ہندوستانی مسلمان پر برا وقت آخری حصہ
یہ ایک واقعہ ہے جو میڈیا میں آگیا ورنہ کتنے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو ریکارڈ ہی نہیں ہوتے
اس زمانے میں شہر کے اکثر علاقوں میں ہر فرد، دوسرے فرد کو ایک مدت تک انجانا دشمن سمجھتا رہا کہ نجانے کب یہ کوئی ہتھیار سے حملہ کر دے۔ ان فسادات کا اثر ہم جیسوں کے ہاں اب تک ہے کہ یہ سطریں لکھتے ہوئے بھی ہم نے اپنے جسم میں ایک سنسناہٹ کی ایک لہر محسوس کی۔
اس شہر (ممبئی) میں بڑی تعداد مسلم اور غیر مسلم سے پرے ایسے لوگوں کی ہے جو یو پی اور دیگر دور دراز ریاستوں سے معاش کے حصول کے لیے آتے ہیں اور اس فساد کے شکار ہونے والو ں میں بڑی تعداد انھیں لوگوں کی تھی نجانے کتنے انسان مارے گئے، کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں اور کتنے بچے یتیم ہوگئے اور یہ سلسلہ کچھ وقت کے لیے رک سا جاتا ہے مگر کسی وقت بھی آتش و خون کی اس آندھی کے جھکڑ کسی بھی شہر میں چل سکتے اور چلتے ہیں۔
چند برس قبل دہلی میں ہونے والے فسادات کے بعد اسکارف لگائے ہوئے ایک نو عمر ماں اور اس کی تین ننھی بیٹیوں کی تصویر آج تک آنکھوں میں ہے جو اپنے شوہر اور بیٹیاں اپنے باپ کی تلاش میں ایک اسپتال کے دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں، وہ جواں سال شوہر اور تین بیٹیوں کا باپ چار پانچ دن سے گھر نہیں لوٹا تھا اور اب تک لاپتہ ہے۔
یہ ایک واقعہ ہے جو میڈیا میں آگیا ورنہ کتنے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو ریکارڈ ہی نہیں ہوتے۔ ہماری یاد داشت کے مطابق 1961 کے جبل پور فسادات سے اب تک ہندوستانی مسلمان اتنی بار جان و مال سے ہاتھ دھو چکے ہیں اب اس کی گنتی بھی ہمیں یاد نہیں۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ہماری نفسیات بھی متاثر ہوگئی ہے۔
آزادی کے بعد ایک ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا ، ایک حصہ مذہب کے نام پر قائم ہوا تو دوسرے حصے کی بنیاد کو سیکولرازم کا نام دیا گیا۔کوئی چھتیس برس قبل جب ہم پہلی بار پاکستان گئے اور وہاں تقریباً ایک ماہ رہے، واپسی پر ایک ادیب دوست نے ہم سے سوال کیا تھا۔
'' ندیم صاحب ! اس ملک کے بارے میں کیا تاثر لے کر جا رہے ہیں؟ ''
پہلے تو ہم نے ٹالا ، مگر سائل کے اصرار پر عرض کیا تھا کہ '' ہم جہاں سے آئے وہاں سیکولر ازم کا نعرہ لگایا جاتا ہے مگر وہاں سیکولرازم کے علاوہ سب کچھ ہے، اور آپ کا ملک دین و مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا تھا تو جناب والا ! اگر بہت خوبصورت مساجد ، لانبے لانبے کرتے اور ریش و دستار کا نام دین ہے، تب تو ہم خموش ہیں ورنہ تو یہاں بھی سب کچھ ہے۔
جہاں تک نماز و روزہ یعنی عبادات کے معاملات ہیں تو حضور ! دہلی کی جامع مسجد سے لے کر ممبئی، کلکتے کی وسیع و عریض بہت سی مساجد رکوع و سجود کرنے والوں سے خالی نہیں ، تبلیغی جماعت پورے ہندوستان میں اپنے مشن کی ادائیگی میں سر گرم ہے۔ بھوپال میں لاکھوں مسلمانوں کا تبلیغی جماعت کا اجتماع ہر سال منعقد ہوتا ہے۔
دہلی اور اجمیر کے بزرگان دین کی درگاہیں اپنے زائرین سے کبھی خالی نہیں رہتیں۔ کانگریس جیسی جماعت جسے سیکولر کہا جاتا ہے اس نے آزادی کے بعد سے اب تک کوئی ساٹھ برس حکومت کی اور اس نام نہاد سیکولر کانگریسی حکومت ہی کے دور میں مسلم کش فسادات کی تاریخ اٹھائی جائے تو ہمارے سیکولر ازم کا بھرم کھل جاتا ہے۔
اب جو2014 سے غیر کانگریسی سرکار ہے وہ اپنی پارٹی اور ہندو توا کے مشن کو پوری کرنے میں لگی ہوئی ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سال دو سال میں ہم پٹتے ہیں، جان و مال سے جاتے ہیں مگر پھر بھی ہمارا حال یہ ہے کہ جب ( گجرات کے ٹاؤن) گودھرا (2002ء ) میں ٹرین کی ایک بوگی جلی تھی جس میں ساٹھ سے زائد انسانی جانیں نذر آتش ہوئیں اور انتقاما پورے صوبہ گجرات بالخصوص احمد آباد میں جس طرح مسلمانوں کی جان و مال سے خون کی ہولی کھیلی گئی وہ تمام دنیا جانتی ہے۔
اسی فساد کے بعد دیگر ریاستوں سے احمد آباد کے مسلمانوں کی امداد کے لیے راحت رساں کئی ٹیموں نے کئی ماہ تک احمد آباد میں فساد زدگان کی امداد اور ان کی از سر نو آباد کاری کا کام کیا۔ اسی دوران ایک راحت رساں ٹیم کا ایک مشاہدہ ، تجربہ سامنے آیا تو ہم جیسے نجانے کتنے ہندوستانی مسلمانوں کا سَر شرم جھک گیا۔
واقعہ یہ تھا کہ راحت رساں ٹیم جو اپنا گھر بار چھوڑ کر احمد آباد کے لٹے پھٹے مسلمانوں کے محلے ، علاقے میں کام کر رہی تھی کہ ایک شب ٹیم کے لوگ احمد آباد کے ایک مسلم محلے سے گزر رہے تھے جو فسادات کے دنوں میں شر پسندوں سے بچا رہا ، وہاں سڑک کنارے شامیانہ لگا ہوا تھا اور ایک کنارے بریانی کی دیگیں چڑھی ہوئی تھیں۔
راحت رساں ٹیم کے سربراہ نے پتہ کیا تو اطلاع ملی کہ یہاں کے ایک مسلم سیٹھ صاحب کے بیٹے کی منگنی کی تقریب ہے اورکوئی پانچ سو سے زائد افراد کا کھانا ہے۔ راحت رساں ٹیم کے سربراہ نے بتایا: ''ہمیں بڑی حیرانی ہوئی کہ جس لٹے پھٹے شہرکے مسلمانوں کی مدد کے لیے ہم دور دراز شہر سے اپنا گھر بار چھوڑ چھاڑ کر یہاں امدادی کام کر رہے ہیں اسی شہر کے لوگ اپنی اولاد کی منگنی کا جشن منا رہے ہیں۔'' مساجد کے منبروں سے یہ بیان کس نے نہیں سنا کہ (مفہوم) '' امت محمدی ایک جسد ہے اور اس جسم کے کسی بھی حصے پر چوٹ لگے تو دوسرے حصے کو اس کا احساس لازم ہے۔'' مگر ہم '' منگنی کا جشن'' منا رہے ہیں کیونکہ ابھی فسادات کی مار ''ہم '' نے محسوس ہی نہیں کی ، کیونکہ ابھی دوسرے کی جان گئی ہے ، دوسرے کا گھر جلا ہے، دوسرے گھر کی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوئے ہیں۔
اس شہر (ممبئی) میں بڑی تعداد مسلم اور غیر مسلم سے پرے ایسے لوگوں کی ہے جو یو پی اور دیگر دور دراز ریاستوں سے معاش کے حصول کے لیے آتے ہیں اور اس فساد کے شکار ہونے والو ں میں بڑی تعداد انھیں لوگوں کی تھی نجانے کتنے انسان مارے گئے، کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں اور کتنے بچے یتیم ہوگئے اور یہ سلسلہ کچھ وقت کے لیے رک سا جاتا ہے مگر کسی وقت بھی آتش و خون کی اس آندھی کے جھکڑ کسی بھی شہر میں چل سکتے اور چلتے ہیں۔
چند برس قبل دہلی میں ہونے والے فسادات کے بعد اسکارف لگائے ہوئے ایک نو عمر ماں اور اس کی تین ننھی بیٹیوں کی تصویر آج تک آنکھوں میں ہے جو اپنے شوہر اور بیٹیاں اپنے باپ کی تلاش میں ایک اسپتال کے دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں، وہ جواں سال شوہر اور تین بیٹیوں کا باپ چار پانچ دن سے گھر نہیں لوٹا تھا اور اب تک لاپتہ ہے۔
یہ ایک واقعہ ہے جو میڈیا میں آگیا ورنہ کتنے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو ریکارڈ ہی نہیں ہوتے۔ ہماری یاد داشت کے مطابق 1961 کے جبل پور فسادات سے اب تک ہندوستانی مسلمان اتنی بار جان و مال سے ہاتھ دھو چکے ہیں اب اس کی گنتی بھی ہمیں یاد نہیں۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ہماری نفسیات بھی متاثر ہوگئی ہے۔
آزادی کے بعد ایک ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا ، ایک حصہ مذہب کے نام پر قائم ہوا تو دوسرے حصے کی بنیاد کو سیکولرازم کا نام دیا گیا۔کوئی چھتیس برس قبل جب ہم پہلی بار پاکستان گئے اور وہاں تقریباً ایک ماہ رہے، واپسی پر ایک ادیب دوست نے ہم سے سوال کیا تھا۔
'' ندیم صاحب ! اس ملک کے بارے میں کیا تاثر لے کر جا رہے ہیں؟ ''
پہلے تو ہم نے ٹالا ، مگر سائل کے اصرار پر عرض کیا تھا کہ '' ہم جہاں سے آئے وہاں سیکولر ازم کا نعرہ لگایا جاتا ہے مگر وہاں سیکولرازم کے علاوہ سب کچھ ہے، اور آپ کا ملک دین و مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا تھا تو جناب والا ! اگر بہت خوبصورت مساجد ، لانبے لانبے کرتے اور ریش و دستار کا نام دین ہے، تب تو ہم خموش ہیں ورنہ تو یہاں بھی سب کچھ ہے۔
جہاں تک نماز و روزہ یعنی عبادات کے معاملات ہیں تو حضور ! دہلی کی جامع مسجد سے لے کر ممبئی، کلکتے کی وسیع و عریض بہت سی مساجد رکوع و سجود کرنے والوں سے خالی نہیں ، تبلیغی جماعت پورے ہندوستان میں اپنے مشن کی ادائیگی میں سر گرم ہے۔ بھوپال میں لاکھوں مسلمانوں کا تبلیغی جماعت کا اجتماع ہر سال منعقد ہوتا ہے۔
دہلی اور اجمیر کے بزرگان دین کی درگاہیں اپنے زائرین سے کبھی خالی نہیں رہتیں۔ کانگریس جیسی جماعت جسے سیکولر کہا جاتا ہے اس نے آزادی کے بعد سے اب تک کوئی ساٹھ برس حکومت کی اور اس نام نہاد سیکولر کانگریسی حکومت ہی کے دور میں مسلم کش فسادات کی تاریخ اٹھائی جائے تو ہمارے سیکولر ازم کا بھرم کھل جاتا ہے۔
اب جو2014 سے غیر کانگریسی سرکار ہے وہ اپنی پارٹی اور ہندو توا کے مشن کو پوری کرنے میں لگی ہوئی ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سال دو سال میں ہم پٹتے ہیں، جان و مال سے جاتے ہیں مگر پھر بھی ہمارا حال یہ ہے کہ جب ( گجرات کے ٹاؤن) گودھرا (2002ء ) میں ٹرین کی ایک بوگی جلی تھی جس میں ساٹھ سے زائد انسانی جانیں نذر آتش ہوئیں اور انتقاما پورے صوبہ گجرات بالخصوص احمد آباد میں جس طرح مسلمانوں کی جان و مال سے خون کی ہولی کھیلی گئی وہ تمام دنیا جانتی ہے۔
اسی فساد کے بعد دیگر ریاستوں سے احمد آباد کے مسلمانوں کی امداد کے لیے راحت رساں کئی ٹیموں نے کئی ماہ تک احمد آباد میں فساد زدگان کی امداد اور ان کی از سر نو آباد کاری کا کام کیا۔ اسی دوران ایک راحت رساں ٹیم کا ایک مشاہدہ ، تجربہ سامنے آیا تو ہم جیسے نجانے کتنے ہندوستانی مسلمانوں کا سَر شرم جھک گیا۔
واقعہ یہ تھا کہ راحت رساں ٹیم جو اپنا گھر بار چھوڑ کر احمد آباد کے لٹے پھٹے مسلمانوں کے محلے ، علاقے میں کام کر رہی تھی کہ ایک شب ٹیم کے لوگ احمد آباد کے ایک مسلم محلے سے گزر رہے تھے جو فسادات کے دنوں میں شر پسندوں سے بچا رہا ، وہاں سڑک کنارے شامیانہ لگا ہوا تھا اور ایک کنارے بریانی کی دیگیں چڑھی ہوئی تھیں۔
راحت رساں ٹیم کے سربراہ نے پتہ کیا تو اطلاع ملی کہ یہاں کے ایک مسلم سیٹھ صاحب کے بیٹے کی منگنی کی تقریب ہے اورکوئی پانچ سو سے زائد افراد کا کھانا ہے۔ راحت رساں ٹیم کے سربراہ نے بتایا: ''ہمیں بڑی حیرانی ہوئی کہ جس لٹے پھٹے شہرکے مسلمانوں کی مدد کے لیے ہم دور دراز شہر سے اپنا گھر بار چھوڑ چھاڑ کر یہاں امدادی کام کر رہے ہیں اسی شہر کے لوگ اپنی اولاد کی منگنی کا جشن منا رہے ہیں۔'' مساجد کے منبروں سے یہ بیان کس نے نہیں سنا کہ (مفہوم) '' امت محمدی ایک جسد ہے اور اس جسم کے کسی بھی حصے پر چوٹ لگے تو دوسرے حصے کو اس کا احساس لازم ہے۔'' مگر ہم '' منگنی کا جشن'' منا رہے ہیں کیونکہ ابھی فسادات کی مار ''ہم '' نے محسوس ہی نہیں کی ، کیونکہ ابھی دوسرے کی جان گئی ہے ، دوسرے کا گھر جلا ہے، دوسرے گھر کی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوئے ہیں۔