تصوّف و سلوک اور تزکیۂ نفس

باطنی گناہ قلب کے وہی گناہ ہیں جن کے متعلق ابتدا میں عرض کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے تمام ظاہری گناہوں کا منبع ہیں

فوٹو : فائل

تصوّف، اصل میں باطن کے تزکیے اور تصفیے کا نام ہے، جس سے انسان کا نفس نفسانی کدورتوں اور اخلاقِ رذائلہ سے پاک صاف ہوکر اوصاف جمیلہ اور اخلاقِ حسنہ سے مزین ہوجاتا ہے۔

تصوّف، مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ مذہب ہی کی اصل روح ہے اور جس طرح جسم روح کے بغیر مردہ لاش تصور کیا جاتا ہے، اسی طرح جملہ نیک اعمال بھی اخلاصِ دل اور باطنی طہارت کے بغیر بے قدر و قیمت تصور کی جاتی ہیں۔

تصوّف بندے کے دل میں جہاں ﷲ تعالیٰ کی ذات کی محبت اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی اطاعت پیدا کرتا ہے، تو وہیں تزکیۂ نفس تحمل، برداشت، رواداری اور خدمت خلق کی طرف بھی انسان کو مائل کرتا ہے۔

تصوّف کے کئی نام ہیں جیسے علم القلب، علم الاخلاق، احسان و سلوک اور شریعت و طریقت وغیرہ۔ قرآن و حدیث میں اس کے لیے زیادہ تر احسان کا لفظ استعمال ہُوا ہے لیکن ان تمام ناموں کا مطلب اور مفہوم ایک ہی ہے اور وہ ہے اپنے نفس کو اوصاف جمیلہ اور افعال حسنہ سے مزین کرنا اور اخلاقِ رذیلہ و اعمالِ سیئہ سے پاک اور صاف کرنا۔

ہمارے بہت سے افعال و اعمال جس طرح ہمارے ظاہری اعضاء و جوارح سے صادر ہوتے ہیں اسی طرح ہمارے باطن (قلب) سے بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

ظاہری اعضاء و جوارح سے صادر ہونے والے افعال کو اعمالِ ظاہریہ جب کہ باطنی اعضاء و جوارح ( قلب) سے صادر ہونے والے افعال کو اعمالِ باطنیہ کہا جاتا ہے۔ نیز جس طرح ہمارے ظاہری افعال و اعمال شریعت اسلامیہ کی نظر میں بعض فرض، واجب، مباح، مستحب اور بعض ناپسندیدہ، مکروہ اور حرام قسم کے ہیں۔

اسی طرح ہمارے باطنی افعال و اعمال بھی شریعت اسلامیہ کی نظر میں بعض فرض، واجب اور مستحب (جیسے تقویٰ و طہارت، خشیت و للہیت، صبر و شُکر، عاجزی و انکساری، سخاوت اور فیاضی وغیرہ جیسے پسندیدہ اور مستحسن امور ہیں اور بعض ناپسندیدہ، مکروہ اور حرام قسم کے (جیسے تکبّر و غرور، ریاء و دکھلاوا، حسد، کینہ، بغض، بخل، بزدلی اور لالچ وغیرہ جیسے ناپسندیدہ اور قبیح اُمور بھی ہیں۔

لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اچھے یا بُرے افعال کے صدور کا تمام تر تعلق قلبی احوال اور نفس کی اندرونی کیفیتوں کے ساتھ ہوتا ہے، چناں چہ اگر غور سے دیکھا جائے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہی قلبی احوال اور اندرونی کیفیتیں درحقیقت ہمارے تمام ظاہری افعال و اعمال کی بنیاد اور ان کی اساس ہیں۔

ظاہری اعضاء و جوارح سے ہم اچھا یا بُرا جو بھی کام کرتے ہیں وہ درحقیقت انہی قلبی احوال اور اندرونی کیفیتوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔


چناں چہ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ تقویٰ و طہارت اور ﷲ تعالیٰ کی محبت، یہ قلب کی اندرونی کیفیتیں ہیں لیکن ان کا اثر ہمارے تمام ظاہری اعمال پر بہ راہِ راست پڑتا ہے۔ بلاشبہ! ہماری ہر ایک عبادت نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کا مصدر و منبع یہی باطنی کیفیتیں اور قلبی احوال ہیں۔ اسی طرح اگر ہم شیطانی اور نفسانی خواہشات اور تقاضوں کے باوجود بدنظری، لڑائی جھگڑے اور جھوٹ وغیرہ جیسے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں تو اس کا اصل محرک بھی یہی باطنی اور قلبی تقویٰ و طہارت اور ﷲ تعالیٰ کی محبت ہی کا کرشمہ ہوتا ہے۔

اور ظاہری اعضاء و جوارح سے ہم جو بھی گناہ (مثلاً حب جاہ و حب مال، دشمنی و عداوت، حسد، کینہ، بغض وغیرہ) کرتے ہیں تو اس کا سبب بھی کوئی باطنی اور قلبی خصلت ہی ہُوا کرتی ہے۔

ال غرض ہمارے تمام تر ظاہری افعال و اعمال کا حسن و قبح اور عندﷲ ان کا مقبول یا مردود ہونا ہمارے اعمالِ باطنیہ پر ہی موقوف ہے۔ چناں چہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تمام اعمال (کے ثواب) کا دار و مدار نیّتوں پر ہے۔'' (مشکوٰۃ) یعنی اگر کوئی عمل کرتے وقت نیّت اچھی ہوئی تو اس عمل پر ثواب ملے گا اور اگر نیّت خراب ہوئی تو اس عمل پر گناہ ہوگا۔ پس معلوم ہوا کہ ہمارے ظاہری اعمال کا مقبول و مردود ہونا یا ان کا حسین و قبیح ہونا ہمارے باطنی اعمال پر ہی موقوف ہے۔

اور تقریباً یہی حال تمام باطنی فضائل و رذائل کا بھی ہے کہ ہمارے ظاہری افعال و اعمال کے حسن و قبح، ردّ و قبول اور اجر و ثواب بلکہ بہت سے اعمال کا وجود بھی انہیں کا رہین منت ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی نشان دہی رسول ﷲ ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں فرمائی ہے، مفہوم: ''خبردار! بدن میں گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ جب وہ درست ہو تو سارا بدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوجائے تو سارا بدن خراب ہوجاتا ہے ، ہوشیار رہو کہ وہ دل ہے۔'' (صحیح بخاری)

بلاشبہ! دل کی پاکی، روح کی صفائی اور نفس کی طہارت ہر ایک مذہب کی جان اور تمام انبیاء کرامؑ کا شیوہ رہا ہے۔ چناں چہ قرآن مجید میں نبی پاک ﷺ کی بعثت کے جو چار بنیادی مقاصد بیان کیے گئے ہیں ان میں دوسرا مقصد یہی ہے کہ آپ ﷺ مسلمانوں (کے اخلاق و اعمال) کا تزکیہ فرماتے رہیں۔

قرآن مجید نے ہر ایک انسان کی کام یابی و ناکامی کا دار و مدار اسی تزکیۂ نفس کی کسوٹی پر رکھا ہے۔ چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''یقیناً! وہ مراد کو پہنچا جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اور وہ شخص ناکام ہوا جس نے اسے (رذائل) میں دھنسا دیا۔'' ( القرآن)

اس سے معلوم ہُوا کہ گناہوں کا صدور صرف ظاہری اعضاء ہی سے نہیں ہوتا بلکہ باطن (قلب) سے بھی ان کا صدور ہوتا ہے۔

اس لیے دونوں سے بچنا ضروری ہے۔ چناں چہ ایک دوسری جگہ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: '' تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی، بلاشبہ! جو لوگ یہ (گناہ) کر رہے ہیں عن قریب ان کو ان کے کیے کی سزا مل کر رہے گی۔'' (القرآن)

باطنی گناہ قلب کے وہی گناہ ہیں جن کے متعلق ابتدا میں عرض کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے تمام ظاہری گناہوں کا منبع ہیں۔ ہمارے ہر گناہ کا سوتا وہیں سے پھوٹتا ہے۔

تصوّف کی اصطلاح میں انہی کو رذائل یا اخلاقِ رذائلہ کہا جاتا ہے۔ ان کے بالمقابل دل کی نیکیاں اور عبادتیں ہیں جو ہماری تمام ظاہری عبادتوں اور نیکیوں کا سرچشمہ ہیں۔ ہر عبادت اور ہر نیکی انہی کی مرہونِ منت ہے۔ قلب کے ان نیک اعمال کو تصوّف و سلوک کی اصطلاح میں اوصاف جمیلہ یا اخلاقِ حمیدہ کہا جاتا ہے۔
Load Next Story