معاشی بھنور اشرافیہ کی مراعات کم کریں
صورتحال یہ ہے کہ پہلے سے مسائل کا شکار عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں
ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے، آئی ایم ایف سے قرضے کی نئی قسط لینے کے لیے اس کی ہر شرط کو پورا کیا جا رہا ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہم نے اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشکل فیصلے کیے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی اور معیشت کی بہتری کے لیے جن سخت فیصلوں کی ضرورت تھی اور گزشتہ حکومت کے جو فیصلے نافذ ہونے کے بعد واپس لیے گئے تھے، ان کی بحالی کا سخت فیصلہ بھاری سیاسی قیمت کی ادائیگی پر بالآخر حکومت کو کرنا پڑا ہے۔
موجودہ دنوں میں تو یہ بھی مصیبت ہے کہ حکومت نے کچھ کہا تو اتحادی ناراض ہو جائیں گے اور حکومت جاتی رہے گی۔
صورتحال یہ ہے کہ پہلے سے مسائل کا شکار عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ان پر مزید بوجھ ڈالنا ان کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کی رفتار کو تیز کرنے کے مترادف ہے، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ صرف ان دو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ لے کر نہیں آتا بلکہ ٹرانسپورٹ سے لے کر زرعی مشینری غرض ہر چیز جس میں ایندھن کا براہ راست استعمال ہوتا ہے یا بالواسطہ ہر چیز پر اس کا اثر پڑتا ہے اور ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ صرف مہنگی نہیں ہوتی بلکہ جس شرح سے اس شعبے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں کوشش ہوتی ہے کہ اس سے دگنا وصولی ہو جائے۔
پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمایندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔
اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیوں کہ پارلیمان میں موجود نمایندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ صدر مملکت ، وزیراعظم، وزرائ، مشیران و معاونین اور بیوروکریٹس کی سیکیورٹی اور پروٹوکول کی مد میں قومی خزانے سے ہونے والے اخراجات پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں جتنے بھی سیاست داں موجود ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے طبقہ اشرافیہ سے '' فیض'' نہ اٹھایا ہو ، خواہ وہ پی پی پی یا نون لیگ سے تعلق رکھتے ہوں یا پی ٹی آئی سے۔ ایسے میں کون اس پر ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ ریاض مجید نے ایسی ہی صورت حال کی جانب اس شعر کے ذریعے اشارہ کیا تھا۔
بہت بے زار ہیں اشرافیہ کی رہبری سے
کوئی انسان کوئی خاک زادہ چاہتے ہیں
کاش، ہمارے حکمران عام پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں ، جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں جب کہ ملک کی ہر نوع کی سرکاری اشرافیہ کے پُر آسائش طرز زندگی پر پاکستان کے خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کینٹین سے جو کھانا کھاتے ہیں، اس پر بھی انھیں سبسڈی دی جاتی ہے جب کہ عوام کے لیے سبسڈی ختم کی جارہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو بھی کاروباروں کے لیے سالانہ تقریبا دو ارب ڈالرز کی مراعات دی گئیں۔ یہ مراعات زمین، سرمائے اور انفرا اسٹرکچر تک ترجیحی رسائی کے ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ کی صورت میں دی گئیں۔
حکومتی سطح پر معاشی استحکام کے لیے حکومت جو کوششیں کر رہی ہے ان کو عام آدمی کی تائید و حمایت اسی وقت حاصل ہو گی جب عوام کی مالی مشکلات میں کمی آئے گی۔
دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں کا پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مثبت اقدام کرنا ان کے پاکستان پر اعتماد کی دلیل ہے لیکن ہمارے مقتدر حلقوں کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ آخر کب تک ہم دوسروں کی مدد کی بیساکھیاں لے کر معیشت کو کھڑا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟
اس وقت روزانہ کی بنیاد پر روپے کی قیمت مزید گرتی جا رہی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے کی بحالی سے روپے کی قدر میں کمی آئے گی اور ڈالر کی قیمت بھی کم ہو جائے گی لیکن سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت کتنی دیر کے لیے کم رہے گی؟ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض منظوری کے بعد وقتی طور پر روپے کی قدر مستحکم ہو گی۔
سچی اور کھری بات یہ ہے کہ ہمارے معاشی مسائل پہلے سے محصولات کے بوجھ تلے دبے ہوئے چند لاکھ ملازمت پیشہ اور رضاکارانہ ٹیکس ادا کرنے والے افراد پر دباؤ بڑھانے یا غریب اور متوسط طبقے کو بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑنے سے حل نہیں ہوں گے۔
