نہ جانے ہم کب بڑے ہوں گے
ہم نے ملکی ترقی کا انحصار اپنے زور بازو کے بجائے ہمسائے ملک کو منتقل کردیا
ہم اس بابرکت پاک ذات کے پیرو کار ہیں جس نے درس ہی انسانیت کی بھلائی کا دیا اور اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کردیا ۔
حضورﷺ کے بعد خلفائے راشدین بھی اسی راہ پر عمل پیرا رہے ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا تھا کہ دجلہ کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کا حساب مجھے دینا ہوگا۔
آج کل میرے زیر مطالعہ معروف مصنف محمد حسین ہیکل کی کتاب حضرت عمرفاروق اعظمؓ ہے جس میں ان کے دور اقتدار اور طرز حکمرانی کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے ۔
اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے حضرت عمرؓنے جس سیاسی بصیرت سے دلیرانہ فیصلے کیے، ان کی مثال نہیں مل سکتی۔ عین جنگ کے درمیان مسلمان فوج کے سب سے کامیاب اور جری سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کی ان کے عہدے سے معزولی ایسے فیصلے حضرت عمرفاروق ؓ ہی کر سکتے تھے۔
موجودہ زمانے کے حکمرانوں کی اصلاح کے لیے یہ مثالیں ہم ان کے گوش گزار تو کر سکتے ہیں لیکن انھیں مجبور نہیں کرسکتے۔ کسی حکومت کا قیام اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرے تا کہ وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں ۔
حکمرانوں کی ذاتی عبادات اپنی جگہ ایک اچھا کام ہے لیکن حکمران کی اصل ذمے دار رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے۔
ہم نے جب سے اپنے معاشی نظام کو جدید دنیا کے بے رحم معاشی نظام سے منسلک کیا ہے، اس کے بعد عوام الناس کی زندگی میں معاشی مصیبتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، عوام مہنگائی کے طوفان درطوفان کا سامنا کر رہے ہیں۔ ردو بدل کے اس نظام نے ہمیں اس بری طرح جکڑ لیا ہے کہ ''نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا'' معاملہ بن گیا ہے ۔
جنرل مشرف کے دور اقتدار میںبتایا تو یہ گیا تھا کہ معیشت کے استحکام اور عالمی منڈیوں سے منسلک ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ڈالر کو بنیادی کرنسی بنایا جائے جو اس وقت بھی ہمارے روپے کے معاملے میں کہیں مستحکم تھی جس کی وجہ سے معاشی بہتری آنے کے بجائے معاشی دباؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ۔
اِس معاملے کو اُس وقت کے آئی ایم ایف کے پروردہ امپورٹڈ حکمرانوں نے مصنوعی طور پر روکے رکھا لیکن وہ جوں ہی اقتدار سے رخصت ہوئے اور جمہوری حکومت نے اقتدار سنبھالا ہمارے روپے کی قدر یکلخت کمی کا شکار ہو گئی جس سے نہ صرف بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا بلکہ ہماری معیشت ایک ناقابل برداشت بوجھ تلے دب گئی جس کا خمیازہ قوم نے اس وقت بھی بھگتا تھا اور آج پندرہ برس کے بعد بھی وہی معاملہ بن چکا ہے جب گزشتہ ایک برس میں معیشت کی بہتری کے مسلسل دعوؤں کے باوجود جب کوئی صورت نہ بن پڑی تو ایک بار پھر روپے کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے جس کا خمیازہ قوم ایک بار پھر بھگت رہی ہے ۔
ڈالر کی نسبت سے روپیہ روز بروز بے قدر ہو تا جارہا ہے، آئی ایم ایف کے نمایندے پاکستان آکر بیٹھ گئے ہیں اور ہر روز ہمارے معاشی 'ماہرین' ان کے سامنے باادب پیش ہوتے ہیں اور شام کو وہ جو حکم صادر کرتے ہیں ہمارے یہ باادب ماہرین ان احکامات پر فوری عمل کرتے ہوئے عوام پر بوجھ منتقل کر دیتے ہیں۔ وہ چاہے تیل کی مد میں یا کسی اور شکل میں ۔
ملک میں مہنگائی کے طوفان سے عوام اس قدر پریشان ہیں کہ اطلاعات کے مطابق لاکھوں کی تعداد میںصاحب حیثیت پاکستانی بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں، ملک میں روز گار کے محدود وسائل کے باعث ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیرون ملک حصول روزگار کے لیے منتقلی لمحہ فکریہ ہے۔
اس منتقلی سے ملک میں ہنر مند اور قابل افرادی قوت میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ چند روز پہلے سوشل میڈیا پر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا ایک مضمون نظر سے گزراہے، وہ لکھتے ہیں'' میاں نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں آئی ایم ایف اور چین کے ساتھ سی پیک کے معاہدے کیے گئے۔
ہم پاور پلانٹس اور دیگر انفرااسٹرکچرکے لیے چین سے سرمایہ کاری اور قرض لے سکتے تھے جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی بانڈمارکیٹ سے بھی لے سکتے تھے تاہم سی پیک سے قرض لینا درست تھا کیونکہ ہمیں واقعی بجلی ،سڑک اور گیس کی ضرورت تھی، غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے ان پانچ برسوں میں اپنی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو دگنا توکیا لیکن ہم نے اپنی صنعتی پیداوار یا برآمدات کو دگنا نہیں کیا جس کی وجہ سے ہم قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت میں اضافہ نہیں کر سکے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاور پلانٹس یا سڑکوں کی تعمیر کے فیصلے غلط تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان چیزوں سے حاصل ہونے والی طاقت کو اچھی طرح استعمال نہیں کیا، فیکٹریاں لگانے کے بجائے ہم نے مزید شاپنگ مالز اور شادی ہالز بنائے۔''سابق وزیر خزانہ کی اس بات کا لب لباب ہے کہ ہمیں اس پیسے سے فیکٹریاں لگانی چاہئیں تھیں، صنعتوں کا جال بچھانا تھا جن سے روز گار کے مواقعے پیدا ہوتے اور ہم ملکی پیدوار میں بھی خود کفیل ہوتے لیکن ہم نے صنعتوں کا جال بچھانے کے بجائے درآمدات کو ترجیح دی جس کا خمیازہ قوم آج بھگت رہی ہے۔
ہم نے ملکی ترقی کا انحصار اپنے زور بازو کے بجائے ہمسائے ملک کو منتقل کردیا۔ ورنہ ہمارے پاس کیا ہے جو موجود نہیں ہے، بس ایک ہم ہیں جو ملک سے باہراِدھر اُدھر ہوتے رہتے ہیں ، بہرکیف جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہے اور آیندہ بھی ہوتارہے گا۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت بننے کے بعد ایک عام سا ملک نہیں ہے۔
اس کا جغرافیائی محل وقوع ہی بہت اہم ہے، اس کے علاوہ ایٹمی طاقت نے اسے ایک بہت بڑا ملک بنا دیا ہے خدا کرے کہ پاکستانی حکمران بھی اتنے ہی بڑے ہو جائیں اور اپنے اس اہم اثاثے کی حفاظت کے لیے کسی آئی ایم ایف کے دباؤ کو ہر گزخاطر میں نہ لائیں،لیکن نہ جانے ہم کب بڑے ہوں گے؟
حضورﷺ کے بعد خلفائے راشدین بھی اسی راہ پر عمل پیرا رہے ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا تھا کہ دجلہ کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کا حساب مجھے دینا ہوگا۔
آج کل میرے زیر مطالعہ معروف مصنف محمد حسین ہیکل کی کتاب حضرت عمرفاروق اعظمؓ ہے جس میں ان کے دور اقتدار اور طرز حکمرانی کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے ۔
اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے حضرت عمرؓنے جس سیاسی بصیرت سے دلیرانہ فیصلے کیے، ان کی مثال نہیں مل سکتی۔ عین جنگ کے درمیان مسلمان فوج کے سب سے کامیاب اور جری سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کی ان کے عہدے سے معزولی ایسے فیصلے حضرت عمرفاروق ؓ ہی کر سکتے تھے۔
موجودہ زمانے کے حکمرانوں کی اصلاح کے لیے یہ مثالیں ہم ان کے گوش گزار تو کر سکتے ہیں لیکن انھیں مجبور نہیں کرسکتے۔ کسی حکومت کا قیام اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرے تا کہ وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں ۔
حکمرانوں کی ذاتی عبادات اپنی جگہ ایک اچھا کام ہے لیکن حکمران کی اصل ذمے دار رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے۔
ہم نے جب سے اپنے معاشی نظام کو جدید دنیا کے بے رحم معاشی نظام سے منسلک کیا ہے، اس کے بعد عوام الناس کی زندگی میں معاشی مصیبتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، عوام مہنگائی کے طوفان درطوفان کا سامنا کر رہے ہیں۔ ردو بدل کے اس نظام نے ہمیں اس بری طرح جکڑ لیا ہے کہ ''نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا'' معاملہ بن گیا ہے ۔
جنرل مشرف کے دور اقتدار میںبتایا تو یہ گیا تھا کہ معیشت کے استحکام اور عالمی منڈیوں سے منسلک ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ڈالر کو بنیادی کرنسی بنایا جائے جو اس وقت بھی ہمارے روپے کے معاملے میں کہیں مستحکم تھی جس کی وجہ سے معاشی بہتری آنے کے بجائے معاشی دباؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ۔
اِس معاملے کو اُس وقت کے آئی ایم ایف کے پروردہ امپورٹڈ حکمرانوں نے مصنوعی طور پر روکے رکھا لیکن وہ جوں ہی اقتدار سے رخصت ہوئے اور جمہوری حکومت نے اقتدار سنبھالا ہمارے روپے کی قدر یکلخت کمی کا شکار ہو گئی جس سے نہ صرف بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا بلکہ ہماری معیشت ایک ناقابل برداشت بوجھ تلے دب گئی جس کا خمیازہ قوم نے اس وقت بھی بھگتا تھا اور آج پندرہ برس کے بعد بھی وہی معاملہ بن چکا ہے جب گزشتہ ایک برس میں معیشت کی بہتری کے مسلسل دعوؤں کے باوجود جب کوئی صورت نہ بن پڑی تو ایک بار پھر روپے کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے جس کا خمیازہ قوم ایک بار پھر بھگت رہی ہے ۔
ڈالر کی نسبت سے روپیہ روز بروز بے قدر ہو تا جارہا ہے، آئی ایم ایف کے نمایندے پاکستان آکر بیٹھ گئے ہیں اور ہر روز ہمارے معاشی 'ماہرین' ان کے سامنے باادب پیش ہوتے ہیں اور شام کو وہ جو حکم صادر کرتے ہیں ہمارے یہ باادب ماہرین ان احکامات پر فوری عمل کرتے ہوئے عوام پر بوجھ منتقل کر دیتے ہیں۔ وہ چاہے تیل کی مد میں یا کسی اور شکل میں ۔
ملک میں مہنگائی کے طوفان سے عوام اس قدر پریشان ہیں کہ اطلاعات کے مطابق لاکھوں کی تعداد میںصاحب حیثیت پاکستانی بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں، ملک میں روز گار کے محدود وسائل کے باعث ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیرون ملک حصول روزگار کے لیے منتقلی لمحہ فکریہ ہے۔
اس منتقلی سے ملک میں ہنر مند اور قابل افرادی قوت میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ چند روز پہلے سوشل میڈیا پر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا ایک مضمون نظر سے گزراہے، وہ لکھتے ہیں'' میاں نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں آئی ایم ایف اور چین کے ساتھ سی پیک کے معاہدے کیے گئے۔
ہم پاور پلانٹس اور دیگر انفرااسٹرکچرکے لیے چین سے سرمایہ کاری اور قرض لے سکتے تھے جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی بانڈمارکیٹ سے بھی لے سکتے تھے تاہم سی پیک سے قرض لینا درست تھا کیونکہ ہمیں واقعی بجلی ،سڑک اور گیس کی ضرورت تھی، غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے ان پانچ برسوں میں اپنی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو دگنا توکیا لیکن ہم نے اپنی صنعتی پیداوار یا برآمدات کو دگنا نہیں کیا جس کی وجہ سے ہم قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت میں اضافہ نہیں کر سکے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاور پلانٹس یا سڑکوں کی تعمیر کے فیصلے غلط تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان چیزوں سے حاصل ہونے والی طاقت کو اچھی طرح استعمال نہیں کیا، فیکٹریاں لگانے کے بجائے ہم نے مزید شاپنگ مالز اور شادی ہالز بنائے۔''سابق وزیر خزانہ کی اس بات کا لب لباب ہے کہ ہمیں اس پیسے سے فیکٹریاں لگانی چاہئیں تھیں، صنعتوں کا جال بچھانا تھا جن سے روز گار کے مواقعے پیدا ہوتے اور ہم ملکی پیدوار میں بھی خود کفیل ہوتے لیکن ہم نے صنعتوں کا جال بچھانے کے بجائے درآمدات کو ترجیح دی جس کا خمیازہ قوم آج بھگت رہی ہے۔
ہم نے ملکی ترقی کا انحصار اپنے زور بازو کے بجائے ہمسائے ملک کو منتقل کردیا۔ ورنہ ہمارے پاس کیا ہے جو موجود نہیں ہے، بس ایک ہم ہیں جو ملک سے باہراِدھر اُدھر ہوتے رہتے ہیں ، بہرکیف جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہے اور آیندہ بھی ہوتارہے گا۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت بننے کے بعد ایک عام سا ملک نہیں ہے۔
اس کا جغرافیائی محل وقوع ہی بہت اہم ہے، اس کے علاوہ ایٹمی طاقت نے اسے ایک بہت بڑا ملک بنا دیا ہے خدا کرے کہ پاکستانی حکمران بھی اتنے ہی بڑے ہو جائیں اور اپنے اس اہم اثاثے کی حفاظت کے لیے کسی آئی ایم ایف کے دباؤ کو ہر گزخاطر میں نہ لائیں،لیکن نہ جانے ہم کب بڑے ہوں گے؟