وینکور کی ایک سڑک جو تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کیلئے مشہور ہے

کینیڈا میں کوئی مذہبی عبادت گاہ کو رقم عطیہ کرے تو اُسے ٹیکس میں اتنی ہی رقم کی چھوٹ دے دی جاتی ہے

فوٹو : فائل

چوتھی قسط

ہم اخبار کے آفس دس بجے سے پہلے ہی پہنچ گئے۔ میٹنگ روم میں ایک لمبی میز کے گرد کوئی درجن بھر کرسیاں ہوں گی۔ سب سے پہلے کی نوٹ اسپیکر (key note speaker)بَلی کور کا تعارف کرایا گیا۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ جتندر جو کہ وِنر تھے۔

ان سے بات چیت کا آغاز ہونا چاہیے تھا۔ پھر میرے دل میں آیا کہ شاید اس طرح کے پروٹوکول ہمارے ہاں ہی ہوتے ہیں۔ ایک گھنٹہ کے وقت میں سے پہلے تیس منٹ کا ایک انتہائی تفصیلی انٹرویو بَلی کا کیا گیا۔

اس انٹرویو سے ہی اس بات کا علم ہوا کہ اُن کے والد ایک بھارتی سفارت کار ہیں جن کی مختلف ممالک میں تعیناتی کے سبب بَلی کور کی پڑھائی جاپان، روس، فلپائن اور امریکا میں ہوئی۔

یُوں بَلی کے تفصیلی آدھے گھنٹے کے انٹرویو کے بعد جتندر ہانس کی باری آئی تو بارج نے چارلی کو بتایا کہ وہ ایک مترجم کے فرائض سرانجام دیں گے۔

جتندر نے پہلے اپنے گاؤں ''آلونہ'' کے بارے میں بتایا جو کہ ہندوستانی پنجاب کے ایک شہر لدھیانہ کے پاس ہے۔

اُن کے یہ بتانے سے مجھے لاہور میں ایک کرکٹ کلب ''لدھیانہ جم خانہ'' یاد آ گیا جو کہ یونیورسٹی گراؤنڈ میں اپنا نیٹ لگاتے تھے اور اُسی نیٹ سے وسیم اکرم، عطاء الرحمٰن اور محمد اشفاق جیسے ٹیسٹ کرکٹرز اُبھرے۔ جتندر نے اپنی کتاب ''جیونا سچ، باقی جھوٹھ'' میں سے کچھ کہانیوں پر تفصیلاً بات چیت کی۔

میری باری آئی تو صرف دس منٹ بچے تھے۔ میری انگریزی بھی کوئی اتنی اچھی نہ تھی لیکن میں نے ہرگز مترجم کا سہارا نہیں لیا کیونکہ انگریزوں کی پنجابی اور اُردو کہاں اتنی اچھی ہوتی ہے۔

ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ چارلی اسمتھ نے مجھے اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا۔ سب سے پہلے ''کون'' کا مرکزی خیال یا (One liner) کہہ لیں، پوچھا۔ پھر کچھ تاریخ کے حوالے سے بات ہوئی کہ ہمارے تک تو بس بادشاہوں اور حکمرانوں کی تواریخ ہی پہنچتی رہی ہیں۔

اس تمام معاملے میں خلقت کی ایک بڑی گنتی تو کہیں دکھائی ہی نہیں دیتی۔ میں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آپ تاج محل کو دیکھ لیں جو کہ آج بھی شاہ جہاں اور ممتاز محل کی یاد تازہ کرتا ہے، لیکن وہ ہزاروں مزدور، مستری، کاشی کار، خطاط اور دیگر افراد تو کہیں دکھائی ہی نہیں دیتے۔ ہماری یہ گفتگو کچھ آگے بڑھی تو چارلی نے انٹرویو میں پندرہ منٹ کا اضافہ کر دیا۔

گفتگو میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اُن کی اہلیہ شاہ مکھی پنجابی پڑھ سکتی ہیں تو میں نے ان کو ''کون'' کی ایک کاپی پیش کی۔ اُس کے بعد اُنہوں نے بارج سے کہا کہ میں ان تینوں اور خصوصاً بشیر سے تمام دن باتیں کرنا چاہتا ہوں لیکن میں اپنے شیڈول سے مجبور ہوں۔

یُوں انٹرویو ختم ہوا۔ میں نے ایک بار پھر ٹی وی کی عمارت کی جانب دیکھا جہاں ایک ساتھ ہی تین الیکٹرونک اشاعتی ادارے دکھائی دیے۔ سٹی ٹی وی، اومنی اور راجرز۔

راجرز کے باہر یہ بورڈ نصب تھا:

Good Cops

Great Partners

Hudson and Rex

Thursday nights on City TV

اور داخلی دروازے کے ساتھ ہی بائیں جانب Breakfast Television .CA کا بورڈ بھی اور ان کا الگ سے اسٹاف کام کر رہا تھا۔ وہاں ہمارے کچھ سیشن اُدھر کے مشہور پنجابی میزبان دِلبر کانگ (Dilber Kang)کے ساتھ ہونے تھے۔

یہاں پر بلی کور، جتندر ہانس اور میرے علاوہ ایک سیشن بارج اور پریم مان کا بھی تھا۔ جب ہم لوگ اندر گئے تو اسٹاف نے انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا۔

دلبر کانگ بھی کچھ دیر بعد اسٹوڈیو سے نکل کر باہر آئے۔ بارج کو اُنہوں نے بتایا کہ چونکہ بَلی پنجابی نہیں بول سکتیں تو اُن کا سیشن نہیں ہوگا۔ اُن کے اس جواب سے انہوں نے پریم مان کی جانب بہت ہی مایوسی سے دیکھا۔ اُس کے بعد دلبر کانگ نے پہلے جتندر ہانس کو بلایا۔ وہ دونوں بیس منٹ سے زائد اندر اسٹوڈیو میں رہے۔

یہ انٹرویو بالکل بغیر کسی تیاری کے تھے اور مجھے تو اُس وقت تک اپنے میزبان کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ جب جتندر باہر آئے تو میں دلبر کانگ کے ساتھ اسٹوڈیو چلا گیا جہاں اُنہوں نے تقریباً دس منٹ انٹرویو کیا اور وہ سارا سنگل ٹیک تھا۔

انٹرویو ختم ہوا تو وہ بے انتہا خوش تھے کہ کوئی بھی ری ٹیک نہیں لینا پڑا تھا اور پھر جب میں نے اُنہیں بتایا کہ میں بھی لاہور میں افضل ساحر کے ساتھ لاہور کی تاریخ پر ہفتہ وار ریڈیو پروگرام کرتا ہوں تو اُنہوں نے کہا کہ اسی لیے یہ سارا ون گو (one go)میں ہوگیا۔انٹرویو کچھ یوں تھا:

دلبر: جب آپ کو پتا چلا کہ آپ کو ڈھاہاں پرائز کے دوسرے انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے تو آپ کا کیا Reaction تھا؟

مدثر : مجھے پریم ایس مان صاحب کی کال آئی۔ اس وقت میں اپنے آفس میں موجود تھا۔ یہ بہت ناقابل یقین سا ہے کہ آپ منتخب ہو گئے ہیں، سات سمندر پار آپ کی بات سُنی گئی ہے۔ آپ کے کام کو acknowledgeکیا گیا ہے۔ سو یقینا یہ ناقابل یقین ہی تھا۔

دلبر : اس سے پہلے کہ ہم آپ کی اس کتاب کے بارے میں بات چیت کریں، آپ اپنا تعارف خود سے کروا دیجیے۔

مدثر:جی میں سوئی ناردرن گیس لمیٹڈ کے میڈیا افیئرز ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ہوں۔ جس کا نیوز لیٹر ہیڈ "The Pride"پنجابی اور اُردو والا میں دیکھتا ہوں۔ یہ میرا روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ کئی برس سے میں لاہور کی ہسٹری پر کام کر رہا ہوں۔ اُردو، انگریزی و پنجابی اخبارات میں میری تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ فکشن کا بھی جنون ہے۔ اور اسی شوق کی وجہ سے ہی میں آج یہاں موجود ہوں۔

دِلبر: آپ کو اپنی تخلیق 'کون' پر انعام دیا گیا ہے، ناظرین کو بتاتے چلیں کہ اس کا موضوع کیا ہے؟

مُدثر: ہم جو تاریخ پڑھتے چلے آ رہے ہیں وہ سب بادشاہان نے لکھوائی ہوئی ہے۔ ان بادشاہوں کے بارے میں جو بات چیت ہوتی ہے، فقط اُسی کو 'تاریخ' کا نام دیا جاتا تھا۔

ہم بالخصوص ہندوستان کی بات کرتے ہیں کہ جب کلونیل دور میں تاریخ لکھوائی گئی وہ بھی انگریز سرکار کے مفادات کے تابع تھی۔ جبکہ تقسیم ہند کے بعد دونوں ممالک نے اپنے اپنے ہیروز بھی بدلے اور villans بھی۔ اور اب تو ایک نیا ہی کام شروع ہو چکا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی انٹری کے بعد اب ڈراموں اور فلمز کو نیا ہی رُخ دیا جا رہا ہے۔

اس سب میں جو 99فیصد خلقت ہے، وہ کہاں گئی؟ خلقت کی بات کہاں ہو رہی ہے؟ اس کے لیے ہم بابوں کی شخصیت اور ان کی شاعری کی جانب رجوع کرتے ہیں، ہم بابا فرید کو دیکھتے ہیں، بابا نانک جی اور بھائی گُرداس کی طرف دیکھتے ہیں۔

بُلھے شاہ اور شاہ حُسین کی جانب بھی۔ ہم ان لوگوں کے ذریعے ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُس دور کے جو لوگ تھے اُن پر کیا بِیت رہی تھی۔ خلقت کے ساتھ کیا زیادتی اور امتیازی سلوک برتا جا رہا تھا۔ خلقت کی زندگی کس نہج پر چل رہی تھی۔ اگر آپ ٹائٹل کو دیکھیں 'کون' تو اس کا سیدھا معنی تو بنتا ہے، Who? لیکن اس سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جن کا کوئی نام نہیں ہے۔

اس سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے بہت بلند اور اہم کارہائے نمایاں انجام دیئے، مگر ان کی محنت کسی اور کے نام لگ گئی۔ اور وہ بے نام بے شناخت ہی رہ گئے۔اُن کو ہم "Nameless" بھی کہہ سکتے ہیں۔ سو یہ سب معنی ہی اس عنوان 'کون' میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔

دِلبر : بالکل جی، یہ لفظ 'کون' بہت سارے معنوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے کوئی آپ کی بات نہ مانے یا آپ کو نظر انداز کرے تو کہا جاتا ہے 'اچھا جی اب ہم 'کون' ہو گئے'۔(قہقہہ) اچھا یہ بتائیں کہ آپ کو قارئین کی جانب سے کیسا رسپانس مِلا اس تحریر کا؟

مُدثر: جی بہت پازیٹو رسپانس ملا ہے۔ دراصل ہم لکھنے والے بھی چھوٹے موٹے آرٹسٹ ہوتے ہیں۔ آپ کو نہیں پتا ہوتا کہ آپ کی کونسی شے لوگوں کو بہت زیادہ اپیل کر جاتی ہے۔ بعض چیزوں کو آرٹسٹ خود بہت اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے، مگر اسے خلقت کسی اور ڈھنگ سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔تاہم اس تحریر کو لوگوں نے بہت پسند کیا ہے۔

دِلبر :اچھا یہ جو کرتار پور کوریڈور ہے، اس پر لوگوں میں بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے، یہ بتائیے پاکستانی عوام میں اس کے حوالے سے کیا سوچ پائی جاتی ہے؟

مدثر: جی لوگ اس کوریڈور کے بننے پر بہت خوش ہیں۔ آپ دیکھیے فار دی ٹائم بینگ(for the time being) آپ کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیں، معاملات خراب ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود سکھ یاتری جب لاہور آتے ہیں، اندرون شہر میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔

ہم کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ پُکار اُٹھتے ہیں سردار جی، کیسے ہیں آپ؟ ٹھیک ہیں نا؟ جواباً سردار جی بھی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ بھی ہنستے مسکراتے ہیں اور ہم لوگ بھی اسی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ مسکراہٹوں اور خوشیوں کا اظہار کیوں ہے؟ کیوں ہمیں ایک دوسرے سے نفرت کی بدبو نہیں آتی؟ کیونکہ ہماری Roots ایک ہیں۔

ہماری دھرتی ایک ہے، ہماری بولی ایک ہے۔ ہمارا کھانا پینا مرنا جینا سب مشترک ہیں۔ سو ہماری یہ جُڑت موجود رہتی ہے۔

سو ہمارے لوگ بھی بہت خوش و خرم اور راضی ہیں کہ سِکھوں کے یہاں پر مقدس مقامات ہیں اُنہیں یہاں آنے کی سہولت مہیا ہو رہی ہے۔ چھوٹے موٹے معاملات ضرور سامنے آتے ہیں،جیسے 20 ڈالر فیس کا معاملہ ہے۔ یہ تھوڑی سی عجیب بات ہے۔ میں اس کی مثال ایسے دوں گا کہ میں لاہور کا رہائشی ہوں۔

