تنوع اور وفاقیت سے انکار کا نتیجہ آخری حصہ
اکیسویں صدی کے تناظر میں پچھلے کئی سالوں اور دہائیوں سے حقوق کا تناظر بہت وسیع ہوچکا ہے
پاکستان میں جناح صاحب کی وفات (1948) کے بعد ان کے وعدے کے برعکس مذہبی اقلیتوں یا دیگر مذاہب کے شہریوں اور گروہوں کی حیثیت اس سے مختلف اور تفریق آمیز نظر آتی ہے.
اگرچہ قومیتوں اور دیگر اقلیتوں کے برعکس جن کو آئین میں (اپنے تنوع کے ساتھ) تسلیم نہیں کیا گیا ہے، پاکستان کے دستور میں مذہبی اقلیتوں کا ذکر بہت سی جگہوں پر متواتر کیا گیا ہے ، لیکن جہاں ان کے مساوی حقوق اور حیثیت کی بات آتی ہے تو زمینی حقائق بہت مایوس کن اور تاریک نظر آتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ صرف ان کی مذہبی آزادیوں اور ان کی عبادت کی جگہوں کے تحفظ کا سوال بھی نہیں ہے۔ جدید جمہوری اور وفاقی اقدار اس سے آگے بڑھ کر ان کے وسیع تر حقوق اور برابر شہریتی حیثیت کی بات کرتے ہیں، چاہے وہ آئینی حقوق ہوں یا قانونی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حقوق ہوں۔
اکیسویں صدی کے تناظر میں پچھلے کئی سالوں اور دہائیوں سے حقوق کا تناظر بہت وسیع ہوچکا ہے جو کہ پاکستان کی ریاست اور معاشرے کو سمجھنا اور ہر سطح پر قبول کرنا پڑے گا۔ مختلف مذہبی گروہوں کو اپنے اعتقادات اور مذاہب کی تبلیغ اور ان پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ ان متنوع مذہبی گروہوں کو عددی اکثریت اور اقلیت میں شمارکرنے سے کوئی مثبت مقصد حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس سے وفاقی تعمیر میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔
نصابی کتابوں میں تنوع کی نفی کس طرح کی گئی ہے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس کا بہترین تجزیہ جامی چانڈیو نے یوں کیا ہے۔ '' نصابی کتابوں میں پیش کردہ ریاستی بیانیہ بھی بانی پاکستان محمد علی جناح کے مذہبی تنوع کے حوالے سے نقطہ نظر اور ہم عصر دور کے ابھرتے ہوئے جمہوری اور وفاقی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
دستور میں موجودہ مذہبی تعصبات، تفریق آمیز سوچ نے پاکستان میں نسلوں کی ذہنیت اور سوچ کو بری طرح زہر آلود کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مشہور تاریخ دان کے کے عزیز نے اپنی کتاب میں اس ریاستی بیانیے کو '' تاریخ کا قتل '' سے تعبیرکیا ہے۔
ایسے تعصبات اور بیشتر بیانیے جو کہ زمینی اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے پر تشکیل دیے گئے ہیں ، انھوں نے ایک طرف پاکستان میں دیگر مذاہب کے لوگوں میں شدید احساس ، بیگانگیت پیدا کردیا ہے تو دوسری جانب مسلم معاشرے کے تنگ نظر اور انتہا پسند عناصر کے اندر ایک طرح کی سماجی اور سیاسی نرگسیت کا روگ بھی پیدا کردیا ہے جو کہ کسی بھی حقیقی جمہوری اور وفاقی معاشرے اور ریاست کے حقیقی جوہر کو خطرات سے دوچار کردیتا ہے کیونکہ '' وفاقیت کی روح صرف آئین اور ادارتی ڈھانچوں میں نہیں بلکہ خود معاشرے کی جڑوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ ''
پاکستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کی بنیادی وجہ تنوع سے انکار ہے۔ اس انکار کے باعث ملک موجود نسلی، لسانی اور ثقافتی اکائیوں کے اندر احساس محرومی ابھرا جس سے سیاسی عدم اطمینان اور بے چینی نے جنم لیا۔
سیاسی عدم استحکام کے باعث پائیدار معاشی ترقی نہ ہوسکی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم آج تقریباً دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ جامی چانڈیو نے تنوع سے انکار کے مسئلے کے اسباب کا تجزیہ کچھ اس طرح کیا ہے۔
پاکستان میں تنوع کیوں تنازعات اور تضادات کا سبب بنا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان نے ثقافتی وفاقیت یعنی تنوع کے احترام اور تحفظ کی جانب وحدانی اور مرکزیت پسند سوچ کو اختیار کیا جو کہ دنیا بھر کے وفاقی ممالک اور معاشروں میں ایک ناکام اور غلط تجربہ ثابت ہوا ہے۔ اس لیے کینیڈا ، نائیجیریا ، بیلجیم ، ملائیشیا، ہندوستان، ایتھوپیا جیسے وفاقی ممالک نے تلخ تجربات سے سبق حاصل کر کے وحدانیت سے جمہوری وفاقیت کے بنیادی اصول ''کثیر جہتی میں یکجہتی'' کو اپنا لیا اور اسی کا سبب ہے کہ اب وہاں تنوع کی بنیاد پر تنازعات کم دکھائی دیتے ہیں۔
