وہ ہنسنے مسکرانے والے منور حسن

منور صاحب امیر ہوئے، تو وہ بودوباش اپنائی کہ قرن اول کے لوگ یاد آ جائیں۔ ہر محاذ پر لڑے۔۔۔۔

خبر، جب تک لاشوں سے نہ اٹی ہو، خبر نہیں لگتی۔ مگر اِس پُرآشوب زمانے میں ایک ایسی خبر بھی آئی، جو ''سرخی'' سے محرومی کے باوجود توجہ کا مرکز بن گئی۔ سراج الحق چُن لیے گئے!

اِس معاملے پر بہت کچھ لکھا جا چکا۔ کسی نے کہا؛ پہلا موقع ہے، جب موجودہ امیر کو دوبارہ منتخب نہیں کیا گیا۔ ماضی کے برعکس قیم جماعت پر اعتماد نہ کرنے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ جماعت کے طریقۂ انتخاب پر کالم لکھے گئے۔ یہ بات بھی ہو گئی کہ اِس بار بزرگ کارکن کے بجائے نسبتاً نئی قیادت کا انتخاب ہوا۔

جو ہوا سو ہوا! روایت شکنی قابل توجہ، قابل تعریف۔ لیکن ہمیں اس سے غرض نہیں۔ ہمارا دھیان تو سید منور حسن کی طرف جاتا ہے۔ دل میں ایک خواہش ہے۔ وہی اِس تحریر کا محرک اور ماخذ ہے۔

جو منور صاحب کو برسوں سے جانتے ہیں، جو اُن کے ہم سفر رہے، وہ اُنھیں ایک پھرتیلے اور چُست آدمی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ دانا اور بینا۔ بلا کے چوکنّے۔ ''نظر تلوار بن جائے، نفس جھنکار ہو جائے'' کی پیہم مشق سے بھرپور زندگی۔ الفاظ اُن کے دربار میں دست بستہ کھڑے ہوتے۔ دہن گلاب اگلتا ہے۔ ہاں، کبھی کبھی اِس گلاب میں کانٹے بھی سنگ آ جاتے۔

ہم نہ تو کبھی جماعت اسلامی کے رکن رہے، نہ ہی ہمدرد۔ نہ ہی منور صاحب سے قربت کی دعوے داری۔ مگر پیشہ ورانہ ذمے داریوں نے اُن سے ملنے، ہمکلام ہونے کا موقع ضرور فراہم کیا۔ اور نشستیں وہ طویل رہیں۔ پہلی بار ملے، تب وہ جنرل سیکریٹری تھے۔ مکالمہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی، فیڈرل بی ایریا میں ہوا، جہاں کچھ برس قبل پروفیسر غفور احمد سے اُن کے سفر سیاست کی تفصیلات سُنیں، اور کچھ عرصے بعد محترمہ عائشہ منور کی عشروں پر پھیلی عملی جدوجہد کی کہانی سُننے والے تھے۔

یوں تو اُس روز منور صاحب سے سیاست پر بھی بات ہوئی، مگر زیادہ توجہ حالاتِ زندگی پر مرکوز رہی۔ انٹرویو کے طفیل ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی، جو ہجرت کی الم ناک کہانیاں سنتے پروان چڑھا۔ ایک ایسا طالب علم، جو تیاری کیے بغیر امتحانات اچھے نمبروں سے پاس کر لیتا۔ ایک نوجوان، جو طلبا سیاست میں لیفٹ کے پلیٹ فورم سے متحرک رہا۔ جی ہاں، ''ڈرامیٹک سوسائٹی'' کے رکن۔ کرکٹ کے شیدائی۔ ہم جولی اُن پر نازاں۔ اِسی لیے تو ذمے داری سونپی گئی کہ وہ دائیں بازو سے ہیرے موتی چُنیں، اُنھیں ''راہ راست'' پر لائیں۔ پھر واقعہ یوں ہوا کہ اوروں کو اپنی سمت لانے کے بجائے اُنھوں نے خود ہی ''دایاں بازو'' تھام لیا۔ اچھا ہوا یا برا؟ فیصلہ وقت صادر کرتا ہے۔

''کراچی گروپ'' اور ''پاکستان اسلامی فرنٹ'' پر اُس روز بات نکلی، ذکر جن کا منور صاحب کے بغیر نہیں ہوتا۔

دوسری بار جب ملے، وہ امیر جماعت ہو چکے تھے۔ ملک میں انتخابات کا ہنگامہ برپا۔ اُس روز پارلیمانی سیاست میں جماعت کو درپیش چیلینجز پر کھل کر بات ہوئی۔ طالبان، بلوچستان، اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن؛ تمام موضوعات زیر بحث آئے۔ چبھتے ہوئے سوالات۔ دو ٹوک جوابات۔ ایک موقعے پر کہا؛ اگر الیکشن سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہوئیں، تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ آگے کیا ہوا؟ سب ہی نے دیکھا۔


عملی سیاست میں، جہاں بدعنوانی اور اقربا پروری عام ہے، منور صاحب کو ایک ایمان دار، خوش اخلاق اور مخلص آدمی تصور کیا جاتا ہے۔ روشن خیال حلقے بھی، نظریاتی اختلاف کے باوجود، ذکر اُن کا احترام سے کرتے ہیں۔

