عمران خان کی ڈبل گیم دوسرا حصہ
آپ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور خطے میں امریکی پالیسی پر بہت تنقید کرتے رہے ہیں
(عمران خان کے 5فروری کو امریکی جریدے دی نیویارکر کے صحافی آئزک چو ٹینر سے زوم پر انٹرویو)
آزاد تنظیموں نے کچھ اور رپورٹ کیا ہے؟
ٹہرو، اس کا موازنہ ان آٹھ مہینوں سے کریں جو میرے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد ہواہے۔ ایسے صحافی بھی ہیں جنھیں مارا پیٹا گیا ہے۔ ہمارے بہترین تفتیشی صحافیوں میں سے ایک کو کینیا میں قتل کر دیا گیا ۔ سوشل میڈیا کارکنوں کو مارا پیٹا گیا۔ میرے دور میں ایسا کبھی نہیں ہوا!
پاکستان کی پوری تاریخ میں ایسا ہوتا آیا ہے، بشمول آپ کا دور اقتدار۔ پاکستان کے کارکنوں اور صحافیوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے؟
نہیں، آئزک، ہمارے ساڑھے تین سالوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ صحافیوں کے صرف دو واقعات تھے جنھیں اٹھایا گیا اور ہم نے فوراً انھیں رہا کر دیا۔ کوئی بھی معروضی مبصر کہے گا کہ ساڑھے تین سال میں ہم نے کبھی کسی پر تشدد نہیں کیا۔
آپ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور خطے میں امریکی پالیسی پر بہت تنقید کرتے رہے ہیں۔ لیکن پاکستان ان کی مدد کر رہا تھا اور امداد بھی لے رہا تھا، کیا یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا ہے؟
معذرت آئزک، آپ چاہتے تھے کہ میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے بارے میں سوالات کا جواب دوں۔ میں نے ایک وجہ سے 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شامل ہونے کی مخالفت کی۔ اسی کی دہائی میں پاکستان اور امریکا نے افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے خلاف جہاد کے ساتھ مل کر کام کیا۔
ہم نے مجاہدین کو غیر ملکی قبضے سے لڑنے کی تربیت دی تھی اور وہ ہیرو سمجھے جاتے تھے۔ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ، ہمارے پاس پشتون قبائلی پٹی تھی جہاں سے افغان جہاد کا آغاز ہوا تھا۔ نائن الیون کے بعد، میں یہ کہتا رہا کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، کیونکہ یہ کہنے کے بعد کہ سوویت یونین سے لڑنا جہاد اور مذہبی فریضہ ہے۔
اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ امریکا وہاں ہے، تو یہ مزاحمت دہشت گردی ہے، یہ بیک فائر کرے گا اور وہی ہوا، اس کے علاوہ القاعدہ جیسے گروپ پاکستان کے خلاف ہو گئے۔ میں ہمیشہ یہ کہنے میں درست تھا کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے تھا، یہ امریکا مخالف نہیں تھا۔
یہ ایک عجیب مسئلہ ہے کہ جو امریکا کی سوچ سے یا اس کی خارجہ پالیسی سے متفق نہیں ہے، اسے ''امریکا مخالف'' بنا دیا جاتا ہے، میں تو صرف پاکستانی مفاد کے لیے کہتا تھا۔
لیکن پاکستان غیر جانبدار نہیں تھا، ٹھیک ہے؟ نوے کی دہائی کے وسط میں، افغانستان میں، پاکستان نے طالبان کو اقتدار میں لانے میں مدد کی اور پچھلے پچیس سالوں کے دوران طالبان کے مختلف دھڑوں کو امداد دی۔
میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، اس کے پیش نظر کیا ہوا جب طالبان کے مختلف دھڑے پاکستان کے خلاف ہو گئے، لیکن پاکستان یہاں غیر جانبدار کھلاڑی نہیں تھا۔