اس طرح کی مثال ان وفاقی ممالک کی بھی ہے جہاں ''وفاقیت کو بعد از تنازعات صورتحال میں اختیار کیا گیا، جن میں بوسنیا ، جمہوریہ کانگو ، عراق ، سوڈان اور جنوبی افریقہ اور نیپال شامل ہیں۔ یہ درست ہے کہ انسان اپنی سماجی، ثقافتی، نظریاتی، تصوراتی، وجدانی، داخلی اور خود معروضی مزاج اور ساختیات میں متنوع ہوتے ہیں۔
ایک ایسی ریاست اور معاشرہ جو کہ تنوع کی بنیاد پر اپنی تشکیل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہاں انصاف پسند اور صحتمند انسانی رویوں کے لیے زیادہ سازگار ماحول جنم لیتا ہے۔ اس طرح وفاقی ممالک میں یہ سوچ تنازعات کو حل کرنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے۔ پاکستان کو بھی اس جمہوری اور وفاقی سوچ اور اصول سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
انھوں نے پاکستان کے دساتیر کا جائزہ لیتے ہوئے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان بھی ہر طرح کے قومی، نسلی، لسانی اور مذہبی تنازعات کو ابھرنے سے روک سکتا تھا اگر اپنے قیام سے لے کر جمہوری وفاقیت کے اصولوں کی پاسداری کرتا لیکن بدقسمتی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ملک تنوع کے احترام اور تحفظ کے اصولوں کی بنیاد پر کوئی سب کے لیے قابل قبول اور منصفانہ عمرانی معاہدہ پیدا کرنے میں ناکام رہا اور نہ ہی ریاستی اور حکومتی سطح پر اس کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں کی گئیں بلکہ اس کے برعکس تنوع سے انکار کی روش اختیار کی گئی۔
دوسرے الفاظ میں دراصل دساتیر جمہوری اور وفاقی ملکوں میں عمرانی معاہدوں کی سیاسی شکل تصور کیے جاتے ہیں، لیکن پاکستان میں 1947 سے 1956تک یعنی نو سال تک اس برطانوی سامراجی دستور (1935) کو عبوری آئین کی صورت میں جاری رکھا گیا اور لاگو کیا گیا۔ ریاست کے اس تشکیلی دور میں دیگر وفاقی اور جمہوری اقدار کی انحرافی کے ساتھ ساتھ تنوع کے اصول کی بھی نفی کی گئی، جس سے مشرقی بنگال، سندھ، بلوچستان اور صوبہ سرحد میں بڑی حد تک سیاسی ردعمل اور بے چینی پیدا ہوئی۔
مغربی پاکستان میں وفاقیت کی نفی کی بنیاد پر ون یونٹ نافذ کیا گیا ، جس سے نہ صرف صوبائی خودمختاری کی نفی کی گئی بلکہ مغربی پاکستان میں آئینی وحدتوں یعنی صوبوں کا سیاسی وجود ہی ختم کردیا جوکہ تنوع کی قبولیت، شمولیت اور خود مختاری اور تحفظ کے لیے ایک لازمی شرط تسلیم کی جاتی ہے۔ ون یونٹ کے جبری قیام نے پاکستان میں جغرافیائی اور ہر طرح کے تنوع کے وجود اور جمہوری وفاقیت کی روح کو مجروح کیا۔
1956 اور1962کے دساتیر نہ تو جمہوری انداز سے تشکیل دیے گئے اور نہ ہی ان میں دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ سیاسی، ثقافتی، معاشی اور جغرافیائی تنوع کے تقاضوں کے حوالے سے جمہوری اقدار کی پاسداری کی گئی۔
بدقسمتی سے خود 1973 کے آئین میں بھی بڑی حد تک وحدانی ساختیاتی اور ثقافتی تصور اور قومیتی اور لسانی تنوع کے انکار کی روش کو جاری رکھا گیا۔ مزید المیہ یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم جوکہ پاکستان میں وفاقیت کے جوہر اور اختیارات کے توازن اور عدم مرکزیت کے حوالے سے ایک اہم اور اچھا قدم تھا، وہ بھی تنوع کی آئینی قبولیت اور تحفظ کے اعتبار سے ناکام ہوئی۔
جامی چانڈیو تنوع کو ایک بوجھ نہیں بلکہ اثاثہ قرار دیتے ہوئے بڑے کمال کی بات کرتے ہیں کہ پاکستان میں تنازعات اور تضادات کی وسیع شکلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاست اور سیاسی معاشرے (بالخصوص سیاسی جماعتوں) کو یہ سوچنا، سمجھنا اور قبول کرنا پڑے گا کہ ''اتحاد صرف اور صرف تنوع کے احترام سے ہی پیدا ہوسکتا ہے کہ اتحاد کو فروغ تنوع کے فروغ ہی سے مل سکتا ہے اور مزید یہ بھی کہ اتحاد کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تنوع کو (مصنوعی یکسانیت سے) ختم کیا جائے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اتحاد اور تنوع میں کوئی بنیادی تضاد موجود نہیں ہے۔
اس کے برعکس ''تنوع کو محض ایک مسئلہ یا چیلنج کی صورت میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اس کو ایک ایسے اثاثے کے طور پر لینا چاہیے جس کی بنیاد پر قومی تعمیر ہوسکے۔''
جامی چانڈیو کی کتاب '' ثقافتی وفاقیت۔ پاکستان میں کثیر جہتی میں یکجہتی'' کا مطالعہ اس سنگین تر ہوتے بحران کی اصل وجوہ کو سمجھنے میں بڑی مدد فراہم کرے گا جس سے پاکستان اس وقت گزر رہا ہے۔