آواز خزانہ

وہ نہایت خلوص سے یہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کی حکومت پر خلوص تھی

fatimaqazi7@gmail.com

اچھی کتابیں اچھے دوستوں کی طرح ہوتی ہیں جو قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں اور جب کتابوں کے ساتھ انجینئر راشد اشرف کا نام جڑا ہو تو کتاب کی وقعت زیادہ ہوجاتی ہے۔

'' آواز خزانہ'' (جلد اول) دراصل ان مختلف انٹرویوز پر مشتمل ہے جو لطیف ﷲ خاں صاحب کی آڈیو لائبریری میں محفوظ ہیں۔

پروفیسر سحر انصاری نے سچ کہا ہے کہ '' دنیا میں بعض ایسی شخصیات پیدا ہوتی ہیں جو غیر معمولی کارنامے انجام دے کر لوح یقین پہ اپنا نام ہمیشہ کے لیے ثبت کردیتی ہیں۔ انھی میں ایک نام لطیف ﷲ خاں صاحب کا بھی ہے، جنھوں نے فنون لطیفہ کے خاص زاویوں کی جمع آوری میں کمال حاصل کیا۔''

اس کتاب میں موجود انٹرویوزکی نگرانی ڈاکٹر خورشید عبدﷲ نے کی ہے، رو داد نویس ہیں ثوبیہ شفیق اور اہتمام و پیشکش ہے راشد اشرف کی۔

یہ وہ انٹرویوز زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا ہے ان میں اسلوب احمد انصاری، اشرف صبوحی دہلوی، بیگم رشید احمد صدیقی، خواجہ خورشید انور، ڈاکٹر مختار الدین آرزو، ڈاکٹر محمد صادق، رشید حسن خاں، ظ ۔ انصاری، قیوم نظر، مظفر علی سید اور مولانا جمال میاں فرنگی محلی شامل ہیں۔

یہ انٹرویو بہت معلوماتی اور دلچسپ ہیں خاص کر اشرف صبوحی دہلوی، بیگم رشید احمد صدیقی، قیوم نظراور مولانا جمال میاں فرنگی محلی کے انٹرویو جو بطور خاص مجھے بہت پسند آئے۔ ڈاکٹر خورشید عبدﷲ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ ''میں نے یہ کام کسی شوق اور مشغلے کے طور پر نہیں کیا ہے میں ادب اور تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے اس ذخیرہ کی اہمیت سے آگاہ ہوں۔ یہ اپنے اسلاف کی یادگاروں اور تاریخ کو محفوظ کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔''

اشرف صبوحی دہلوی سے سوال کیا گیا کہ وہ کوئی شعر یا واقعہ سنائیں تو وہ بولے ''ہاں وہ تو ہے میں نے ایک خاتون سے کہا '' ماشاء ﷲ کیا اچھا مقالہ پڑھا آپ نے'' کہنے لگیں'' یہ آپ کا حسن ظن ہے۔'' تو میں نے کہا ''حسن ظن (حسن زن) کہاں میرے پاس حسن مرد بھی نہیں ہے، دانت میرے ٹوٹ گئے، آنکھ پہ عینک چڑھ گئی ہے، بال میرے سفید ہوگئے ہیں میرے پاس حسن ظن (حسن زن) کہاں سے آیا، وہ تو ﷲ نے آپ کو مرحمت فرمایا ہے۔''

بیگم رشید احمد صدیقی، اپنے شوہر رشید احمد صدیقی کے بارے میں کہتی ہیں ''ایک دفعہ لیڈی چھتاری آگئیں اور یہ اسی طرح بیٹھے ہوئے اپنا چھوٹا سا فوارہ تھا اس سے پھولوں کی پتیاں دھو رہے تھے۔

وہ آئیں اور مجھے آکر بولیں کہ ''بہن آپ نے مالی بڑا اچھا رکھا ہے۔ پھولوں سے تو بس پوچھے ہی نہیں۔'' خواجہ خورشید انور کا انٹرویو انعام صدیقی نے لیا تھا۔

وہ موسیقی کے بارے میں بہت فکر مند تھے خاص کر جدید موسیقی کے نام پر جو اودھم اور ہڑبونگ مچائی جارہی ہے اس کے بارے میں کہتے ہیں۔'' پر اب یہ ہے ان لوگوں کی وجہ سے جو آگئے ہیں ہماری انڈسٹری ہیں، جو ہیروئن کو بھی ویسے ہی گانے دیتے ہیں جو بازاری عورت کو دیے جاتے ہیں۔

اب پروڈیوسر بھی ایسے آگئے ہیں جو ویسے ہی جاہل ہیں ، مزے کی بات یہ ہے کہ ان کو وہی لوگ Satis کرتے ہیں وہ کہتے ہیں صاحب کچھ ایسا ہو میں۔ تو روز روز ایسے ایسے بول ایسے ایسے گندے بول آرہے ہیں ، فلموں میں ایسی سچویشنز آرہی ہیں، جو کوئی ذرا سا بھیEducated ہوگا۔He wouldn't do it--- He would spit at it تو یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ جنھیں میں ذاتی طور پر جانتا ہوں مثلاً مسعود پرویز پڑھے لکھے بھی ہیں اور ایسے بھی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ sensible پکچر بنائیں گے۔

صرف انھی کی پکچر میں میوزک دیتا ہوں۔'' جمال میاں فرنگی محلی سے انٹرویو لینے والے تھے لطیف ﷲ خان صاحب ''ایک اور ہمارے بزرگ اور لائق دوست حکیم شفاء الملک خواہ شمس الدین جن کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے، اس بلا کی یاد داشت ایسا قوت حافظہ میں نے کم دیکھا ہے جیسا کہ حکیم صاحب کو میسر تھا۔


جب آل انڈیا مسلم لیگ کا سیشن لکھنؤ میں ہوا، سب لوگ اس کی استقبالیہ کمیٹی میں راجہ صاحب (راجہ محمود آباد) کی وجہ سے ہم لوگوں کے ذاتی تعلقات کی وجہ سے آگئے تھے۔ خواجہ شمس الدین میونسپلٹی کے ممبر تھے اور چوہدری خلیق الزماں اس کے چیئرمین تھے، لکھنؤ میں مسلم لیگ کا سیشن سن37ء میں شروع ہوا۔

قائداعظم اس وقت تک قائداعظم نہیں کہلاتے تھے مسٹر محمد علی جناح صاحب ان کا انگریزی کا خطبہ بڑا طویل تھا جب انھوں نے ختم کیا اور اس کے ترجمے کی ضرورت ہوئی ترجمہ کون کرے؟ کسی نے نوٹ نہیں کیا، کسی نے پہلے اسے انتظام نہیں کیا، تو میں نے راجہ صاحب سے جو اس وقت استقبالیہ کمیٹی کے صدر تھے۔

ان سے کہا کہ حکیم شمس الدین سے کہا جائے وہ کرسکتے ہیں، حکیم صاحب کھڑے ہوگئے انھوں نے Extempore ترجمہ کیا اسی ترتیب کے ساتھ اور معلوم ہوتا تھا کہ یہ لکھی ہوئی چیز پڑھ رہے ہیں۔

ان کے حافظے کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں جو عربی قصیدے پڑھے تھے جو مشہور ہیں وہ ان کو یاد تھے، ہزاروں اردو اور فارسی کی کتابوں کی نثر اور عبارتیں حفظ تھیں، قرآن حفظ تھا۔ بالا کا حافظہ اور بڑے کامل طبیب تھے۔

قیوم نظر کا انٹرویو مشفق خواجہ نے لیا۔ قیوم نظر ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں '' اس زمانے میں اکاؤنٹ کا دفتر ہے اے۔ جی پنجاب کہتے تھے وہ بہت بڑا دفتر شمار ہوتا تھا ۔ سب سے زیادہ تنخواہ اسی میں تھی، ہمیں پینتالیس روپے ملتی تھی خواہ وہ سیکریٹریٹ ہو ، لاٹ صاحب کے دفتر میں چالیس روپے ملتی تھی، دوسرے دفتروں میں کم ملتی تھی۔ اس زمانے میں مسلمانوں کو اکاؤنٹس میں آنے کی جگہ کم ہی ملتی تھی۔

جب میں دفتر میں گیا تو مجھے کچھ ہندو دوستوں نے اور سپرنٹنڈنٹ نے کہا '' تو مسلمان لڑکا ہے تو سنا ہے شعر بھی کہتا ہے تو یہاں کہاں آگیا۔'' میں نے کہا ''جی قسمت کا مارا ہوا آگیا ہوں، آپ اجازت دیں گے تو یہاں رہوں گا نہ اجازت دیں گے تو چلا جاؤں گا۔'' ایک جگہ ضیاء جالندہری کے بارے میں کہتے ہیں آج کل تو ضیاء جالندہری بہت زور کے جارہے ہیں۔

ضیاء جالندہری صاحب سے میں نے کہا صاحب آپ یہ نوکری چھوڑ دیں جو آپ کررہے ہیں اور آپ امتحان دیں Competition کا ، اے جی آفس میں ملازم تھا۔ میری طرح کلرک تھا اس کا باپ بڑا خلاف تھا، ایک اور بڑا بھائی تھا ہمایوں ممتاز، ممتاز ہمایوں کہتے تھے۔

قیوم نے بیڑہ غرق کردیا۔ نوکری چھڑوا دی، نوکری کہاں ملتی ہے وغیرہ وغیرہ تو یہ ضیاء صاحب مجھ سے بہتر امپریس تھے تو انھوں نے مقابلے کے امتحان دیے، اتفاق سے سول سروس میں آئے اب تو خیر ماشاء ﷲ ہیں لیکن شروع میں شاعر میں ضیاء جالندہری کو میں نے Guide کیا ضیاء خود بھی بڑا ذہین آدمی تھا ان کو میں نے گائیڈ کیا۔''

ایک اور اقتباس جمال میاں فرنگی محلی سے ''ہمارے استاد مرزا محمد عسکری کو انگریزوں سے بے حد محبت تھی اور ان کی حکومت جانے کا بڑا غم تھا۔ حالاں کہ ان کے تعلقات ابو الکلام آزاد سے بے تکلفانہ اور دوستانہ تھے لیکن وہ سیاسی تحریکوں کے خلاف تھے، کانگریس کے بھی خلاف تھے۔ مسلم لیگ کے بھی خلاف تھے۔

وہ نہایت خلوص سے یہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کی حکومت پر خلوص تھی اور ہندوستان کے لیے بابرکت تھی مجھے یہ معلوم تھا تو میں نے مرزا صاحب کو چھیڑنے کی غرض سے کہا مرزا صاحب انگریز چلے گئے اور انھوں نے کیا کیا کام کیے سڑکیں بنائیں، اسپتال بنائے، عدالتیں قائم کیں اور بہت سی خدمات کیں۔

آج کل لوگ صرف ان کی برائیاں بیان کرتے ہیں، اچھائیوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا، مرزا صاحب بہت غور سے مجھے دیکھتے رہے جب میں نے اپنے جملے ختم کیے تو کہنے لگے مولانا آپ کیا فرماتے ہیں انھوں نے ریلیں بنائیں، سڑکیں بنائیں برب کعبہ کہتا ہوں کہ یہ کان ڈیم فول سننے کو ترستے ہیں آپ ان کی خوبیاں بیان کررہے ہیں مجھے ان کی گالیاں تک یاد آتی ہیں۔''

آواز خزانہ کی پانچ جلدیں شائع ہوچکی ہیں اور سب کی سب بہت دلچسپ ہیں۔ ڈاکٹر محمد خورشید عبدﷲ اور راشد اشرف نے مختلف مشاہیر کے انٹرویو کو کتابی شکل دے کر بہت سے لوگوں کو امر کر دیا ہے، یہ کتاب اٹلانٹس پبلی کیشن کے زیر اہتمام شائع کی گئی ہے، خیال رہے کہ یہ انٹرویوز لطیف ﷲ خاں کی بیگم محترمہ زاہدہ لطیف ﷲ خاں کے تعاون سے شائع کیے گئے ہیں۔
Load Next Story