مجھے کسی دوسرے وطن میں نہیں جانا بلکہ اپنے ہی شہر کے سینے سٹار (Cine Star)میں جاتا ہوں۔ تو پاکستانی پندرہ سولہ سو روپے کی ہماری ٹکٹ ہے۔ اور اگر دو چار سو روپے کھانے پینے پر لگ جائیں تو سمجھیے 20 ڈالر کا خرچ ہو ہی جاتا ہے۔

یہ اپنے شہر کی بات ہے۔ تو اگر آپ کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں جہاں آپ کا مذہبی مقام ہے اور وہاں سے آپ کو روحانی مسرت حاصل ہونی ہے۔ تو یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ سو ان نان ایشوز کو ایشوز بنایا جا رہا ہے۔

دلبر:جی بالکل، بہت سارے لوگوں کی عادت ہوتی ہے بال کی کھال اُتارنے کی۔ دونوں ممالک نے اتنا اہم کام کیا ہے۔ اگر تھوڑی بہت فیس دینی بھی پڑ جاتی ہے تو اسے کوئی ایشو نہیں بنانا چاہیے۔

مدثر: یہی بات ہے نا۔ کہ آپ سرحد پار کر کے دوسرے ملک جا رہے ہیں۔

دلبر: اچھا جی، ہم لوگ بچپن سے ہی سُنتے آ رہے ہیں کہ سیانوں کا فرمان ہے 'جیہنے لاہور نہیں ویکھیا، اوہ جمیا نہیں'، اس میں کیا راز ہے، کیا خاصیت ہے؟

مدثر: جی لاہور کا اپنا ایک کریز ہے، اپنا ایک جنون ہے۔ وہ ایک پُرانا مقولہ ہے نا: سجنو ایہہ شہر لاہور ہے، ست دِن تے اٹھ میلے، گھر جاواں کیہڑے ویلے؟

یہ میلوں کا شہر تھا۔ لاہور میں ہر جگہ کے لوگوں کا اجتماع ہے۔ اکثر لوگوں نے اپنے والدین کو چھوڑ دیا، مگریہاں آ کر لاہور شہر کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔ وہ یہیں کے مکیں ہو کر رہ گئے۔آپ نے ایک انٹرویو دیو آنند جی کا دیکھا ہوگا، یوٹیوب پر بھی شاید دستیاب ہے۔


وہ راوین تھے، یعنی گورنمنٹ کالج سے انہوں نے گریجوایشن کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ میں جو لاہور میں گھوما پھرا ہوں، اس کا میری ساری زندگی اور سارے کام پر بھرپور اثر ہے۔سو، انڈین فلم انڈسٹری کا کون کون سا بندہ گنوائیں۔

اگرچہ رفیع صاحب امرتسر میں پیدا ہوئے مگر لاہور میں ہی مقیم رہے۔ او پی نئیر میوزیشن اور اوم پرکاش ایکٹر یہ دونوں بھی لاہور کے باسی تھے۔ اسی طرح مغلِ اعظم فلم بنانے والے خان آصف بھی لاہور کے ہی تھے۔ آپ کھیلوں کی بات کریں، سیاست کی بات کریں، بھگت سنگھ کی سمت متعین کرنے میں بھی بریڈلے ہال اور نیشنل کالج کا کردار ہے۔ اسی طرح وسیم اکرم کو بھی دیکھ لیجیے۔

دلبر:اچھا آپ کو اس سنیچر وارکو ڈھاہاں ایوارڈ سے نوازا جائے گا، یقینا بہت زیادہ ایکسائیٹڈ ہوں ان لمحات کے حوالے سے؟

مدثر: جی ہاں، میں بہت زیادہ ایکسائیٹڈ ہوں۔ میں ان کی آرگنائزیشن کو بھی کہہ رہا تھا، کہ آپ لوگوں نے بہت عمدہ کام کیا ہے۔ میرے ساتھ جتندر جی اور بلی صاحبہ بھی آئے ہیں۔ سو مختلف ماحول اور مختلف سکول کالج سسٹم سے ہم لوگ آئے ہیں۔ ان کو bridge کر رہے ہیں۔ ایک انٹرکانٹی نینٹل اشتراک و اتحاد بن رہا ہے۔

یہ سب مادری زبان کا ہی کمال ہے۔ اس کو یُوں سمجھ لیجیے کہ جب آپ وائلن بجاتے ہیں تو اسے باجے یا کسی اور ساز سے ٹیون (tune) کرتے ہیں۔ لیکن جب آپ بانسری بجانے لگتے ہیں تو کوئی ٹیون (tune) نہیں ہوتی، بلکہ بانسری نواز خود کو ٹیون (tune) کرتا ہے۔

سو جب ہم ماں بولی میں کام کرتے ہیں تو ہم نہیں لکھ رہے ہوتے وہ ماں بولی آپ سے اپنا آپ لکھوا رہی ہوتی ہے۔ یہ ماں بولی کا ہی بھنڈار ہے جس نے ہمیں اکٹھا کر دیا ہے۔

میرے بعد بارج اور پریم مان کا اکٹھا انٹرویو تھا۔ بلی اور جتندر اپنی باتوں میں لگ گئے اور میں وہاں پر گھومنے پھرنے لگا تو اُدھر ہی میں نے ٹیڈ روجر کی ایک لکھی ہوئی لائین بورڈ پر دیکھی:

"Ted Roger" "The best is yet to come"

اب ہمارا اگلا پڑاؤ شہر کے دوسرے کونے کی جانب تھا جہاں بلی کور کا ایک مشہور ریڈیو میزبان سُشما کے ساتھ انٹرویو تھا۔ جو کہ ریڈیو سپائس (Radio Spice)میں ہونا تھا۔ جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو اُس بلڈنگ کے باہر بھی تین بورڈ نظر آئے جو شائد ایک ہی ادارے کے مختلف حصّے تھے۔

Spice ITMB,

Rimjhim Radio,

I.T. Media Broadcasting

جب ہم لوگ اندر گئے تو سُشما ہمیں خود لینے کے لیے آئیں۔ بلی کا انٹرویو اُنہوں نے ریکارڈ کرنا تھا اور جتندر اور میرا انٹرویو اگلی صبح لائیو ہونا تھا۔ اس ریڈیو کے دفتر میں طبلے کی جوڑی کے ساتھ ساتھ کُچھ مورتیاں اور پنجابی رنگ کی جھلک دیتی ہوئی کچھ تصاویر بھی آویزاں تھیں۔

سُشما اور بلی اوپر اسٹوڈیو میں چلی گئیں اور دفتر کی ویٹنگ میں بارج اور جتندر کے ساتھ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب ادب اور ایوارڈز پر اپنی گفتگو میں کچھ مختلف طرح کے تحفظات کا اظہار کرنے لگے۔

اُن کی اس گفتگو سے مجھے کوئی خاص لینا دینا نہ تھا۔ اس لیے میں باہر آ کر سڑک کے کنارے لگے مختلف رنگوں اور اقسام کے پودے اور درخت دیکھنے لگا۔

کوئی آدھے گھنٹے کے بعد میرے سارے ساتھی ریڈیو سے باہر آگئے۔ جتندر اور بارج دونوں ہی اندر والے صاحب کی گفتگو سے قطعاً خوش دکھائی نہ دیے۔

واپسی کے سفر میں جویادگار مقامات دیکھے ان میں ایک جان گاسی جیک ڈیٹن (John "Gassy Jack" Deighton) کا بلند و بالا مجسمہ ہے۔

گاسی جیک وینکوور کی مشہور تاریخی اور رنگارنگ شخصیات میں سے ایک تھا۔ جو پیشے کے اعتبار سے دریائی کشتی کا ایک باتونی کیپٹن تھا تاہم اسے اصل شہرت اس وقت مِلی جب اس نے 18 ویں صدی کے ابتدائی برسوں میں وینکوور شہر کی تاریخ کا پہلا سیلون قائم کیا۔

ڈاؤن ٹاؤن کی نُکر میں واقع وکٹری سکوائر (Victory Square)بھی خاصی اہمیت کا حامل مقام ہے جہاں پر ہر سال وینکوور کی سالانہ یادگاری دِن کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔

جبکہ اسی کے عقب میں موجو د The Dominion Building جب 1910ء میں تعمیر کی گئی تو اسے طویل عرصہ تک برطانوی سلطنت میں واقع بلند ترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔

وینکوور میں 2010ء اولمپک اور پیرا اولمپک گیمز کے انعقاد کی مناسبت سے 1 ہزار کلو گرام وزنی کلاک نصب کیا گیا۔ یہ 6 میٹر لمبا کلاک سوئٹرز لینڈر کی گھڑی ساز کمپنی Omega نے سٹیل، پلیکسی گلاس اور red cedar سے بنایا ہے۔ جو کاؤنٹ ڈاؤن کی صورت میں بتایا کرتا تھا کہ ان بین الاقوامی ایونٹس کے انعقاد میں کتنا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔

ایک اور دیدہ زیب مقامYaletown District ہے یہ من موہنی لوکیشن بے شمار ٹیلی ویژن شوز اور فیچر فلمز شوٹنگ کے دوران سیٹ کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔

وینکوور کی پیسیفک سنٹرل (Pacific Central) سٹیشن نامی وسیع و عریض عمارت بھی دیکھنے لائق ہے جو 1919ء میں ابتدائی طور پر کینیڈین ناردرن ریلویز کے ایک ٹرمینل کے طور پر قائم کی گئی تھی جسے اب مختلف روٹس کی بسوں اور ریل گاڑیوں کے مسافروں کی انتظارگاہ میں بدل دیا گیا ہے۔

ایک اور مقام جس کے ہم نے درشن کیے وہ ڈاکٹر سن یات سن(Sun Yat-Sen) کلاسیکل گارڈن ہے جو چین کی مِنگ سلطنت (1364-1644) کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ اس قدیم انداز کے چینی باغ کی تیاری میں باغات کے لیے مشہور چینی شہر Shuzou کے 52 فنکاروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ چین میں اس نوعیت کے باغات عموماً مفکر اور دانشور افراد کی رہائش اور تخلیقی سرگرمیاں انجام دینے کی غرض سے تعمیر کیے جاتے تھے۔

اس باغ اور اس سے ملحقہ پبلک پارک کو مشہور چینی مصلح ڈاکٹر سن یات سن سے موسوم کیا گیا ہے، جنہوں نے 1906ء میں اپنی کینیڈا یاترا کے دوران وینکوور میں بھی قیام کیا تھا۔

اگر آپ وینکوور گئے اور آپ نے Capilano Canyon نامی مشہور پُرفضا اور تفریح مقام نہیں گئے تو سمجھیں آپ نے بہت کچھ گنوا دیا، یہاں کی خاص بات سطح زمین سے 69 میٹر بُلند معلّق پُل ہے جو پہلی بار 1889ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ سیاح اس پُل پر چڑھ کر آس پاس کے حسین قدرتی نظاروں سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

ہمارا دو بار یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا جانا ہوا تو اس پر بھی کچھ بات ہو جائے۔ یہ اعلیٰ تعلیمی درسگاہ 1908ء میں تعمیر کی گئی۔

کئی برس تک یہاں پر تدریس جھونپڑی نما کیبنز (Cabins) میں دی جاتی رہی۔ 1922ء میں یونیورسٹی کے طلباء کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد حکومت نے عمارات کی تعمیر کے لیے 1.5 ملین ڈالر کی گرانٹ جاری کی جس کے اگلے تین سال بعد ہر فیکلٹی کے لیے مستقل عمارتوں کی دستیابی ممکن ہو گئی اور طالب علموں کو پُرسکون اور موزوں تعلیمی ماحول میسر آ گیا۔

اگر آپ نے دیودار کی لکڑی سے بنا شاہکار مجسمہ Raven and the First Men دیکھنا ہے تو میوزیم آف انتھروپولوجی کا رُخ کرنا لازمی ہو گا۔ یہ مجسمہ انسانی تخلیق سے متعلق Heida کی دیومالائی داستان کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔ میوزیم میں اور بھی قدیم نوادرات اور انسانی صناعی کے شاہکار موجود ہیں۔

کینیڈا میں سکھ تقریباً سوا سو سال سے آباد ہیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہاں کی سکھ کمیونٹی اپنے دھرم سے مضبوطی سے جُڑی ہوئی ہے، جس کا اظہار وینکوور سمیت کینیڈا بھر میں موجود سینکڑوں دیدہ زیب گوردواروں کی موجودگی سے ہوتا ہے۔ ان گوردواروں کی تزئین و آرائش پر سکھ کمیونٹی جی کھول کر رقم خرچ کرتی ہے۔