آئزک، ہم اس موضوع پر ایک الگ انٹرویو کر سکتے ہیں کیونکہ، دیکھو، میں ایک ماہر سمجھا جاتا ہوں، مجھے ماہر کیوں سمجھا جاتا ہے؟
میں یہ پوچھنے ہی والا تھا۔
میری پارٹی شمال مغربی صوبے میں برسراقتدار ہے جسے اب K.P کہا جاتا ہے۔ یہ پشتونوں کا صوبہ ہے۔ یاد رکھیں، طالبان پشتون تھے اور سوویت یونین کے خلاف لڑائی کی قیادت پشتون کرتے تھے تو مجھے ساری صورتحال کا علم ہے۔
نوے کی دہائی میں جب طالبان برسراقتدار آئے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ پاکستانی حکومت نے ان کی مدد کی۔ پاکستانی حکومت اس وقت گلبدین حکمت یار کی پشت پناہی کر رہی تھی جو کابل کو کنٹرول کر رہا تھا، اصل میں، یہ ایک غلطی تھی، تب ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے تھا۔ لیکن طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا، پھر افغانستان کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔
جب پاکستان نے محسوس کیا کہ طالبان اقتدار پر قبضہ کرنے والے ہیں، اس وقت ہم نے ان کا ساتھ دیا۔ (پاکستان نے 1996 میں جنگجوؤں کے کابل پر قبضہ کرنے سے پہلے ایک سال سے زیادہ عرصے تک طالبان کو سپلائی اور مالی امداد فراہم کی)۔
کیا طالبان کی موجودہ حکومت کو پاکستان کا اتحادی ہونا چاہیے؟ اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان کی حکومت افغان عوام کی جائز نمایندہ ہے؟
ٹھیک ہے، سب سے پہلے، جو کوئی بھی افغان ذہن کو سمجھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ افغانستان کو کسی کی طرف سے قبول ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ سب سے زیادہ آزاد خیال لوگ ہیں، وہ کسی بھی بیرونی مداخلت کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
میں بہت شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ افغانستان کو تنہا نہیں ہونا چاہیے۔ چالیس سال بعد افغانستان میں حکومت کو کچھ سکون ملا ہے۔ یہ طالبان نہیں ہے، یہ افغانستان کی حکومت ہے۔
کیا یہ طالبان نہیں؟
یہ افغانستان کی حکومت ہے۔ میرا مطلب ہے کہ چالیس ملین طالبان نہیں ہیں جو ملک کو چلا رہے ہیں۔ آپ کو افغانستان کے چالیس ملین لوگوں کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ چالیس سال بعد امن ہے۔
اگر آپ انھیں مرکزی دھارے میں شامل کرتے ہیں، تو یہ انسانی حقوق اور خواتین کی تعلیم کی حمایت کے لیے ان پر زور دینے کا بہت بہتر موقع ہے۔
کیا آپ نے ایسا نہیں کہا کہ لڑکیوں کو تعلیم نہ دینا افغان ثقافت کا حصہ ہے؟ کیا یہ درست ہے؟
بالکل نہیں، میں نے کبھی ایسا نہیں کہا۔
پاکستان میں افغانستان سے زیادہ پشتون ہیں، ہم دراصل لڑکیوں کی تعلیم کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہم بچیوں کے والدین کو اسکول بھیجنے کے لیے وظیفہ ادا کرتے ہیں۔ ہم پاکستان میں جتنے بھی اسکول، نئے اسکول بناتے ہیں، ان میں ساٹھ سے ستر فیصد لڑکیوں کے لیے ہیں۔
میں نے صرف اتنا کہا کہ افغانستان کی دیہی ثقافت شہری ثقافت سے بالکل مختلف ہے، جیسا پاکستان کے پشتون علاقوں میں ہے، وہ بہت قدامت پسند ہیں۔ میں نے اتنا ہی کہا۔
''اگر ہم ان لوگوں کے ثقافتی اصولوں کے بارے میں حساس نہیں ہیں، یہاں تک کہ وظیفے کے باوجود، افغانستان میں لوگ اپنی لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے''۔
