لیبارٹری میں بنے پیاز انڈے اور چکن

ایک نئی ٹکنالوجی کا انقلاب انسان کی زندگی آرام دہ اور آسان بنا سکتا ہے… حیرت انگیز انکشافات

ایک نئی ٹکنالوجی کا انقلاب انسان کی زندگی آرام دہ اور آسان بنا سکتا ہے… حیرت انگیز انکشافات ۔ فوٹو : فائل

تصّور کیجیے کہ آپ 2060ء میں زندہ ہیں۔چھٹی کا دن ہے۔ناشتے سے فارغ ہو کر بازار پہنچے، گوشت، دودھ، انڈے ، سبزیاں اور پھل خریدے اور شاداں وفرحاں گھر چلے آئے۔

اس سارے عمل میں بظاہر کوئی غیرمعمولی بات نہیں سوائے ایک امر کے...یہ کہ کھانے پینے کی درج بالا ساری اشیاوسیع وعریض لیبارٹری نما کارخانوں میں تیار ہوئی ہیں۔گوشت پانے کی خاطر کوئی جانور نہیں مارا گیا۔دودھ گائے بھینس نے نہیں دیا۔

انڈے دینے مرغیاں نہیں پالی گئیں۔اور سبزی وپھل کھیت یا باغ سے حاصل نہیں ہوئے...یہ ساری اشیائے خورونوش ایک نئی ٹکنالوجی سے ظہور پذیر ہوئیں جسے ''خلوی زراعت''(Cellular Agriculture)کا نام دیا جا چکا۔

پیداوار میں کمی

یہ کوئی سائنس فکشن نہیں بلکہ اگلے چالیس پچاس برس کے اندر اندر انسان اس قابل ہو سکتا ہے کہ تقریباً ہر غذا لیبارٹری نما فیکٹری میں تیار کر سکے۔ظاہر ہے، یہ ایک بہت بڑا اور حیرت انگیز انقلاب ہو گا کیونکہ اس کی بدولت ہر انسان کو مطلوبہ غذا سستی اور وافر مل سکے گی۔

ابھی تو خوراک اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک میں بستے اربوں انسانوں کو پریشان وڈپریشن زدہ کر رکھا ہے۔غذائیں مہنگی ہونے کی بڑی وجہ پیداوار میں کمی جبکہ طلب میں اضافہ ہے۔

کرہ ارض پہ ہر سال آٹھ کروڑ سے زائد انسان جنم لیتے ہیں۔گویا محض ایک برس میں جرمنی جتنی آبادی والا ایک نیا ملک وجود میں آ جاتا ہے۔ظاہر ہے، ان آٹھ کروڑ انسانوں کو بنیادی ضروریات زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہائش، تعلیم وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

مسئلہ یہ ہے، مختلف وجوہ کی بنا پر زراعت، مویشی پروری، باغبانی اور اشیائے خورونوش کے دیگر شعبے انسانوں کی غذائی طلب پوری نہیں کر پا رہے۔مثال کے طور پر مویشی پالنے والے چارے اور پانی کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔

نت نئی بیماریاں بھی مویشیوں پہ حملہ آور رہتی ہیں۔کسان اور باغبان بیج و کھاد مہنگا ہونے اور پانی کی قلت سے پریشان رہتے ہیں۔ان کے لیے فصل اگانا اب کافی مہنگا فعل بن چکا۔پھر قدرتی آفات مثلاً سیلاب، طوفانی بارشیں، قحط، ٹڈی دل، شدید گرمی اور سردی بھی فصلوں وباغات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

آب وہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے بوائی کا نظام درہم برہم کر ڈالا ہے۔غرض بین الاقوامی سطح پر زراعت، گلہ بانی اور باغبانی کا نظام شکست وریخت کا شکار ہے۔درج بالا خرابیوں کے سبب غذائوں کی پیداوار کم ہو چکی۔اسی عمل نے خوراک مہنگی کردی اور بھوک نے جگہ جگہ ڈیرے ڈال دئیے۔

بھوک کا عفریت

بھوک کا سب سے اہم منفی پہلو یہ ہے کہ وہ انسان میں نیکی وبدی کی تمیز ختم کر دیتا ہے۔کچھ عرصہ قبل کراچی کی ایک وڈیو دیکھی۔اس میں ایک کچی آبادی کا قصائی کھلے عام گدھے اور گھوڑے کا گوشت بیچ رہا تھا۔

وڈیو بنانے والے نے اسے لتاڑا تو قصائی بولا''بھائی میاں، انسان جب بھوکا ہو اور اسے کھانے کو کچھ نہ ملے تو وہ کتے بلیاں کھا جاتا ہے، میں تو پھر گھوڑے گدھے کا گوشت بیچتا ہوں۔بھوک بڑی ظالم چیز ہے۔''

انسان کی تاریخ میں پہلے ریکارڈ شدہ انقلاب نے بھی بھوک ہی سے جنم لیا۔قصّہ یہ ہے کہ ساڑھے پانچ ہزار سال قبل موجودہ عراق میں لاگاش نامی شہر واقع تھا۔وہاں ایک کرپٹ اور لالچی بادشاہ، لوگالاندا (Lugalanda)برسراقدار آ گیا۔اس نے کسانوں پر بھاری ٹیکس لگا دئیے اور ان سے زمینیں چھین لیں۔بہت سے کسان ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔

اس لیے ریاست میں غذائوں کی پیداوار بہت گھٹ گئی اور خوراک کا بحران پیدا ہو گیا۔ایک سال بعد ہی لاگاش کے باشندے بھوکے مرنے لگے۔غذائیں ریاست میں نایاب اور بہت مہنگی تھیں۔تب عوام سے ایک سماجی رہنما، اوروکاجینا(Urukagina) نامی کا ظہورہوا۔

اس نے لوگوں کو ابھارا کہ لوگالاندا ظالم و جابر حکمران ہے۔لہذا اس کی حکومت ختم کر دینی چاہیے تاکہ کسانوں پہ لگے ٹیکس ہٹ جائیں۔اسی طرح غذائوں کی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا تھا۔

عوام اوروکا جینا کے ساتھ ہوگئے۔اس نے ان کی مدد سے لوگالاندا کے محل پہ دھاوا بول دیا۔شاہی محافظ بھی بادشاہ سے بہت تنگ تھے۔انھوں نے بھی خاص مزاحمت نہ کی۔حملے میں لوگالاندا مارا گیا۔انقلابیوں نے اوروکا جیناکو نیا بادشاہ بنا دیا۔

وہ دنیا کا پہلا حکمران ہے جس نے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے نئے قوانین بنائے اور بہت سے عملی اقدامات کیے۔وجہ یہی کہ وہ عوام سے تعلق رکھنے کے باعث ان کے مسائل وتکالیف سے آگاہ تھے۔اس باعث اوروکا جینا کی سعی رہی کہ عوامی مسائل حل کیے جائیں۔اس کا دعوی تھا کہ رب کائنات نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے اسے نازل فرمایا۔

نت نئے تجربات

پچھلے دو برس میں عالمی سطح پر غذائیں بہت مہنگی ہو چکیں۔خوراک کی کمی سے کروڑوں انسان بھوکے مرنے لگے ہیں۔اس زبردست بحران کی وجہ سے سائنس داں اور ٹکنالوجسٹ خلوی زراعت کو ترقی دینے کے لیے نت نئے تجربات کرنے لگے ہیں۔

مقصد یہی کہ لیبارٹریوں میں وسیع پیمانے پر غذائیں بنانے کے عمل وضع ہو سکیں۔ لیبارٹری میں ''بائیوری ایکٹر''(Bioreactor)نامی مشین میں غذا تیار کی جاتی ہے۔ابھی بائیو ری ایکٹر سائز میں چھوٹے ہیں۔مگر مستقبل میں دیوہیکل بائیو ری ایکٹر بنا کر وسیع مقدار میں خوراک بنانا ممکن ہو گا۔ یوں سستی اور وافر غذائیں تیار کرنا آسان عمل بن جائے گا۔


خلوی زراعت کوئی راکٹ سائنس نہیں بلکہ اس کا بنیادی عمل سادہ ہے۔اس کے ذریعے انسان دوست نامیات...خلیوں، جراثیم، پھپوندی، خمیر وغیرہ کی مدد سے مطلوبہ غذائیں تیار کی جاتی ہیں۔

یاد رہے، دنیا کی ہر زندہ شے خلیوں کا مجموعہ ہے۔چھوٹے اجسام کم اور بڑے زیادہ خلیے رکھتے ہیں۔ان خلیوں کی کئی اقسام ہیں۔قدرتی ماحول میں جب زندہ کے بچے کو غذائیت (پروٹین، کاربوہائڈریٹ، چکنائی، معدنیات اور وٹامن) ملے تو اس کے خلیے پلتے بڑھتے ہیں۔یوں ایک نوزائیدہ بچہ جوان ہو جاتا ہے۔خلوی زراعت میں یہی عمل لیبارٹری میں انجام پاتا ہے۔

''بنیادی خلیے''

خلیوں ، جراثیم، پھپوندی اور خمیر کی مدد سے فی الوقت لیبارٹری میں گوشت، دودھ، انڈے اورپنیر بن رہے ہیں۔

نظریاتی طور پہ خلوی زراعت کے ذریعے ہر کھانے کی شے مثلاً گندم، چاول،آلو، پیاز، آم ،امرود، سیب وغیرہ تیار کرنا ممکن ہے۔گوشت بنانے کا طریق کار یہ ہے کہ ماہرین سب سے پہلے گائے ، بکرے یا مرغی سے ''بنیادی خلیے''(Stem cells)حاصل کرتے ہیں۔یہ وہ خلیے ہیں جن کی مدد سے خلیوں کی کوئی بھی قسم بن سکتی ہے۔

گائے یا بکرے سے ملے بنیادی خلیے پھر بائیو ری ایکٹر میں رکھے جاتے ہیں۔بائیو ری ایکٹر کی خوبی یہ ہے کہ خلیوں کو پلنے بڑھنے کی خاطر بالکل قدرتی ماحول دیتا ہے۔ان خلیوں کو پھر تمام مطلوبہ غذائی اشیا (کاربوہائڈریٹ، پروٹین، چکنائی، معدنیات، وٹامن) مطلوبہ مقدار میں مہیا کی جاتی ہیں۔اس طرح مقررہ مدت میں بنیادی خلیے پل بڑھ کر گوشت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

2013ء میں بنیادی خلیوں کی مدد سے پہلا سرخ گوشت ہالینڈ کے ماہر ٹشو انجینئرنگ، مارک پوسٹ نے تیار کیا تھا۔اس کا کباب بنا کر برگر میں کھایا گیا۔

بعد ازاں سرخ گوشت لیبارٹریوں میں تیار کیا جانے لگا۔اواخر 2020ء میں سنگاپور لیبارٹری میں بنا سرخ گوشت بازار میں فروخت کی اجازت دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔مدعا یہی کہ اہل سنگاپور کو پروٹین سے بھرپور سرخ گوشت کا متبادل مل سکے اور ریاست میں اس غذا کی قلت دور ہو۔ سنگاپور کے ہر فی مربع کلومیٹر رقبے پر 8592 افراد بستے ہیں۔یہ مناکو کے بعد دنیا کا دوسرا گنجان ترین ملک ہے۔

گنجانی کی شدت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان کے ہر فی مربع کلومیٹر رقبے پر 312انسان بستے ہیں۔جبکہ آسٹریلیا میں اسی رقبے پر 44.3انسان آباد ہیں۔گویا سنگاپور میں مزید انسانوں کے لیے جگہ نہیں، وہاں کھیتوں، باغات اور مویشی پروری کی خاطر رقبہ کہاں سے آئے؟پچھلے د برس کے دوران رقبے کی کمی اہل سنگاپور نے بڑی شدت سے محسوس کی ۔وجہ یہی کہ اس دوران غذائوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔

حتی کہ متوسط طبقے کے لوگوں نے کھانا پینا کم کر دیا کیونکہ اب ان کے پاس اتنی رقم ہی نہیں ہوتی کہ مطلوبہ غذائیں خرید سکیں۔اہل سنگاپور اپنے طرز زندگی میں تبدیلیاں لا رہے ہیں تاکہ خوراک کا ماہانہ خرچ کم کر سکیں۔

خلوی دودھ

دودھ، پنیر، دہی اور آئس کریم وغیرہ لیبارٹری میں خلوی زراعت کی ایک اور تکنیک سے بنتے ہیں۔گائے بھینس، بکری کا دودھ 87 فیصد پانی ہوتا ہے۔بقیہ 13 فیصد حصہ چکنائی، پروٹین، شکر اور معدنیات رکھتا ہے۔

ماہرین لیبارٹری میں جینیاتی انجینرئنگ کے ذریعے تخلیق کردہ خمیر سے دودھ کے پروٹین بائیو ری ایکٹر میں بناتے ہیں۔

ان پروٹین میں پھر چکنائی، شکر اور معدنیات ملا کر خلوی دودھ بنایا جاتا ہے۔یہ دودھ امریکا ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں تیار ہو رہا ہے۔وہاں اس کی مقبولیت دن بدن بڑھ رہی ہے۔

خلوی زراعت کی مدد سے بنی غذائیں دیکھنے میں تو ہو بہو قدرتی ماحول کے ذریعے وجود پائی غذائوں جیسی ہوتی ہیں تاہم ان کا ذائقہ اکثر لوگوں کو مختلف لگتا ہے۔دراصل کھانے والے کے ذہن میں بھی یہ بات ہوتی ہے کہ وہ لیبارٹری میں تیار شدہ غذا کھا رہا ہے۔

اس لیے نفسیاتی طور پر بھی ذائقہ تبدیل پاتا ہے، چاہے حقیقت میں زیادہ فرق نہ بھی ہو۔بہرحال ماہرین ایسے غذائی عناصر کی کھوج میں ہیں جو خلوی زراعت سے بنی تمام غذائوں کا ذائقہ قدرتی غذا کے ذائقے سے قریب ترین لے جائیں۔چونکہ خلوی زراعت کی غذائیں جیتے جاگتے خلیوں اور نامیات سے تیار ہوتی ہیں۔

اس لیے ایسے شواہد سامنے نہیں آئے کہ انھوں نے انسانی صحت کو کوئی نرالا اور نیا نقصان پہنچایا ہو۔ سچ یہ ہے کہ کوئی انسان غیر صحت مند طرز زندگی اپنائے، ردی خوراک کھائے تو وہ جلد یا بدیر کسی بیماری یا طبی خلل کا نشانہ بن جاتا ہے۔

اسی طرح انسان صحت مندانہ طرز زندگی اپنا کر خلوی زراعت سے بنی غذائیں تناول کرے تو بیماریاں دور رہیں گی۔گویا انسان کو عموماً مرض غیر صحت مند طرز زندگی اپنانے سے چمٹتا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غریب ملک میں خلوی زراعت انقلاب لا سکتی ہے۔ کیونکہ اس کی بدولت پاکستانی قوم وافر اور سستی غذائیں پا سکے گی۔یہی دیکھیے کہ پاکستان میں اب غریب گوشت، دودھ، انڈے ہی نہیں پیاز، آٹے وغیرہ بھی آسانی سے نہیں خرید سکتا۔

اکثر غذائیں بہت مہنگی ہو چکیں۔اگر یہی غذائیں خلوی زراعت کی بدولت وسیع پیمانے پر بننے لگیں تو غریب بھی انھیں خرید کر زندگی سے لطف اٹھا سکے گا۔فی الوقت خلوی زراعت سے تیار شدہ غذائیں کافی مہنگی ہیں۔انھیں صرف ترقی یافتہ ممالک کے متمول باشندے ہی خرید پاتے ہیں۔

مگر سائنس داں بھرپور سعی کر رہے ہیں کہ زیادہ استعمال ہونے والی غذائیں مثلاً گوشت، دودھ، چکن، انڈے ، آلو، پیاز، ٹماٹر، سرخ مرچ وغیرہ تیار کرنے والے وسیع وعریض کارخانے وجود میں آ جائیں۔اس طرح غذائوں کی تیاری پر کم لاگت آئے گی اور وہ سستی ہو جائیں گی۔نظریاتی طور پر اناج، سبزی اور پھل بھی بائیو ری ایکٹر میں بنانا ممکن ہے۔مثلاً گدم کے بیجوں سے خلیے حاصل کیے ۔انھیں بائیو ری ایکٹر میں پروان چڑھا کر مذید بیج بنائے ۔

اب چند بیجوں سے کئی سوٹن گندم حاصل کرنا ممکن ہے۔اسی طرح پام اور کنولہ کے بیج بڑی تعداد میں تیار کرنا ممکن ہے جس سے پکانے کا تیل نکلتا ہے۔غرض خلوی زراعت ایسا زبردست انقلاب ہے جو مستقبل میں بنی نوع انسان کی زندگیاں آسان اور آرام دہ بنا دے گا۔
Load Next Story