یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
ہندو مذہبی رہنما نے سی ای او سے پوچھا کہ آپ اتنی بڑی کمپنی کے سی ای او کس طرح بنے
قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں۔ مشکلات سے نبرد آزما ہونے سے ہی قومیں بنتی ہیں۔ یہ تو چلتی ہی اس لیے ہے کہ تم مضبوط ہو کر مقابلہ کرو اور اونچی اڑان اڑو۔ مجھے ایک ہندو مذہبی رہنماء اور اس وقت دنیا کی تیسری بڑی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے درمیان گفتگو سننے کا موقع ملا۔
ہندو مذہبی رہنما نے سی ای او سے پوچھا کہ آپ اتنی بڑی کمپنی کے سی ای او کس طرح بنے۔ اس نے بتایا کہ فائنل انٹرویو کرنے والے پینل نے اس سے چار سوال پوچھے۔ مجھے لگتا ہے کہ تین سوال تو محض خانہ پوری کے لیے تھے لیکن اصل سوال میں پوچھا گیا تھا کہ فرض کریں یہ کمپنی مالی مشکلات میں گھِر گئی ہے اور نوبت یہ آگئی ہے کہ کمپنی کو کسی وقت بھی دیوالیہ ڈکلیئر کر دیا جائے۔
اس حالت میں آپ کو کمپنی کا سی ای او بنا دیا جائے تو آپ کمپنی کو کس طرح اس مشکل سے نکالیں گے اور کیونکر کمپنی کو دوبارہ ایک بہترین پرفارمنگ کمپنی بنائیں گے۔سی ای او نے بتایا کہ اس سوال پر میں نے وہ اقدامات پینل کے سامنے رکھے جو میں فوراً اٹھاؤں گا اور پھر ایک روڈ میپ پر عمل کرتے ہوئے کمپنی کو بھنور سے نکال کر ایک بہترین مستقبل کی جانب گامزن کر دوں گا۔میرے جواب سے انٹرویو پینل بہت مطمئن اور خوش ہوا اور مجھے یہ ٹاپ جاب مل گئی۔
ملک جب معاشی مشکلات میں دھنس جاتے ہیں اور ایسے میں اگر کوئی دور اندیش،ایماندار رہنماء میسر آ جائے تو کالے بادل چھٹ کر سورج کی سنہری کرنوں کو راستہ دے دیتے ہیں۔
1991میں بھارت شدید ترین معاشی مشکلات میں پھنسا ہوا تھا اس کا fiscal deficit ، اس کی جی ڈی پی کے 8.4فی صد تک آ گیا تھا۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 3.5فی صد پر جا رہا تھا ، بھارت کے پاس درآمدات کو سہارا دینے کے لیے صرف دو ہفتے کا زرِ مبادلہ باقی تھا۔غیر ملکی قرضہ 72 ارب ڈالر پر پہنچ گیا تھا۔پوری دنیا میں یہ تیسرا بڑا قرضہ تھا۔ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بھارت کو آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔
آئی ایم ایف سے درخواست کی گئی کہ اسے 1.8ارب ڈالر جاری کیے جائیں۔آئی ایم ایف نے بہت کڑی شرائط لگائیں۔ مشکل شرائط مان کر بھارت آئی ایم ایف سے 1.8ارب ڈالر لینے میں کامیاب تو ہوا لیکن جن معاشی اصلاحات کا وعدہ کر کے قرضہ حاصل کیا گیا تھا وہ اصلاحات نہ ہوئیں۔
حد یہ ہوگئی کہ بھارتی حکومت اپنا سالانہ بجٹ ہی نہ پیش کر سکی اوروزیرِ اعظم جناب چندر شیکھر کی حکومت گر گئی۔ان کی جگہ جناب نرسما راؤ کی اقلیتی حکومت آ گئی۔نرسما راؤ نے حکومت سنبھالتے ہی جناب من موہن سنگھ کو وزیرِ خزانہ بنایا ۔
جناب من موہن سنگھ نے کابینہ کی پہلی ہی میٹنگ میں وزیرِ اعظم اور کابینہ کے دوسرے ارکان پر واضح کر دیا کہ اگر ملک کی معیشت کو سدھارنا ہے تو انھیں بلا روک ٹوک اپنے پروگرام پر عمل کرنے دینا ہوگا۔وزیرِ اعظم اور کابینہ نے وعدہ کیا، جناب من موہن سنگھ نے بھارت کی معیشت کو اس طرح بدلا کہ ساری دنیا دنگ رہ گئی،۔انھوں نے معاشی Liberalizationکو متعارف کروایا جس سے بیرونی ڈائریکٹ انوسٹمنٹ کی راہ ہموار ہوئی'سٹرکچرل ریفارمز کیں۔
من موہن سنگھ نے بھارتی روپے کی قدر میں 23فی صد کمی کر دی۔ بہت لمبے عرصے کے بعد بھارت نے چین کے ساتھ اچھے روابط استوار کیے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کئی گنا بڑھی۔بھارت نے اسی پالیسی کے تحت باقی دنیا کے ساتھ بھی تجارتی و سیاسی روابط کو مضبوط کیا۔
بھارت نے 20ٹن سونا سوئٹزرلینڈ کے یونین بینک میں رہن رکھ کر 240ملین ڈالر حاصل کیے تھے لیکن من موہن سنگھ کی پالیسیوں کے نتیجے میںیہ سونا واپس ملا۔من موہن سنگھ کی انھی خدمات کی وجہ سے کانگریس نے یہ فیصلہ کیا کہ بھارت کا آیندہ وزیرِ اعظم من موہن سنگھ ہی ہو گا۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں یا چھٹا بڑا ملک ہے۔دنیا کی آبادی کے لحاظ سے پانچ سب سے بڑے ممالک پوری دنیا کی جی ڈی پی کا 45فیصد کنٹری بیوٹ کرتے ہیں۔
اگر آبادی کے لحاظ سے دس بڑے ممالک کو لیا جائے تو یہ دس ممالک پوری دنیا کی جی ڈی پی کا کوئی 60فیصد کنٹری بیوٹ کرتے ہیں۔اس کا صاف صاف مطلب ہے کہ بڑی آبادی کسی طرح بھی خوشحالی کے راستے میں حائل نہیں۔اسی بڑی آبادی کو پروڈکٹیو بنا کر حیرت انگیز ترقی کی جا سکتی ہے۔
چین نے ایک طرف تیزی سے بڑھتی آبادی کو روکا تو دوسی طرف اسی آبادی کو تعلیم اور ہنر سے آراستہ کر کے پرو ڈکٹو بنایا اور تیس سالوں میںآبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو خطِ غربت سے اٹھا کر خوشحال بنا دیا۔پاکستان جو ایک بڑی آبادی کا ملک ہے، وہ دنیا کی کل جی ڈی پی کا صرف0.4کا حصہ دار ہے۔یہ ایک انتہائی افسوس ناک تصویر ہے۔
پاکستان میں لگ بھگ 70ملین لوگ جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے وہ کماتے ہیں۔اس ورک فورس میں خواتین کا حصہ بہت کم ہے۔کمانے والوں میں خواتین کا حصہ صرف بیس فیصد ہے۔ ہمارے جو لوگ کام کرتے ہیں وہ اپنی صلاحیت سے بہت کم پروڈکٹیو ہیں۔ان کی تعلیمی قابلیت نہ ہونے کے برابر ہے ،اوپر سے ہماری ورک فورس کا اکثریتی حصہ اچھے ہنر سے محروم ہے۔اگر ہم کسی طرح اپنی ورک فورس کو دگنا کر لیں اور ان کی تعلیم اور ہنر پر توجہ کریں تو سوچیے کیا ہو جائے۔
خواتین کی ورک فوس میں نمایندگی بڑھانے کی شدید ضرورت ہے۔کایا پلٹنے کے لیے ہمیں ایک دور اندیش،مخلص اور ایمان دار رہنماء کی ضرورت ہے۔مشکلات آتی رہتی ہیں لیکن مشکلات ہی اچھے اور قابل رہنماء کا ٹیسٹ ہوتی ہیں۔فی الحال کوئی ایسا نظر نہیں آتا لیکن جونہی ایسا کوئی رہنماء مل گیا ۔یہ قوم ہر ایک کو حیران کر دے گی۔
ترکی میں زلزلے سے بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ترک عوام اور حکومت پاکستان سے محبت کرتے ہیں،ہمیں اس کڑے وقت میں ترکی کی کھل کر مدد کرنی چاہیے۔
ہندو مذہبی رہنما نے سی ای او سے پوچھا کہ آپ اتنی بڑی کمپنی کے سی ای او کس طرح بنے۔ اس نے بتایا کہ فائنل انٹرویو کرنے والے پینل نے اس سے چار سوال پوچھے۔ مجھے لگتا ہے کہ تین سوال تو محض خانہ پوری کے لیے تھے لیکن اصل سوال میں پوچھا گیا تھا کہ فرض کریں یہ کمپنی مالی مشکلات میں گھِر گئی ہے اور نوبت یہ آگئی ہے کہ کمپنی کو کسی وقت بھی دیوالیہ ڈکلیئر کر دیا جائے۔
اس حالت میں آپ کو کمپنی کا سی ای او بنا دیا جائے تو آپ کمپنی کو کس طرح اس مشکل سے نکالیں گے اور کیونکر کمپنی کو دوبارہ ایک بہترین پرفارمنگ کمپنی بنائیں گے۔سی ای او نے بتایا کہ اس سوال پر میں نے وہ اقدامات پینل کے سامنے رکھے جو میں فوراً اٹھاؤں گا اور پھر ایک روڈ میپ پر عمل کرتے ہوئے کمپنی کو بھنور سے نکال کر ایک بہترین مستقبل کی جانب گامزن کر دوں گا۔میرے جواب سے انٹرویو پینل بہت مطمئن اور خوش ہوا اور مجھے یہ ٹاپ جاب مل گئی۔
ملک جب معاشی مشکلات میں دھنس جاتے ہیں اور ایسے میں اگر کوئی دور اندیش،ایماندار رہنماء میسر آ جائے تو کالے بادل چھٹ کر سورج کی سنہری کرنوں کو راستہ دے دیتے ہیں۔
1991میں بھارت شدید ترین معاشی مشکلات میں پھنسا ہوا تھا اس کا fiscal deficit ، اس کی جی ڈی پی کے 8.4فی صد تک آ گیا تھا۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 3.5فی صد پر جا رہا تھا ، بھارت کے پاس درآمدات کو سہارا دینے کے لیے صرف دو ہفتے کا زرِ مبادلہ باقی تھا۔غیر ملکی قرضہ 72 ارب ڈالر پر پہنچ گیا تھا۔پوری دنیا میں یہ تیسرا بڑا قرضہ تھا۔ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بھارت کو آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔
آئی ایم ایف سے درخواست کی گئی کہ اسے 1.8ارب ڈالر جاری کیے جائیں۔آئی ایم ایف نے بہت کڑی شرائط لگائیں۔ مشکل شرائط مان کر بھارت آئی ایم ایف سے 1.8ارب ڈالر لینے میں کامیاب تو ہوا لیکن جن معاشی اصلاحات کا وعدہ کر کے قرضہ حاصل کیا گیا تھا وہ اصلاحات نہ ہوئیں۔
حد یہ ہوگئی کہ بھارتی حکومت اپنا سالانہ بجٹ ہی نہ پیش کر سکی اوروزیرِ اعظم جناب چندر شیکھر کی حکومت گر گئی۔ان کی جگہ جناب نرسما راؤ کی اقلیتی حکومت آ گئی۔نرسما راؤ نے حکومت سنبھالتے ہی جناب من موہن سنگھ کو وزیرِ خزانہ بنایا ۔
جناب من موہن سنگھ نے کابینہ کی پہلی ہی میٹنگ میں وزیرِ اعظم اور کابینہ کے دوسرے ارکان پر واضح کر دیا کہ اگر ملک کی معیشت کو سدھارنا ہے تو انھیں بلا روک ٹوک اپنے پروگرام پر عمل کرنے دینا ہوگا۔وزیرِ اعظم اور کابینہ نے وعدہ کیا، جناب من موہن سنگھ نے بھارت کی معیشت کو اس طرح بدلا کہ ساری دنیا دنگ رہ گئی،۔انھوں نے معاشی Liberalizationکو متعارف کروایا جس سے بیرونی ڈائریکٹ انوسٹمنٹ کی راہ ہموار ہوئی'سٹرکچرل ریفارمز کیں۔