ہاں! میں نے اتنا ہی کہا۔ پاکستان میں، دیہی علاقوں میں پشتون والدین اپنی بچیوں کو تعلیم دلانے کے لیے بہت خواہش مند ہیںاور ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
لیکن، اگر انھیں لگتا ہے کہ تعلیم لڑکیوں کی سلامتی یا ثقافتی اصولوں سے سمجھوتہ کرے گی، تو وہ لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے۔ لہذا، جب ہم اسکول بناتے ہیں، تو محتاط رہتے ہیں کہ ان ثقافتی اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہو۔
آپ نے یہ بھی کہا کہ جب طالبان نے 2021 میں کابل پر قبضہ کیا تو یہ ''غلامی کی زنجیریں توڑ رہا تھا''۔عمران ہنسے، آپ ہنس رہے ہیں؟آپ کو یہ سمجھنا ہوگا، میرا بیان جان بوجھ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا۔
اچھا میں سمجھ گیا۔ تقریر اردو میں تھی۔ جب انگریزی میں ترجمہ ہوا تو یہ ایک ایسے وقت میں بہت تلخ لگ رہا تھا جب امریکا میں لوگ بہت حساس تھے۔ میں صرف اتنا کہہ رہا تھا کہ ہم نے پاکستان میں اپنے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلی کی ہے۔
ہمیں یہ نوآبادیاتی نظام ورثے میں ملا ہے جہاں پاکستان میں ایک مختصر طبقے کو انگریزی میڈیم میں پڑھایا جائے گا اور باقی کو اردو میں پڑھایا جائے گا۔ لہذا، ہم نے تعلیمی نظام کی ترکیب کی۔
میں نے کہا، ''دیکھو، ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔'' میں صرف لوگوں کو بتا رہا تھا کہ افغانستان نے خود کو آزاد کر لیا ہے، لیکن یہ اتنا برا نہیں ہے، یہ ذہنی غلامی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے، جس کا ہم شکار ہیں۔ وہ ایک لائن پوری دنیا میں وائرل ہوگئی اور سیاق و سباق بالکل مختلف تھا۔
(جاری ہے)
آزاد تنظیموں نے کچھ اور رپورٹ کیا ہے؟
ٹہرو، اس کا موازنہ ان آٹھ مہینوں سے کریں جو میرے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد ہواہے۔ ایسے صحافی بھی ہیں جنھیں مارا پیٹا گیا ہے۔ ہمارے بہترین تفتیشی صحافیوں میں سے ایک کو کینیا میں قتل کر دیا گیا ۔ سوشل میڈیا کارکنوں کو مارا پیٹا گیا۔ میرے دور میں ایسا کبھی نہیں ہوا!
پاکستان کی پوری تاریخ میں ایسا ہوتا آیا ہے، بشمول آپ کا دور اقتدار۔ پاکستان کے کارکنوں اور صحافیوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے؟
نہیں، آئزک، ہمارے ساڑھے تین سالوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ صحافیوں کے صرف دو واقعات تھے جنھیں اٹھایا گیا اور ہم نے فوراً انھیں رہا کر دیا۔ کوئی بھی معروضی مبصر کہے گا کہ ساڑھے تین سال میں ہم نے کبھی کسی پر تشدد نہیں کیا۔
آپ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اور خطے میں امریکی پالیسی پر بہت تنقید کرتے رہے ہیں۔ لیکن پاکستان ان کی مدد کر رہا تھا اور امداد بھی لے رہا تھا، کیا یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا ہے؟
معذرت آئزک، آپ چاہتے تھے کہ میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے بارے میں سوالات کا جواب دوں۔ میں نے ایک وجہ سے 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شامل ہونے کی مخالفت کی۔ اسی کی دہائی میں پاکستان اور امریکا نے افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے خلاف جہاد کے ساتھ مل کر کام کیا۔
ہم نے مجاہدین کو غیر ملکی قبضے سے لڑنے کی تربیت دی تھی اور وہ ہیرو سمجھے جاتے تھے۔ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ، ہمارے پاس پشتون قبائلی پٹی تھی جہاں سے افغان جہاد کا آغاز ہوا تھا۔ نائن الیون کے بعد، میں یہ کہتا رہا کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، کیونکہ یہ کہنے کے بعد کہ سوویت یونین سے لڑنا جہاد اور مذہبی فریضہ ہے۔
اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ امریکا وہاں ہے، تو یہ مزاحمت دہشت گردی ہے، یہ بیک فائر کرے گا اور وہی ہوا، اس کے علاوہ القاعدہ جیسے گروپ پاکستان کے خلاف ہو گئے۔ میں ہمیشہ یہ کہنے میں درست تھا کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے تھا، یہ امریکا مخالف نہیں تھا۔
یہ ایک عجیب مسئلہ ہے کہ جو امریکا کی سوچ سے یا اس کی خارجہ پالیسی سے متفق نہیں ہے، اسے ''امریکا مخالف'' بنا دیا جاتا ہے، میں تو صرف پاکستانی مفاد کے لیے کہتا تھا۔
لیکن پاکستان غیر جانبدار نہیں تھا، ٹھیک ہے؟ نوے کی دہائی کے وسط میں، افغانستان میں، پاکستان نے طالبان کو اقتدار میں لانے میں مدد کی اور پچھلے پچیس سالوں کے دوران طالبان کے مختلف دھڑوں کو امداد دی۔
میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، اس کے پیش نظر کیا ہوا جب طالبان کے مختلف دھڑے پاکستان کے خلاف ہو گئے، لیکن پاکستان یہاں غیر جانبدار کھلاڑی نہیں تھا۔
آئزک، ہم اس موضوع پر ایک الگ انٹرویو کر سکتے ہیں کیونکہ، دیکھو، میں ایک ماہر سمجھا جاتا ہوں، مجھے ماہر کیوں سمجھا جاتا ہے؟
میں یہ پوچھنے ہی والا تھا۔
میری پارٹی شمال مغربی صوبے میں برسراقتدار ہے جسے اب K.P کہا جاتا ہے۔ یہ پشتونوں کا صوبہ ہے۔ یاد رکھیں، طالبان پشتون تھے اور سوویت یونین کے خلاف لڑائی کی قیادت پشتون کرتے تھے تو مجھے ساری صورتحال کا علم ہے۔
نوے کی دہائی میں جب طالبان برسراقتدار آئے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ پاکستانی حکومت نے ان کی مدد کی۔ پاکستانی حکومت اس وقت گلبدین حکمت یار کی پشت پناہی کر رہی تھی جو کابل کو کنٹرول کر رہا تھا، اصل میں، یہ ایک غلطی تھی، تب ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے تھا۔ لیکن طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا، پھر افغانستان کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔
جب پاکستان نے محسوس کیا کہ طالبان اقتدار پر قبضہ کرنے والے ہیں، اس وقت ہم نے ان کا ساتھ دیا۔ (پاکستان نے 1996 میں جنگجوؤں کے کابل پر قبضہ کرنے سے پہلے ایک سال سے زیادہ عرصے تک طالبان کو سپلائی اور مالی امداد فراہم کی)۔
کیا طالبان کی موجودہ حکومت کو پاکستان کا اتحادی ہونا چاہیے؟ اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان کی حکومت افغان عوام کی جائز نمایندہ ہے؟
ٹھیک ہے، سب سے پہلے، جو کوئی بھی افغان ذہن کو سمجھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ افغانستان کو کسی کی طرف سے قبول ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ سب سے زیادہ آزاد خیال لوگ ہیں، وہ کسی بھی بیرونی مداخلت کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