وینکوور کے کئی گوردوارہ صاحبان اپنے خوبصورت طرز تعمیر کے باعث قابلِ دید ہیں۔یہاں میں بتاتا چلوں کہ کینیڈا روانگی سے کچھ روز قبل میری ہرِندر کور جی سے جو گفتگو ہوئی، اُس میں وینکوور کے گوردوارہ صاحبان کی سیر بھی تھی۔ اور جب انہیں یہ پتا لگا کہ میں نے لاہور میں سمادھ گورو ارجن دیو جی، سمادھ مہاراجا رنجیت سنگھ ، سمادھ مہاراجا شیر سنگھ اور گوردوارہ چوبچّہ صاحب پر کچھ کام کیا ہوا ہے، تو انہوں نے ایک دو گوردوارہ صاحبان میں میری گفت و شنید کا اہتمام بھی کیا۔ چونکہ میں نے اپنی ٹکٹس ری شیڈول کروا لی تھیں جس کی وجہ سے میں ان گوردواروں پر جا سکا اور نہ ہی وہ سیشنز ہو سکے ۔

یہاں رچمنڈ سپیڈ سکیٹنگ اوول (Richmond Speed Skating Oval) کا بھی تذکرہ ہو جائے جو 2010ء کے سرمائی اولمپکس کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ 48 ہزار مربع میٹر پر محیط اس تفریحی کمپلیکس میں 8 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے۔

اب ایک اور انتہائی دلچسپ مقام کا ذکر کرتے چلیں، جس کا نام ہے "Highway to Heaven" ، جی ہاں یعنی ''جنت کی شاہراہ''۔ یہ سچ مُچ جنت کو لے جانے والی شاہراہ تو نہیں ہے، رچمنڈ کے مکینوں کے لیے یہ محض پُرانا روڈ نمبر 5 ہے۔ دراصل اس شاہراہ پر تقریباً بیس مذاہب کی عبادت گاہیں وسیع و عریض رقبوں پر تعمیر کی گئی ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ہر مذہب کے تمام مسالک کی نمائندگی کے لیے ایک ہی عمارت موجود ہے، مثلاً یہاں ایک ہی مسجد، ایک ہی گُردوارا، ایک ہی ہندو مندر، ایک ہی بُدھ مندر، ایک ہی جین مندر، ایک ہی یہودی سینے گاگ، ایک ہی گرجا مِلے گا۔ ایسا نہیں کہ شیعہ مسجد، سُنی مسجد الگ اور کیتھولک چرچ اور پروٹسنٹ چرچ الگ سے دکھائی دیں۔ یقینا اس عمل سے ایک ہی مذہب کے تمام ماننے والوں کو بھی ایک اکائی کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔

تمام لوگ پُرامن انداز میں اپنے اپنے کمیونٹی سنٹرز کے جاکر مذہبی فرائض و رسومات ادا کرتے ہیں۔ کسی قسم کے مذہبی منافرت پر مبنی تنازعات یا لڑائی جھگڑے دیکھنے کو نہیں ملتے۔ غرضیکہ یہ شاہراہ بین المذاہب ہم آہنگی رواداری کی ایک بہترین ترجمان ہے۔

کینیڈین حکومت نے Highway to Heaven کی تمام عبادت گاہوں کومالی عطیات دینے والوں کے لیے ایک بڑی رعایت یہ کی ہے کہ جتنی رقم کوئی شخص اپنے کمیونٹی سنٹرز کو عطیہ کرتا ہے، اُس کے سالانہ ٹیکس میں سے یہ رقم منہا کر دی جاتی ہے، یعنی ٹیکس کی کُل رقم میں سے اس عطیہ کی رقم کے برابر اسے چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ یہ ایک عمدہ مثال ہے کہ وہاں تمام مذاہب و عقائد کا کس طرح سے بے حد احترام کیا جاتا ہے۔

جب یونیورسٹی پہنچ کر وائی فائی آن ہوا تو طارق صاحب کے ساتھ ساتھ میرے پرانے دوست عکاس ملک کی مِسڈ کالز بھی تھیں۔ وہ پچھلے کچھ برسوں سے کینیڈا کی ایک ریاست سسکاچ وان (Saskatchewan)کے شہر ریجینا(Regina)میں مقیم تھے۔

اُنہوں نے میرے ہی ہوٹل میں کمرہ بک کروایا ہوا تھا اور اگلے روز آنا بھی تھا۔ بیوی بچے اُن کے پاکستان بہن بھائیوں کو ملنے جا رہے تھے۔ جب میں نے اُن کو فون کیا تو پتہ لگا کہ اُس صبح وہ شاپنگ کرکے واپس آ رہے تھے اور چلتے ہوئے برف پر اس طرح پھسلے کہ کندھا ہی اُتر گیا اور اب وہ اپنے گھر کے قریبی ہسپتال میں تھے۔