اس کے لیے ان بڑے لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ہوگا جنھوں نے خود کو ہر قسم کے ٹیکسوں اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی سے مبرا قرار دے رکھا ہے اور عوام کے خون پسینے سے حاصل ہونے والے محصولات کو شیر مادر سمجھ کر ہضم ہی نہیں کر رہے، بڑے پیمانے پر بیرون ملک بھی منتقل کررہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی ایک پرانی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان ہر سال اشرافیہ کو ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات دیتا ہے ، کیا ہم کسی بھی طرح یہ مراعات کم کر کے ملکی معیشت کو استحکام کی راہ پر نہیں ڈال سکتے؟ کیا ہماری اشرافیہ اتنی طاقتور ہے کہ ملک کو اس کے مفادات پر قربان کیا جارہا ہے اور کوئی بھی اس کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں ہے؟ وطن عزیز کے اقتصادی مسائل کا بوجھ نظم حکومت کی خرابی، وسائل پر قابض اشرافیہ کی ہوس زر اور عوامی مسائل سے حکمرانوں کی لاتعلقی کے ساتھ مل کر ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ بات بجائے خود تحقیق طلب ہے کہ گیس کی قلت، بجلی کا بحران، مہنگائی اور افراط زر کی صورتحال کس حد تک حقیقی ہے اور کتنی منصوبہ سازوں کی نا اہلی یا جان بوجھ کر اختیار کردہ حکمت عملی کا شاخسانہ؟ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک طرف عوام پر آئے روز گیس، پٹرولیم مصنوعات، بجلی، پانی، اناج اور دوسری ضروری اشیاء کے نرخوں میں اضافے کے تازیانے برسائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے بااثر افراد سمیت ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ کے ٹھاٹھ باٹھ میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس وقت عام آدمی کو بس اسے اتنی فکر ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اس پر اس دفعہ کتنی بھاری پڑ سکتی ہیں۔ مہنگائی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ اشیائے خورونوش، پوشاک، تعمیراتی سامان غرض ہر چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
ایک عام پاکستانی، غریب، سفید پوش، دیہاڑی دار آٹے، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کرکے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ملاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگیوں کو پر آسایش بنانے کے لیے سرکاری خزانہ ایک خریدے ہوئے غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔
پچاس فی صد لوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب وروز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔ تن خواہ دار طبقہ بیش تر سفید پوش ہے ، جو بہ ظاہر تین وقت کھاتا ہے، اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے۔ مہینے کے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔
اس طبقے کے افراد بھی گھی، چینی ، آٹا خریدتے وقت اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا معاشی طور پر خوش حال پاکستانی دیتا ہے۔ یہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔
آخر وہ کس چیز کی سزا بھگت رہا ہے؟ اتنا ٹیکس دینے کے بعد بھی ریاست پاکستان اس کے بچوں کو ڈھنگ کی مفت تعلیم نہیں دیتی، بیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔ ایک عام پاکستانی کو اگر کسی سرکاری دفتر میں کام پڑ جائے تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خالی جیب کسی سرکاری دفتر میں قدم نہیں رکھ سکتا۔
جب تک وہ قدم قدم پر چھوٹے بڑے سرکاری بابوؤں کو رشوت نہیں دے گا کوئی اسے منہ نہیں لگائے گا۔
مہنگائی کے خاتمے کے لیے طلب و رسد کا توازن درست کیا جائے، مائیکرو اور میکرو اکانومی کی ترقی کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، کاروبار کی ترقی کے لیے دس سالہ منصوبہ بنا کر تندہی سے اس پر عمل کیا جائے، توانائی کے بحران پر قابو پانے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو بہت سے مسائل اتنے پیچیدہ نہیں رہیں گے جتنے اس وقت نظر آرہے ہیں۔
مگر اس کے لیے ہمارے سیاسی رہنماؤں، اشرافیہ اور وسائل پر تصرف رکھنے والے با اثر افراد کو عوام سے قربانی کا مطالبہ کرنے کی عادت ترک کرکے اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ ملک اور عوام سے محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ صاحب ثروت وزراء تنخواہیں اور مراعات لینے کی بجائے سرکاری اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتے۔
یہ اگر ممکن نہیں تو خود کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے امیروں اور بڑے زمینداروں پر ٹیکس لگانے کا ہی فیصلہ کرلیں۔ ہماری مشکلات اسی قسم کے اقدامات کا تقاضا کرتی ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر معیشت کو سہارا دینے کے لیے عوام سے قربانیاں لی جارہی ہیں، ایک بار اشرافیہ سے بھی قربانی لے کر دیکھ لیا جائے کہ حالات میں کتنی بہتری آتی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی اور معیشت کی بہتری کے لیے جن سخت فیصلوں کی ضرورت تھی اور گزشتہ حکومت کے جو فیصلے نافذ ہونے کے بعد واپس لیے گئے تھے، ان کی بحالی کا سخت فیصلہ بھاری سیاسی قیمت کی ادائیگی پر بالآخر حکومت کو کرنا پڑا ہے۔
موجودہ دنوں میں تو یہ بھی مصیبت ہے کہ حکومت نے کچھ کہا تو اتحادی ناراض ہو جائیں گے اور حکومت جاتی رہے گی۔
صورتحال یہ ہے کہ پہلے سے مسائل کا شکار عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ان پر مزید بوجھ ڈالنا ان کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کی رفتار کو تیز کرنے کے مترادف ہے، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ صرف ان دو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ لے کر نہیں آتا بلکہ ٹرانسپورٹ سے لے کر زرعی مشینری غرض ہر چیز جس میں ایندھن کا براہ راست استعمال ہوتا ہے یا بالواسطہ ہر چیز پر اس کا اثر پڑتا ہے اور ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ صرف مہنگی نہیں ہوتی بلکہ جس شرح سے اس شعبے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں کوشش ہوتی ہے کہ اس سے دگنا وصولی ہو جائے۔
پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمایندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔
اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیوں کہ پارلیمان میں موجود نمایندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ صدر مملکت ، وزیراعظم، وزرائ، مشیران و معاونین اور بیوروکریٹس کی سیکیورٹی اور پروٹوکول کی مد میں قومی خزانے سے ہونے والے اخراجات پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں جتنے بھی سیاست داں موجود ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے طبقہ اشرافیہ سے '' فیض'' نہ اٹھایا ہو ، خواہ وہ پی پی پی یا نون لیگ سے تعلق رکھتے ہوں یا پی ٹی آئی سے۔ ایسے میں کون اس پر ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ ریاض مجید نے ایسی ہی صورت حال کی جانب اس شعر کے ذریعے اشارہ کیا تھا۔
بہت بے زار ہیں اشرافیہ کی رہبری سے
کوئی انسان کوئی خاک زادہ چاہتے ہیں
کاش، ہمارے حکمران عام پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں ، جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں جب کہ ملک کی ہر نوع کی سرکاری اشرافیہ کے پُر آسائش طرز زندگی پر پاکستان کے خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کینٹین سے جو کھانا کھاتے ہیں، اس پر بھی انھیں سبسڈی دی جاتی ہے جب کہ عوام کے لیے سبسڈی ختم کی جارہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو بھی کاروباروں کے لیے سالانہ تقریبا دو ارب ڈالرز کی مراعات دی گئیں۔ یہ مراعات زمین، سرمائے اور انفرا اسٹرکچر تک ترجیحی رسائی کے ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ کی صورت میں دی گئیں۔
حکومتی سطح پر معاشی استحکام کے لیے حکومت جو کوششیں کر رہی ہے ان کو عام آدمی کی تائید و حمایت اسی وقت حاصل ہو گی جب عوام کی مالی مشکلات میں کمی آئے گی۔
دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں کا پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مثبت اقدام کرنا ان کے پاکستان پر اعتماد کی دلیل ہے لیکن ہمارے مقتدر حلقوں کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ آخر کب تک ہم دوسروں کی مدد کی بیساکھیاں لے کر معیشت کو کھڑا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟
اس وقت روزانہ کی بنیاد پر روپے کی قیمت مزید گرتی جا رہی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے کی بحالی سے روپے کی قدر میں کمی آئے گی اور ڈالر کی قیمت بھی کم ہو جائے گی لیکن سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت کتنی دیر کے لیے کم رہے گی؟ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض منظوری کے بعد وقتی طور پر روپے کی قدر مستحکم ہو گی۔
سچی اور کھری بات یہ ہے کہ ہمارے معاشی مسائل پہلے سے محصولات کے بوجھ تلے دبے ہوئے چند لاکھ ملازمت پیشہ اور رضاکارانہ ٹیکس ادا کرنے والے افراد پر دباؤ بڑھانے یا غریب اور متوسط طبقے کو بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑنے سے حل نہیں ہوں گے۔
