جواہرِ آب دار
’’ہاں! قبولیتِ دُعا میں دیر ہوجائے تو اُس سے نااُمید نہ ہونا اِس لیے کہ عطیہ نیّت کے مطابق ہوتا ہے۔
حضرت امام علی ابنِ ابی طالب کرم ﷲ وجہہٗ نہج البلاغہ میں حضرت امام حسنِ مجتبیٰؓ کے نام وصیّت میں فرماتے ہیں: ''یقین رکھو! جس کے قبضۂ قدرت میں آسمان و زمین کے خزانے ہیں، اُس نے تمہیں سوال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور قبول کرنے کا ذمّہ لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تم مانگو تاکہ وہ دے، رحم کی درخواست کرو تاکہ وہ رحم کرے۔
اُس نے اپنے اور تمہارے درمیان دربان کھڑے نہیں کیے جو تمہیں روکتے ہَوں۔ اُس نے تمہارے ہاتھ میں اپنے خزانوں کو کھولنے والی کنجیاں دے رکھی ہیں، اِس طرح کہ تمہیں اپنی بارگاہ میں سوال کرنے کا طریقہ بتایا۔
اِس طرح تم جب چاہو، دُعا کے ذریعے اُس کی نعمت کے دروازوں کو کھلوالو۔ ہاں قبولیتِ دُعا میں دیر ہوجائے تو اُس سے نااُمید نہ ہونا اِس لیے کہ عطیہ نیّت کے مطابق ہوتا ہے۔ تمہیں بس وہ چیز طلب کرنا چاہیے جس کا جمال پائیدار ہو اور جس کا وبال تمہارے سر نہ پڑنے والا ہو۔ رہا دُنیا کا مال ۔۔۔۔ تو نہ یہ تمہارے لیے رہے گا اور نہ تم اِس کے لیے رہو گے۔''
اِن تمام تر دُروس ہائے علم و حکمت کو اگر اپنایا جائے تو یہ یقیناً بہتر دنیاوی زندگی اور کام یاب و سُرخ رُو آخرت کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حضرتِ علی مرتضیٰ کرم ﷲ وجہہٗ فرماتے ہیں: ''تقویٰ کے ساتھ کوئی عمل قلیل نہیں کہا جا سکتا ہے کہ جو عمل بھی قبول ہوجائے اُسے قلیل کس طرح کہا جا سکتا ہے۔''
''ﷲ گواہ ہے کہ اگر مجھے ہفت اقلیم کی حکومت تمام زیرِ آسمان دولتوں کے ساتھ دے دی جائے اور مجھ سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ میں کسی چیونٹی پر صرف اس قدر ظلم کروں کہ اس کے منہ سے اُس چھلکے کو چھین لوں جو وہ چبا رہی ہے تو ہرگز ایسا نہیں کرسکتا ہوں۔
یہ تمہاری دُنیا میری نظر میں اُس پتّی سے زیادہ بے قیمت ہے جو کسی ٹڈی کے منہ میں ہو اور وہ اُسے چبا رہی ہو۔ بھلا علی کو ان نعمتوں سے کیا واسطہ جو فنا ہوجانے والی ہیں اور اس لذّت سے کیا تعلق جو باقی رہنے والی نہیں ہے۔ میں ﷲ کی پناہ چاہتا ہوں عقل کے خوابِ غفلت میں پڑجانے اور لغزشوں کی بُرائیوں سے اور اُسی سے مدد کا طلب گار ہوں۔'' (نہج البلاغہ)
٭ علم مال سے بہتر ہے:
اِس موضوع پر امیر المومنین، امام المتقین، حضرت علی کرم ﷲ وجہہٗ نے یقیناً لاجواب دلائل و براہین کے ساتھ اعلیٰ ترین آفاقی اور دائمی راہ نمائی فرمائی ہے:
مالکِ کائنات نے انسان کو دو اجزاء سے مرکّب بنایا ہے: جسم اور رُوح۔ اور دونوں اپنی حیات و بقاء کے لیے غذا کے محتاج ہیں۔ جسم کی غذا کا نام ہے مال، اور رُوح کی غذا کا نام ہے علم۔
علم و مال کے مراتب کے تعین کے لیے جسم و رُوح کی حیثیت پر نظر کرنا ہوگی، جس قدر پست درجہ جسم کا ہوگا، اسی قدر پست درجہ مال کا ہوگا۔ اور جس قدر بلند درجہ رُوح کا ہوگا، اسی قدر بلند درجہ علم کا ہوگا۔ جسم مادّی ہے لہٰذا اس کی غذا بھی مادّی ہے۔
رُوح مجرد ہے لہٰذا اس کی غذا بھی مجرد ہے۔ جسم خاک میں مل جانے والا ہے لہٰذا اس کی غذا بھی فانی ہے۔ رُوح عالم ارواح سے ملحق ہونے والی ہے لہٰذا اُس کی غذا بھی باقی رہنے والی شے ہے۔ جسم مُردہ ہونے والا ہے لہٰذا اس کی غذا بھی مٹ جانے والی ہے۔ رُوح کے لیے موت نہیں ہے لہٰذا اُس کی غذا بھی زندگی بخش ہے۔
مال مادّی ہوتا ہے، لہٰذا اس کی کثرت مادیّت میں اضافہ کرتی ہے۔ علم غیر مادّی ہے، لہٰذا اس کی کثرت سے رُوحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروردگار نے علم کو بھوک میں رکھا ہے کہ جس قدر مادّیت کم ہوگی، اُسی قدر علمی نشاط زیادہ ہوگا۔
جسم و روح کے مادّی اور غیر مادّی ہونے کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ جسم وقت گزرنے کے ساتھ انحطاط پزیر اور کم زور ہو جاتا ہے، لیکن رُوح میں یہ کم زوری نہیں آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عمر کے اضافے کے ساتھ علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور علم جسم کی کم زوری سے متاثر نہیں ہوتا ہے۔ ضعیفی میں حافظے کی کم زوری علم کی کم زوری نہیں ہے، علم کے ذخیرے کی کم زوری ہے کہ مخزن دماغ میں ہونے کی بنا پر حالاتِ جسم سے متاثر ہوجاتا ہے۔
اسلام نے رُوح کے لیے بہترین علم، اصول و عقائد کو قرار دیا ہے اور جسم کے لیے بہترین عمل عبادات کو قرار دیا ہے۔ مال جسم کی بقا ہے اور اعمال جسم کا ارتقائ۔ رُوح و جسم کا رابطہ اِس قدر عمیق ہے کہ رُوح علم و عقل سے الگ ہوجائے تو جسم حیوانیت کے درجے میں آجاتا ہے۔ اور رُوح تنہا رہ جائے تو جسم موت سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔
اسلام کا منشاء یہ ہے کہ جسم و رُوح دونوں میں ہم آہنگی رہے اور انسان نہ رہبانیت کا شکار ہونے پائے اور نہ اشتراکیت و اشتمالیت کا۔
اسلام نے رُوح کے ذریعے جسم کو تقویت پہنچائی ہے اور عبادات کو طبی فوائد کا ذریعہ بنا دیا ہے اور جسم کے ذریعے رُوح کو فائدہ پہنچایا ہے کہ مالیات میں بھی نیّتِ قربت شامل کردی ہے۔ جسم و رُوح کی بقاء کا ذریعہ مال و علم ہے اور دونوں کی بقاء مطلوب ہے۔
لہٰذا نہ مال کو بُرا کہا جاسکتا ہے اور نہ علم کو۔ قرآن نے مالِ دنیا کو خیر اور فضل ﷲ وغیرہ سے تعبیر کیا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ اسلام دشمنِ مال نہیں ہے۔ دشمنِ فسادِ مال ہے اور فسادِ مال کا منشاء مال نہیں ہے، انسان ہے۔
جسم کی مادّیت اور رُوح کی رُوحانیت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ دونوں میں ہمیشہ کش مکش پائی جاتی ہے۔ جسم انسان کو مادّیت کی طرف کھینچتا ہے اور رُوح رُوحانیت کی طرف۔ جسم کو اچھی غذا مل جاتی ہے تو وہ رُوح کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور رُوح کو بہتر علم مل جاتا ہے تو وہ جسم کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے۔
جسم و روح کی کش مکش کا اثر مال و علم کی حیثیت پر بھی پڑتا ہے اور ان میں بھی کش مکش جاری رہتی ہے۔ مال علم کو دنیا کی طرف کھینچنا چاہتا ہے اور علم مال کو آخرت کی طرف۔ انسان کی شرافت کا فیصلہ اسی کش مکش میں کام یابی اور ناکامی سے ہوتا ہے کہ وہ مال کے ساتھ کھنچ گیا یا علم کے ساتھ چلتا رہا۔
مال اور علم کی مادّیت اور رُوحانیت کا ایک اثر یہ ہے کہ مال ہمیشہ مادّیات کی دعوت دیتا ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان ، سامان اور ان کی انواع و اقسام ، لیکن علم انسان کو ان تمام اُمور سے بلند تر بنا دیتا ہے۔ وہ بابِ مدینۃ العلمؓ ہی ہیں جس میں دنیا کو تین طلاق دینے کا حوصلہ ہے۔ ہر شخص یہ کام انجام نہیں دے سکتا ہے۔
مال مادّی ہونے کے اعتبار سے فانی ہے اور علم رُوحانی ہونے کے لحاظ سے جاودانی ہے۔ لہٰذا بہترین انسان وہ ہے جو فانی مال کودے کر جاودانی علم حاصل کرلے۔ اور بدترین صاحب ِ علم وہ ہے جو باقی علم کو دے کر مال لینے کی کوشش کرے۔
علم کا صَرف برائے خدا ہونا چاہیے نہ کہ برائے تحصیلِ مال۔ روایات میں علم کو کھانے پینے کا ذریعہ بنانے والا ملعون قرار دیا گیا ہے۔ لیکن مال دے کر علم حاصل کرنے والے کو قابلِ تعریف قرار دیا گیا ہے۔
مال کی مادّیت کا تقاضا یہ ہے کہ خرچ کرنے سے کم ہوجاتا ہے اور علم کی رُوحانیت کا اثر یہ ہے کہ صَرف کرنے سے مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ تجربہ بہترین ثبوت ہے۔ مال کی سب سے بڑی کم زوری یہ ہے کہ انسان سے الگ ہوئے بغیر کام نہیں آتا ہے اور علم کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ساتھ رہتا ہے اور کام آتا رہتا ہے۔ مال یارِ بے وفا ہے اور علم ناصرِ باوفا۔