یہاں ڈوبے وہاں نکلے
آخر پچھتر سال بہت ہوتے ہیں اس مدت میں ان کے یہ ’’کنوئیں‘‘ بھر چکے ہوتے
صدر محترم نے فرمایا ہے کہ عوام کی بھلائی کے لیے ووٹ دیں، ظاہر ہے کہ وہ راشٹرپتی ہیں تو ان کی بات ماننا ہمارا فرض بنتا ہے لیکن اگر جان کی امان پائیں تو یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اب تک ان کم بخت ، تیرہ بخت ،سیاہ بخت اور بدبخت عوام جو ووٹ ڈالتے رہے ہیں ان سے ان بے چاروں کو کونسے نفلوں کا ثواب ملا، کونسی جنت الفردوس حاصل ہوئی اورکونسا کالا،سفید یا سبز ،سرخ باغ ملا۔
کہا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں میرا بھلا نہ ہوا
دور دورکی بات نہیں کریں گے، ابھی ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہوں گے کہ بدبختوں نے اتنے زور شور سے کئی مقامات پر ووٹ ڈالے کہ اس میں بے چارے سیلاب زدگان بھی دوبارہ بہہ گئے اور یقیناً اس پر دولت بھی خرچ ہوئی ہوگی۔
کہتے ہیں کہ ایک بزرگ کودسترخوان پر بیٹھنا بہت پسند تھا لیکن اس کے ساتھ ایک پرابلم تھی اور یہ کوئی فرضی حکایت نہیں بلکہ تاریخی واقعہ ہے۔
پرابلم یہ تھی کہ ان بزرگوں کے اندر میٹر نہیں لگا تھا یعنی اسے یہ پتہ نہیں چلتاکہ بس باقی ہوس۔ ٹینک فل ہوگیا چنانچہ اس غرض کے لیے اس نے اپنے ایک شاگرد خاص کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ واردات کے دوران میری طرف دیکھتے رہنا اور بس کرنے کااشارہ کرنا۔ یہ تدبیرکامیابی سے چلتی رہی، شاگرد استاد کے شاید نوالے گن کر استاد کو اشارہ کردیتا اور استاد دی اینڈ کر دیتا، لیکن شومئی قسمت سے ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک بہت ہی بڑے اور مقتدر شخص نے دعوت کا اہتمام کیا ہواتھا اورانتظام میں یہ بات بھی شامل تھی کہ عام لوگوں کو الگ اورخاص لوگوں کو الگ الگ بٹھایا اور کھلایا ۔
بزرگ کاشاگرد بھی اس انتظام کے تحت ان سے الگ ہوگیا۔خاص لوگوں کاکھانا بھی خاص تھا اس لیے استاد نے اپنے ''رخش'' کو ایسا چھوڑا کہ نہ ہاتھ باگ پر تھے نہ پا تھے رکاب میں، استاد کے اندر میٹر تو تھا نہیں، اس لیے اسٹاپ کا سوال ہی نہیں تھاجب لوگ دسترخوان سے اٹھنے لگے تو استاد اپنی جگہ سے ہلاہی نہیں اورجب دیکھا گیا تو استاد مرچکا تھا اور شہید شکم کا رتبہ پاچکاتھا ۔
شہید عشق ہوئے قیس نامورکی طرح
کیے عیب بھی ہم نے تو ایک ہنر کی طرح
دسترخوان پاکستان کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا، کم ازکم آج تک تو ایسا کوئی واقعہ ریکارڈ پر نہیں آیا، شاید یہاں معاملہ وہی ہوا جس کا ذکر ایک سائنس فکشن کہانی میں ہواہے ،کہانی کے مطابق ایک راہ چلتے ہوئے شخص کو راستے میں پڑی ہوئی ایک خوبصورت گولی ملی تو اس نے اسے کھانے کی چیز سمجھ کر کھالیا اور جیسے ہی گولی پیٹ میں پہنچی اسے کھانے کا ہوکا لگ گیا۔
ایک قریبی ہوٹل میں گیا، کھانے کاآرڈردیا اورپھر کھاتارہا،وہ آرڈرکرتا رہا ،ویٹر کھانا لاتے رہے یہاں تک کہ ہوٹل کاساراکھانا چٹ کرگیا ،ہوٹل میں تو چرچا ہوہی گیاتھا پھر بات باہربھی پھیل گئی لیکن وہ شخص بدستورآرڈر دیتا رہا، ہوٹل والے اڑوس پڑوس کے ہوٹلوں سے رجوع ہوئے لیکن سارا کھاناکھا کر بھی اس شخص کا پیٹ نہیں بھر رہاتھا، خبر دوردور تک پھیل گئی، ٹی وی چینل والے بھی آگئے، ڈاکٹر لوگ بھی پہنچ گئے۔
بات مزید پھیل گئی تو پتہ چلا کہ اور بھی کئی ملکوں میں شہروں میں اور علاقوں میں لوگوں کو یہی عارضہ لاحق ہوچکاہے ،ان لوگوں کے میڈیکل چیک ہوئے تو پتہ چلا کہ جوان لوگوں نے کھائی تھی وہ کوئی گولی نہیں تھی بلکہ ایسا ٹرانسفارمر تھی جو ایک اور سیارے کے باسیوں نے اس غرض سے پھینکی تھی کہ اس سیارے میں خوراک کی قلت ہوگئی اور اس قلت کودورکرنے کے لیے وہ یہاں سے غذاکھینچ رہے ہیں جسے توانائی میں بدل کر وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرتے تھے ۔ہمیں بھی کچھ ایسا لگنے لگا ہے کہ وہ جو فرنگی لوگ یہاں تھے اور ہماری دولت اپنے ملک کھینچ رہے تھے انھوں نے جاتے جاتے کچھ مخصوص لوگوں اور خاندانوں میں ایسے آلات فٹ کردیے تھے کہ وہ جو کچھ ہڑپتے ہیں وہ سیدھا ان کے پاس چلا جاتاہے کیوں کہ اس کے سوا اورکوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔
آخر پچھتر سال بہت ہوتے ہیں اس مدت میں ان کے یہ ''کنوئیں'' بھر چکے ہوتے لیکن جب نہیں بھر رہے ہیں تو اس کی یہی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ جو کچھ یہ یہاں نگلتے ہیں وہ کہیں اورجاکر نکلتا ہے۔ایسے میں دسترخوان اور بیٹھنے والے بدل بھی جائیں تو کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ ٹرانسمیشن برابر جاری ہے، الیکشن مائی فٹ، تبدیلی دھوکا، معیشت فٹے منہ، فلاح ہائے ہائے۔