ایک عظیم محب وطن کا خواب
پاکستانی قوم مسلسل اِس انتظار میں ہے کہ اِس کے بھاگ کب جاگیں گے
وطنِ عزیز ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہ بات سُنتے سُنتے ہمارے کان پَک چکے ہیں اور سر اور داڑھی کے بال سفید ہو چکے ہیں اور سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ وقت کب آئے گا جب یہ موڑ طے ہوچکا ہوگا۔
پاکستانی قوم مسلسل اِس انتظار میں ہے کہ اِس کے بھاگ کب جاگیں گے۔ طرح طرح کے بازیگر اور مداری آتے رہے اور اپنا اپنا کھیل تماشہ دکھا کر جاتے رہے۔ عوام دعا کرتے رہے کہ کوئی ابنِ مریم آئے اور اُن کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونک دے۔
اِس وقت جب یہ کالم تحریر کیا جارہا ہے، آئی ایم ایف کے نمایندے اسلام آباد میں مذاکرات کے لیے موجود ہیں اور ایک نئے قرضہ کے سلسلے میں حکومتِ پاکستان کی درخواست زیرِ غور ہے۔
اِس صورتحال کی ساری ذمے داری موجودہ حکومت پر ڈالنا سراسر زیادتی ہوگی کیونکہ سابقہ حکومتیں بھی اِس میں برابر کی ذمے دار ہیں۔ یہ مرض موروثی ہے اور ہماری موجودہ نسل کو ایسے وقت پر ملا ہے، جب یہ انتہائی شدت اختیار کرچکا ہے اور مریض حد سے زیادہ لاغر ہوچکا ہے۔ سابقہ حکمران گُل چھڑے اڑاتے رہے۔ بقولِ غالب۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
وطنِ عزیز کی حالت اُس قریب المرگ مریض جیسی ہے جو آکسیجن کیمپ میں ہے اور جس کی سانسیں اُکھڑی ہوئی ہیں۔
بین الاقوامی ساہوکار کو یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر اُس نے بروقت مدد نہ کی تو اور دوا میسر نہ آئی تو مریض زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں رہ سکے گا چناچہ وہ مدد کے لیے اپنی مَن مانی شرائط منوانے پر زور دے رہا ہے۔
بابائے قوم کی رحلت کے بعد مملکتِ خداداد کو وہ استحکام میسر نہ آسکا جو ترقی بالخصوص معاشی ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔
اگرچہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک نے اپنا آزادی کا سفر ایک ساتھ شروع کیا تھا لیکن بھارت کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہاں سیاسی تَسلسُل برقرار رہا اور وہاں کی قیادت کو سیاسی عمل کو جاری رکھنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی جس کی وجہ سے وہاں عدم استحکام کا مرحلہ پیش نہیں آیا اور وہ ملک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ترقی کے مراحل طے کرتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے طاقتور ہوتا چلا گیا۔
دوسری بات یہ کہ بھارت جس خطے میں تھا وہ پہلے سے ہی ترقی یافتہ تھا جب کہ پاکستان کو معرضِ وجود میں آنے کے فوراً بعد سے ہی ترقی کے لیے بہت تگ و دو کرنا پڑی۔ سیاسی اُتھل پتھل کے نتیجے میں پاکستان کو معاشی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس بات کا اندازہ اِس حقیقت سے با آسانی کیا جا سکتا ہے کہ فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دس سالہ دورِ حکمرانی میں پاکستان میں جو بھی ترقی ہوئی وہ سیاسی استحکام کی بدولت ہوئی۔
ملک میں پہلا پلاننگ کمیشن اِسی دور میں قائم ہوا جس کی رہنمائی بین الاقوامی شہرت کے حامل ڈاکٹر محبوب الحق کے حصے میں آئی۔ دو پنج سالہ منصوبے اُنہیں کی زیرِ نگرانی بنے اور پایہ تکمیل تک پہنچے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُن کے عہدے سے ہٹنے کے بعد کوئی اُن کے خلا کو پُر نہیں کرسکا۔ دوسری جانب بھارت میں اُن کے ہم پلہ ڈاکٹر مَن موہن سنگھ کی بدولت اُس ملک کی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا تاآنکہ وہ ملک کے وزیر اعظم کے منصب پر سرفراز ہوئے۔