وہ کہنہ مشق سیاست داں، ہم طفل مکتب۔ ملاقات سے قبل اُن کی شخصیت کا بڑا رعب تھا۔ ''جید'' اینکر حضرات کے ساتھ اُن کے مکالمے دیکھ ہی چکے تھے۔ مگر ملاقات ہوئی، تو اُن کی شگفتگی نے معاملہ سہل کر دیا۔ یاد ہے، جس کمرے میں اُن کے منتظر تھے، وہاں میز اور شیلف کاغذات اور کتابوں سے بھرے تھے۔ کسی نے تجویز دی کہ غفور صاحب کے کمرے میں بیٹھا جائے۔ ہمیں دیکھ کر مسکرائے۔ کہا؛ اچھا ہے، وہاں صفائی کے نمبر بھی مل جائیں گے! سنجیدہ سوالات پر سنجیدہ ہوئے، مگر دوران گفتگو شگوفے بھی پھوٹتے رہے۔ جماعت کے قیم کے روبرو ہمیں بڑی سہولت محسوس ہوئی۔ جب امارات کے زمانے میں ملنے گئے، اتفاقاً اکیڈمی کے باہر ہی سامنا ہو گیا۔ وہ گاڑی سے اتر رہے تھے۔ نہ تو کوئی کروفر، نہ ہی ہٹو بچو۔ فقط سادگی، جو سیاست میں کم یاب ہو گئی، بلکہ نایاب۔

منور صاحب امیر ہوئے، تو وہ بودوباش اپنائی کہ قرن اول کے لوگ یاد آ جائیں۔ ہر محاذ پر لڑے۔ اُن کے تجربے اور نیک نیتی کے باعث امید پیدا ہوئی کہ شاید اب جماعت بہتر انداز میں عصری تقاضوں سے نبرد آزما ہو سکے۔ مگر حالات پریشانی کی سمت بڑھتے رہے۔ اور بیش تر معاملات میں سبب وہ خود ہی ٹھہرے۔ میڈیا سے اُن کی ناراضی بڑھنے لگی۔ مسکرانا ترک کر دیا۔ الیکشن سے وابستہ جماعت کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ پھر پاک فوج کے شہیدوں کی بابت اُن کا متنازع بیان۔ جس نے سُنا، حیران رہ گیا۔ واقعۂ کربلا سے متعلق ایک پریشان کن بیان بھی، جس کی بعد میں وضاحت کی گئی۔ جب فرمایا: ''اسامہ جیسے لوگ مرتے نہیں، دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔'' تو کچھ لوگوں کو وہ ٹی وی انٹرویو بھی یاد آیا، جس میں وہ اسامہ بن لادن سے متعلق لاعلمی اور لاتعلقی ظاہر کر چکے تھے۔

چاہنے والوں نے کس بیان کو صحیح جانا؟ یہ ہم نہیں جانتے۔ البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ایک کے بعد ایک، عصری تقاضوں سے متصادم، بیانات کے باعث سوشل میڈیا میں اُنھیں نشانے پر رکھ لیا گیا۔ مخالفین نے وہ رویہ اختیار کیا، جو کل تک صرف زرداری صاحب کے لیے مخصوص تھا۔ ناقدین بدتہذیبی کی حد عبور کر گئے۔ ہمیں دکھ ہوا۔ کچھ حلقوں کے مطابق پارٹی بھی اُن کے بیانات سے پریشان تھی۔ سراج صاحب کا انتخاب شاید اِسی پریشانی کا نتیجہ ہو۔ نئے امیر سادہ مزاج آدمی کی شہرت رکھتے ہیں۔ کاندھوں پر اُن کے بھاری ذمے داری۔ جماعت ایک صوبے تک محدود ہو چکی۔ اس کی سیاسی حیثیت بحال کرنا سہل نہیں ہو گا۔

جہاں تک منور صاحب کا تعلق ہے، کبھی کبھی یوں لگا، اِس کے باوجود کہ ایسا سوچنا سوئے ظن ہے، وہ اپنے دل کی بات نہ کر سکے۔ جماعت کے فیصلوں کے حق میں بولتے رہے۔ شاید اِسی کشمکش نے صحت پر وار کیے۔ یہ بھی سنا کہ خرابی صحت کے باعث اُنھوں نے حالیہ انتخابات میں شوریٰ سے معذرت کی تھی۔ اگر ایسا تھا، تو اُسے قبول کیا جانا چاہیے تھا۔

خیر، اب منور صاحب جماعت کے امیر نہیں۔ کسی کارکن کے لیے اِس سے بڑھ کر کیا اعزاز ہو گا ہے کہ وہ جس کارواں کا سپاہی ہو، اُسی کا میرکاررواں بنا دیا جائے۔ منور حسن کی واپسی بھی اِسی اعزاز کے ساتھ ہوئی۔ مبارک باد کے وہ مستحق ہیں۔ میڈیا بھی اب اُنھیں پریشان نہیں کرے گا۔ ہم اُن کی صحت کے لیے دعاگو ہیں۔ ساتھ ہی ایک درخواست۔ منور صاحب، آپ پھر سے مسکرانے لگیں۔ سیاست میں آپ نے جوخدمات انجام دیں، وہ تاریخ کا حصہ بن چکیں۔ جوبیانات متنازع ٹھہرے، وہ اب قصۂ ماضی۔ کیا ہی اچھا ہو، اگر آپ اپنے سفرزندگی کو کتاب کر دیں۔ ایک ایسی کتاب، جو کسی کارکن یا سیاسی راہ نما کی نہ ہو، بلکہ ایک ایسے شخص کے قلم سے نکلی ہو، جو ہجرت کی کہانیاں سنتے پروان چڑھا۔ ایک ایسا شخص، جو مسکرانا جانتا ہے۔ جیسا جگر نے کہا:

نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو

روح سنے اور روح سنائے

تو ہماری دعا ہے کہ ہنسنے مسکرانے، کہانیاں سُنانے والے منور حسن، جنھیں لگ بھگ ہم نے کھو دیا تھا، ہمیں واپس مل جائیں۔
Load Next Story