پرائیویسی کیسے رکھی جاتی ہے
جب تصاویر وائرل ہونے پر اتنا ہی اعتراض تھا تو پھر بنواتے ہی نہیں
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دنیا بھر میں بالعموم اور بھارت میں بالخصوص کورونا وائرس عروج پر تھا۔ انہی دنوں تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کاندھلوی مقدمہ درج ہونے کی وجہ سے اس وقت دنیا بھر کے میڈیا کی شہ سرخیوں میں آئے۔ بعد ازاں اس مقدمے میں تعزیرات ہند دفعہ 304 کا اضافہ کیا گیا، جس کا مطلب تھا کہ جرم ثابت ہونے پر انہیں دس سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا مولانا سعد کے بار ے میں رپورٹ شائع کررہا تھا، لیکن کسی کو ان کے بارے میں درست معلومات دستیاب نہیں تھیں۔ گوگل پر بھی ان کے بارے میں درست مواد دستیاب نہیں تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) اپنے تمام تر وسائل کے باوجود ان کی تصویر تک ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔ اس موقع پر انہوں نے مولانا کی ذات کے حوالے سے رپورٹس تو شائع کیں لیکن ان رپورٹس میں نہ تو ان کا کوئی بیان شامل تھا، نہ ان کا یا ان کے ترجمان کا موقف، اور نہ ہی کوئی نئی یا پرانی تصویر۔ اس لیے نہیں کہ انڈیا میں موجود تبلیغی جماعت خفیہ طور پر کام کرتی ہے، بلکہ دہلی میں قائم تبلیغی مرکز دنیا بھر کے ہیڈکوارٹر کے طور پر کام کرتا ہے، لیکن مولانا سعد اپنی پرائیویسی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ یہ تصویر کے خلاف ہیں تو یہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کی تصویر نہ بنائی جائے، لیک ہونا تو دور کی بات ہے۔ یہ اس چکر میں پڑتے ہی نہیں تصویر حلال ہے یا حرام۔
مجھے ایک ہندوستانی دوست نے بتایا کہ ایک مجلس میں مولانا سعد شریک تھے، چند نوجوانوں نے ان کی تصویر بنانے کی کوشش کی تو ان کے ساتھ چوکنے کھڑے ان کے صاحبزادوں نے پیار سے انہیں اس عمل سے روک دیا۔ غالب گمان ہے وہ ایسا ہر موقع پر یقینی بناتے ہیں۔
یہ واقعہ مجھے پاکستان کے مایہ ناز فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کے نکاح پر ہونے والی ٹریجڈی پر یاد آگیا۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے مایہ ناز فاسٹ بولر شاہین آفریدی، شاہد آفریدی کی صاحبزادی انشا آفریدی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد لوگوں سے درخواست کرتے نظر آئے کہ ان کی پرائیویسی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، یعنی ان کے نکاح کی تصاویر کو پھیلایا نہ جائے۔
دلچسپ امر یہ ہے ایک طرف نکاح کی تقریب کی تصاویر ٹویٹر پر شیئر کرتے ہوئے انہوں نے دن کو خاص بنانے اور نیک خواہشات کا اظہار کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا، تو دوسری طرف وہ یہ کہتے نظر آئے کہ متعدد بار درخواست کرنے کے باوجود ہماری پرائیویسی کو متاثر کیا گیا ہے، اور لوگ تصاویر کو مزید شیئر کررہے ہیں۔ وہ پاکستانی قوم سے اس حوالے سے بے حد مایوس نظر آئے۔ انہوں نے قوم سے عاجزانہ درخواست کرتے ہوئے بھی کہا کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور ہمارے یادگار دن کو خراب نہ کریں۔