جب ڈاکٹر محبوب الحق کو وزارتِ خزانہ کی ذمے داری سونپی گئی تو اُنہوں نے وہاں بھی اپنی قابلیت کے جوہر خوب دکھائے۔ پرائس اِنڈیکسیشن کا نظام اُنہیں کی روشن خیالی اور منفرد سوچ کا نتیجہ تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہر قومی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے بجائے اُنہیں اشیاء کی قیمتوں سے مربوط کردیا جائے یعنی اشیاء ضرورت کی قیمتیں جتنی گھٹیں یا بڑھیں تنخواہوں کی شرح اُنہیں کے مطابق ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے جو بجٹ پیش کیا تھا وہ بھی ایک مثال ہے۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کسی ایماندار اور دیانتدار شخص کو نہ تو کام کرنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی اُسے ٹھہرنے دیا جاتا ہے چناچہ ڈاکٹر محبوب الحق بھی اِسی بدعت کا شکار ہوئے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ وزیرِ خزانہ بنے تھے۔
اتفاق سے وہ کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور ہم اُس وقت ریڈیو پاکستان کی بیرونی نشریات کے شعبہ میں بھارت کے لیے ہندی زبان میں کی جانے والی نشریات کے شعبہ کے انچارج تھے۔ ہماری کوشش تھی کہ ڈاکٹر صاحب سے ایک خصوصی انٹرویو کے ذریعہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کو بھارتی سامعین کو آگاہ کریں اور پاکستان کی امیج کی پروجیکشن کریں۔
ہم نے بہت کوشش کے بعد جب ڈاکٹر صاحب کے پی اے سی وقت مانگا تو معلوم ہوا کہ وہ بے حد مصروف ہیں۔ ہم نے اُن کے پی اے سے کہا کہ ہمیں ڈاکٹر صاحب سے دو منٹ کے لیے بات کرنے دیں پھر جب ہماری ڈاکٹر صاحب سے گفتگو ہوئی تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ فوراً آجائیں۔ ہم نے ٹیپ ریکاڈر سنبھالا اور ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔
ڈاکٹر صاحب کی مہربانی تھی کہ اُنہوں نے ہمیں یہ موقع فراہم کردیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے مقصد کی نوعیت کو خوب سمجھتے ہوئے گفتگو کا آغاز کردیا اور بے تکان بولتے رہے۔ اِس گفتگو کے دوران میں ڈاکٹر صاحب نے سامعین پر واضح کردیا کہ پاکستان اتنے وسائل سے مالا مال ہے کہ اُس کا بھارت کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں ہے۔
دورانِ گفتگو یہ بھی واضح ہوگیا کہ ڈاکٹر صاحب نہ صرف اعلیٰ پایہ کے ماہرِ معاشیات تھے بلکہ ایک عظیم محبِ وطن تھے اور وہ پاکستان کی معاشی ترقی کا کتنا حسین خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک وژِنری تھے اور پاکستان کو امریکا کی ایک مماثل کی ریاست کی طرح ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے تھے۔
پاکستانی قوم مسلسل اِس انتظار میں ہے کہ اِس کے بھاگ کب جاگیں گے۔ طرح طرح کے بازیگر اور مداری آتے رہے اور اپنا اپنا کھیل تماشہ دکھا کر جاتے رہے۔ عوام دعا کرتے رہے کہ کوئی ابنِ مریم آئے اور اُن کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونک دے۔
اِس وقت جب یہ کالم تحریر کیا جارہا ہے، آئی ایم ایف کے نمایندے اسلام آباد میں مذاکرات کے لیے موجود ہیں اور ایک نئے قرضہ کے سلسلے میں حکومتِ پاکستان کی درخواست زیرِ غور ہے۔
اِس صورتحال کی ساری ذمے داری موجودہ حکومت پر ڈالنا سراسر زیادتی ہوگی کیونکہ سابقہ حکومتیں بھی اِس میں برابر کی ذمے دار ہیں۔ یہ مرض موروثی ہے اور ہماری موجودہ نسل کو ایسے وقت پر ملا ہے، جب یہ انتہائی شدت اختیار کرچکا ہے اور مریض حد سے زیادہ لاغر ہوچکا ہے۔ سابقہ حکمران گُل چھڑے اڑاتے رہے۔ بقولِ غالب۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
وطنِ عزیز کی حالت اُس قریب المرگ مریض جیسی ہے جو آکسیجن کیمپ میں ہے اور جس کی سانسیں اُکھڑی ہوئی ہیں۔
بین الاقوامی ساہوکار کو یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر اُس نے بروقت مدد نہ کی تو اور دوا میسر نہ آئی تو مریض زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں رہ سکے گا چناچہ وہ مدد کے لیے اپنی مَن مانی شرائط منوانے پر زور دے رہا ہے۔
بابائے قوم کی رحلت کے بعد مملکتِ خداداد کو وہ استحکام میسر نہ آسکا جو ترقی بالخصوص معاشی ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔
اگرچہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک نے اپنا آزادی کا سفر ایک ساتھ شروع کیا تھا لیکن بھارت کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہاں سیاسی تَسلسُل برقرار رہا اور وہاں کی قیادت کو سیاسی عمل کو جاری رکھنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی جس کی وجہ سے وہاں عدم استحکام کا مرحلہ پیش نہیں آیا اور وہ ملک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ترقی کے مراحل طے کرتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے طاقتور ہوتا چلا گیا۔
دوسری بات یہ کہ بھارت جس خطے میں تھا وہ پہلے سے ہی ترقی یافتہ تھا جب کہ پاکستان کو معرضِ وجود میں آنے کے فوراً بعد سے ہی ترقی کے لیے بہت تگ و دو کرنا پڑی۔ سیاسی اُتھل پتھل کے نتیجے میں پاکستان کو معاشی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس بات کا اندازہ اِس حقیقت سے با آسانی کیا جا سکتا ہے کہ فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دس سالہ دورِ حکمرانی میں پاکستان میں جو بھی ترقی ہوئی وہ سیاسی استحکام کی بدولت ہوئی۔
ملک میں پہلا پلاننگ کمیشن اِسی دور میں قائم ہوا جس کی رہنمائی بین الاقوامی شہرت کے حامل ڈاکٹر محبوب الحق کے حصے میں آئی۔ دو پنج سالہ منصوبے اُنہیں کی زیرِ نگرانی بنے اور پایہ تکمیل تک پہنچے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُن کے عہدے سے ہٹنے کے بعد کوئی اُن کے خلا کو پُر نہیں کرسکا۔ دوسری جانب بھارت میں اُن کے ہم پلہ ڈاکٹر مَن موہن سنگھ کی بدولت اُس ملک کی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا تاآنکہ وہ ملک کے وزیر اعظم کے منصب پر سرفراز ہوئے۔
جب ڈاکٹر محبوب الحق کو وزارتِ خزانہ کی ذمے داری سونپی گئی تو اُنہوں نے وہاں بھی اپنی قابلیت کے جوہر خوب دکھائے۔ پرائس اِنڈیکسیشن کا نظام اُنہیں کی روشن خیالی اور منفرد سوچ کا نتیجہ تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہر قومی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے بجائے اُنہیں اشیاء کی قیمتوں سے مربوط کردیا جائے یعنی اشیاء ضرورت کی قیمتیں جتنی گھٹیں یا بڑھیں تنخواہوں کی شرح اُنہیں کے مطابق ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے جو بجٹ پیش کیا تھا وہ بھی ایک مثال ہے۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کسی ایماندار اور دیانتدار شخص کو نہ تو کام کرنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی اُسے ٹھہرنے دیا جاتا ہے چناچہ ڈاکٹر محبوب الحق بھی اِسی بدعت کا شکار ہوئے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ وزیرِ خزانہ بنے تھے۔
اتفاق سے وہ کراچی تشریف لائے ہوئے تھے اور ہم اُس وقت ریڈیو پاکستان کی بیرونی نشریات کے شعبہ میں بھارت کے لیے ہندی زبان میں کی جانے والی نشریات کے شعبہ کے انچارج تھے۔ ہماری کوشش تھی کہ ڈاکٹر صاحب سے ایک خصوصی انٹرویو کے ذریعہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کو بھارتی سامعین کو آگاہ کریں اور پاکستان کی امیج کی پروجیکشن کریں۔
ہم نے بہت کوشش کے بعد جب ڈاکٹر صاحب کے پی اے سی وقت مانگا تو معلوم ہوا کہ وہ بے حد مصروف ہیں۔ ہم نے اُن کے پی اے سے کہا کہ ہمیں ڈاکٹر صاحب سے دو منٹ کے لیے بات کرنے دیں پھر جب ہماری ڈاکٹر صاحب سے گفتگو ہوئی تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ فوراً آجائیں۔ ہم نے ٹیپ ریکاڈر سنبھالا اور ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔
ڈاکٹر صاحب کی مہربانی تھی کہ اُنہوں نے ہمیں یہ موقع فراہم کردیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے مقصد کی نوعیت کو خوب سمجھتے ہوئے گفتگو کا آغاز کردیا اور بے تکان بولتے رہے۔ اِس گفتگو کے دوران میں ڈاکٹر صاحب نے سامعین پر واضح کردیا کہ پاکستان اتنے وسائل سے مالا مال ہے کہ اُس کا بھارت کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں ہے۔
دورانِ گفتگو یہ بھی واضح ہوگیا کہ ڈاکٹر صاحب نہ صرف اعلیٰ پایہ کے ماہرِ معاشیات تھے بلکہ ایک عظیم محبِ وطن تھے اور وہ پاکستان کی معاشی ترقی کا کتنا حسین خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ ایک وژِنری تھے اور پاکستان کو امریکا کی ایک مماثل کی ریاست کی طرح ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے تھے۔