شہر قائد کی تابندہ روایت…

جہاں اردو ادب کی خدمات میں دوسری سماجی، ثقافتی، ادبی تنظیموں کا ذکر آئے گا وہاں انجمن سادات امروہہ کا تذکرہ ۔۔۔


قمر عباس نقوی April 09, 2014

سال 2014ء کا مار چ کا مہینہ، بہار کے خوشگوار موسم کی آمد آمد ہے۔ کاروبارِ زندگی میں فطری طور پر تیزی آ گئی ہے۔ شہر کے پُرآشوب حالات کے باوجود ایسے میں محبت و خلوص سے بھرے چند لمحات کا میسر آنا یقیناً خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یوں تو ملک کا کوئی ایسا گوشہ نہیں ہو گا جہاں انسان لوٹ مار، رہزنی، ڈکیتی، دہشت گردی، کرپشن سے دوچار نہ ہو رہا ہو مگر کثیر آبادیاتی صنعتی ساحلی شہر کراچی میں مسلسل ایک عشرے سے دہشت گردی کی جو لہر آئی ہے جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ نے پوری قوم کو ذہنی طور پر خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم کس قدر بے حسی اور ستم ظریفی سے اس ظلم کو خاموشی سے برداشت کیے جا رہے ہیں مگر انسان کو کسی بھی لمحے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

جوانمردی اور صبر و استقامت سے ان حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حالات بھی سدا ایک جیسے نہیں رہتے یہ خود بخود اپنی بہتر شکل میں آپ کے سامنے آ جائیں گے۔ ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا راز بھی اسی پوشیدہ حکمت عملی میں ہے۔ تعلیم یافتہ اور ذی شعور، ذی علم شعبہ سے تعلق رکھنے والا بیشتر طبقہ اسی شہر میں آباد ہے خواہ اس کا تعلق متوسط طبقہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ شہر میں ادبی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔ ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے اردو ادب کا سب سے اہم شعبہ شاعری ہے جو محبت کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ اردو ادب ہمارے معاشرے کی اہم اور موروثی ثقافت بھی ہے۔ اردو ادب کی ترقی اور ترویج کے لیے مشاعروں کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری نئی نسل اپنے اس ثقافتی ورثے سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ انگریزی زبان میں سائنسی علوم کی تعلیم کے حصول سے ہمارا یہ ثقافتی ورثہ ماند پڑتا جا رہا ہے۔ ایسے میں ہمارے سماجی اور ادبی تنظیمیں اور ادب سے محبت کرنے والی نامور شخصیات نے اس سلسلے کو جاری رکھا ہوا ہے۔ ایسے موسم میں شعر و شاعری سے لطف اندوز ہونا کائنات کے رنگوں اور پھولوں میں خوشبو پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی سب سے بڑی سماجی، ادبی تنظیم ''ساکنانِ شہر قائد'' جن کا نعرہ ''شہر قائد کی تابندہ روایت'' ہے، جس کے روح رواں اور چشم براہ ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی، اطہر عباس ہاشمی اور اراکین مشاعرہ کمیٹی کی کوششوں سے عالمی معیار کے مشاعرہ کا انعقاد ممکن ہوا۔ یاد رہے کہ یہ تنظیم ملی جذبے کے ساتھ 1989ء سے شعراء اور شاعری سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان تعلق کو قائم رکھے ہوئے ہے۔

امسال بھی یعنی 23 مارچ کی شام ساکنانِ شہر قائد کی طرف سے ایک خوبصورت 23 واں عالمی مشاعرہ 2014ء شہر کے مرکز میں قائم ایکسپو سینٹر کے ایک کشادہ ہال میں اس رنگا رنگ ادبی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کا اسٹیج بہت ہی خوبصورت اور منفرد انداز میں تیار کیا گیا تھا۔ جس میں اندرون اور بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے شعراء نے بھاری تعداد میں شرکت کی، جن میں نوجوان شاعر عمیر علی انجم، عظمیٰ علی خان، تبسم اخلاق (اسلام آباد) (یاد رہے کہ محترمہ جوشؔ ملیح آبادی کی پوتی بھی ہیں)، راشد نور، سیما غزل، اختر سعید، احسن کاظمی (امریکا)، ایشا ناز (بھارت)، ویجے تیواڑی (بھارت)، عنبرین عنبر، ریحانہ روحی، افضل خان، ناصر علی سید (پشاور)، ممتاز نسیم (بھارت)، عباس تابش (لاہور)، طارق سبزواری، عبد الرحمن عبد (امریکا)، وحدت غوری (کوئٹہ) اور بزرگ شاعر ظفر اقبال، عارف شفیق، اجمل سراج وغیرہ نے اپنے خوبصورت الفاظ پر مشتمل اشعار اپنے ولولہ انگیز انداز میں پیش کیے، جس سے حاضرین مجلس اور شائقین کی ایک بڑی تعداد نے بڑھ چڑھ کر خوب داد دی، بالخصوص کھچا کھچ بھرے ہال میں موجود حاضرین کی کثیر تعداد نے ہندوستانی شاعر وجے تیواڑی کے ان اشعار پر اٹھ کھڑے ہوئے اور دل کھول کر ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ خوب داد دی۔

سینے میں طوفان چھپانا پڑتا ہے

آنکھوں کو انجان بنانا پڑتا ہے

ان کا کیا ہے نکل پڑے ہیں بے پردہ

ہم کو تو ایمان بچانا پڑتا ہے

اس محفل کی خاص بات یہ تھی کہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی، جس سے اندازہ لگانا آسان ہو سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی عورت ذی شعور اور صاحب علم ہے۔ مشاعرہ کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول سے ہوا۔ صدارت کے فرائض بزرگ شاعر گلزار دہلوی نے انجام دیے۔ فراست رضوی، سردار خان، عنبرین حسیب عنبر نے بڑے منفرد اور نپے تلے الفاظ میں نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس محفل سخن کے خاص مہمانانِ گرامی میں متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر سید حیدر عباس رضوی اور رابطہ کمیٹی کے فیصل سبزواری کے علاوہ پاکستان ٹیلی وژن کی نامور شخصیات یاور مہدی، اقبال لطیف، شہناز صدیقی شامل تھیں، اپنے مقررہ وقت سے چار گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونے والی یہ محفل صبح تقریباً 6:30 بجے اختتام پذیر ہوئی، یعنی مشاعرہ کا کل دورانیہ مسلسل 6 گھنٹے رہا، ہر شاعر کو 5 سے 10 منٹ کا قیمتی وقت دیا گیا تھا۔ اس مشاعرہ میں شعراء کی ایک بہت بڑی تعداد کو مدعو کیا گیا تھا، قلیل وقت کی وجہ سے وقت کا تعین مشکل ہو رہا تھا۔

جہاں اردو ادب کی خدمات میں دوسری سماجی، ثقافتی، ادبی تنظیموں کا ذکر آئے گا وہاں انجمن سادات امروہہ کا تذکرہ کیے بغیر مضمون نامکمل رہتا ہے۔ قیام پاکستان سے یہ انجمن مسلسل ادیبوں اور شاعروں کے فروغ کے لیے جہدِ مسلسل کر رہی ہے۔ رئیس امروہوی، جون ایلیا جیسے نامور شعراء اسی خطے ''امروہہ'' کی پیداوار ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی شاعری کی خدمت میں وقف کر دی۔ ایسے میں انجمن کی طرف سے ہر سال مشاعروں کا انعقاد اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ انجمن دوسری سرگرمیوں کے علاوہ ادب کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ مورخہ 23 مارچ 2014ء کو ہونے والا عالمی مشاعرہ شاعروں کی حوصلہ افزائی کا ایک اہم سنگ میل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں