لہری صاحب

لہری صاحب کے مزاح کا انداز ایک انگریزی محاورے کے مطابق Toungue in Cheek ہیومر سے ملتا جلتا تھا۔


Amjad Islam Amjad September 16, 2012
[email protected]

بہت دنوں سے جس افسوسناک خبر کا سایا ہمارے اردگرد گردش میں تھا بالآخر اس نے حقیقت کا روپ دھار ہی لیا۔

لہری صاحب چل بسے۔ آج کی نوجوان نسل ممکن ہے ان کے نام اور کام سے بہت کم بلکہ شاید بالکل بھی آشنا نہ ہو لیکن جن آنکھوں نے ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائیوں کا زمانہ دیکھا ہے وہ اس بات کی شہادت دیں گی کہ لہری صاحب اپنے فن کے ایک عظیم اور بے مثال نمایندہ تھے۔ برصغیر میں ابتدائی دور سے لے کر اب تک جتنی بھی فلمیں بنی ہیں، ان میں سے کم و بیش 95% میں مزاح اور مزاحیہ اداکار کا عنصر نمایاں طور پر شامل رہا ہے۔

اردو کے علاوہ دیگر مقامی زبانوں میں بننے والی فلموں کے بارے میں (سوائے پنجابی فلموںکے) میری معلومات بہت محدود ہیں، اس لیے ان کے مزاحیہ اداکاروں کے نام شاید میں نہ گنوا سکوں لیکن انگریزی پنجابی اور اردو کے جن چند اہم باقاعدہ اور مقبول فن کاروں کے نام ذہن میں آ رہے ہیں وہ بالترتیب کچھ اس طرح سے ہیں۔

چارلی چیپلن، لارل اینڈ ہارڈی، بڈابیٹ اینڈ لوئی کاسٹیلو، باب ہوپ، نارمن وزڈم، پیٹر سیلرز، جیک لیمنز اور مسٹر بینز، ظریف، خلیفہ نظیر، علائوالدین، ننھا، علی اعجاز، زلفی، منور ظریف اور رنگیلا، بھارتی اردو فلموں کے گوپ، یعقوب، البیلا، جانی واکر، جانی لیور، اوم پرکاش وغیرہ اور پاکستانی اردو فلموں کے نذر، اے شاہ شکارپوری، آصف جاہ، چارلی اور کچھ اور لوگ لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ لہری صاحب اس محفل میں اسی طرح تھے جیسے ستاروں کے جھرمٹ میں چاند۔

لہری صاحب کے مزاح کا انداز ایک انگریزی محاورے کے مطابق Toungue in Cheek ہیومر سے ملتا جلتا تھا۔ وہ نہ تو اپنے چہرے اور جسمانی حرکات کو بگاڑتے تھے اور نہ ہی لفظوں کو توڑ مروڑ کر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے، ان کی جگہ وہ بڑی باکمال اور انوکھی Timing کے ساتھ چلتے چلتے رواروی میں اس طرح بات کر جاتے تھے کہ سارا سین چمک اٹھتا تھا۔

مجھے ابھی تک (فلم کا نام غالباً ''ایسا بھی ہوتا ہے'' تھا) ان کا ایک جملہ یاد ہے جو انھوں نے مرحومہ سلونی سے باتیں کرتے ہوئے بڑے CASUAL انداز میں کہا تھا کہ ''آتی جاتی رہا کرو'' اب اس کی خوب صورت، طرز ادا، برجستگی اور Timing کے کمال کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ میرے اور دیگر بے شمار لوگوں کے ذہنوں میںمحفوظ اور تازہ ہے۔

لہری صاحب سے میرا ذاتی تعارف میرے مرحوم چچا حاجی منور کی وساطت سے ہوا۔ میں ان دنوں کالج میں پڑھتا تھا اور لہری صاحب میرے چچا کے ایک عزیز دوست احمد صاحب کے ساتھ ہمارے فلیمنگ روڈ والے گھر پر آئے تھے (احمد صاحب بہت خوش شکل تھے اور خود بھی ان دنوں فلموں میں چھوٹے موٹے رول کیا کرتے تھے) مجھے ابھی تک یاد ہے لہری بھائی نے سفید رنگ کا سفاری سوٹ پہن رکھا تھا چونکہ وہ میرے چچا کے دوست تھے، اس لیے ابتدا سے ہی ان کے ساتھ ایک بزرگ اور خورد والا رشتہ قائم ہو گیا اور بعد میں ذاتی تعلقات کے باوجود ہمارے درمیان چچا بھتیجے والا فرق اور رشتہ ہمیشہ قائم رہا ۔

بعض اوقات وہ چلتے چلتے کسی بات پر اس طرح سے رائے زنی کرتے تھے کہ خود تو حسب معمول صرف زیر لب مسکراتے رہتے تھے اور مخاطب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتا ، مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک بار میں اور سلیم ناصر مرحوم (یہ ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے جب ابھی پی ٹی وی کے دروازے مجھ پر بطور ڈرامہ نگار نہیں کھلے تھے اور میں ایک طرح کے عالم برزخ میں تھا یعنی میری حالت ''ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر'' والی تھی اور سلیم ناصر مرحوم ان چند لوگوں میں سے تھا جو ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھایا کرتے تھے) کسی کام سے لہری صاحب سے ملنے گئے وہ ان دنوں گلبرگ کے کسی مکان میں کرائے پر رہا کرتے تھے۔

