شہید وطن ‘ایک عظیم لیڈر
سخت سیاسی اختلافات کے باوجود ولی خان کی جانب سے حیات شیرپاؤ کی حمایت ان کی بے پناہ مقبولیت کا ثبوت تھا
خیبر پختونخوا کے جوانی میں عظمت کی بلندیوں کو چھونے والے رہنماء ''شہید وطن حیات محمد خان شیرپاؤ'' کو اپنی قوم سے جدا ہوئے 48 برس ہوگئے لیکن ان کی یادیں آج بھی زندہ ہیں'انھوں نے صرف سیاست نہیں کی بلکہ پختون قوم کو ایک نیا فلسفہ اور نظریہ بھی دیا'انھیں 8فروری 1975کو پشاور یونیورسٹی میں شہید کیا گیا۔
لیکن ان کی یاد میں عظیم الشان جلسہ شیرپاؤ گاؤں میں 13فروری 2022 کو منعقد ہوگا۔ 1970 تک سابقہ صوبہ سرحد میں مسلم لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی بڑی سیاسی جماعتیں تھیں' مسلم لیگ کا نعرہ مضبوط مرکز کا ہونا تھا، نیشنل عوامی پار ٹی کا نعرہ تھا کہ پاکستان کو ایک وفاقی ریاست ہونا چاہیے۔
جہاں پر صوبائی خود مختاری ہو' ان دونوں انتہاؤں کے درمیان پختون قوم تقسیم تھی' دونوں پارٹیوں کے پروگرام میںغریب پختون 'محنت کش 'مزدور اور کسان طبقے کے مسائل کا ذکر نہیں تھا۔
ایسے دور میں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور صوبہ سرحد میں شہید حیات محمد خان شیرپاؤ کو اس کی قیادت سونپی گئی' پیپلز پارٹی کا منشور پاکستان کے پسے ہوئے طبقات کے لیے ایک خوشخبری تھی 'اس منشور میں صوبائی حقوق کے ساتھ ساتھ غریب محنت کش ' کسان اور مزدور طبقوں کے مسائل زور پر دیا گیا تھا۔
اس نئے نعرے کو صوبے میں متعارف کرانے کے لیے حیات شہید نے دن رات ایک کر دیے' صوبے کے کونے کونے تک یہ پروگرام پہنچایا اور دونوں روایتی پارٹیوں کے بیچ میں راستہ بناتے ہوئے 'مشکل حالات میںعوام میں اپنا ایک اعلیٰ مقام پیدا کیا۔
صوبہ سرحد جیسے قبائلی کلچر رکھنے والے صوبے میں تیسری قوت کے طور پر پیپلز پارٹی کو عوام میں مقبول بنانا ایک کرشمے سے کم نہیں تھا' یہ کارنامہ حیات شہید نے سر انجام دیا ۔
صوبہ سرحد میںشہید نے بہت کم عرصے میں اپنا ایک مقام بنا لیا تھا 'مسلم لیگ کے صدر قیوم خان صوبے کی سب سے زیادہ مضبوط سیاستدان تصور کیے جاتے تھے'1970کے انتخابات میں وہ پشاور کے حلقےPF1 سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔
وہ قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے بھی امیدوار تھے جن میں پشاور NA1'''مردان CUM ہزارہ'' اور ایبٹ آباد کے حلقے شامل تھے 'وہ اگر جیت جاتے تو صوبے کے وزیر اعلیٰ ہوتے جب کہ نیشنل عوامی پارٹی کو یہ منظور نہیں تھا'پشاور کے حلقے سے نیپ کے امیدوار مرحوم لالہ ایوب تھے 'مرحوم ولی خان نے بہت سوچ بچار کے فیصلہ کیا کہ قیوم خان کو صرف حیات شہید ہی شکست دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بہت پاپولر ہیں۔
ایک دن چوک یادگار میں عوامی نیشنل پارٹی کا جلسہ تھا 'ولی خان نے اعلان کیا کہ پشاور کے صوبائی حلقے سے ہم اپنے امیدوار کو دستبردار کر رہے ہیں'آج سے ہمارے امیدوار حیات شیرپاؤ ہیں'ہم غیر مشروط طور پر ان کی حمایت کریں گے'انھوں نے اسٹیج سے حیات شیرپاؤ زندہ بادکے نعرے بھی لگائے۔
سخت سیاسی اختلافات کے باوجود ولی خان کی جانب سے حیات شیرپاؤ کی حمایت ان کی بے پناہ مقبولیت کا ثبوت تھا 'حیات شہیدنے قیوم خان کو شکست دی 'حالانکہ قیوم خان تینوںقومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب رہے 'اس طرح نیپ اور جمیعت علماء اسلام کو صوبے میںمخلوط حکومت بنانے کا موقعہ مل گیا۔ حیات شیر پاؤ قوم پرست بھی تھے۔
صوبائی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف تھے 'انھوں نے اسمبلی میں قرار داد پیش کی اور تقریر کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ممتاز علی بھٹو نے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دیا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پشتو زبان کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیں'وزیر اعلیٰ مفتی محمود نے اردو زبان کے حق میں تقریر کی اور عوامی نیشنل پارٹی نے ان کی حمایت کی، یوں اردو کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا گیا 'آج تک صوبہ اپنی زبان سے محروم ہے۔
وہ ایک جاگیر دار تھے اور ان کے والد خان بہادر تھے لیکن اس کے باوجود چارسدہ میں کسانوں کی تحریک میں پیش پیش رہے'اس طرح وہ کسانوں میں بھی مقبول تھے 'شاید ان کی یہ مقبولیت ان کی شہادت کی وجہ بنی ۔
حیات شہید نے پیپلز پارٹی کی ترویج کی، پختونوں کی آواز مرکز تک پہنچانے میں جو اہم کردار ادا کیا' اس کی بدولت پسے ہوئے اور محنت کش پختونوں کو سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع ملا ' شہید وطن حیات محمد خان شیرپاؤ کو سیاسی رہنماء کی حیثیت سے کم عرصہ میں جو پذیرائی ملی، صوبہ سرحد کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی'ان کی شہادت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے نہایت ہی نا مساعد حالات کے باوجود بڑی ثابت قدمی سے جمہوری جدوجہد میں حصہ لیا اور حیات شہید کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔
ان کا مشن پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانااور محروم طبقوں کی محرومیاں دور کرنا تھا اور یہی ملک کی ترقی کا راستہ ہے۔خودکش حملوں اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود وہ جدوجہد میںمصروف ہیں۔
حیات شہید کے مشن کو پورا کرنے کے لیے آفتاب شیرپاؤ قومی وطن پارٹی کے پلیٹ فارم سے نیو نیشلزم کے نعرے کے تحت سرگرم عمل ہیں' فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل ہونے کے بعد مکمل مراعات اور ٹکڑوںمیں تقسیم پختون قوم کے لیے ایک صوبے کا حصول 'جس سے پختونوں کی قومی جدوجہد اور قومی یک جہتی کو بھی تقویت ملے گی۔
اس کے علاوہ CPEC میں صوبے کے جائز حق کا حصول ' پختون قوم کی صحیح مردم شماری 'پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانے کے لیے نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ اور 'پختون قوم کی بہتری اور ترقی حیات شہید کا و ہ راستہ ہے جو قومی وطن پارٹی اور ملی رہبر کے لیے نشان راہ ہے۔
یک قطبی (Uni Polar)دنیاکے خاتمے کے بعد اب دنیا کثیر قطبی (Multi Polar)ہو گئی ہے ۔اس دنیا کے ظہور اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے تمام دنیا کی سیاسی و معاشی خد و خال میں واضح تبدیلیاں رو نما ہورہی ہیں'جس کا اثر ملک گیر سیاسی پارٹیوں پر پڑناایک لازمی امر تھا 'نئے سیاسی منظر نامہ میں پختون قوم کا یہ خطہ ایک نئی اہمیت کا حامل ہے اور بین الاقوامی قوتوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
پختون قوم آج تاریخ کے ایک ایسے نازک اور مشکل موڑ پر کھڑی ہے کہ جس کو موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ' ' نیو نیشلزم '' سے لیس ایک ایسی پارٹی کی ضرورت تھی 'جو حیات شہید کے مشن کو آگے بڑھائے اور جس کی قیادت مضبوط'باکردار 'بے لوث' جرات مند 'با اعتماد 'محب وطن اور دور اندیش رہنما کے ہاتھ میں ہوجو پختون قوم کو ان مشکلات سے نکال کر ترقی 'خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن کر سکے۔
جس طرح دنیا کے دوسرے اقوام نے حالات اور گلوبلائزیشن کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے روایتی لیڈر شپ کے اپنائے ہوئے فلسفوں سے نکل کر روایتی نیشلزم کے بجائے حقیقت پر مبنی ''نیو نیشنلزم'' کی راہ اختیارکی اور ترقی' خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن ہوئے۔
اسی طرح اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نیشنلزم کی جدید نقطہ نظر کی راہ اختیار کرتے ہوئے قومی وطن پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس پارٹی اور اس کی قیادت کی عوامی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ''شہید وطن ''حیات شہید کے نظریات سے لیس قافلہ پورے جوش و خروش کے ساتھ پختون قوم کی نجات کی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔
لیکن ان کی یاد میں عظیم الشان جلسہ شیرپاؤ گاؤں میں 13فروری 2022 کو منعقد ہوگا۔ 1970 تک سابقہ صوبہ سرحد میں مسلم لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی بڑی سیاسی جماعتیں تھیں' مسلم لیگ کا نعرہ مضبوط مرکز کا ہونا تھا، نیشنل عوامی پار ٹی کا نعرہ تھا کہ پاکستان کو ایک وفاقی ریاست ہونا چاہیے۔
جہاں پر صوبائی خود مختاری ہو' ان دونوں انتہاؤں کے درمیان پختون قوم تقسیم تھی' دونوں پارٹیوں کے پروگرام میںغریب پختون 'محنت کش 'مزدور اور کسان طبقے کے مسائل کا ذکر نہیں تھا۔
ایسے دور میں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور صوبہ سرحد میں شہید حیات محمد خان شیرپاؤ کو اس کی قیادت سونپی گئی' پیپلز پارٹی کا منشور پاکستان کے پسے ہوئے طبقات کے لیے ایک خوشخبری تھی 'اس منشور میں صوبائی حقوق کے ساتھ ساتھ غریب محنت کش ' کسان اور مزدور طبقوں کے مسائل زور پر دیا گیا تھا۔
اس نئے نعرے کو صوبے میں متعارف کرانے کے لیے حیات شہید نے دن رات ایک کر دیے' صوبے کے کونے کونے تک یہ پروگرام پہنچایا اور دونوں روایتی پارٹیوں کے بیچ میں راستہ بناتے ہوئے 'مشکل حالات میںعوام میں اپنا ایک اعلیٰ مقام پیدا کیا۔
صوبہ سرحد جیسے قبائلی کلچر رکھنے والے صوبے میں تیسری قوت کے طور پر پیپلز پارٹی کو عوام میں مقبول بنانا ایک کرشمے سے کم نہیں تھا' یہ کارنامہ حیات شہید نے سر انجام دیا ۔
صوبہ سرحد میںشہید نے بہت کم عرصے میں اپنا ایک مقام بنا لیا تھا 'مسلم لیگ کے صدر قیوم خان صوبے کی سب سے زیادہ مضبوط سیاستدان تصور کیے جاتے تھے'1970کے انتخابات میں وہ پشاور کے حلقےPF1 سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔
وہ قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے بھی امیدوار تھے جن میں پشاور NA1'''مردان CUM ہزارہ'' اور ایبٹ آباد کے حلقے شامل تھے 'وہ اگر جیت جاتے تو صوبے کے وزیر اعلیٰ ہوتے جب کہ نیشنل عوامی پارٹی کو یہ منظور نہیں تھا'پشاور کے حلقے سے نیپ کے امیدوار مرحوم لالہ ایوب تھے 'مرحوم ولی خان نے بہت سوچ بچار کے فیصلہ کیا کہ قیوم خان کو صرف حیات شہید ہی شکست دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بہت پاپولر ہیں۔
ایک دن چوک یادگار میں عوامی نیشنل پارٹی کا جلسہ تھا 'ولی خان نے اعلان کیا کہ پشاور کے صوبائی حلقے سے ہم اپنے امیدوار کو دستبردار کر رہے ہیں'آج سے ہمارے امیدوار حیات شیرپاؤ ہیں'ہم غیر مشروط طور پر ان کی حمایت کریں گے'انھوں نے اسٹیج سے حیات شیرپاؤ زندہ بادکے نعرے بھی لگائے۔
سخت سیاسی اختلافات کے باوجود ولی خان کی جانب سے حیات شیرپاؤ کی حمایت ان کی بے پناہ مقبولیت کا ثبوت تھا 'حیات شہیدنے قیوم خان کو شکست دی 'حالانکہ قیوم خان تینوںقومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب رہے 'اس طرح نیپ اور جمیعت علماء اسلام کو صوبے میںمخلوط حکومت بنانے کا موقعہ مل گیا۔ حیات شیر پاؤ قوم پرست بھی تھے۔
صوبائی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف تھے 'انھوں نے اسمبلی میں قرار داد پیش کی اور تقریر کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ممتاز علی بھٹو نے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دیا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پشتو زبان کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیں'وزیر اعلیٰ مفتی محمود نے اردو زبان کے حق میں تقریر کی اور عوامی نیشنل پارٹی نے ان کی حمایت کی، یوں اردو کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا گیا 'آج تک صوبہ اپنی زبان سے محروم ہے۔
وہ ایک جاگیر دار تھے اور ان کے والد خان بہادر تھے لیکن اس کے باوجود چارسدہ میں کسانوں کی تحریک میں پیش پیش رہے'اس طرح وہ کسانوں میں بھی مقبول تھے 'شاید ان کی یہ مقبولیت ان کی شہادت کی وجہ بنی ۔
حیات شہید نے پیپلز پارٹی کی ترویج کی، پختونوں کی آواز مرکز تک پہنچانے میں جو اہم کردار ادا کیا' اس کی بدولت پسے ہوئے اور محنت کش پختونوں کو سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع ملا ' شہید وطن حیات محمد خان شیرپاؤ کو سیاسی رہنماء کی حیثیت سے کم عرصہ میں جو پذیرائی ملی، صوبہ سرحد کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی'ان کی شہادت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے نہایت ہی نا مساعد حالات کے باوجود بڑی ثابت قدمی سے جمہوری جدوجہد میں حصہ لیا اور حیات شہید کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔
ان کا مشن پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانااور محروم طبقوں کی محرومیاں دور کرنا تھا اور یہی ملک کی ترقی کا راستہ ہے۔خودکش حملوں اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود وہ جدوجہد میںمصروف ہیں۔
حیات شہید کے مشن کو پورا کرنے کے لیے آفتاب شیرپاؤ قومی وطن پارٹی کے پلیٹ فارم سے نیو نیشلزم کے نعرے کے تحت سرگرم عمل ہیں' فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل ہونے کے بعد مکمل مراعات اور ٹکڑوںمیں تقسیم پختون قوم کے لیے ایک صوبے کا حصول 'جس سے پختونوں کی قومی جدوجہد اور قومی یک جہتی کو بھی تقویت ملے گی۔
اس کے علاوہ CPEC میں صوبے کے جائز حق کا حصول ' پختون قوم کی صحیح مردم شماری 'پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانے کے لیے نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ اور 'پختون قوم کی بہتری اور ترقی حیات شہید کا و ہ راستہ ہے جو قومی وطن پارٹی اور ملی رہبر کے لیے نشان راہ ہے۔
یک قطبی (Uni Polar)دنیاکے خاتمے کے بعد اب دنیا کثیر قطبی (Multi Polar)ہو گئی ہے ۔اس دنیا کے ظہور اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے تمام دنیا کی سیاسی و معاشی خد و خال میں واضح تبدیلیاں رو نما ہورہی ہیں'جس کا اثر ملک گیر سیاسی پارٹیوں پر پڑناایک لازمی امر تھا 'نئے سیاسی منظر نامہ میں پختون قوم کا یہ خطہ ایک نئی اہمیت کا حامل ہے اور بین الاقوامی قوتوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
پختون قوم آج تاریخ کے ایک ایسے نازک اور مشکل موڑ پر کھڑی ہے کہ جس کو موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ' ' نیو نیشلزم '' سے لیس ایک ایسی پارٹی کی ضرورت تھی 'جو حیات شہید کے مشن کو آگے بڑھائے اور جس کی قیادت مضبوط'باکردار 'بے لوث' جرات مند 'با اعتماد 'محب وطن اور دور اندیش رہنما کے ہاتھ میں ہوجو پختون قوم کو ان مشکلات سے نکال کر ترقی 'خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن کر سکے۔
جس طرح دنیا کے دوسرے اقوام نے حالات اور گلوبلائزیشن کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے روایتی لیڈر شپ کے اپنائے ہوئے فلسفوں سے نکل کر روایتی نیشلزم کے بجائے حقیقت پر مبنی ''نیو نیشنلزم'' کی راہ اختیارکی اور ترقی' خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن ہوئے۔
اسی طرح اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نیشنلزم کی جدید نقطہ نظر کی راہ اختیار کرتے ہوئے قومی وطن پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس پارٹی اور اس کی قیادت کی عوامی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ''شہید وطن ''حیات شہید کے نظریات سے لیس قافلہ پورے جوش و خروش کے ساتھ پختون قوم کی نجات کی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