اس کے لیے ان بڑے لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ہوگا جنھوں نے خود کو ہر قسم کے ٹیکسوں اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی سے مبرا قرار دے رکھا ہے اور عوام کے خون پسینے سے حاصل ہونے والے محصولات کو شیر مادر سمجھ کر ہضم ہی نہیں کر رہے، بڑے پیمانے پر بیرون ملک بھی منتقل کررہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی ایک پرانی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان ہر سال اشرافیہ کو ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات دیتا ہے ، کیا ہم کسی بھی طرح یہ مراعات کم کر کے ملکی معیشت کو استحکام کی راہ پر نہیں ڈال سکتے؟ کیا ہماری اشرافیہ اتنی طاقتور ہے کہ ملک کو اس کے مفادات پر قربان کیا جارہا ہے اور کوئی بھی اس کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں ہے؟ وطن عزیز کے اقتصادی مسائل کا بوجھ نظم حکومت کی خرابی، وسائل پر قابض اشرافیہ کی ہوس زر اور عوامی مسائل سے حکمرانوں کی لاتعلقی کے ساتھ مل کر ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ بات بجائے خود تحقیق طلب ہے کہ گیس کی قلت، بجلی کا بحران، مہنگائی اور افراط زر کی صورتحال کس حد تک حقیقی ہے اور کتنی منصوبہ سازوں کی نا اہلی یا جان بوجھ کر اختیار کردہ حکمت عملی کا شاخسانہ؟ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک طرف عوام پر آئے روز گیس، پٹرولیم مصنوعات، بجلی، پانی، اناج اور دوسری ضروری اشیاء کے نرخوں میں اضافے کے تازیانے برسائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے بااثر افراد سمیت ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ کے ٹھاٹھ باٹھ میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس وقت عام آدمی کو بس اسے اتنی فکر ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اس پر اس دفعہ کتنی بھاری پڑ سکتی ہیں۔ مہنگائی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ اشیائے خورونوش، پوشاک، تعمیراتی سامان غرض ہر چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
ایک عام پاکستانی، غریب، سفید پوش، دیہاڑی دار آٹے، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کرکے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ملاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگیوں کو پر آسایش بنانے کے لیے سرکاری خزانہ ایک خریدے ہوئے غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔
پچاس فی صد لوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب وروز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔ تن خواہ دار طبقہ بیش تر سفید پوش ہے ، جو بہ ظاہر تین وقت کھاتا ہے، اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے۔ مہینے کے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔
اس طبقے کے افراد بھی گھی، چینی ، آٹا خریدتے وقت اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا معاشی طور پر خوش حال پاکستانی دیتا ہے۔ یہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔
آخر وہ کس چیز کی سزا بھگت رہا ہے؟ اتنا ٹیکس دینے کے بعد بھی ریاست پاکستان اس کے بچوں کو ڈھنگ کی مفت تعلیم نہیں دیتی، بیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔ ایک عام پاکستانی کو اگر کسی سرکاری دفتر میں کام پڑ جائے تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خالی جیب کسی سرکاری دفتر میں قدم نہیں رکھ سکتا۔
جب تک وہ قدم قدم پر چھوٹے بڑے سرکاری بابوؤں کو رشوت نہیں دے گا کوئی اسے منہ نہیں لگائے گا۔
مہنگائی کے خاتمے کے لیے طلب و رسد کا توازن درست کیا جائے، مائیکرو اور میکرو اکانومی کی ترقی کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، کاروبار کی ترقی کے لیے دس سالہ منصوبہ بنا کر تندہی سے اس پر عمل کیا جائے، توانائی کے بحران پر قابو پانے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو بہت سے مسائل اتنے پیچیدہ نہیں رہیں گے جتنے اس وقت نظر آرہے ہیں۔
مگر اس کے لیے ہمارے سیاسی رہنماؤں، اشرافیہ اور وسائل پر تصرف رکھنے والے با اثر افراد کو عوام سے قربانی کا مطالبہ کرنے کی عادت ترک کرکے اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ ملک اور عوام سے محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ صاحب ثروت وزراء تنخواہیں اور مراعات لینے کی بجائے سرکاری اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتے۔
یہ اگر ممکن نہیں تو خود کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے امیروں اور بڑے زمینداروں پر ٹیکس لگانے کا ہی فیصلہ کرلیں۔ ہماری مشکلات اسی قسم کے اقدامات کا تقاضا کرتی ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر معیشت کو سہارا دینے کے لیے عوام سے قربانیاں لی جارہی ہیں، ایک بار اشرافیہ سے بھی قربانی لے کر دیکھ لیا جائے کہ حالات میں کتنی بہتری آتی ہے۔