یہاں پر میں انتہائی ادب سے شاہین شاہ آفریدی کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ حضور اگر آپ کو اپنی پرائیوسی اس قدر ہی عزیز تھی تو آپ نکاح کی خبر اپنے قریبی عزیزوں کو کرتے، آپ میڈیا سے دور رہتے، آپ نکاح میں کیمرے کا داخلہ ممنوع قرار دیتے، یا آپ کم ازکم تصاویر ہی نہ پھیلاتے۔ آپ ایک طرف سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی خوشی کی اطلاع دیتے ہیں، لوگوں سے نیک تمنائیں وصول کرتے ہیں، آپ خود یا آپ کے چاہنے والے ذاتی تصاویر میڈیا پر پھیلا کر لائیکس وصول کرلیتے ہیں۔ شہرت سے لطف اندوز ہونے کے بعد آپ کو اچانک پرائیویسی کا خیال آجاتا ہے اور آپ قوم سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے آپ بھول جاتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی زندگی میں خوشی کی خبروں کا فقدان ہے۔
آپ ہمارے اسٹار ہیں، آپ نے قوم کو دہری خوشی دی ہے۔ پہلے قوم نے آپ کے نکاح کی خبر پر خوشی کا اظہار کیا، ابھی قوم خوشی سے فارغ ہی نہیں ہوئی تھی آپ نے قوم کو یہ کہہ کر ایک نئے کام پر لگادیا کہ آپ کی تصاویر کو پھیلایا نہ جائے۔ بس آپ کے یہ کہنے کی دیر تھی، سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر فارغ بیٹھی قوم کو نیا مشغلہ ہاتھ آگیا اور دھڑا دھڑ آپ کے نکاح کی تصاویر شیئر ہونا شروع ہوگئیں۔
قوم سے درخواست کرتے ہوئے آپ کو پاکستانی قوم کی نفسیات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی۔ ہمارے ہاں گاڑی وہیں پارک کی جاتی ہے جہاں پر لکھا ہوتا ہے گاڑی پارک کرنا منع ہے۔ ہم وہیں ہارن بجاتے ہیں جہاں پر لکھا ہوتا ہے کہ ہارن بجانا منع ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس پلیٹ فارم کے توسط سے میں شاہین آفریدی کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اس واقعے سے سبق سیکھیں اور آئندہ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں پہلے سے محتاط ہوں۔ قوم سے کسی قسم کی توقع نہ رکھیں۔ پرائیویسی ملحوظ خاطر رکھنے کےلیے اپنے اکابرین کی زندگی سے سبق سیکھیں، کیونکہ عوام کے شر سے بچنے کا بظاہر یہی ایک واحد راستہ ہے۔ اور آخر میں عوام سے بھی گزارش ہے اگر ہمارے قومی ہیرو نے غلطی سے اپنی خوشی کی خبر آپ کو دے ہی دی ہے تو براہِ کرم مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیجیے۔ اگر آپ منع کرنے کے باوجود نکاح کی تصاویر پھیلا رہے ہیں تو ایسا کرنا اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی طور درست نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) اپنے تمام تر وسائل کے باوجود ان کی تصویر تک ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔ اس موقع پر انہوں نے مولانا کی ذات کے حوالے سے رپورٹس تو شائع کیں لیکن ان رپورٹس میں نہ تو ان کا کوئی بیان شامل تھا، نہ ان کا یا ان کے ترجمان کا موقف، اور نہ ہی کوئی نئی یا پرانی تصویر۔ اس لیے نہیں کہ انڈیا میں موجود تبلیغی جماعت خفیہ طور پر کام کرتی ہے، بلکہ دہلی میں قائم تبلیغی مرکز دنیا بھر کے ہیڈکوارٹر کے طور پر کام کرتا ہے، لیکن مولانا سعد اپنی پرائیویسی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ یہ تصویر کے خلاف ہیں تو یہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کی تصویر نہ بنائی جائے، لیک ہونا تو دور کی بات ہے۔ یہ اس چکر میں پڑتے ہی نہیں تصویر حلال ہے یا حرام۔
مجھے ایک ہندوستانی دوست نے بتایا کہ ایک مجلس میں مولانا سعد شریک تھے، چند نوجوانوں نے ان کی تصویر بنانے کی کوشش کی تو ان کے ساتھ چوکنے کھڑے ان کے صاحبزادوں نے پیار سے انہیں اس عمل سے روک دیا۔ غالب گمان ہے وہ ایسا ہر موقع پر یقینی بناتے ہیں۔
