داروغۂ جنت
دو قومی نظریے اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے قائداعظم کو مِس کوٹ کرکے مزے لیے جا رہے ہیں۔
بیاسی برس کے بزرگ نے مسجد سے نکلتے ہوئے میرا ہاتھ تھاما اور بولے ''یہ جو اسلام آباد کی پہاڑیوں پر لکھے 'ایمان، اتحاد، تنظیم' والی ترتیب ہے اس کے بارے میں، میں نے مشرف کو پیغام دیا تھا کہ درست کرو۔ میرے قائداعظم کی ترجیحات میں کنفیوژن پیدا کیا جارہا ہے۔''
پھر انھوں نے کہا ''تمہیں معلوم ہے آنے والے اکتوبر میں، میں کتنے برس کا ہوجائوں گا؟... چلو۔ ہونے کی بات چھوڑو۔ اب تو جانے کی بات ہے۔'' اور تب بانی پاکستان اور تحریکِ پاکستان پر پچیس کتابوں کے مصنف اور قائد کی معیت میں کام کرنے والے رضوان احمد صاحب نے بتایا کہ جس دن میرے قائد نے دنیا سے کوچ کیا ہے اگر میرا بھی رخصت کا دن وہی ہو تو کیا بات ہے! میں نے جواب میں وہی کہا جو کہا جاتا ہے۔
ارے چھوڑیں رضوان صاحب۔ آپ کو تو ابھی سینچری پوری کرنی ہے۔ یوں ہی تھوڑی جانے دیں گے۔ جواب میں اس سدا بہار اور زندہ دل آدمی نے ایک قہقہہ لگایا اور ہاتھ کا دبائو میرے کندھے پر بڑھادیا۔ بات فضا میں پھیلی اور ہنسی میں گم ہوگئی۔
ایک روز قائداعظم کی تقاریر کی الٹی سیدھی تاویلیں کرنے اور انھیں حسبِ منشا توڑ مروڑ کے استعمال کرنے سے بات نکلی تو روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی پر جاپہنچی۔ چلتے چلتے رک گئے اور قہقہہ لگا کے بولے ''آج ان دونوں باتوں کے پس منظر میں ایک لطیفہ سنو۔'' میں نے کہا، ''سنائیں۔''
بولے، ''مسجد سے نکل کے ایک صاحب گھر جارہے تھے کہ ایک گداگر نے ہاتھ پھیلا دیا۔ انھوں نے ایک روپیہ ہاتھ پر رکھ دیا۔ گداگر بولا، ''صاحب، پہلے آپ دس روپے دیا کرتے تھے، پھر پانچ روپے کردیے، اس کے بعد دو روپے دینے لگے اور آج تو بس ایک ہی روپے پر ٹرخادیا۔ آخر کیوں؟'' صاحب نے کہا، ''پہلے میں اکیلا تھا تو دس روپے دیتا تھا۔ شادی ہوگئی تو پانچ دینے لگا۔ بچّہ ہوا تو دو اور اب اسے اسکول میں داخل کرانا ہے۔'' فقیر زور سے سرہلا کے بولا، ''اچھا آآآ... تو یہ سارا گھرانہ میرے ہی جیب خرچ پر چل رہا ہے۔''
گذشتہ ہفتے ان سے پھر ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کی ایک نئی کتاب شایع ہوئی ہے، ''اسلام اور پیغمبرِ اسلام پر قائداعظم کا عمیق مطالعہ'' اگلی ملاقات پر دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن یہ اگلی ملاقات ہو نہ سکی۔گیارہ ستمبر کو ان کی خواہش پوری ہوگئی۔ جب مزارِ قائد پر فاتحہ خوانی کی جارہی تھی تو وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ رانجھا رانجھا کرتے آپی رانجھا ہونے کی تمنّا پوری ہوئی۔ اب ان کے محبوب قائد اور ان کی اپنی برسی ایک ساتھ ہی منائی جائے گی۔
پھر اس کے بعد کیا ہوا... میڈیا کی بے حسی سامنے آگئی۔ الیکٹرانک میڈیا پر ان کی وفات کی خبر ہی دِکھائی نہیں دی۔ کہیں کوئی برق رفتار ٹِکر چل گیا ہو تو شاید لیکن اگلے روز بیشتر اخبارات میں بھی خبر مفقود تھی۔ بانیٔ پاکستان اور تحریکِ پاکستان پر ایک ہزار کالم لکھنے والے کی موت کی خبر اِس اخبار میں بھی تین سطری ہی چھپی جو برسوں ان کی تحریر سے استفادہ کرتا رہا۔
یہ دور ہی عجب ہے۔ پاکستانیت کو تہمت بنادیا گیا۔ دو قومی نظریے اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے قائداعظم کو مِس کوٹ کرکے مزے لیے جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو قائداعظم کو قائداعظم نہ کہنے کا اعلان کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ ان سے بڑے نہیں تو کم از کم برابر کے مدبر تو ہوں گے ہی۔ اسی لیے صرف جناح صاحب کہہ کے بلاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب نے ترتیب وار 'جناح صاحب' کی 'غلطیاں' گنوانا شروع کردی تھیں۔
اور تو اور، آپ کو یاد ہوگا کہ جن دنوں تھالی کے بینگن جوق درجوق لڑھکے آرہے تھے تو انھیں اپنی ٹوکری میں جمع کرتے وقت سونامی خان نے بھی کچھ ایسا ہی کام کیا تھا۔ غلط آدمیوں کو پارٹی میں شامل کرنے کا اور پارٹیاں بدلنے کا جواز قائداعظم کے حوالے سے؟ لاحول ولا قوۃ۔
بے حسی صرف میڈیا میں ہی نہیں ہے۔ دھیرے دھیرے پورے معاشرے میں در آئی ہے۔ کراچی میں گارمنٹ فیکٹری میں ہولناک آگ لگی تو مبینہ طور پر درجنوں مرنے والوں کی جیبوں سے ہینڈز فری ایئرفون تو ملے مگر موبائل فون غائب تھے۔
یہ ظلم بھی ہے اور فحاشی بھی۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا پر بھی بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد جیسے بڑے عالم دین اور مبلغ کی موت کو بھی وہ، صرف اس وجہ سے ٹینس کی ایک مسلمان کھلاڑی کی شادی کی نذر کردیتا ہے کہ اس کا تعلق بھارت سے ہے اس دن بھی پورا وقت عجب قسم کا دھوم دھڑکا ہوتا رہا اور ایک بڑے آدمی کی رحلت کا واقعہ بھی اسی میں گم ہوگیا۔ باقی رہی رضوان صاحب کی بات تو ان کے معاملات بھی اب اگلے جہان میں ہیں۔ وہ اپنے نام کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ میں تو 'داروغۂ جنّت' ہوں۔ وہاں آئوگے تو میاں، مجھ سے مڈبھیڑ تو ہوگی۔
پھر انھوں نے کہا ''تمہیں معلوم ہے آنے والے اکتوبر میں، میں کتنے برس کا ہوجائوں گا؟... چلو۔ ہونے کی بات چھوڑو۔ اب تو جانے کی بات ہے۔'' اور تب بانی پاکستان اور تحریکِ پاکستان پر پچیس کتابوں کے مصنف اور قائد کی معیت میں کام کرنے والے رضوان احمد صاحب نے بتایا کہ جس دن میرے قائد نے دنیا سے کوچ کیا ہے اگر میرا بھی رخصت کا دن وہی ہو تو کیا بات ہے! میں نے جواب میں وہی کہا جو کہا جاتا ہے۔
ارے چھوڑیں رضوان صاحب۔ آپ کو تو ابھی سینچری پوری کرنی ہے۔ یوں ہی تھوڑی جانے دیں گے۔ جواب میں اس سدا بہار اور زندہ دل آدمی نے ایک قہقہہ لگایا اور ہاتھ کا دبائو میرے کندھے پر بڑھادیا۔ بات فضا میں پھیلی اور ہنسی میں گم ہوگئی۔
ایک روز قائداعظم کی تقاریر کی الٹی سیدھی تاویلیں کرنے اور انھیں حسبِ منشا توڑ مروڑ کے استعمال کرنے سے بات نکلی تو روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی پر جاپہنچی۔ چلتے چلتے رک گئے اور قہقہہ لگا کے بولے ''آج ان دونوں باتوں کے پس منظر میں ایک لطیفہ سنو۔'' میں نے کہا، ''سنائیں۔''
بولے، ''مسجد سے نکل کے ایک صاحب گھر جارہے تھے کہ ایک گداگر نے ہاتھ پھیلا دیا۔ انھوں نے ایک روپیہ ہاتھ پر رکھ دیا۔ گداگر بولا، ''صاحب، پہلے آپ دس روپے دیا کرتے تھے، پھر پانچ روپے کردیے، اس کے بعد دو روپے دینے لگے اور آج تو بس ایک ہی روپے پر ٹرخادیا۔ آخر کیوں؟'' صاحب نے کہا، ''پہلے میں اکیلا تھا تو دس روپے دیتا تھا۔ شادی ہوگئی تو پانچ دینے لگا۔ بچّہ ہوا تو دو اور اب اسے اسکول میں داخل کرانا ہے۔'' فقیر زور سے سرہلا کے بولا، ''اچھا آآآ... تو یہ سارا گھرانہ میرے ہی جیب خرچ پر چل رہا ہے۔''
گذشتہ ہفتے ان سے پھر ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کی ایک نئی کتاب شایع ہوئی ہے، ''اسلام اور پیغمبرِ اسلام پر قائداعظم کا عمیق مطالعہ'' اگلی ملاقات پر دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن یہ اگلی ملاقات ہو نہ سکی۔گیارہ ستمبر کو ان کی خواہش پوری ہوگئی۔ جب مزارِ قائد پر فاتحہ خوانی کی جارہی تھی تو وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ رانجھا رانجھا کرتے آپی رانجھا ہونے کی تمنّا پوری ہوئی۔ اب ان کے محبوب قائد اور ان کی اپنی برسی ایک ساتھ ہی منائی جائے گی۔
پھر اس کے بعد کیا ہوا... میڈیا کی بے حسی سامنے آگئی۔ الیکٹرانک میڈیا پر ان کی وفات کی خبر ہی دِکھائی نہیں دی۔ کہیں کوئی برق رفتار ٹِکر چل گیا ہو تو شاید لیکن اگلے روز بیشتر اخبارات میں بھی خبر مفقود تھی۔ بانیٔ پاکستان اور تحریکِ پاکستان پر ایک ہزار کالم لکھنے والے کی موت کی خبر اِس اخبار میں بھی تین سطری ہی چھپی جو برسوں ان کی تحریر سے استفادہ کرتا رہا۔
یہ دور ہی عجب ہے۔ پاکستانیت کو تہمت بنادیا گیا۔ دو قومی نظریے اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے قائداعظم کو مِس کوٹ کرکے مزے لیے جا رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو قائداعظم کو قائداعظم نہ کہنے کا اعلان کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ ان سے بڑے نہیں تو کم از کم برابر کے مدبر تو ہوں گے ہی۔ اسی لیے صرف جناح صاحب کہہ کے بلاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب نے ترتیب وار 'جناح صاحب' کی 'غلطیاں' گنوانا شروع کردی تھیں۔
اور تو اور، آپ کو یاد ہوگا کہ جن دنوں تھالی کے بینگن جوق درجوق لڑھکے آرہے تھے تو انھیں اپنی ٹوکری میں جمع کرتے وقت سونامی خان نے بھی کچھ ایسا ہی کام کیا تھا۔ غلط آدمیوں کو پارٹی میں شامل کرنے کا اور پارٹیاں بدلنے کا جواز قائداعظم کے حوالے سے؟ لاحول ولا قوۃ۔
بے حسی صرف میڈیا میں ہی نہیں ہے۔ دھیرے دھیرے پورے معاشرے میں در آئی ہے۔ کراچی میں گارمنٹ فیکٹری میں ہولناک آگ لگی تو مبینہ طور پر درجنوں مرنے والوں کی جیبوں سے ہینڈز فری ایئرفون تو ملے مگر موبائل فون غائب تھے۔
یہ ظلم بھی ہے اور فحاشی بھی۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا پر بھی بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد جیسے بڑے عالم دین اور مبلغ کی موت کو بھی وہ، صرف اس وجہ سے ٹینس کی ایک مسلمان کھلاڑی کی شادی کی نذر کردیتا ہے کہ اس کا تعلق بھارت سے ہے اس دن بھی پورا وقت عجب قسم کا دھوم دھڑکا ہوتا رہا اور ایک بڑے آدمی کی رحلت کا واقعہ بھی اسی میں گم ہوگیا۔ باقی رہی رضوان صاحب کی بات تو ان کے معاملات بھی اب اگلے جہان میں ہیں۔ وہ اپنے نام کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ میں تو 'داروغۂ جنّت' ہوں۔ وہاں آئوگے تو میاں، مجھ سے مڈبھیڑ تو ہوگی۔