ڈسٹرکٹ جیل ملیر کے بھارتی قیدی…
متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ ہندو بھارتی قیدی، پاکستانی مسلم قیدیوں کے حسن سلوک کی وجہ سے مسلمان ہو جاتے ہیں
قیدی کو ڈالروں کے ریٹ گرنے یا پھر طالبان مذاکرات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، اسے تو اپنا وقت گزارنا ہے کہ کس طرح اسے قید سے رہائی ملے، ملکی حالات یا شہر کراچی کی بدامنی سے بھی قیدی لاتعلق رہتا ہے۔ اسے صرف اس پریشانی کا سامنا ہوتا ہے جب کسی سیاسی، مذہبی جماعت کے کارکن کی ہلاکت پر عدالتیں بند ہو جاتی ہیں۔ قیدی کو اس سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ گرانی کس قدر ہے اور سی این جی پمپوں میں گیس کیوں نہیں ہے۔ اسے اس بات سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا کہ سرکاری نوکریوں سے پابندی ختم ہو چکی ہے اور سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں شروع ہو چکی ہیں۔
بیرکوں میں رکھے ٹیلی ویژن میں چلنے والے پروگراموں میں نیوز چینل کو بہت کم دیکھا جاتا ہے۔ جب کہ ناچ و سرور پر مشتمل پروگرام، خاص طور پر مار دھاڑ پر مبنی فلموں کو بڑی رغبت سے دیکھا جاتا ہے۔ جیلوں میں تفریح کا واحد ذریعہ ٹی وی ہے، جو تقریباً ہر بیرک میں ''افورڈ'' کرنے والے قیدیوں نے رکھا ہوتا ہے۔ جمگھٹے کی شکل میں کسی مشہور تفریحی پروگرام کو دیکھا جاتا ہے اور جب پاکستان کا کرکٹ میچ ہو تو بڑی تعداد، چھوٹی اسکرینوں پر جڑ جاتی ہے۔ اسٹیڈیم کا سا سماں ہو جاتا ہے تو کسی اچھے شاٹ یا وکٹ پر تالیوں کی گونج بھلا دیتی ہے کہ قیدی، قیدی نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے احباب کے ساتھ مشغول و بے فکر آزاد شہری ہے۔
ڈسٹرکٹ لانڈھی جیل میں بھارتی قیدیوں کی بڑی تعداد مقید ہے۔ لیکن یہ بڑا دلچسپ امر ہے کہ جیلوں میں قید پاکستانی قیدیوں نے بھارت کے ہاتھوں کرکٹ میں شکست پر انھیں کبھی خوف زدہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی انھیں کبھی پریشان کیا۔ سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی مچھیروں نے بھی اپنی تین بیرکوں میں ٹیلی ویژن اور کیبل لگا رکھا ہے اور انھیں اپنے رسم و رواج کے مطابق مکمل آزادی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ بھارتی قیدی ہر روز قیدیوں کی حاضری کے وقت بڑے پرجوش انداز میں ''بھارت ماتا کی جے'' کے بلند نعرے بھی لگاتے ہیں، لیکن انھیں کبھی مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ بھارت کی مدح سرائی نہ کریں۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شکست کے بعد ان کی خوشیوں کو بھی کسی پاکستانی قیدی نے تاراج نہیں کیا، بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ آپس میں ہنسی مذاق کر کے ایک دوسرے کو تفریح ضرور مہیا کرتے ہیں۔
جیل انتظامیہ کی جانب سے بھی ان پر کوئی روک ٹوک نہیں کی گئی ہے اور انھیں اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ ، ملکی جذبات کی آزادی کا بھی بڑا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہندو تہواروں پر انھیں اچھے لباس اور خوراک کے علاوہ خصوصی اوقات میں آزادانہ گھومنے پھرنے کی سہولت بھی مہیا کی جاتی ہے۔ جہاں وہ اپنے سرکل میں گھومتے پھرتے ہیں۔ جیل انتظامیہ، مسلمان قیدیوں کو اس تہوار والے دن، ان کی رسومات میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے روکنے کے لیے خصوصی ہدایات بھی دیتی ہے، لیکن آج تک ایسا کسی خوشگوار واقعے کا نہ ہونا، جیل انتظامیہ کے ساتھ پاکستانی قیدیوں کی فراخ دلی کا واضح ثبوت ہے۔
T-20 ورلڈ کپ سے قبل ایشیا کپ میں پاکستان کے ہاتھوں انڈیا کی شکست کے بعد بھارتی عوام کا مسلمانوں، خاص کر کشمیری طالب علموں کے خلاف سخت ردعمل تکلیف دہ تھا، لیکن پاکستانی قیدی کی فراخ دلی، متاثر کن ہوتی ہے کہ بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود، بھارتی قیدیوں کو معمولی سی بھی زک نہیں پہنچائی جاتی۔ T-20 میں بھارتی فتوحات اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بے دخلی کے باوجود بھارتی قیدیوں کے خلاف کوئی منفی رجحان کا نہ ہونا، بھارتی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
صرف یہ رویہ بھارتی قیدیوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے متعدد قیدیوں کے حوالے سے بھی پاکستانی اسیر خانوں میں قیدی، اپنی ملنساری کی بنا پر خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔ نئے آنے والے کسی قیدی کو یہ اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ افغان قیدی کا تعلق، افغانستان سے ہے یا خیبر پختونخوا سے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات اور خاص کر افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزیوں سمیت بھارتی فوج کی جانب سے اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود پاکستانی قیدیوں کا صبر و تحمل قابل ستائش ہوتا ہے۔
جب کہ دوسری جانب یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت یا افغانستان کی حکومتوں کے درمیان تنازعات کے بعد بھارتی جیلوں میں قید پاکستانیوں اور افغانستان کی جیلوں میں مقید پاکستانیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے، ان پر تشدد اور زیادتیوں کا طویل سلسلہ دراز و سخت کر دیا جاتا ہے۔
متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ ہندو بھارتی قیدی، پاکستانی مسلم قیدیوں کے حسن سلوک کی وجہ سے مسلمان ہو جاتے ہیں، انھیں ردعمل کے طور پر تشدد یا کسی بھی قسم کی زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ پاکستان کی تمام جیلوں کے حوالے سے قیدی اپنے تحفظات ضرور رکھتا ہے لیکن غیر ملکی قیدیوں کے حوالے سے ان کے حقوق کی مکمل پاسداری کی جاتی ہے، خاص طور پر پاک بھارت کشیدگی اور ازلی دشمنی کے باوجود پاکستانی قیدیوں کا بھارتی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک انتہائی متاثر کن اور بھارتی سرکار کے لیے قابل تقلید مثال ہے۔ ہندوانہ رسم و رواج اور کھانے پینے کے معاملات سمیت ان کے حقوق کو کماحقہ پورا کیا جاتا ہے۔ بذات خود میرے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ انھیں تحقیر کا نشانہ بھی نہیں بنایا جاتا، بلکہ بھارتی قیدیوں کی بڑی تعداد یہاں پاکستانی قیدیوں سے موتی دانوں سے بنائے جانے والے مختلف فنون سیکھ کر انھیں فروخت کرتے ہیں اور اچھی خاصی رقم کما لیتے ہیں، جو وہ اپنے ساتھ رہائی کے بعد لے جاتے ہیں۔
مختصر یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ جیل ملیر لانڈھی کراچی کی جیل انتظامیہ تعریف و ستائش کی مستحق ہے کہ ان کی حکمت عملی کی بنا پر کوئی ناخوشگوار واقعہ اور ملکی غیر ملکی قوانین کی حق تلفی نہیں ہوتی جس سے پاکستان کا وقار مجروح و متاثر ہو۔
اس موقع پر بھارت سمیت تمام غیر ممالک کی حکومتوں کو یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ وہ اپنی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کا بھی مکمل خیال رکھیں۔ ذرایع ابلاغ کے ذریعے جب پاکستانی قیدیوں کے اوپر ہونے والے مظالم، ظلم و ستم کی داستانیں منظر عام پر آتی ہیں تو دل بوجھل و مسوس ہو کر رہ جاتا ہے کہ ان کے شہریوں کو مکمل آزادی، تحفظ اور بہتر ماحول فراہم کیا جاتا ہے، لیکن ان کے رویے پاکستانی قیدیوں کے ساتھ اپنے عقوبت خانوں میں سلوک بڑے انسانیت سوز ہوتے ہیں جو قابل مذمت ہیں۔ انھیں پاکستانی جیلوں میں قید اپنے شہریوں کے ساتھ اچھے حسن سلوک کا قرض ضرور اتارنا چاہیے۔
بیرکوں میں رکھے ٹیلی ویژن میں چلنے والے پروگراموں میں نیوز چینل کو بہت کم دیکھا جاتا ہے۔ جب کہ ناچ و سرور پر مشتمل پروگرام، خاص طور پر مار دھاڑ پر مبنی فلموں کو بڑی رغبت سے دیکھا جاتا ہے۔ جیلوں میں تفریح کا واحد ذریعہ ٹی وی ہے، جو تقریباً ہر بیرک میں ''افورڈ'' کرنے والے قیدیوں نے رکھا ہوتا ہے۔ جمگھٹے کی شکل میں کسی مشہور تفریحی پروگرام کو دیکھا جاتا ہے اور جب پاکستان کا کرکٹ میچ ہو تو بڑی تعداد، چھوٹی اسکرینوں پر جڑ جاتی ہے۔ اسٹیڈیم کا سا سماں ہو جاتا ہے تو کسی اچھے شاٹ یا وکٹ پر تالیوں کی گونج بھلا دیتی ہے کہ قیدی، قیدی نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے احباب کے ساتھ مشغول و بے فکر آزاد شہری ہے۔
ڈسٹرکٹ لانڈھی جیل میں بھارتی قیدیوں کی بڑی تعداد مقید ہے۔ لیکن یہ بڑا دلچسپ امر ہے کہ جیلوں میں قید پاکستانی قیدیوں نے بھارت کے ہاتھوں کرکٹ میں شکست پر انھیں کبھی خوف زدہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی انھیں کبھی پریشان کیا۔ سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی مچھیروں نے بھی اپنی تین بیرکوں میں ٹیلی ویژن اور کیبل لگا رکھا ہے اور انھیں اپنے رسم و رواج کے مطابق مکمل آزادی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ بھارتی قیدی ہر روز قیدیوں کی حاضری کے وقت بڑے پرجوش انداز میں ''بھارت ماتا کی جے'' کے بلند نعرے بھی لگاتے ہیں، لیکن انھیں کبھی مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ بھارت کی مدح سرائی نہ کریں۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شکست کے بعد ان کی خوشیوں کو بھی کسی پاکستانی قیدی نے تاراج نہیں کیا، بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ آپس میں ہنسی مذاق کر کے ایک دوسرے کو تفریح ضرور مہیا کرتے ہیں۔
جیل انتظامیہ کی جانب سے بھی ان پر کوئی روک ٹوک نہیں کی گئی ہے اور انھیں اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ ، ملکی جذبات کی آزادی کا بھی بڑا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہندو تہواروں پر انھیں اچھے لباس اور خوراک کے علاوہ خصوصی اوقات میں آزادانہ گھومنے پھرنے کی سہولت بھی مہیا کی جاتی ہے۔ جہاں وہ اپنے سرکل میں گھومتے پھرتے ہیں۔ جیل انتظامیہ، مسلمان قیدیوں کو اس تہوار والے دن، ان کی رسومات میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے روکنے کے لیے خصوصی ہدایات بھی دیتی ہے، لیکن آج تک ایسا کسی خوشگوار واقعے کا نہ ہونا، جیل انتظامیہ کے ساتھ پاکستانی قیدیوں کی فراخ دلی کا واضح ثبوت ہے۔
T-20 ورلڈ کپ سے قبل ایشیا کپ میں پاکستان کے ہاتھوں انڈیا کی شکست کے بعد بھارتی عوام کا مسلمانوں، خاص کر کشمیری طالب علموں کے خلاف سخت ردعمل تکلیف دہ تھا، لیکن پاکستانی قیدی کی فراخ دلی، متاثر کن ہوتی ہے کہ بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود، بھارتی قیدیوں کو معمولی سی بھی زک نہیں پہنچائی جاتی۔ T-20 میں بھارتی فتوحات اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بے دخلی کے باوجود بھارتی قیدیوں کے خلاف کوئی منفی رجحان کا نہ ہونا، بھارتی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
صرف یہ رویہ بھارتی قیدیوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے متعدد قیدیوں کے حوالے سے بھی پاکستانی اسیر خانوں میں قیدی، اپنی ملنساری کی بنا پر خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔ نئے آنے والے کسی قیدی کو یہ اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ افغان قیدی کا تعلق، افغانستان سے ہے یا خیبر پختونخوا سے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات اور خاص کر افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزیوں سمیت بھارتی فوج کی جانب سے اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود پاکستانی قیدیوں کا صبر و تحمل قابل ستائش ہوتا ہے۔
جب کہ دوسری جانب یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت یا افغانستان کی حکومتوں کے درمیان تنازعات کے بعد بھارتی جیلوں میں قید پاکستانیوں اور افغانستان کی جیلوں میں مقید پاکستانیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے، ان پر تشدد اور زیادتیوں کا طویل سلسلہ دراز و سخت کر دیا جاتا ہے۔
متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ ہندو بھارتی قیدی، پاکستانی مسلم قیدیوں کے حسن سلوک کی وجہ سے مسلمان ہو جاتے ہیں، انھیں ردعمل کے طور پر تشدد یا کسی بھی قسم کی زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ پاکستان کی تمام جیلوں کے حوالے سے قیدی اپنے تحفظات ضرور رکھتا ہے لیکن غیر ملکی قیدیوں کے حوالے سے ان کے حقوق کی مکمل پاسداری کی جاتی ہے، خاص طور پر پاک بھارت کشیدگی اور ازلی دشمنی کے باوجود پاکستانی قیدیوں کا بھارتی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک انتہائی متاثر کن اور بھارتی سرکار کے لیے قابل تقلید مثال ہے۔ ہندوانہ رسم و رواج اور کھانے پینے کے معاملات سمیت ان کے حقوق کو کماحقہ پورا کیا جاتا ہے۔ بذات خود میرے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ انھیں تحقیر کا نشانہ بھی نہیں بنایا جاتا، بلکہ بھارتی قیدیوں کی بڑی تعداد یہاں پاکستانی قیدیوں سے موتی دانوں سے بنائے جانے والے مختلف فنون سیکھ کر انھیں فروخت کرتے ہیں اور اچھی خاصی رقم کما لیتے ہیں، جو وہ اپنے ساتھ رہائی کے بعد لے جاتے ہیں۔
مختصر یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ جیل ملیر لانڈھی کراچی کی جیل انتظامیہ تعریف و ستائش کی مستحق ہے کہ ان کی حکمت عملی کی بنا پر کوئی ناخوشگوار واقعہ اور ملکی غیر ملکی قوانین کی حق تلفی نہیں ہوتی جس سے پاکستان کا وقار مجروح و متاثر ہو۔
اس موقع پر بھارت سمیت تمام غیر ممالک کی حکومتوں کو یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ وہ اپنی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کا بھی مکمل خیال رکھیں۔ ذرایع ابلاغ کے ذریعے جب پاکستانی قیدیوں کے اوپر ہونے والے مظالم، ظلم و ستم کی داستانیں منظر عام پر آتی ہیں تو دل بوجھل و مسوس ہو کر رہ جاتا ہے کہ ان کے شہریوں کو مکمل آزادی، تحفظ اور بہتر ماحول فراہم کیا جاتا ہے، لیکن ان کے رویے پاکستانی قیدیوں کے ساتھ اپنے عقوبت خانوں میں سلوک بڑے انسانیت سوز ہوتے ہیں جو قابل مذمت ہیں۔ انھیں پاکستانی جیلوں میں قید اپنے شہریوں کے ساتھ اچھے حسن سلوک کا قرض ضرور اتارنا چاہیے۔