آئی ایم ایف سے معاہدہ ضروری مگر…

حکومتی سطح پر یہ بات لاکھ خوش آیند سہی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے کے امکانات روشن ہوئے ہیں


Editorial February 09, 2023
حکومتی سطح پر یہ بات لاکھ خوش آیند سہی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے کے امکانات روشن ہوئے ہیں (فوٹو ٹوئٹر)

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری مذاکرات میں نویں اقتصادی جائزہ کی تکمیل کے لیے اسٹاف سطح کا معاہدہ طے پانے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ گیس کے سرکلر ڈیٹ اور ٹیکسوں میں اضافے پر بھی عالمی ادارے کو ابھی مطمئن کرنا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ پالیسی سطح کے حتمی مذاکرات میں ڈیبٹ مینجمنٹ پلان ، گردشی قرضوں میں کمی ، بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے، ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو اقدامات اور انرجی ریفارمز کے لیے اقدامات طے کیے جائیں گے۔

حکومتی سطح پر یہ بات لاکھ خوش آیند سہی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے کے امکانات روشن ہوئے ہیں، لیکن آئی ایم ایف کی کڑی شرائط من و عن تسلیم کرنے سے عام آدمی کی مشکلات بہت زیادہ بڑھ جائیں گی، اس بات پر حکومت قطعاً توجہ نہیں دی رہی ہے۔

آئی ایم ایف نے معاشی اصلاحات میں تاخیر، قرضے، مہنگائی میں اضافہ، زرمبادلہ ذخائر میں کمی کو معاشی چینلجز میں شامل کیا ہے جب کہ موجودہ معاشی و مالی مشکلات کی بڑی وجہ قرض پروگرام پر مؤثر عمل نہ ہونا قرار دیا ہے۔

حکومت کی جانب سے آیندہ ہفتے ٹیکس، نان ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے اقدامات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، فضائی ٹکٹ پر 17 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے اور مہنگے سگریٹ پر 50 پیسے فی اسٹک ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز ہے۔

انرجی ڈرنکس پر ٹیکس بڑھانے، بینکوں کی آمدن پر لیوی لگانے اور پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی میں مزید اضافہ اور17سے18فیصد جی ایس ٹی کی بھی تجویز ہے۔

اس وقت ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی افواہ پر پاکستان کے متعدد شہروں میں پٹرول پمپس پر لمبی قطاریں لگ چکی ہیں، موٹرسائیکل سواروں کو 300 اور کار والوں کو صرف ایک ہزار یا دو ہزار روپے کا پٹرول دیا جارہا ہے۔

پٹرول لینے کے لیے گاڑیوں کی لمبی لائنوں میں شہری گھنٹوں انتظار کرنے پر مجبور ہیں، گوجرانوالہ کے بیشتر پٹرول پمپس سے پٹرول کی سپلائی بند ہونے پر شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود پٹرول نا ملنا حکومت کی ناکامی ہے، مصنوعی بحران پیدا کرکے شہریوں کا خوار کیا جارہا ہے، حکومت پٹرول کی سپلائی بحال کرے۔

دوسری جانب بین الاقوامی اقتصادی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سے یومیہ پچاس لاکھ ڈالر افغانستان جارہے ہیں۔ اور پاکستان سے ڈالر اسمگلنگ طالبان حکومت کی لائف لائن ہے، افغانستان کی یومیہ ضرورت ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر ہے۔ ڈالر اسمگلرز بھی افغانی کرنسی خرید رہے ہیں، اسی وجہ سے افغانی کرنسی کی قدر میں5.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

دسمبر 2021 میں ایک ڈالر کے 124 افغانی روپے مل رہے تھے، جو اب تقریبا 90روپے ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق اس دورانیے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت اس دوران37 فیصد کم ہوئی اور افغان کرنسی دنیا کی مضبوط کرنسی بن گئی ہے۔

جنوری کے آخر تک پاکستانی کرنسی میں ایک دن میں تقریباً 10فیصد کی کمی واقع ہوئی جو کہ کم از کم دو دہائیوں میں سب سے بڑی گراوٹ ہے جس کی اہم وجہ حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کے لیے نرمی دکھا کر ڈالر پر مصنوعی کنٹرول ختم کرنا ہے۔

گزشتہ ایک سال سے پاکستان کو تباہ کن سیلاب، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے جب کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر3.09ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو کہ 9سال میں کم ترین سطح ہے۔

پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان میں اسمگل کیے جا رہے ہیں، جس سے افغانستان کی معیشت کو تو سہارا مل رہا ہے، لیکن پاکستان بربادی کے دہانے پر کھڑا ہوچکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے طالبان حکومت کی اربوں ڈالرز کے غیر ملکی ذخائر تک رسائی روکی ہوئی ہے، اس کے باوجود پاکستان سے جانے والے ڈالر نے ان کی معیشت بحال رکھی ہوئی ہے۔

دوسری جانب پاکستان سے ڈالرز کا یہ اخراج ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشی بحران کو بڑھا رہا ہے۔

ڈالرز کے اس غیر قانونی بہاؤ سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کس طرح 2021 میں ملک پر قبضے کے بعد پابندیوں سے بچتے آرہے ہیں لیکن پاکستان کے لیے غیر قانونی بہاؤ غیر ملکی ذخائر میں کمی اور روپے پر دباؤ میں اضافہ کر رہا ہے، ملکی کرنسی ریکارڈ کم ترین سطح پر گر رہی ہے ، بلا شبہ کرنسی اسمگل کی جا رہی ہے۔

یہ کافی منافع بخش کاروبار بن گیا ہے ، چونکہ افغانستان عالمی بینکنگ سسٹم سے منقطع ہے، اس لیے نقد رقم کابل منتقل کی جاتی ہے، اور بعد میں اسے افغانی، مقامی کرنسی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا اگرچہ اس امداد سے طالبان کو براہِ راست فائدہ نہیں پہنچتا، لیکن بالآخر ڈالر مرکزی بینک کے خزانے میں پہنچتے ہیں۔

اصل مسئلہ پاکستان کی ناقص امیگریشن، تجارتی پالیسیاں اور بارڈر کنٹرولز کا ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ بغیر ویزے کے سرحد پار کر رہے ہیں اور ان میں سے کئی ڈالرلے کر جا رہے ہیں۔

پاکستان کو ہر مہینے تین ارب ڈالر ترسیلات زر کی صورت میں موصول ہوتے تھے، جو اب ایک ارب ڈالر کمی کے بعد محض دو ارب رہ گئے ہیں جب کہ ہماری برآمدات اور ترسیلات زر میں ایک ایک ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ پیسہ جو پہلے پاکستان آتا تھا، اب حوالہ سسٹم کے ذریعے افغانستان بھیجا جا رہا ہے، جو پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

دوسری جانب افغانستان کے علاقے ویش سے چمن اور دیگر سرحدی راستوں سے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پچھلے بائیس برس سے بلوچستان آرہی ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب تو یہ صوبہ اسمگلڈ شدہ گاڑیوں کی بڑی منڈی بن چکا ہے۔

ان گاڑیوں کے صارفین کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد اور پشاور میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ سے تین لاکھ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اب بھی کوئٹہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں عام افراد، پولیس اہلکاروں اور سرکاری افسران کے زیرِاستعمال ہیں۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اسمگلنگ کی روک تھام کے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جانے کے باعث قومی خزانے کو ٹیکس کی مَد میں سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔

ماہرین کی تجویز ہے کہ اگر حکومت ملک میں موجود نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ایک مرتبہ پھر ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ریگولرائز کر دے تو نہ صرف ملکی خزانے کو اربوں روپے کا فائدہ ہو سکتا ہے بلکہ گاڑیوں کا مکمل ریکارڈ بھی نادرا اور پولیس کے پاس مرتب ہو سکتا ہے۔

بلاشبہ بین الاقوامی سیاسی ماحول معیشت پر بہت زیادہ اثر انداز ہو رہا ہے، مثال کے طور پر پہلے کموڈٹی سپر سائیکل اور بعد میں روس، یو کرین جنگ نے ترقی پذیر ممالک کے اقتصادی منتظمین کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کیں۔ اہم اجناس اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا۔

سرمائے کی کمی سے دوچار ترقی پذیر معیشتیں عوام کو سبسڈی فراہم نہیں کر سکیں، یہاں تک کہ نسبتاً مستحکم ممالک بھی گلوبلائزڈ دنیا میں سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

ان حالات کی وجہ سے سیاسی انتشار بڑھ رہا ہے اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، معیشت کے لیے بیلنس آف پیمنٹ (BOP) حدبندی کا کام کرتا ہے کیونکہ یہ جی ڈی پی کی نمو کی بالائی حد کے طور پر کام کرتا ہے۔

زیادہ سے زیادہ حد کا مطلب ہے کہ یہBOP کی مشکلات کے بغیر قابل حصولGDP کی زیادہ سے زیادہ سطح ہے۔2006میں یہ حد4.5 فیصد کے لگ بھگ تھی، جو اب کم ہوکر3.8فیصد رہ گئی ہے، یہ کمی اسٹرکچرل اصلاحات کی عدم موجودگی کی وجہ سے واقع ہوئی، زیادہ سے زیادہ بالائی حد میں کمی معیشت میں اسٹرکچرل کمزوری کو ظاہر کرتی ہے، اگر ہم معیشت کو اس سطح سے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو BOPایک رکاوٹ بن جائے گا۔

اب یہ موجودہ اتحادی حکومت کی معاشی ٹیم کی ذمے داری ہے کہ وہ کیسے اس سارے سائیکل کو پورا کر پاتی ہے۔

پاکستان نے ہر دور میں افغانستان کو ایک ہمسایہ برادر اسلامی ملک سمجھتے ہوئے اس کی ہمیشہ ہر طرح سے مدد کی۔ اس وقت بھی جب طالبان حکومت کو کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے مگر پاکستان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہ صرف خود اس کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ اس نے باقی عالمی سطح پر بھی افغانوں کے مسائل اور مشکلات دور کرنے میں مدد دینے کے لیے ہر فورم پر آواز اُٹھائی ہے۔

ایسے میں کابل کی طالبان حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کی شکر گزاری کرے لیکن اس کے برعکس وہ دہشت گردی سے چشم پوشی کر رہی ہے۔ ضروری ہے کہ کابل حکومت اپنی سرحدوں سے پاکستان میں دہشت گردوں کا داخلہ روکے اور پاکستان نے جو افغانستان کے ساتھ آج تک ہمدردیاں کی ہیں اس کے جواب میں وہ پاکستان میں امن رہنے دے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں