صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ایک قادر الکلام شاعر
انھوں نے ’’علامہ اقبال کی شاعری‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ بھی تحریر کیا اور یوں ایک ضخیم کتاب وجود میں آئی
صوفی غلام مصطفی تبسم ایک انتہائی درویش صفت آدمی تھے۔ محبت اور شفقت کے علاوہ ان کی شخصیت کے بے شمار پہلو تھے ، وہ جہاں ایک منفرد طرز کے معلم تھے ، وہیں ایک قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک براڈ کاسٹر ، تنقید نگار ، کالم نگار ، ڈرامہ نگار ، مترجم بھی تھے ، ان کا اصل نام غلام مصطفی تھا۔
شاعری کی ابتداء میں انھوں نے اپنا تخلص اصغر صہبائی اختیار کیا۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ ان کے اُستاد حکیم فیروز الدین طغرائی نے ان کی باغ و بہار شخصیت کی مناسبت سے '' تبسم '' تخلص تجویز کیا جو اصل نام کی جگہ مقبولِ عام رہا۔
ایک منفرد قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے ان کا خاصا رہا کہ انھیں بہ یک وقت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا اُردو ، فارسی، پنجابی اور انگریزی زبانوں میں بے شمار ادبی کارنامے انجام دیے۔ انھوں نے غالب کے فارسی کلام کا پنجابی میں ترجمہ کیا۔
'' میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں ، آجا ویکھ میرا انتظار آجا '' اس خوبصورت نغمہ کو غلام علی نے اپنی آواز میں گا کر اور صوفی تبسم نے لکھ کر غالب کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ اسی طرح انھوں نے حضرت امیر خسرو کے فارسی کلام کا ترجمہ پنجابی میں کیا '' یہ رنگینی نو بہار اللہ اللہ '' بھی بہت مقبول ہُوا ، اس گیت کو اپنی خوبصورت آواز میں ناہید اختر نے پیش کیا۔
اسی گیت کو تھوڑے اضافہ کے ساتھ بھارت کی ایک فلم ''جینا صرف میرے لیے'' میں ''مجھ کو مل گیا تیرا پیار اللہ اللہ'' کے اضافہ سے شامل کیا گیا ، جس کے بعد اس کی مقبولیت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہوگا۔ اس کے علاوہ صوفی صاحب نے غالب اور اقبالؔ کے کلام کو اُردو میں بھی انتہا محبت کے ساتھ ان کی شاعری پرکام کیا۔
انھوں نے '' علامہ اقبال کی شاعری'' کے عنوان سے ایک مقالہ بھی تحریر کیا اور یوں ایک ضخیم کتاب وجود میں آئی۔ علامہ اقبال کی وفات کے بعد ان کی تخلیقات پر بھی بہت کام کیا۔ تاریخِ ادب کے اوراق بتاتے ہیں کہ '' اگر ان کے کام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک حصہ علامہ اقبال پر نکل آئے گا۔''
وہ اقبال اکیڈمی کے نائب صدر بھی رہے اور انھیں اقبالؔ پر بہترین مقالہ لکھنے پر حُسنِ اعزاز سے بھی نوازا گیا ، جب کہ وہ لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین بھی رہے اور یہاں بھی اقبالیات پر انھوں نے بہت کام کیا۔ انھیں کرکٹ سے بھی بہت دلچسپی تھی وہ گورنمنٹ کالج لاہور ٹیم کے نگران ہی نہیں تھے بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے بانیوں میں بھی شامل تھے۔
1961سے 1963 تک مجلہ '' لیل و نہار'' کے مدیر بھی رہے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے وابستہ ہو گئے۔ جہاں وہ مدتوں ٹی وی، ریڈیو سے پروگرام '' اقبال کا ایک شعر'' کرتے رہے۔ 1965 کی جنگ کے دوران کئی لازوال ترانے لکھے۔ جن میں '' ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے '' اور'' کرنیل نی جرنیل نی '' بہت مقبول ہوئے۔
جس پر انھیں حکومت پاکستان نے ستارئہ امتیاز کا اعزاز پیش کیا۔ صوفی تبسم نے بہت سی فلموں کے گانے بھی لکھے۔ ان کے لکھے ہوئے کلام کو ملکہ ترنم نور جہاں کے علاوہ بہت سے نامور گلوکاروں نے بھی گایا جن میں مہدی حسن، غلام علی ، ناہید اختر ، نصرت فتح علی اور فریدہ خانم سمیت دیگر شامل ہیں۔ ان کا ایک شعر دیکھیے:
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
صوفی غلام مصطفی تبسم اپنی ذات میں ایک انجمن کی طرح تھے ، ان کے سمن آباد والے گھر میں ہونے والی ادبی محافل میں کبھی ظہیر کاشمیری ، اے حمید ، فیض احمد فیض تو کبھی احسان دانش، منو بھائی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ جیسے ادبی ستاروں کی کہکشاں نظر آتی۔ ان کے گھر میں اکثر گلوکاروں اور ادیبوں کا میلہ لگا رہتا۔
ان کی بچوں کے لیے تخلیق کردہ کتب میں ٹوٹ بٹوٹ، کہاوتیں ، پہیلیاں ، سنو گپ شپ ، جھولنے جیسی کتابیں شائع ہوئی۔ صوفی تبسم کی پوتی ڈاکٹر فوزیہ تبسم کے شوہرآغا شاہد خان نے اس مضمون کے دوران بتایا کہ ''مجھے پہلی بار 1969میں بہاولپور میں صوفی صاحب سے ملاقات کا موقع ملا۔ اس کے بعد 1975 میں پنجاب یونیورسٹی، شعبہ صحافت کے طلبہ کی تنظیم پروگریسو جرنلسٹس ایسوسی ایشن کا سیکریٹری تھا۔
ہم نے نامور صحافی عبدالمجید سالک کی یاد میں ایک تقریب کا پروگرام بنایا تو اُستادِ محترم ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے صدارت کے لیے صوفی غلام مصطفی تبسم کا نام تجویز کیا۔ سحر صدیقی ، یاسین چوہدری اور میں سمن آباد ڈونگی گراؤنڈ کے کونے پر ان کے گھر گئے، شفقت فرمائی اور بخوشی ہماری درخواست قبول کی۔ تقریب نیو کیمپس کے وحید شہید ہال میں ہوئی۔
خلافِ توقع ہال بھر گیا۔ حیرت ہوئی کہ حاضرین میں خاصی تعداد بچوں کی تھی، پتہ چلا کہ شعبہ تعلیم وتحقیق کے لیبارٹری اسکول کے بچے یہ سن کر آگئے تھے کہ '' ٹوٹ بٹوٹ ' کی نظمیں لکھنے والا آیا ہے۔ چند پُر اعتماد بچے آگے بڑھ کر ملے بھی، صوفی صاحب نے ان کو پیار کیا۔''صوفی تبسم بچوں اور بڑوں سے بہت محبت سے پیش آتے اسی لیے انھیں سب صوفی صاحب کہہ کر مخاطب ہوتے۔
انھیں دنیا کے تمام بچے اپنے بچوں کی طرح عزیز تھے۔ انھوں نے بچوں کے لیے جو کچھ لکھا وہ ناقابلِ فراموش ہے اور جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے اندرکا بچہ بچوں کی نفسیات کو بخوبی سمجھتا تھا۔ انھیں صدر ایوب خان کے دور میں جب ایران کا سفیر مقررکرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس پر صوفی صاحب نے کہا '' میں نہیں جا سکتا میری والدہ کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔''صوفی صاحب ایک عظیم اور شگفتہ طبع انسان تھے وہ صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی پہچان تھے۔
ان کی وفات 7 فروری 1978کو لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر ہوئی۔ وہ اس وقت بھی علامہ اقبال سے عقیدت کے باعث ایک پروگرام کے سلسلے میں اسلام آباد گئے تھے ۔
انھوں نے جہاں غالب ، امیر خسرو اور اقبال جیسی شخصیات کے کلام کا پنجابی میں ترجمہ کیا وہیں انھوں نے شیکسپئیر کے ڈرامہ '' مڈ سمر نائٹ ڈریم '' کا انھوں نے ''ساون رین کا سپنا'' کے نام سے اُردو زبان میں بہت خوبصورت ترجمہ بھی کیا۔
انھیں ادبی و تعلیمی خدمات کے اعتراف میں جہاں تمغہ امتیاز دیا گیا وہیں انھیں '' تمغہ حسنِ کارکردگی '' سے بھی نوازا گیا جب کہ ایرانی حکومت نے انھیں '' تمغہ نشانِ فضیلت '' سے بھی نوازا۔ آج وہ اور ان کے ہم عصر ہمارے درمیان موجود نہیں تو لاہور ویران سا لگتا ہے۔ بس گنتی کے چند بزرگ رہ گئے ہیں جن کی موجودگی کا احساس ادب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جو نو آموز قلمکاروں کی حوصلہ افزائی فرما رہا ہے۔ صوفی صاحب کی پوتی ڈاکٹر فوزیہ تبسم نے اپنے شوہر آغا شاہد کے تعاون سے صوفی تبسم اکیڈمی قائم کر رکھی ہے۔
جو صوفی صاحب کی یاد میں مشاعروں ، مذاکروں کے علاوہ بچوں کے لیے '' ٹوٹ بٹوٹ '' فیسٹیول کا انعقاد کرتی رہتی ہیں۔
میں نے صوفی تبسم کو صرف کتابوں میں پڑھا جب کہ ان کی پوتی ڈاکٹر فوزیہ تبسم سے میری پہلی ملاقات آج سے کئی برس قبل ادبِ لطیف کے مدیر ناصر زیدی مرحوم کے ہمراہ پاک ٹی ہاؤس میں ہوئی۔ ان سے ملاقات کے دوران صوفی تبسم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