مکافات عمل
میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی پیروی میں پی ٹی آئی کے لیڈر اور کارکن انھی کے نقش قدم پر چلنے لگے
شہباز گل آج کل بہت دکھی نظر آرہے ہیں۔ ان کا دکھی ہونا بنتا بھی ہے کیونکہ جس پر مقدمات ہوں، پیشیاں اور قید بھگتی ہوں اور مصائب پھر بھی ختم ہونے کا نام نہ لے رہے ہوں تو اس کا دکھی ہونا بنتا ہے۔
انھیں اپنی جماعت تحریک انصاف سے بھی بہت گلے شکوے ہیں، انھیں اداروں اور نظام سے بھی بہت گلے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے گلے درست ہوں، شہباز گل بے شک ایک پڑھے لکھے انسان ہیں، امریکا کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں، امریکا میں ایک اچھی نوکری چھوڑ کر پاکستان میں سیاست کرنے آئے ہیں۔
لیکن کیا اچھا سیاستدان ہونے کے لیے صرف پڑھا لکھا ہونا کافی ہے؟ کیا یہ درست نہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود پاکستان کی سیاست میں بد تمیزی، زبان درازی اور گالم گلوچ کے کلچر کو بام عروج پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
عمران خان کی سیاسی حکمت عملی ہی یہی تھی اور انھوں نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنی اس حکمت عملی کا ہراول دستہ بنایا اور ان سے اپنے مخالفین کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا کام لیا اور جتنا کوئی زہراگلتا ، سیاسی مخالفین کی کلاس لیتا، خان صاحب اس کی تعریف کرتے اور یہ تاثر دیتے کہ وہ انھیں سب سے زیادہ عزیز ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا، یہ حکمت عملی تھی جس کا شکار پڑھے لکھے نوجوان بن گئے ۔
ایک پڑھے لکھے اور مہذب انسان سے ہر گز یہ توقع نہیں ہوتی کہ وہ سیاسی مخالفین کے خلاف بالخصوص خواتین کے بارے میں عامیانہ یا ذومعنی زبان کرے گا، اگر کوئی معلم اور استاد ہونے کا دعویدار ہو، اس تو ہرگز یہ توقع نہیں کی جاسکتی ۔
یہ بدقسمتی ہی کہلائے گی کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے بدتمیزی، زبان درازی اور گالم گلوچ سے سیاست کو تو آلودہ کر دیا لیکن ایسا کرنے سے انھیں کوئی نیک نامی حاصل نہیں ہوئی۔ شہباز گل بھی عمران خان کی حکمت عملی کا شکار ہوگئے، جلسوں، ٹی وی ٹاک شوز اور پریس کانفرنسز کے دوران پی ٹی آئی اور عمران خان کے سیاسی مخالفین کے بارے میں ان کی گفتگو کا معیار کیسا ہوتا تھا۔
اسے یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صحافتی حلقوں میں بھی ان کے لب ولہجے کو پسند نہیں کیا جاتا تھا، خصوصاً خواتین صحافی ان کے لب و لہجے کی شاکی رہیں۔
شہبازگل کے ڈائیلاگ جو بہت مشہور ہوئے، وہ تھے میں جٹاں دا منڈاںآں، اگر میں گرفتار ہوا تو بیمار نہیں ہوںگا، میری کمر میں درد نہیں ہوگی۔ میں آپ کی قبروں پر آکر بھی آپ کے خلاف پریس کانفرنس کروں گا۔یہ سب وہ عمران خان کے سیاسی مخالفین کی بیماریوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی پیروی میں پی ٹی آئی کے لیڈر اور کارکن انھی کے نقش قدم پر چلنے لگے، چار سالہ اقتدار میں تو انھیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں تھا، اس لیے وہ گالم گلوچ کچر کے عادی ہو گئے ہیں، انھیں یقین ہو گیا تھا کہ یہ کوئی جرم نہیں بلکہ سچ بات ایسے ہی کی جاتی ہے ، یوں ان کا ہاتھ کھلتا گیا، ان کا ڈر بھی ختم ہوتا گیا۔
ان کے لیے یہ معمول کی بات بن گئی۔سوال یہ ہے کہ غلطی کہاں ہوئی؟ میرا خیال ہے کہ چار سال پی ٹی آئی کو اسٹبلشمنٹ کی حمایت حا صل رہی، شہباز گل سمیت سارے لیڈروں کا ہدف وہ لوگ تھے جو اسٹبلشمنٹ کو بھی پسند نہیں تھے۔
وہ پہلے ہی زیر عتاب تھے،وہ جواب نہیں دے سکتے تھے لیکن عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد حالات بدل چکے ہیں، پی ٹی آئی ٹائیگرز کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ اسٹیبلشمنٹ جو چھتری ان کے سر پر سایہ فگن تھی، وہ لپیٹ لی گئی ہے، اب وہ ننگے سر ہیں۔ اس لیے اب جواب بھی مل سکتا ہے اور قانون بھی حرکت میں آئے گا۔ آج یہی کچھ ہورہا ہے۔
آج پی ٹی آئی کے جو لوگ قانون اور پولیس کی گرفت میں ہیں، انھوں نے خود ہی بم کو ٹانگ ماری۔ کسی سیاسی جماعت اور شخصیات پر تنقید کرنے کی ایک حد ہوتی ہے، ریاستی اداروں پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن حدود کے اندر رہ کر، ہر ریاست اور معاشرت کے کچھ حساس ایریاز ہوتے ہیں،انھیں چھیڑنے سے پہلے نتائج و عواقب پر غور کرنا ضروری ہوتاہے، یہی ایک مدبر اور زیرک سیاستدان کی نشانی ہوتی ہے۔
کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے معتوب رہنما مکافات عمل کا شکار ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اقتدار کے دوران جو فصل بوئی تھی، وہ آج وہی کاٹ رہے ہیں۔ شہباز گل کا شکوہ اور گلہ شاید مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور اتحادی حکومت سے کم ہے اور اپنی جماعت کی قیادت سے زیادہ ہے۔
اس مشکل وقت میں تحریک انصاف کی قیادت میں سے بھی کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا، نہ کارکن نہ لیڈر ۔ کیوں یہ تاثر ہے کہ عمران خان نے بھی آنکھیں پھیر لی ہیں ، شائد عمران خان کے لیے ان کی سیاسی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔
ان کی جگہ اور لوگ آگئے ہیں جو آج کل زمان پارک کے دل وجان ہیں۔ عمران خان کئی لوگوں کو استعمال کرکے بھول چکے ہیں۔
جہانگیر ترین، علیم خان،عون چوہدری، جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین، خیبر پختونخوا کے وہ ارکان اسمبلی جن پر کرپشن کا الزام عائد کرکے انھیں پارٹی سے فارغ کردیا گیا تھا، لسٹ بہت لمبی، شہباز گل بیچارے کو تو اب احساس ہورہاہے کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ کیا گیا ہے۔
انھیں اپنی جماعت تحریک انصاف سے بھی بہت گلے شکوے ہیں، انھیں اداروں اور نظام سے بھی بہت گلے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے گلے درست ہوں، شہباز گل بے شک ایک پڑھے لکھے انسان ہیں، امریکا کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں، امریکا میں ایک اچھی نوکری چھوڑ کر پاکستان میں سیاست کرنے آئے ہیں۔
لیکن کیا اچھا سیاستدان ہونے کے لیے صرف پڑھا لکھا ہونا کافی ہے؟ کیا یہ درست نہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود پاکستان کی سیاست میں بد تمیزی، زبان درازی اور گالم گلوچ کے کلچر کو بام عروج پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
عمران خان کی سیاسی حکمت عملی ہی یہی تھی اور انھوں نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنی اس حکمت عملی کا ہراول دستہ بنایا اور ان سے اپنے مخالفین کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا کام لیا اور جتنا کوئی زہراگلتا ، سیاسی مخالفین کی کلاس لیتا، خان صاحب اس کی تعریف کرتے اور یہ تاثر دیتے کہ وہ انھیں سب سے زیادہ عزیز ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا، یہ حکمت عملی تھی جس کا شکار پڑھے لکھے نوجوان بن گئے ۔
ایک پڑھے لکھے اور مہذب انسان سے ہر گز یہ توقع نہیں ہوتی کہ وہ سیاسی مخالفین کے خلاف بالخصوص خواتین کے بارے میں عامیانہ یا ذومعنی زبان کرے گا، اگر کوئی معلم اور استاد ہونے کا دعویدار ہو، اس تو ہرگز یہ توقع نہیں کی جاسکتی ۔
