کجا مانَد مسلمانیفضا میں اُچھلتی نعشوں‘بکھرے اعضاء آہوں اور کراہوں سے کون لطف اُٹھا رہا ہے
بم دھماکوں کی اس تازہ لہر کی وجہ سے ملک بھر کی طرح جڑواں شہروں کے باسیوں کی ہمت بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔
لاہور:
وفاقی دارالحکومت کے باسی ابھی ایف ایٹ کچہری میں فائرنگ کے دل خراش واقعے کو بھول نہیں پائے تھے کہ 9 اپریل کو ایچ الیون سیکٹر اسلام آباد کی سبزی منڈی میں فروٹ کی پیٹیوں میں رکھے ہوئے بم دھماکے نے سہمے ہوئے شہریوں کو مزید کرب سے دوچار کر دیا۔
اب اِن چہروں پر یہ سوال لکھا ہوا ہر ایک کو نظر آ رہا ہے کہ حکومت ایک طرف تو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بم دھماکوں کے قلع قمع کی نوید دے رہی ہے تو دوسری جانب یہ سلسلہ اُسی طرح کیوں جاری وساری ہے؟ ایک دن قبل جعفر ایکسپریس کا سانحہ رونما ہوا تو دوسرے دن سبزی منڈی میں 23 معصوم ظالموں کے ہاتھوں لقمۂ اجل ہو گئے اور 70 کے قریب زخمی ہوئے، ان میں سے 20 زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ کیا قیامت کا سماں تھا، ہر طرف آہ و بکا کی دل چیر صدائیں صبح کی صباحت میں ہول پیدا کر رہی تھیں۔ منڈی کے قریب واقع کالونی کے رہاشی بھاپا عارف نے بتایا کہ دھماکے کی آواز دل دہلا دینے والی تھی اور یہ اتنا شدید تھا کہ اس کی دھمک نے جاں بہ حق ہونے والوں کی نعشوں کو فضا میں بیس فٹ سے بھی زیادہ اچھالا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ منڈی میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد مزدوری کے لیے روزانہ آتی جاتی ہے، ان کے پاس پاکستانی شہری ہونے کی ''غیرقانونی، قانونی'' دستاویزات موجود ہوتی ہیں تاہم ان کے لب و لہجے اور باڈی لینگوئج سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں، بہتوں کو تو اردو یا پنجابی زبان بھی نہیں آتی۔
بم دھماکوں کی اس تازہ لہر کی وجہ سے ملک بھر کی طرح جڑواں شہروں کے باسیوں کی ہمت بھی جواب دیتی جا رہی ہے اور دشمن شاید یہ ہی چاہتا ہے، کارپردازوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینا پڑے گی، حکومت کی طفل تسلیاں دم توڑتی نظر آتی ہیں ادھر تحریکِ طالبان پاکستان نے اس دھماکے علاوہ سبی ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے دونوں حملے سے نہ صرف لاتعلقی کا اظہار کیا بل کہ مذمت بھی کی ہے۔ تحریک کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک ای میل پیغام کے ذریعے کہا ہے کہ بے گناہ عوام پر کیے جانے والے حملے شرعاً ناجائز اور حرام ہیں۔ حالت یہ ہے کہ دھماکا کرنے والے مان نہیں رہے اور دھماکوں کو روکنے والے دھماکے کرنے والوں کو پہچان نہیں رہے۔ اس تازہ واقعہ کا ایک شاخ سانہ یہ بھی ہے کہ جس جگہ دھماکہ ہوا وہاں پر پولیس اہل کاروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی حال آں کہ تھانہ سبنری منڈی، جائے سانحہ سے چند ہی میٹر کے فاصلے پر ہے۔
حکام کے مطابق اس تھانے میں پولیس اہل کاروں کی تعداد صرف 25 ہے۔ اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق روز گار اور کاروبار کے سلسلے میں روزانہ دو سے تین لاکھ افراد اس علاقے میں آتے ہیں اور اْن کی حفاظت اور مشتبہ افراد پر نظر رکھنے کے لیے پولیس اہل کاروں کی یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسلام آباد پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے سبزی منڈی میں مناسب حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے منڈی کے تاجروں نے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی اقدامات کیے ہوئے تھے لیکن حکام کی ہدایات کی روشنی میں وہاں پر تعینات سیکیوریٹی گارڈز یہ کہ کر ہٹا دیے کہ اْنھیں بھتا خوری کی وارداتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جس وقت یہ دھماکا ہوا اْس وقت وہاں پر سات سو کے لگ بھگ افراد موجود تھے جن مزدوروں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو پھلوں کی ریڑھیوں پر ڈال کر سڑک تک لایا گیا جہاں سے اْنھیں گاڑیوں میں ڈال کر اسپتال پہنچایا گیا جب کہ اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ یعنی سی ڈی اے تین کروڑ روپے سالانہ کے حساب سے وصولی کرتا ہے۔ منڈی سے گاڑیوں کی پارکنگ اور سبزی اور پھل سے لدی ہوئی گاڑیوں سے منڈی میں داخلے کی مد میں 120 روپے فی گاڑی کے حساب سے لیے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی سبزی منڈی میں دھماکا ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے، اس واقعہ کے بعد سبزی منڈی کے اطراف میں دیوار تعمیر کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی۔ پولیس کے آئی جی خالد خٹک کے مطابق یہ سبزی منڈی علاقے کی بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے اور یہاں مختلف علاقوں سے پھلوں اور سبزیوں کے تاجر آتے ہیں۔
انہوں نے تو صاف صاف یہ بھی کہ دیا کہ ہر ٹرک اور ہر شخص کو چیک کرنا ممکن نہیں۔ دھماکے کی ذمہ داری یونائیٹد بلوچ آرمی نے قبول کر لی ہے۔ اسی تنظیم نے ایک روز قبل سبی ٹرین دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اسلام آباد کے اس حملے کی نوعیت خود کش معلوم نہیں پڑتی تاہم تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کا یہ افسوس ناک واقعہ بد ھ کی صبح 8:15 بجے پیش آیا جب سبزی منڈی میں امرود کی پیٹیوں کی خریداری کے لیے بولی لگائی جارہی تھی،د ھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز آٹھ دس کلو میٹر دور تک سنائی دی۔ دھماکے میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے اتلاف کے علاوہ درجن سے زیادہ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ بہ ظاہر یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ دھماکا خیز مواد امرود کی پیٹیوں میں رکھا گیا تھا اور اسے ٹائم ڈیوائیس کے ذریعے اڑایا گیا ہوگا البتہ یہ طے ہے کہ امرود کی یہ پیٹیاں عارفوالہ پاک پتن اور شرق پور سے لائی گئی تھیں۔ دھماکے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور کی آواز کے رینج سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس میں 5 کلوگرام مواد استعمال کیا گیا تھا۔ اسسٹنٹ آئی جی اسلام آباد سلطان اعظم تیموری نے بھی اتنی ہی مقدار کا اندازہ بتایا ہے۔
سبزی منڈی راول پنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع ہے اور صبح کے وقت منڈی میں خریدو فروخت کرنے والوں کے علاوہ منڈی کے قریب ہی جنرل بس اسٹینڈ بھی واقع ہے جہاں سے جڑواں شہروں، کے پی کے اور پنجاب کے دوسرے شہروں کو جانے اور وہاں سے آنے جانے والوں کا تانتا بھی بندھا رہتا ہے، جس کی وجہ سے یہ دونوں شہروں کا سب سے پرہجوم مقام بنتا ہے۔ دھماکے کے بعد وفاقی دارالحکومت سمیت جڑواں شہروں کی سیکیوریٹی سخت کردی گئی ہے اور اس حوالے سے وزارتِ داخلہ نے وفاقی پولیس اور راول پنڈی پولیس کے اعلیٰ افسران کو ہدایات جاری کی ہیں کہ شہر کی سیکیوریٹی کو ہر لحاظ سے یقینی بنایا جائے اور مشتبہ افراد پر کڑی نظر رکھی جائے، جس کے بعد دونوں شہروں کے مختلف حساس علاقوں میں وفاقی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سرچ آپریشن شروع کردیا تھا۔ وزارت داخلہ کی ہدایت پر دارالحکومت کے تمام مرکزی داخلی و خارجی راستوں پر اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس نے مشترکہ طور پر حساس مقامات پر سرچ آپریشن شروع کردیا ہے اس حوالے سے کچی اور افغان بستیوں، زیر تعمیر پلازوں، دیہی علاقوں، ریستورانوں، سرایوں اور دیگر علاقوں کی تلاشی بھی شروع کی گئی جب کہ تھانہ سبزی منڈی سے ملحقہ افغان کچی آبادی میں بھی بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
تین مارچ کو بھی اسلام آباد میں ایف ایٹ کچہری کمپلیکس میں خودکش دھماکے اور فائرنگ سے ایک جج سمیت کم از کم 12 افراد جاں بہ حق ہوئے تھے اور اس واقعے کی ذمہ داری ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم احرار الہند نے قبول کی تھی۔ سبزی منڈی کے قریب ہی ایک بہت بڑی کچی بستی بھی آباد ہے، جہاں اس سے قبل پولیس کی طرف سے کیے جانے والے سرچ آپریشنز میں متعدد مشتبہ لوگوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے اور وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان بھی وفاقی دارالحکومت اور اس کے نواح میں واقع کچی بستیوں کو سیکیوریٹی رسک قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیتے رہتے ہیں۔
یہ تازہ واقعہ ایسے دورانیے میں پیش آیا ہے جب حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن بہ حال کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ طالبان نے یکم مارچ کو ایک ماہ کے لیے فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس کی معیاد ختم ہونے پر انھوں نے یکم اپریل سے اس میں مزید دس دن کی توسیع کر دی اور منسلک گروپوں کو کسی بھی طرح کے حملوں سے باز رہنے کو بھی کہا تھا۔ سبی اور اسلام آباد سبزی منڈی میں ہونے والے بم دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم فائر بندی کے اعلان پر پوری طرح کاربند ہے، اس طرح اس دھماکے کے درپردہ مقاصد ابھی تک غیرواضح ہیں۔
وفاقی دارالحکومت کے باسی ابھی ایف ایٹ کچہری میں فائرنگ کے دل خراش واقعے کو بھول نہیں پائے تھے کہ 9 اپریل کو ایچ الیون سیکٹر اسلام آباد کی سبزی منڈی میں فروٹ کی پیٹیوں میں رکھے ہوئے بم دھماکے نے سہمے ہوئے شہریوں کو مزید کرب سے دوچار کر دیا۔
اب اِن چہروں پر یہ سوال لکھا ہوا ہر ایک کو نظر آ رہا ہے کہ حکومت ایک طرف تو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بم دھماکوں کے قلع قمع کی نوید دے رہی ہے تو دوسری جانب یہ سلسلہ اُسی طرح کیوں جاری وساری ہے؟ ایک دن قبل جعفر ایکسپریس کا سانحہ رونما ہوا تو دوسرے دن سبزی منڈی میں 23 معصوم ظالموں کے ہاتھوں لقمۂ اجل ہو گئے اور 70 کے قریب زخمی ہوئے، ان میں سے 20 زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ کیا قیامت کا سماں تھا، ہر طرف آہ و بکا کی دل چیر صدائیں صبح کی صباحت میں ہول پیدا کر رہی تھیں۔ منڈی کے قریب واقع کالونی کے رہاشی بھاپا عارف نے بتایا کہ دھماکے کی آواز دل دہلا دینے والی تھی اور یہ اتنا شدید تھا کہ اس کی دھمک نے جاں بہ حق ہونے والوں کی نعشوں کو فضا میں بیس فٹ سے بھی زیادہ اچھالا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ منڈی میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد مزدوری کے لیے روزانہ آتی جاتی ہے، ان کے پاس پاکستانی شہری ہونے کی ''غیرقانونی، قانونی'' دستاویزات موجود ہوتی ہیں تاہم ان کے لب و لہجے اور باڈی لینگوئج سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں، بہتوں کو تو اردو یا پنجابی زبان بھی نہیں آتی۔
بم دھماکوں کی اس تازہ لہر کی وجہ سے ملک بھر کی طرح جڑواں شہروں کے باسیوں کی ہمت بھی جواب دیتی جا رہی ہے اور دشمن شاید یہ ہی چاہتا ہے، کارپردازوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینا پڑے گی، حکومت کی طفل تسلیاں دم توڑتی نظر آتی ہیں ادھر تحریکِ طالبان پاکستان نے اس دھماکے علاوہ سبی ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے دونوں حملے سے نہ صرف لاتعلقی کا اظہار کیا بل کہ مذمت بھی کی ہے۔ تحریک کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک ای میل پیغام کے ذریعے کہا ہے کہ بے گناہ عوام پر کیے جانے والے حملے شرعاً ناجائز اور حرام ہیں۔ حالت یہ ہے کہ دھماکا کرنے والے مان نہیں رہے اور دھماکوں کو روکنے والے دھماکے کرنے والوں کو پہچان نہیں رہے۔ اس تازہ واقعہ کا ایک شاخ سانہ یہ بھی ہے کہ جس جگہ دھماکہ ہوا وہاں پر پولیس اہل کاروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی حال آں کہ تھانہ سبنری منڈی، جائے سانحہ سے چند ہی میٹر کے فاصلے پر ہے۔
حکام کے مطابق اس تھانے میں پولیس اہل کاروں کی تعداد صرف 25 ہے۔ اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق روز گار اور کاروبار کے سلسلے میں روزانہ دو سے تین لاکھ افراد اس علاقے میں آتے ہیں اور اْن کی حفاظت اور مشتبہ افراد پر نظر رکھنے کے لیے پولیس اہل کاروں کی یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسلام آباد پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے سبزی منڈی میں مناسب حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے منڈی کے تاجروں نے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی اقدامات کیے ہوئے تھے لیکن حکام کی ہدایات کی روشنی میں وہاں پر تعینات سیکیوریٹی گارڈز یہ کہ کر ہٹا دیے کہ اْنھیں بھتا خوری کی وارداتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جس وقت یہ دھماکا ہوا اْس وقت وہاں پر سات سو کے لگ بھگ افراد موجود تھے جن مزدوروں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو پھلوں کی ریڑھیوں پر ڈال کر سڑک تک لایا گیا جہاں سے اْنھیں گاڑیوں میں ڈال کر اسپتال پہنچایا گیا جب کہ اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ یعنی سی ڈی اے تین کروڑ روپے سالانہ کے حساب سے وصولی کرتا ہے۔ منڈی سے گاڑیوں کی پارکنگ اور سبزی اور پھل سے لدی ہوئی گاڑیوں سے منڈی میں داخلے کی مد میں 120 روپے فی گاڑی کے حساب سے لیے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی سبزی منڈی میں دھماکا ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے، اس واقعہ کے بعد سبزی منڈی کے اطراف میں دیوار تعمیر کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی۔ پولیس کے آئی جی خالد خٹک کے مطابق یہ سبزی منڈی علاقے کی بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے اور یہاں مختلف علاقوں سے پھلوں اور سبزیوں کے تاجر آتے ہیں۔
انہوں نے تو صاف صاف یہ بھی کہ دیا کہ ہر ٹرک اور ہر شخص کو چیک کرنا ممکن نہیں۔ دھماکے کی ذمہ داری یونائیٹد بلوچ آرمی نے قبول کر لی ہے۔ اسی تنظیم نے ایک روز قبل سبی ٹرین دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اسلام آباد کے اس حملے کی نوعیت خود کش معلوم نہیں پڑتی تاہم تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کا یہ افسوس ناک واقعہ بد ھ کی صبح 8:15 بجے پیش آیا جب سبزی منڈی میں امرود کی پیٹیوں کی خریداری کے لیے بولی لگائی جارہی تھی،د ھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز آٹھ دس کلو میٹر دور تک سنائی دی۔ دھماکے میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے اتلاف کے علاوہ درجن سے زیادہ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ بہ ظاہر یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ دھماکا خیز مواد امرود کی پیٹیوں میں رکھا گیا تھا اور اسے ٹائم ڈیوائیس کے ذریعے اڑایا گیا ہوگا البتہ یہ طے ہے کہ امرود کی یہ پیٹیاں عارفوالہ پاک پتن اور شرق پور سے لائی گئی تھیں۔ دھماکے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور کی آواز کے رینج سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس میں 5 کلوگرام مواد استعمال کیا گیا تھا۔ اسسٹنٹ آئی جی اسلام آباد سلطان اعظم تیموری نے بھی اتنی ہی مقدار کا اندازہ بتایا ہے۔
سبزی منڈی راول پنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع ہے اور صبح کے وقت منڈی میں خریدو فروخت کرنے والوں کے علاوہ منڈی کے قریب ہی جنرل بس اسٹینڈ بھی واقع ہے جہاں سے جڑواں شہروں، کے پی کے اور پنجاب کے دوسرے شہروں کو جانے اور وہاں سے آنے جانے والوں کا تانتا بھی بندھا رہتا ہے، جس کی وجہ سے یہ دونوں شہروں کا سب سے پرہجوم مقام بنتا ہے۔ دھماکے کے بعد وفاقی دارالحکومت سمیت جڑواں شہروں کی سیکیوریٹی سخت کردی گئی ہے اور اس حوالے سے وزارتِ داخلہ نے وفاقی پولیس اور راول پنڈی پولیس کے اعلیٰ افسران کو ہدایات جاری کی ہیں کہ شہر کی سیکیوریٹی کو ہر لحاظ سے یقینی بنایا جائے اور مشتبہ افراد پر کڑی نظر رکھی جائے، جس کے بعد دونوں شہروں کے مختلف حساس علاقوں میں وفاقی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سرچ آپریشن شروع کردیا تھا۔ وزارت داخلہ کی ہدایت پر دارالحکومت کے تمام مرکزی داخلی و خارجی راستوں پر اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس نے مشترکہ طور پر حساس مقامات پر سرچ آپریشن شروع کردیا ہے اس حوالے سے کچی اور افغان بستیوں، زیر تعمیر پلازوں، دیہی علاقوں، ریستورانوں، سرایوں اور دیگر علاقوں کی تلاشی بھی شروع کی گئی جب کہ تھانہ سبزی منڈی سے ملحقہ افغان کچی آبادی میں بھی بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
تین مارچ کو بھی اسلام آباد میں ایف ایٹ کچہری کمپلیکس میں خودکش دھماکے اور فائرنگ سے ایک جج سمیت کم از کم 12 افراد جاں بہ حق ہوئے تھے اور اس واقعے کی ذمہ داری ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم احرار الہند نے قبول کی تھی۔ سبزی منڈی کے قریب ہی ایک بہت بڑی کچی بستی بھی آباد ہے، جہاں اس سے قبل پولیس کی طرف سے کیے جانے والے سرچ آپریشنز میں متعدد مشتبہ لوگوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے اور وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان بھی وفاقی دارالحکومت اور اس کے نواح میں واقع کچی بستیوں کو سیکیوریٹی رسک قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیتے رہتے ہیں۔
یہ تازہ واقعہ ایسے دورانیے میں پیش آیا ہے جب حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن بہ حال کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ طالبان نے یکم مارچ کو ایک ماہ کے لیے فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس کی معیاد ختم ہونے پر انھوں نے یکم اپریل سے اس میں مزید دس دن کی توسیع کر دی اور منسلک گروپوں کو کسی بھی طرح کے حملوں سے باز رہنے کو بھی کہا تھا۔ سبی اور اسلام آباد سبزی منڈی میں ہونے والے بم دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم فائر بندی کے اعلان پر پوری طرح کاربند ہے، اس طرح اس دھماکے کے درپردہ مقاصد ابھی تک غیرواضح ہیں۔