑھ کر مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے معاشرے میں مجموعی طور پر پڑھنے اور گہری فکر کے حامل افراد کو پیچھے دھکیل دیا ہے ۔
ریاست، حکومت اور معاشرے میں رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کا بھی مجموعی مزاج چھوٹے یا کم پڑھے لکھے افراد یا منفی خیالات رکھنے والے افراد یا ریاستی نقطہ نظر کے حامی چاپلوس افراد سے ہی جڑا ہوا ہے ۔
یہ ہی لوگ نمایاں ہوتے ہیں جنھیں معاشرے میں فرنٹ فٹ پر ہونے کے بجائے بیک بنچوں پر ہونا چاہیے۔وہ علمی و فکری طبقہ جو ریاست کا پیدا کردہ ہوتا ہے اس کا مقصد معاشرے کی تعلیم و تربیت نہیں بلکہ مخصوص نظریات کا سیاسی پرچار اور اپنے مفادات کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر حاصل کرنا ہوتا ہے ۔
اس کھیل کا عملی نتیجہ معاشرے میں فکر کے درمیان گمراہی کا کھیل ہوتا ہے ۔ عقل ، شعور کے بجائے جذباتیت کی بنیاد پر فکر کی تشکیل ہوتی ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں شدت پسندی ، انتہا پسندی ، اپنے مخصوص خیالات کو جبر اور طاقت کی بنیاد پر مسلط کرنا ، دوسروں کے نقطہ نظر کو قبول کرنا یا برداشت کرنے کے بجائے اس پر منفی ردعمل ہماری خصوصیات بنتی جارہی ہیں ۔
سیاسی رواداری ، مذہبی ہم آہنگی اہم مسئلہ ہے۔ ہم بڑی تیزی سے ان دونوں معاملات میں بری طرح تقسیم ہوئے ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ قومی سطح پر نصاب کا بن گیا ہے جو ہم معنی الفاظوں کی ڈکشنری بن گئی ہے ۔
ہمارے علمی و فکری مجالس ہوں ، ٹی وی ٹاک شوز ہوں ، سیاسی جلسے وجلوس یا سیاست دانوں سمیت اہل دانش کی تقریریںہوں ان میں اپنے خیالات سے مختلف رائے رکھنے والے افراد کے بارے میں جو الزامات پر مبنی گفتگو، توہین آمیز خیالات ، تنقید کے نام پر تضحیک کا عمل ، کردار کشی، ذاتیات کو نشانہ بنانا اور اخلاقی کردار کشی سب پر غالب ہے ۔
ہمارا میڈیا ایسے لوگوں کو ہیروبنا کر پیش کرتا ہے جو کہیں نہ کہیں سے مسلط کیے جاتے ہیں اور بلاوجہ قومی معاملات کو نظرانداز کرکے فروہی مسائل میں لوگوں کو الجھاتے ہیں ۔ ریٹنگ کے نام پر میڈیا کا عمل خود بھی بہت سے مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔
تعلیم اور تربیت کے درمیان جو معاشرتی خلیج پیدا ہورہی ہے وہ سنگین مسئلہ ہے ۔ تعلیم اور بالخصوص ہائر ایجوکیشن یعنی جامعات کا بڑا کام ملکی سطح پر موجود مسائل پر ایک متبادل بیانیہ جس کی بنیاد علمی و فکری بنیادوں پر پیش کرنا ہوتا ہے ۔
لیکن ہم یہاں ڈگریوں کی تقسیم تک خود کو محدود کرچکے ہیں یا تو قصور جامعات کا ہے یا قصور ہماری ریاست اور حکومت کا ہے جو ان جامعات کو قومی معاملات کے حل میں استعمال نہ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے ۔تحقیق کا فقدان ، متبادل خیالات کو فکری آزادی نہ دینا اور تعلیم میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت یا ایڈہاک پالیسی نے ہائر ایجوکیشن کی اہمیت کو کم کردیا ہے ۔
مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو معاشرے میں اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کی بنیاد پر کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ان کو کوئی بھی ریاستی ، حکومتی اور معاشرتی سطح پر پزیرائی نہیں دینا چاہتا ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ایسے علمی و فکری لوگ سیاسی تنہائی کا شکار ہیں یا ان کے علم کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ۔ ایسے میں معاشرے کی لگام ایسے لوگوں کے پاس ہے جو سیاسی بونے ہیں اور اس کا نتیجہ بھی ایک بڑے معاشرتی فکری انحطاط کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ نوجوان نسل کو ہم نے جذباتیت ، غصہ ، تعصب اور نفرت کا ایسا ہتھیار تھمادیا ہے جو رسمی یا غیر رسمی میڈیا یعنی سوشل میڈیا پر غالب ہے ۔
اب وقت آگیا ہے کہ سیاست ، جمہوریت اور معیشت کو درست کرنا یقینا ایک بڑا ترجیحی ایجنڈا ہونا چاہیے ۔لیکن سماج کی تشکیل اور سماجی سطح پر ذہن سازی یا کردار سازی کے بغیر سیاست ، جمہوریت اور معیشت کو درست کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔
یہ اسی صورت میںممکن ہوگا جب ہم مجموعی طور پر تمام فریق ریاست اور اس سے جڑے ادارے اور اہل دانش سے جڑے فریق آپس میں داخلی سطح کے مسائل کا ادراک کریں ، تسلیم کریں ہم مشکل جگہ پر کھڑے ہیں۔
ہمیں اپنی ترقی کے عمل کو دنیا کی ترقی کے ساتھ جوڑنا ہے اور خود کو اس انداز سے پیش کرنا ہے کہ دنیا میں ہماری ہر سطح پر قبولیت ہو۔
ہمیں دنیا کے تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم یہ تسلیم کریں گے کہ ہم سے ہر سطح پر ہی غلطیاں ہورہی ہیں اور ہمیںاس کا ادراک ہونا چاہیے ۔ہمیں ایک ایسے قومی نصاب کی طرف بڑھنا ہے جہاں اسی معاشرے میںتمام لوگ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، فرقہ یاگروہ یا سیاست سے ہو سب کو احترام دینا ہوگا۔
یہ بات یاد رکھیں کہ ہمارا پہلا دشمن ہم خود ہوتے ہیں اور اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی تو محض باہر کی قوتوں پر الزام لگا کر ہم اپنے لیے کوئی بھی محفوظ راستہ تلاش نہیں کرسکیں گے ۔
اپنی رسمی و غیر رسمی تعلیم کو اتنا اہم بنا دیں کہ وہ ہمارے مسائل کا حل بن سکیں اور خدارا سیاسی بونوں کے کھیل سے باہر نکل کر ایسے علمی و فکری افراد یا اداروں کو پزیرائی دیں جو واقعی معاشرے کی مثبت انداز میں تشکیل نو کرنا چاہتے ہیں ۔