اسی ملاقات میں مجھے معلوم ہوا کہ ان کا اصل نام سفیر اللہ ہے اور وہ ماشاء اللہ کثیر العیال ہیں۔ ملاقات کے بعد وہ ہمیں چھوڑنے کے لیے باہر تک آئے تو بادل گھرے ہوئے تھے اور بہت ٹھنڈی اور خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ میں نے کہا ''دیکھئے لہری بھائی موسم کتنا اچھا ہو گیا ہے'' اس پر وہ اپنے مخصوص انداز میں بغیر پلکیں جھپکائے اور مسکراتے ہوئے بولے۔''ہاں بھئی، بہت اخلاق سے گرا ہوا موسم ہے،

اب اس ''اخلاق سے گرا ہوا'' کی ترکیب میں جو ایک معنی کا جہان ہے وہ اہل نظر بخوبی جان اور پہچان سکتے ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی اصل خوبی اس کے الفاظ کا چنائو اور طرز ادا کی بے ساختگی اور رشتوں کا احساس ہے جس نے لہری صاحب کے مزاح کو کبھی اس ابتذال، بدتہذیبی اور اخلاقی پستی سے آلودہ نہیں ہونے دیا جو ہمارے مزاح کا عمومی حصہ اور مزاج بن چکا ہے۔

ان کی طبعی شگفتگی اور تلخ اور جارحانہ بات کو بھی ملائمت اور خوبصورتی سے ادا کرنے کا ایک اور واقعہ بھی مجھے یاد آ رہا ہے۔ ایک بار میں ان کے گھر گیا تو انھوں نے حسب معمول بڑی محبت سے میرا استقبال کیا اور اپنے ملازم کو آواز دے کر کہا ''بھئی'' امجد میاں آئے ہیں، ذرا اچھی سی چائے اور کباب وغیرہ لائو'' اب ہوا یوں کہ غالباً گھر میں کباب کا سامان نہیںتھا جو ملازم لینے کے لیے گھر سے باہر چلا گیا۔

اس دوران میں لہری صاحب نے دو تین بار اسے آواز دی لیکن کوئی جواب نہیں آیا جس کی وجہ سے وہ کچھ بے چین سے ہو رہے تھے لیکن بظاہر انھوں نے اس کا احساس نہیں ہونے دیا اور مجھے باتوں میں لگائے رکھا اس طرح کوئی چالیس منٹ گزر گئے، اب کے جو انھوں نے آواز دی تو آگے سے ملازم نے ''آیا صاحب جی'' کا نعرہ لگایا، لہری صاحب نے پوچھا کیا کر رہے ہو؟' جواب ملا،صاحب جی کباب بنا رہا ہوں۔ اس پر لہری صاحب نے برجستہ کہا۔ ''یار تو کباب بنا رہا ہے یا بے وقوف بنا رہا ہے؟''

باتیں اور بھی بہت سی ہیں لیکن سو باتوں کی ایک بات یہی ہے کہ لہری صاحب اپنی مثال آپ تھے۔ وہ صحیح معنوں میں اپنے فن کے جینئس تھے اور اب ان جیسا فن کار دور دور تک نظرنہیں آتا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان کا تمام تر شاندار کام ایک ایسی فلم انڈسٹری میں ہوا جو کبھی بھی وہ تحفظ، سہولیات اور استحکام حاصل نہ کر سکی جو دنیا بھر میں اور بالخصوص ہمارے ہمسایہ ملک میں موجود اور مہیا تھا ۔کم بجٹ، عام طور پر کمزور اور کم فہم پروڈیوسرز، تکنیکی سہولیات کی کمی۔

معاشی عدم استحکام، اور اچھی کہانیوں، کرداروں اور مکالموں کے فقدان کے باوجود جن چند لوگوں نے پاکستان فلم انڈسٹری میں نہ صرف اپنے لیے نام اور مقام پیدا کیا بلکہ چند ایسی خوب صورت اور عمدہ فلموں کی تخلیق میں بھی ممد و معاون ثابت ہوئے جھیں ہم فخر اور اعتماد کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ لہری صاحب کا شمار اسی سنہری فہرست میں ہوتا ہے۔

لہری صاحب کے آخری چند برس بہت تکلیف دہ علالت میں بسر ہوئے اور لاکھوں کروڑوں لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹنے والا یہ منفراد اداکار کوئی بہت اچھے حالات میں رخصت نہیں ہوا لیکن مجھے یقین ہے کہ مولا کریم اپنے وعدے کے مطابق لہری صاحب کو بلند درجات عطا فرمائیں گے کہ وہ اپنے بندوں میں سہولت اور خوشیاں تقسیم کرنے والوں کو ہمیشہ اپنے قریب رکھتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں