سندھی اخبارات اورعوامی شعور

سندھ میں علمی، ادبی اور صحافتی سطح پر مزاحمتی تحریک کو پہلی عالمی جنگ کے بعد زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔۔۔


Muqtida Mansoor April 09, 2014
[email protected]

KARACHI: انگریز کی آمد کے بعد سندھ کو بھی برصغیر کے دیگر علاقوں کی طرح نئے خیالات اور نئی ایجادات سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں اخبارات و جرائد کی اشاعت کا سلسلہ انگریز کی آمد کے ایک دہائی بعد شروع ہوگیا۔ انگریزوں کی آمد سے قبل سندھ پر تالپوروں کی حکومت تھی، جو ڈیرہ غازی خان کے لغاری بلوچوں کی ایک شاخ تھے۔ اس لیے ان کے زمانے میں بھی دہلی کے حکمرانوں کی طرح سندھ کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ یہی سبب تھا کہ اپنی مادری زبان کے علاوہ ہر پڑھے لکھے گھرانے میں فارسی پڑھنا، لکھنا اور بولنا دانشمندی اور قابلیت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ 1855 میں سکھر سے شایع ہونے والا سندھ کا پہلا اخبار ''مطلع خورشید'' فارسی زبان میں تھا۔ لیکن اس میں جدت یہ کی گئی کہ ہر فارسی کالم کے سامنے اس کا سندھی ترجمہ بھی شامل کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد 1880 میں سکھر ہی سے مکمل سندھی زبان کا اخبار ''معین الاسلام'' شایع ہونا شروع ہوا، جو 1910 تک تواتر کے ساتھ شایع ہوتا رہا۔

چند ہی برسوںکے دوران 7 نئے سندھی اخبارات منظرعام پر نمودار ہوئے، ان میں سندھ سدھار، سراسوتی، آفتاب سندھ، خیر خواہ، الحق، مسافر اور مجمع شامل تھے۔ بیسویں صدی کی آمد پر یعنی 1901 میں الہلال اور 1908 میں روزنامہ ''سندھ واسی'' شروع ہوا۔ اسی اخبار کے مالکان نے 1917 میں ایک نیا اخبار ''ہند واسی'' بھی شروع کردیا، یہ بھی سندھی زبان میں تھا۔ 1920 کے آنے تک سندھی اخبارات و رسائل کی اشاعت کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور کئی نئے اخبارات منظرعام پر آگئے۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت مولانا دین محمد وفائی کے اخبار ''الوحید'' کو حاصل ہوئی۔ اس اخبار نے ایک طرف استعماریت کے خلاف عوامی شعور بیدار کیا تو دوسری طرف سندھ کے حقوق کے لیے آگہی پیدا کی اور ساتھ ہی سندھی زبان کی ترویج و ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔

سندھ میں علمی، ادبی اور صحافتی سطح پر مزاحمتی تحریک کو پہلی عالمی جنگ کے بعد زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں تبدیلی کی ایک نئی لہر شروع ہوگئی تھی۔ ایک طرف سوویت یونین میں سوشلسٹ ریاست کے قیام نے تیسری دنیا بالخصوص نوآبادیات میں سوشلزم کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، تو دوسری طرف قومی آزادی کی تحریک میں تیزی آئی تھی۔ ان دونوں تحاریک نے سندھ پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہی سبب ہے کہ سندھ کی بمبئی پریزیڈنسی سے علیحدگی اور مسلمانوں کے لیے الگ وطن کی تحاریک کی عوامی مقبولیت بڑھنے لگی۔ اس دوران سندھ کے علمی اور ادبی منظرنامے پر بعض انتہائی معتبر علمی و ادبی شخصیات ابھر کر سامنے آئیں، جنھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سندھ کی تاریخ، ثقافتی ورثے اور قومی تشخص کے حوالے سے بیداری پیدا کرنا شروع کی۔

ان میں علامہ آئی آئی قاضی، ان کی اہلیہ ایلسا قاضی، سائیں جی ایم سید، ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتا، کاکو بھیرو مل، رائے بہادر جگت سنگھ، مولانا عبدالکریم چشتی، دیوان لال چند، پیر علی محمد راشدی، پیر حسام الدین راشدی، مولانا دین محمد وفائی، مہر چند ایڈوانی، ڈاکٹر جے رام داس دولت رام، تیرتھ رام وسان، اﷲ داد بھیئو، مرزا قلیچ بیگ، ڈاکٹر ہوت چند گربخشانی سمیت دیگر ان گنت اہل قلم شامل تھے، جنھوں نے اپنے مضامین اور اخباری کالموں کے ذریعے سندھی عوام کے سیاسی وسماجی شعور میں بے پناہ اضافہ کیا۔اس کے فوراً ہی بعد جب پورے برٹش انڈیا میں آزادی کی تحریک نے مزید زور پکڑا تو ادیبوں، دانشوروں اور قلمکاروں کی ایک نئی کھیپ بھی میدان عمل میں اتر آئی، جن میں ابراہیم جویو،میر عبدالحسین سانگی اور خلیفوگل محمد،نارائین داس بھمبانی، گوبند ملہی، عثمان ڈپلائی اور بہت سے نامور قلمکار شامل تھے۔

ان تمام دانشوروں اور اہل قلم نے اپنے قلم کی طاقت سے سندھی عوام کے سیاسی و سماجی شعور کو مزید مہمیز لگائی۔ اسی دوران سندھی ادبی بورڈ کی تشکیل کی وجہ سے سندھی ادیبوں اور قلمکاروں کو منظم اور مجتمع ہوکر کام کرنے کا موقع ملا۔ سائیں جی ایم سید روزِ اول ہی سے سندھی ادبی بورڈ کے کام کی نگرانی اور اس کی سرپرستی کرتے رہے تھے۔ جب ابراہیم جویو صاحب سندھی ادبی بورڈ میں آئے تو انھوں نے 1946 میں مہران کے نام سے ایک سہ ماہی ادبی جریدے کا آغاز کیا۔ یہ سندھی زبان کا پہلا معیاری ادبی جریدہ تھا، جس میں سندھی زبان، ادب، تاریخ، تہذیب و ثقافت اور معاشرت پر مستند تحاریر شامل کی جاتی تھیں۔

1946 میں حیدرآباد سے ہلال پاکستان نامی اخبار شروع ہوا، جو مسلم لیگ اور تقسیمِ ہند کا بہت بڑا حامی تھا۔ اس اخبار سے جو قلمکار وابستہ رہے ان میں پیر علی محمد راشدی، قاضی عبدالرحمان اور پروفیسر دین محمد (علیگ) وغیرہ شامل تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کئی اہم سندھی زبان کے اخبار سامنے آئے۔ 1970 کے عشرے سے سندھی اخبارات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ محکمہ اطلاعات کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 38 سندھی اخبارات تسلسل کے ساتھ شایع ہورہے ہیں۔ جب کہ اب تک 170مزید اخبارات کے لیے ڈیکلیریشن جاری ہوچکی ہے۔ سندھ کے قومی تشخص، درپیش قومی و صوبائی مسائل اور بین الاقوامی تناظر میں نئے فکری رجحانات کے حوالے سے سندھی قلمکار اور تجزیہ نگار قابل قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

اگر قیامِ پاکستان کے بعد کی صورتحال کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو بنگال کی طرح سندھ کے عوام نے بھی قیام پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن جس طرح بنگالیوں کی حق تلفی کی گئی، اسی طرح سندھیوں کے ساتھ بھی زیادتیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد مرکزی حکومت نے سندھ کی صوبائی اسمبلی کو اعتماد میں لیے بغیر کراچی کو وفاقی دارالحکومت بنادیا۔ جس پر سندھی عوام اور سیاسی قیادتوں نے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا۔ لیکن اس کے بعد تسلسل کے ساتھ ایسے اقدامات سامنے آئے، جو سندھ کے قومی تشخص، زبان و ثقافت اور تاریخ کومسخ کرنے کا سبب بن رہے تھے۔ اس لیے سندھی عوام کے پاس اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مجتمع ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ مگر سندھی عوام نے سیاسی شعور کا ثبوت دیتے ہوئے قوم پرستی تک محدود ہونے کے بجائے قومی سیاست کا حصہ بننے کو ترجیح دی۔

ان واقعات پر اجمالی نظر ڈالی جائے جو سندھیوں کے لیے فکرمندی کا باعث ہیں تو ان میں 1955 میں ون یونٹ کا قیام، کوٹری کے غلام محمد بیراج اور کشمور کے گڈوبیراج کی زرخیز زمینیں غیر سندھیوں کی الاٹمنٹ، ایوب خان کے مارشل لاء کے بعد کراچی کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ کرنل ٹکا خان (جو بعد میں آرمی چیف بنے) نے بیک جنبش قلم کراچی کے چار سو کے قریب سندھی میڈیم اسکول بند کردیے، 1972 سندھ اسمبلی میں سندھی لینگویج بل کی منظوری پر لسانی فسادات کا پھوٹ پڑنا، ضیاء الحق کے دور میں منتخب سندھی وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی، 1983 میںایم آرڈی تحریک کے دوران سندھ کے مختلف شہروں پر بمباری، سندھ کی اسمبلی اور عوامی رائے عامہ کی مخالفت کے باوجود کالاباغ ڈیم بنانے پر وفاقی حکومت کا مختلف حیلوں بہانوں سے اصرار شامل ہیں۔

سندھی اخبارات نے ان تمام مسائل کو احسن طور پر پیش کیا اور ان کی خاطر خواہ پیروی کی۔ جس کی وجہ سے عوام کے سیاسی و سماجی شعور میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کہ سندھی اخبارات نے سندھی قوم پرستی کو مہمیز لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ خاص طور پر پانی کے مسئلے پر سندھی اخبارات نے جو مہم چلائی یا کاروکاری جیسی غیر انسانی رسم کے بارے میں عوام کو آگاہی دی، اس کی نظیر شاید کہیں اور نہ مل سکے۔ سندھی اخبارات کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ عالمی حالات و واقعات کا واضح ادراک رکھتے ہوئے تبدیلی کے عمل سے مسلسل گزر رہے ہیں۔ وہ انگریزی اخبارات کی طرح ادارتی صفحہ پر فکر انگیز تجزیاتی مضامین شایع کررہے ہیں۔ سندھی اخبارات کے ادارتی صفحہ پر جو مضامین اور آرٹیکل شایع ہوتے ہیں، وہ سیاسی وسماجی مسائل کا بھرپور جائزہ اور علم و آگہی میں اضافے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

صحافت کا جدید تقاضا بھی یہ ہے کہ ادارتی صفحہ Views on News کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھی اخبارات میں ادارتی صفحہ صحیح معنی میں Views on News کا صفحہ نظر آئے گا۔ اس کے برعکس اردو اخبارات آج بھی روایتی فرسودگی کا شکار ہیں، جن میں ادارتی صفحہ پر قصہ کہانیاں اور ذاتی واقعات و تجربات بڑے فخر کے ساتھ شایع کیے جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اردو اخبارات میںکالم اور آرٹیکل کے فرق کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ اس لیے مجھے کہنے دیجیے کہ سندھی اخبارات خبر کی خبریت اور ادارتی صفحہ پر شایع ہونے والے مضامین اور تجزیوں کی وجہ سے اردو اخبارات سے میلوں آگے نکل چکے ہیں۔

(یہ مضمون اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کے سیمینار میں پڑھا گیا)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں