فوج کے بھی جذبات ہیں
سابق جنرل نے جتنا فوج کو بدنام کیا ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی،ناکام پالیسیوں کی سزا آج تک قوم اور فوج بھگت رہی ہے
اپنے بھانجے عمران خان پر میرے لکھے ہوئے آرٹیکل ''فوج کا بیٹا'' جب شایع ہوا تو میں نے اندازہ لگایا کہ اکثر لوگ پاک فوج کے بارے میں نہیں جانتے اور جو تھوڑا بہت جانتے ہیں وہ پاک فوج کا مکمل چہرہ نہیں ہے۔ میں نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ عوام الناس فوج کے بارے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں لیکن کوئی ایسے ذرایع نہیں ہیں جو ان کی اس خواہش کو پورا کر سکیں۔ لہٰذا مجھ سے بھی فرمائش کی گئی کہ آپ پاک فوج کے بارے میں مزید لکھیں۔ لیکن میں اپنی پیشہ ورانہ مصروفیت اور کچھ کہولت کے باعث نہیں لکھ سکا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات ضمیر پر بوجھ محسوس ہونے لگی کہ ایک فوجی گھرانے کا فرد جس کے صرف والد اور تین بھائی یونیفارم پہننے والے اور جس کے خاندان کی سات پشتوں نے فوج کا نمک کھایا ہو ایسے حالات میں ضرور اس نمک کو حلال کروں جہاں وہ لوگ جو اپنے آپ کو فوج کا خیر خواہ ظاہر کر رہے ہوں وہ بھی عام آدمی کے دل میں اپنی فوج سے محبت نہ صرف کم کر رہے ہیں بلکہ بدگمانیاں پیدا ہو رہی ہوں۔
بیانات کی افراط و تفریط اور بھی زیادہ المناک ہے ، مثلاً جنرل پرویز مشرف کے آئین شکنی کیس میں مشرف صاحب کے وکلا اور ہمدردوں نے جس طرح پاکستان فوج پر منفی تبصرے کیے ہیں وہ نا صرف قابل مذمت بلکہ فوج کے ساتھ قابل ہمدردی بھی ہے۔ کیونکہ قوم کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فوج اور اس کا سربراہ چاہے سابق ہو یا موجودہ وہ پاکستانی آئین سے بالاتر ہے، فوج کے نزدیک پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ، قانون اور آئین کی کوئی وقعت نہیں ہے، اس پر ان میں سے کسی بھی چیز کا اطلاق نہیں ہوتا اور اگر سابق جنرل کو سزا دی گئی تو حکومت نہیں رہے گی اور اس کیس کی وجہ سے فوج حکومت اور عدلیہ سے ناراض ہے اور فوج ان دونوں سے انتقام لے گی، بالفاظ دیگر پاک فوج پاکستان کے ہر ادارے ہر قانون اور آئین کی ہر شق سے ماورا ہے، فوج اور اس کا سربراہ جو چاہے کرے وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں، وطن عزیز کا تمام عدالتی، قانون، آئینی، حکومتی نظام فوج کے تابع ہے لہٰذا یہ عدالتی نظام اور حکومت سابق فوجی سربراہ کا بال بیکا نہیں کر سکتا وغیرہ وغیرہ۔ جسے پڑھنے اور سننے کے بعد ایک عام آدمی کے فوج کے بارے میں کیا جذبات ہوں گے وہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس سے قبل بھی عوام الناس میں سوائے چند مواقع کے فوج کا امیج حقیقی نہیں تھا۔
حالانکہ فی الحقیقت ایسا نہیں ہے، یہ پاک فوج اور اس کی قیادت پر سراسر الزام ہے اور اس کی لازوال قربانیوں سے انحراف ہے جو کہ آج بھی پاک فوج ایک سپاہی سے جنرل تک اپنی جان اور خون کا نذرانہ دے کر قوم سے اپنے حلف وفا کو نبھا رہی ہے، جس میں 80% وہ قربانیاں ہیں جن کا عوام الناس کو علم ہی نہیں ہے اور وہ فوجی زندگی کے روزمرہ کے معمولات ہیں جہاں پاک فوج کے افسر و جوان میں سے ہر روز کسی کی شہادت ہوتی ہے یا وہ اپنے جسم کے کسی قیمتی عضو سے زندگی بھر کے لیے معذور ہوتا ہے، جن میں زیادہ تر وہ ہیں جنہوں نے ابھی اپنا کیریئر شروع کیا تھا لیکن ان تمام کو ISPR بھی عوام الناس تک نہیں پہنچاتا، شاید فوج کی ایسی کوئی پالیسی ہو۔ بہرحال مختصر یہ کہ فوج صرف چند جرنلز اور ان کی خواہشات کا نام نہیں ہے۔
کیونکہ ماضی میں صرف چند فوج کے بڑوں کی خواہشات اور ذاتی فیصلوں کے باعث فوج کو نکونامی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے غیر آئینی اقدامات کو عدلیہ اور موقع پرست سیاست دانوں نے دوام بخشا۔ لیکن یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 2008ء کے بعد فوج اور عدلیہ نے اپنے ماضی کو صحیح کرنے کے لیے بہت محنت کی ہے جس سے قوم کی نگاہ میں ان کا وقار بڑھا ہے اور اگر یہ سفر صحیح سمت میں جاری رہا تو بہت جلد ان کے مزید اچھے نتائج آئیں گے اور قوم پر ان اداروں کا اعتماد مزید مستحکم ہو گا۔ جس طرح کرکٹ یا ہاکی کے چند کھلاڑیوں کے باعث یہ الفاظ سننے پڑتے ہیں کہ ''پاکستان ہار گیا'' اسی طرح ان اداروں کے چند لوگوں کی وجہ سے بدنامی ہوئی ہے۔
سابق جنرل نے جتنا فوج کو بدنام کیا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، اس کی ناکام پالیسیوں کی سزا آج تک قوم اور فوج بھگت رہی ہے، اس نے عدالت میں اپنا بیان بھی فوج کے اوپر رکھ کر دیا، اگر واقعی اس نے اتنا اچھا کیا ہوتا تو اسے اپنے منہ سے تعریف کی ضرورت نہیں تھی، اس نے جن سیاست دانوں کو برا کہا اور تنقید کا نشانہ بنایا وہ سب ماضی میں اس لیے معاف کر دیے گئے تھے کہ وہ اس کے ہمنوا تھے۔ اور ان سیاستدانوں کا فیملی اور سیاسی ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ ماضی میں بھی جنرل ایوب اور جنرل ضیاء کی خدمت کی گئی، ان کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کی حمایت کی، جس میں ان جرنلز کے کچھ قریبی ساتھیوں نے بیش بہا فائدہ اٹھایا، جسے عدلیہ کے چند ججز نے قانونی تحفظ فراہم کیا اور ملک و قوم کا ناس مارا اور بدنامی پوری فوج عدلیہ اور سیاستدانوں پر آئی۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ صرف چند اشخاص کی سزا پورے ادارے کو دی جائے اور اس کے گمنام سپاہیوں کو فراموش کر دیا جائے۔ مجھ سمیت قوم کا ہر باشعور فرد اس بات پر مطمئن ہے کہ سابق جنرل کا کیس فوج اور عدلیہ کے لیے ایک آخری ٹیسٹ کیس ہے، جہاں دونوں ادارے اپنی ذاتی دوستی اور عناد کے بجائے تمام قانونی اور آئینی تقاضے پورے کریں گے اور صاف و شفاف ٹرائل کو یقینی بنا کر اپنے وقار میں اضافہ کریں گے اور قوم کے اعتماد کو مزید تقویت پہنچائیں گے، کیونکہ تاریخ گواہ ہے جس قوم کو اپنی فوج اور عدلیہ پر اعتماد ہو وہ ناقابل تسخیر قوم ہوتی ہے، جس کا فیصلہ آنے والا وقت خود کرے گا۔
چلتے چلتے اپنے بھانجے عمران خان کے بارے میں بتاتا چلوں کیونکہ اکثر احباب اس کا پوچھتے ہیں تو عرض یہ ہے کہ سی ایم ایچ راولپنڈی میں ڈاکٹرز نے بھی اس کا خود بہتر علاج کیا، جن میں خاص کر میجر منصور ذیشان، میجر مقصود حسین، میڈم قیصرہ وغیرہ اور پھر وہ پی این ایس شفا شفٹ کر دیا گیا تھا جہاں بریگیڈیئر جاوید خٹک کی زیر نگرانی صحت یابی کی جانب گامزن ہے۔ اس کی آٹھ ماہ مسلسل بیماری میں ایک لمحے کے لیے اس کی یونٹ 21 S&T غافل نہیں ہوئی، اس کے نئے کمانڈنگ آفیسر کرنل اویس باجوہ اور J.C.O عباس میری ہمشیرہ سے رابطے میں رہتے ہیں اور اس کی یونٹ کا ایک سپاہی 24 گھنٹے اسپتال میں عمران کی خدمت کے لیے حاضر رہتا ہے۔ اتنی مسلسل بیماری کے باوجود عمران پر عزم ہے کہ وہ ٹھیک ہو کر دوبارہ یونٹ جائے گا۔ آپ سب اس کی جلد مکمل صحت یابی اور اس کی خدمت کرنے والوں کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