میں بہت شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ افغانستان کو تنہا نہیں ہونا چاہیے۔ چالیس سال بعد افغانستان میں حکومت کو کچھ سکون ملا ہے۔ یہ طالبان نہیں ہے، یہ افغانستان کی حکومت ہے۔
کیا یہ طالبان نہیں؟
یہ افغانستان کی حکومت ہے۔ میرا مطلب ہے کہ چالیس ملین طالبان نہیں ہیں جو ملک کو چلا رہے ہیں۔ آپ کو افغانستان کے چالیس ملین لوگوں کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ چالیس سال بعد امن ہے۔
اگر آپ انھیں مرکزی دھارے میں شامل کرتے ہیں، تو یہ انسانی حقوق اور خواتین کی تعلیم کی حمایت کے لیے ان پر زور دینے کا بہت بہتر موقع ہے۔
کیا آپ نے ایسا نہیں کہا کہ لڑکیوں کو تعلیم نہ دینا افغان ثقافت کا حصہ ہے؟ کیا یہ درست ہے؟
بالکل نہیں، میں نے کبھی ایسا نہیں کہا۔
پاکستان میں افغانستان سے زیادہ پشتون ہیں، ہم دراصل لڑکیوں کی تعلیم کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہم بچیوں کے والدین کو اسکول بھیجنے کے لیے وظیفہ ادا کرتے ہیں۔ ہم پاکستان میں جتنے بھی اسکول، نئے اسکول بناتے ہیں، ان میں ساٹھ سے ستر فیصد لڑکیوں کے لیے ہیں۔
میں نے صرف اتنا کہا کہ افغانستان کی دیہی ثقافت شہری ثقافت سے بالکل مختلف ہے، جیسا پاکستان کے پشتون علاقوں میں ہے، وہ بہت قدامت پسند ہیں۔ میں نے اتنا ہی کہا۔
''اگر ہم ان لوگوں کے ثقافتی اصولوں کے بارے میں حساس نہیں ہیں، یہاں تک کہ وظیفے کے باوجود، افغانستان میں لوگ اپنی لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے''۔
ہاں! میں نے اتنا ہی کہا۔ پاکستان میں، دیہی علاقوں میں پشتون والدین اپنی بچیوں کو تعلیم دلانے کے لیے بہت خواہش مند ہیںاور ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
لیکن، اگر انھیں لگتا ہے کہ تعلیم لڑکیوں کی سلامتی یا ثقافتی اصولوں سے سمجھوتہ کرے گی، تو وہ لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجیں گے۔ لہذا، جب ہم اسکول بناتے ہیں، تو محتاط رہتے ہیں کہ ان ثقافتی اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہو۔
آپ نے یہ بھی کہا کہ جب طالبان نے 2021 میں کابل پر قبضہ کیا تو یہ ''غلامی کی زنجیریں توڑ رہا تھا''۔عمران ہنسے، آپ ہنس رہے ہیں؟آپ کو یہ سمجھنا ہوگا، میرا بیان جان بوجھ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا۔
اچھا میں سمجھ گیا۔ تقریر اردو میں تھی۔ جب انگریزی میں ترجمہ ہوا تو یہ ایک ایسے وقت میں بہت تلخ لگ رہا تھا جب امریکا میں لوگ بہت حساس تھے۔ میں صرف اتنا کہہ رہا تھا کہ ہم نے پاکستان میں اپنے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلی کی ہے۔
ہمیں یہ نوآبادیاتی نظام ورثے میں ملا ہے جہاں پاکستان میں ایک مختصر طبقے کو انگریزی میڈیم میں پڑھایا جائے گا اور باقی کو اردو میں پڑھایا جائے گا۔ لہذا، ہم نے تعلیمی نظام کی ترکیب کی۔
میں نے کہا، ''دیکھو، ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔'' میں صرف لوگوں کو بتا رہا تھا کہ افغانستان نے خود کو آزاد کر لیا ہے، لیکن یہ اتنا برا نہیں ہے، یہ ذہنی غلامی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے، جس کا ہم شکار ہیں۔ وہ ایک لائن پوری دنیا میں وائرل ہوگئی اور سیاق و سباق بالکل مختلف تھا۔
(جاری ہے)