مہنگائی اور قرض کی دلدل
ڈار صاحب تو ڈالر کو گرانے آئے تھے وہ چھلانگ لگا کر 267 تک پہنچ گیا
اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں نے مشترکہ طور شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا تو قوم کو یہ نوید سنائی گئی تھی کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں جو مہنگائی ہوئی ، اسے کم کیا جائے گا ، روپے کے مقابلے میں ڈالرکی قیمت کم ہوجائے گی۔
مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی قوم کو پی ڈی ایم حکومت سے امید تھی کہ اب معاملات بہتر ہوجائیں گے ، اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی آجائے گی ، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اورکمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق جنوری کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں 2.9 فیصد اضافہ ہوا اور ملک میں مہنگائی 27.6 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ادارہ شماریات نے ہفتہ وار مہنگائی کے جو اعدادوشمار جاری کیے ہیں،اس کے مطابق ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 30.60 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
ایشیائی ترقیاتی بینک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔ افرا ط زرکی شرح 26.6 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو دنیا کے 184 ممالک میں 19 ویں درجے پر ہے۔ جنوبی ایشیائی ریجن میں پاکستان دوسرا بڑا زیادہ مہنگائی والا ملک بن چکا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنے، معاشی استحکام کے لیے کاروباری لاگت کم کرنے اور مسابقت بڑھانے کی ضرورت ہے، اگر پاکستان نے معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات نہ کیے تو مہنگائی کی رفتار مزید تیز ہوجائے گی جس کے نتیجے میں غربت میں بھی اضافہ ہوگا۔
اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بنانے کی خبر کے سامنے آتے ہی پاکستان میں ڈالرکی قیمت تین روپے گر گئی تھی۔ قوم کو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بنتے ہی مہنگائی کم ہوجائے گی، ڈالر واپس 180 تک پہنچ جائے گا۔
معیشت میں بہتری لانے اور مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کا دعویٰ کرنے والے ڈار صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں معیشت کی تباہی کی ذمے داری عمران خان پر ڈالتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں 35 روپے کا اضافے کا اعلان کردیا۔
ڈار صاحب تو ڈالر کو گرانے آئے تھے وہ چھلانگ لگا کر 267 تک پہنچ گیا۔ ڈالر کی اونچی اْڑان، آئی ایم ایف کی سخت شرائط ، پیٹرولم مصنوعات میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ، جب کہ حکومت کے پاس کوئی پلان موجود نہیں ہے کہ وہ کس طرح مہنگائی کو کم کرے گی۔
اس وقت حکومت کی نگاہیں آئی ایم ایف سے معاہدے کے بدلے میں ملنے والی نئے قرضے کی قسط پر لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان اس وقت سنگین بحرانوں کا سامنا کررہا ہے ایک جانب سیاسی عدم استحکام ہے تو دوسری طرف معاشی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ پاکستان بیرونی قرضوں ، مہنگائی اور غربت اور بے روزگاری کے ایک ایسے بھنور میں پھنس گیا ہے۔
لاکھ کوشش کے باوجود وہ اس دلدل میں مسلسل دھنستا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدوں اور ان کی شرائط نے پاکستان کو مجبورکردیا ہے کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات ، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرے۔ غربت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ایک وجہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہے۔ پاکستان میں مہنگائی اور پٹرول کا چولی دامن کا ساتھ ہے جیسے ہی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ہر چیزکی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پھیلتی ہوئی غربت نے ایک عام پاکستانی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ قرضوں پر سود کی قسط ادا کرنے کے لیے پاکستان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں ہر شخص دو لاکھ ستائیس ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔1947 سے 2008 تک پاکستان چھ ہزار ارب روپے کا بیرونی قرضوں کا مقروض تھا۔
2008سے 2022 تک ان 14 برسوں میں بیرونی قرضوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ 2008میں بیرونی قرضوں کا حجم 36 ہزار ارب روپے تھا جو 2013ء میں 88 ہزار ارب روپے ہوگیا، 2018تک بیرونی قرضے 1لاکھ 43 ہزار ارب روپے تھے ، جب کہ 2021 میں بیرونی قرضے 2 لاکھ 27 ہزار ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کا دیگر ممالک سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو بنگلہ دیش میں قرضوں کی شرح 30 فیصد چین میں 54 فیصد اور روس میں 19 فیصد ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے قرضے 87 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک جانب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی آرہی ہے تو دوسری طرف زرمبادلہ ذخائر چار ارب ڈالر سے کم رہ گئے ہیں، اس تمام صورت حال میں پاکستان آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے لیے مذاکرات کا آغاز کرچکا ہے۔
آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے نتیجہ میں پاکستان اپنی بین الاقوامی ادائیگیاں کرکے ڈیفالٹ سے تو بچ جائے گا مگر یہ تلوار پاکستان کے سر پر لٹکتی رہے گی۔ جب تک پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور بیرونی قرضوں کی دلدل سے باہر نہیں نکلے گا ،کسی صورت معاشی استحکام حاصل نہیں آئے گا۔ ایک جانب قرضے بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
غیر معمولی قرضوں کا تقاضا یہ کہ حکومتی اخراجات میں غیر معمولی کمی کی جائے اور وی آئی پی کلچرکو ختم کیا جائے۔حکومت پاکستان کی توجہ قرض حاصل کرنے پر تو ہے مگر ترسیلات زر اور برآمدات بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں اور نہ کوئی منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔ پاکستان کو برآمدات اور ترسیلات زر میں مسلسل کمی کا سامنا ہے۔
رواں مالی سال میں جولائی سے دسمبر کے دوران مجموعی طور پر 14.1 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ہوئی اور گزشتہ برس کے اسی دورانیہ کے مقابلے میں 11.1 فیصد کی کمی ہوئی۔
پاکستان کو رواں کھاتوں کے خسارے کو کم سے کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمانے کی ضرورت ہے۔ترسیلات زر بڑھانے کے لیے پاکستان کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور ڈالرکو محفوظ رکھنے کے لیے اشیائے تعیش کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ پاکستان کی آبادی میں سالانہ 50 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، پہلے مرحلے پر ہمیں اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار میں آبادی کے تناسب سے اضافہ کرنا ہوگا۔
ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بڑے پیمانے پر دالیں، دودھ، کریم، خوردنی تیل درآمد کرتے ہیں۔ ان اشیاء خورونوش کی مقامی پیداوار پر سہولت دے کر درآمدات میں مناسب کمی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان سے بیرون ملک ڈالر لے جانے کے لیے ایک منظم گروہ کام کر رہا ہے۔
سابقہ گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انورکے بیان کے مطابق پاکستان سے یومیہ ڈھائی کروڑ ڈالر اسمگل کیے جا رہے ہیں ، اسمگلنگ کے اس سسٹم کو روکنا ہوگا۔ پٹرولیم کی مصنوعات کی درآمدات تجارتی خسارے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔
لہٰذا ضروری ہے کہ بجلی کی بچت کے لیے منصوبہ بندی کی جائے اور مارکیٹوں کے اوقات کار میں تبدیلی لائی جائے۔ صبح 8 سے شام 6 بجے تک مارکیٹ کے اوقات کار مقرر کیے جائیں دنیا بھر میں ترقی یافتہ قوموں نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے اجتماعی طور پر فیصلے کیے ہیں جس سے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچا۔
پوری قوم قرض کے دلدل میں ڈوبی ہوئی ہے مگر ہم اپنے طور طریقے تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ معاشی استحکام حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان میں سیاسی استحکام قائم کیا جائے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو گرانے اور ہرانے کی ذاتی لڑائی اور رنجشوں سے باہر آئے۔ ملک اور قوم کی بہتری کے لیے مل کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