من موہن سنگھ نے بھارتی روپے کی قدر میں 23فی صد کمی کر دی۔ بہت لمبے عرصے کے بعد بھارت نے چین کے ساتھ اچھے روابط استوار کیے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کئی گنا بڑھی۔بھارت نے اسی پالیسی کے تحت باقی دنیا کے ساتھ بھی تجارتی و سیاسی روابط کو مضبوط کیا۔
بھارت نے 20ٹن سونا سوئٹزرلینڈ کے یونین بینک میں رہن رکھ کر 240ملین ڈالر حاصل کیے تھے لیکن من موہن سنگھ کی پالیسیوں کے نتیجے میںیہ سونا واپس ملا۔من موہن سنگھ کی انھی خدمات کی وجہ سے کانگریس نے یہ فیصلہ کیا کہ بھارت کا آیندہ وزیرِ اعظم من موہن سنگھ ہی ہو گا۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں یا چھٹا بڑا ملک ہے۔دنیا کی آبادی کے لحاظ سے پانچ سب سے بڑے ممالک پوری دنیا کی جی ڈی پی کا 45فیصد کنٹری بیوٹ کرتے ہیں۔
اگر آبادی کے لحاظ سے دس بڑے ممالک کو لیا جائے تو یہ دس ممالک پوری دنیا کی جی ڈی پی کا کوئی 60فیصد کنٹری بیوٹ کرتے ہیں۔اس کا صاف صاف مطلب ہے کہ بڑی آبادی کسی طرح بھی خوشحالی کے راستے میں حائل نہیں۔اسی بڑی آبادی کو پروڈکٹیو بنا کر حیرت انگیز ترقی کی جا سکتی ہے۔
چین نے ایک طرف تیزی سے بڑھتی آبادی کو روکا تو دوسی طرف اسی آبادی کو تعلیم اور ہنر سے آراستہ کر کے پرو ڈکٹو بنایا اور تیس سالوں میںآبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو خطِ غربت سے اٹھا کر خوشحال بنا دیا۔پاکستان جو ایک بڑی آبادی کا ملک ہے، وہ دنیا کی کل جی ڈی پی کا صرف0.4کا حصہ دار ہے۔یہ ایک انتہائی افسوس ناک تصویر ہے۔
پاکستان میں لگ بھگ 70ملین لوگ جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے وہ کماتے ہیں۔اس ورک فورس میں خواتین کا حصہ بہت کم ہے۔کمانے والوں میں خواتین کا حصہ صرف بیس فیصد ہے۔ ہمارے جو لوگ کام کرتے ہیں وہ اپنی صلاحیت سے بہت کم پروڈکٹیو ہیں۔ان کی تعلیمی قابلیت نہ ہونے کے برابر ہے ،اوپر سے ہماری ورک فورس کا اکثریتی حصہ اچھے ہنر سے محروم ہے۔اگر ہم کسی طرح اپنی ورک فورس کو دگنا کر لیں اور ان کی تعلیم اور ہنر پر توجہ کریں تو سوچیے کیا ہو جائے۔
خواتین کی ورک فوس میں نمایندگی بڑھانے کی شدید ضرورت ہے۔کایا پلٹنے کے لیے ہمیں ایک دور اندیش،مخلص اور ایمان دار رہنماء کی ضرورت ہے۔مشکلات آتی رہتی ہیں لیکن مشکلات ہی اچھے اور قابل رہنماء کا ٹیسٹ ہوتی ہیں۔فی الحال کوئی ایسا نظر نہیں آتا لیکن جونہی ایسا کوئی رہنماء مل گیا ۔یہ قوم ہر ایک کو حیران کر دے گی۔
ترکی میں زلزلے سے بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ترک عوام اور حکومت پاکستان سے محبت کرتے ہیں،ہمیں اس کڑے وقت میں ترکی کی کھل کر مدد کرنی چاہیے۔