یہ بدقسمتی ہی کہلائے گی کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے بدتمیزی، زبان درازی اور گالم گلوچ سے سیاست کو تو آلودہ کر دیا لیکن ایسا کرنے سے انھیں کوئی نیک نامی حاصل نہیں ہوئی۔ شہباز گل بھی عمران خان کی حکمت عملی کا شکار ہوگئے، جلسوں، ٹی وی ٹاک شوز اور پریس کانفرنسز کے دوران پی ٹی آئی اور عمران خان کے سیاسی مخالفین کے بارے میں ان کی گفتگو کا معیار کیسا ہوتا تھا۔
اسے یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صحافتی حلقوں میں بھی ان کے لب ولہجے کو پسند نہیں کیا جاتا تھا، خصوصاً خواتین صحافی ان کے لب و لہجے کی شاکی رہیں۔
شہبازگل کے ڈائیلاگ جو بہت مشہور ہوئے، وہ تھے میں جٹاں دا منڈاںآں، اگر میں گرفتار ہوا تو بیمار نہیں ہوںگا، میری کمر میں درد نہیں ہوگی۔ میں آپ کی قبروں پر آکر بھی آپ کے خلاف پریس کانفرنس کروں گا۔یہ سب وہ عمران خان کے سیاسی مخالفین کی بیماریوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی پیروی میں پی ٹی آئی کے لیڈر اور کارکن انھی کے نقش قدم پر چلنے لگے، چار سالہ اقتدار میں تو انھیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں تھا، اس لیے وہ گالم گلوچ کچر کے عادی ہو گئے ہیں، انھیں یقین ہو گیا تھا کہ یہ کوئی جرم نہیں بلکہ سچ بات ایسے ہی کی جاتی ہے ، یوں ان کا ہاتھ کھلتا گیا، ان کا ڈر بھی ختم ہوتا گیا۔
ان کے لیے یہ معمول کی بات بن گئی۔سوال یہ ہے کہ غلطی کہاں ہوئی؟ میرا خیال ہے کہ چار سال پی ٹی آئی کو اسٹبلشمنٹ کی حمایت حا صل رہی، شہباز گل سمیت سارے لیڈروں کا ہدف وہ لوگ تھے جو اسٹبلشمنٹ کو بھی پسند نہیں تھے۔
وہ پہلے ہی زیر عتاب تھے،وہ جواب نہیں دے سکتے تھے لیکن عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد حالات بدل چکے ہیں، پی ٹی آئی ٹائیگرز کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ اسٹیبلشمنٹ جو چھتری ان کے سر پر سایہ فگن تھی، وہ لپیٹ لی گئی ہے، اب وہ ننگے سر ہیں۔ اس لیے اب جواب بھی مل سکتا ہے اور قانون بھی حرکت میں آئے گا۔ آج یہی کچھ ہورہا ہے۔
آج پی ٹی آئی کے جو لوگ قانون اور پولیس کی گرفت میں ہیں، انھوں نے خود ہی بم کو ٹانگ ماری۔ کسی سیاسی جماعت اور شخصیات پر تنقید کرنے کی ایک حد ہوتی ہے، ریاستی اداروں پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن حدود کے اندر رہ کر، ہر ریاست اور معاشرت کے کچھ حساس ایریاز ہوتے ہیں،انھیں چھیڑنے سے پہلے نتائج و عواقب پر غور کرنا ضروری ہوتاہے، یہی ایک مدبر اور زیرک سیاستدان کی نشانی ہوتی ہے۔
کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے معتوب رہنما مکافات عمل کا شکار ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اقتدار کے دوران جو فصل بوئی تھی، وہ آج وہی کاٹ رہے ہیں۔ شہباز گل کا شکوہ اور گلہ شاید مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور اتحادی حکومت سے کم ہے اور اپنی جماعت کی قیادت سے زیادہ ہے۔
اس مشکل وقت میں تحریک انصاف کی قیادت میں سے بھی کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا، نہ کارکن نہ لیڈر ۔ کیوں یہ تاثر ہے کہ عمران خان نے بھی آنکھیں پھیر لی ہیں ، شائد عمران خان کے لیے ان کی سیاسی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔
ان کی جگہ اور لوگ آگئے ہیں جو آج کل زمان پارک کے دل وجان ہیں۔ عمران خان کئی لوگوں کو استعمال کرکے بھول چکے ہیں۔
جہانگیر ترین، علیم خان،عون چوہدری، جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین، خیبر پختونخوا کے وہ ارکان اسمبلی جن پر کرپشن کا الزام عائد کرکے انھیں پارٹی سے فارغ کردیا گیا تھا، لسٹ بہت لمبی، شہباز گل بیچارے کو تو اب احساس ہورہاہے کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ کیا گیا ہے۔