یہ واقعہ مجھے پاکستان کے مایہ ناز فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کے نکاح پر ہونے والی ٹریجڈی پر یاد آگیا۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے مایہ ناز فاسٹ بولر شاہین آفریدی، شاہد آفریدی کی صاحبزادی انشا آفریدی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد لوگوں سے درخواست کرتے نظر آئے کہ ان کی پرائیویسی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، یعنی ان کے نکاح کی تصاویر کو پھیلایا نہ جائے۔
دلچسپ امر یہ ہے ایک طرف نکاح کی تقریب کی تصاویر ٹویٹر پر شیئر کرتے ہوئے انہوں نے دن کو خاص بنانے اور نیک خواہشات کا اظہار کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا، تو دوسری طرف وہ یہ کہتے نظر آئے کہ متعدد بار درخواست کرنے کے باوجود ہماری پرائیویسی کو متاثر کیا گیا ہے، اور لوگ تصاویر کو مزید شیئر کررہے ہیں۔ وہ پاکستانی قوم سے اس حوالے سے بے حد مایوس نظر آئے۔ انہوں نے قوم سے عاجزانہ درخواست کرتے ہوئے بھی کہا کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور ہمارے یادگار دن کو خراب نہ کریں۔
یہاں پر میں انتہائی ادب سے شاہین شاہ آفریدی کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ حضور اگر آپ کو اپنی پرائیوسی اس قدر ہی عزیز تھی تو آپ نکاح کی خبر اپنے قریبی عزیزوں کو کرتے، آپ میڈیا سے دور رہتے، آپ نکاح میں کیمرے کا داخلہ ممنوع قرار دیتے، یا آپ کم ازکم تصاویر ہی نہ پھیلاتے۔ آپ ایک طرف سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی خوشی کی اطلاع دیتے ہیں، لوگوں سے نیک تمنائیں وصول کرتے ہیں، آپ خود یا آپ کے چاہنے والے ذاتی تصاویر میڈیا پر پھیلا کر لائیکس وصول کرلیتے ہیں۔ شہرت سے لطف اندوز ہونے کے بعد آپ کو اچانک پرائیویسی کا خیال آجاتا ہے اور آپ قوم سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے آپ بھول جاتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی زندگی میں خوشی کی خبروں کا فقدان ہے۔
آپ ہمارے اسٹار ہیں، آپ نے قوم کو دہری خوشی دی ہے۔ پہلے قوم نے آپ کے نکاح کی خبر پر خوشی کا اظہار کیا، ابھی قوم خوشی سے فارغ ہی نہیں ہوئی تھی آپ نے قوم کو یہ کہہ کر ایک نئے کام پر لگادیا کہ آپ کی تصاویر کو پھیلایا نہ جائے۔ بس آپ کے یہ کہنے کی دیر تھی، سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر فارغ بیٹھی قوم کو نیا مشغلہ ہاتھ آگیا اور دھڑا دھڑ آپ کے نکاح کی تصاویر شیئر ہونا شروع ہوگئیں۔
قوم سے درخواست کرتے ہوئے آپ کو پاکستانی قوم کی نفسیات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی۔ ہمارے ہاں گاڑی وہیں پارک کی جاتی ہے جہاں پر لکھا ہوتا ہے گاڑی پارک کرنا منع ہے۔ ہم وہیں ہارن بجاتے ہیں جہاں پر لکھا ہوتا ہے کہ ہارن بجانا منع ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس پلیٹ فارم کے توسط سے میں شاہین آفریدی کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اس واقعے سے سبق سیکھیں اور آئندہ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں پہلے سے محتاط ہوں۔ قوم سے کسی قسم کی توقع نہ رکھیں۔ پرائیویسی ملحوظ خاطر رکھنے کےلیے اپنے اکابرین کی زندگی سے سبق سیکھیں، کیونکہ عوام کے شر سے بچنے کا بظاہر یہی ایک واحد راستہ ہے۔ اور آخر میں عوام سے بھی گزارش ہے اگر ہمارے قومی ہیرو نے غلطی سے اپنی خوشی کی خبر آپ کو دے ہی دی ہے تو براہِ کرم مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیجیے۔ اگر آپ منع کرنے کے باوجود نکاح کی تصاویر پھیلا رہے ہیں تو ایسا کرنا اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی طور درست نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