بیوی بچوں کی پاکستان اور اُن کی اپنی وینکوور کی ٹکٹ بھی ضائع ہوگئی۔ یہ بات سن کر میرا دل بہت بُرا ہوا۔ نیا دیس، نئے لوگ، نِشابُھلر کے علاوہ جانتا ہی کوئی نہ تھا۔ اُس کے بعد طارق صاحب کو ٹورنٹو کال کی۔ اُنہوں نے اپنی پوری فیملی کے ساتھ آنا تھا۔

وہاں کے کچھ مسائل کے باعث اُنہوں نے بھی آنے سے معذرت کر لی۔ دیارِ غیر میں جن اپنوں نے ملنا تھا، وہی نہ آ سکے۔ دِل پر عجب طرح کی بے بسی نے ڈیرا کر لیا۔ خاص طور پر طارق صاحب پر شدید غصّہ بھی آ رہا تھا کیونکہ اس پروگرام کے بارے میں سب سے پہلے اُنہیں بتایا تھا۔ اور میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ نہیں آئیں گے۔

کیونکہ ٹورنٹو جانے سے قبل وہ کچھ برس سَری ہی میں گزار کر گئے تھے اور آخری کال پر انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ بھابھی بچوں سمیت آئیں گے۔ اُن کے نہ آنے کے باعث میں پردیس میں اجنبیت کی ایک ایسی شدید کیفیت میں چلا گیا جو میں نے کبھی پہلے محسوس نہ کی تھی۔

دوسری جانب ڈھاہاں کی انتظامی کمیٹی میں شہزاد نذیر تھے۔ اُنہوں نے میرا ہوٹل کے بعد رہنے کا انتظام کسی سردار جی کے گھر کیا ہوا تھا۔ اُن سے میری فون پر بات ہو ئی تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ اُس روز شام کو سائمن فریزر یونیورسٹی میں ہونے والے سیشن میں آئیں گے۔

اس دوران دماغ لاہور سے روانگی کے وقت والدہ کی ناساز طبیعت کی جانب بھٹک گیا اور وہ کالز کے دوران بھی کوئی خاص بہتر دکھائی نہ دے رہی تھیں۔ میں نے پھر بغیر کسی سے مشورہ کیے ہرِندر کور جی کو کال کی کہ مجھے ٹکٹیں ری شیڈول کروانی ہیں۔ اکتیس دن کا پروگرام میں نے سترہ دن میں تبدیل کیا۔

اُنہوں نے میرے اس فیصلے پر دبا دبا احتجاج بھی کیا اور بتایا کہ ایوارڈ کی تقریب کے بعد کچھ لوگوں نے اپنے گھروں میں اور کچھ ادبی جگہوں پر میری بات چیت رکھی ہے۔

مجھے اپنے ان دونوں دوستوں (طارق مقبول اور عکاس ملک) کے نہ آنے کے سبب شدید مایوسی ہوئی۔ ہرِندر کور جی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ یہ ٹکٹیں ری شیڈول کرنے کی وجہ سے تقریباََ دو ہزار ڈالر کے قریب کا خرچہ بھی آئے گا۔بہرحال مجھے طارق مقبول کو ملنے ٹورنٹو تو جانا ہی تھا۔

گیارہ تاریخ کی ٹکٹ تین تاریخ میں تبدیل کروائی اور 25 نومبر کی ٹورنٹو سے پاکستان واپسی کی ٹکٹ کو 10 نومبر میں تبدیل کروایا۔ لیکن میرے لیے یہ پیسے بالکل بے معنی تھے... والدہ کی ناساز طبیعت، دوستوں کا نہ آنا اور کلچرل شاک (cultural shock) .... ان تمام کے باعث اب میرا رابطہ ٹریول ایجنٹ گورپریت کور جی کے ساتھ ہوا۔ ان کو تمام معاملے کی پہلے ہی سے جانکاری تھی اور اُس کے بعد وہ مختلف ایئر لائنز کی میسّر ٹکٹوں کی تلاش میں نکل پڑیں۔ اُن کی ٹکٹوں کے حصول کے لیے کی گئی محنت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ (جاری ہے)
Load Next Story