200 سے کم نشستیں لینے پر مودی کے امکانات معدوم ہو جائینگے

ایک بات صاف ہے وزیر اعظم کا امیدوار ایک ہی ہے اور وہ ہے گجرات کا مرد آہن نریندر مودی۔

ایک بات صاف ہے وزیر اعظم کا امیدوار ایک ہی ہے اور وہ ہے گجرات کا مرد آہن نریندر مودی۔ فوٹو: فائل

بھارتی انتخابات کے حوالے سے اب تک کی معرکہ آرائی میں جو سوال سب کو تنگ کئے ہوئے ہے، وہ یہ ہے کہ کیا نریندر مودی واضح اکثریت لے پائیں گے یا نہیں؟ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی200 نشستوں سے پیچھے رہ گئی تو مودی کے وزیر اعظم بننے کے امکانات معدوم ہو جائیں گے اور بی جے پی کا نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس (این ڈی اے) کوئی زیادہ قابل قبول اور میانہ رو وزیراعظم سامنے لائے گا۔ لیکن مودی لہر کے سامنے ابھی تک کوئی نہیں ٹک پا رہا۔

غالب امکان یہی ہے کہ مودی وزیر اعظم بنیں گے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نئی حکومت کا وزیر اعظم مضبوط اور مخلوط حکومت کمزور ہوگی یا پھر مخلوط حکومت کے مختلف عناصر کے ہاتھوں مودی جیسا مضبوط اور کلی اختیار چاہنے والا شخص بھی بے بس ہو کر رہ جائیگا، جس کا کہ کم امکان ہے۔ ابھی تو انتخابی عمل کے دو چھوٹے مرحلے مکمل ہوئے ہیں جہاں بی جے پی کا کوئی نام ونشان نہیں، البتہ آج کا تیسرا مرحلہ شمالی ہندوستان کے رحجان کو ظاہر کر دیگا۔ دہلی میں تو مقابلہ سہ طرفہ ہے۔ یہاں بی جے پی اور عام آدمی پارٹی بڑے دعوے کر رہی ہیں جبکہ کانگریس کا بُرا حال ہے، معرکے پانچویں اور چھٹے مرحلوں میں ہونگے جب 122 اور 117 نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اب تک کے جائزوں کے مطابق بی جے پی200 نشستوں سے آگے جائیگی اور اس کے این ڈی اے کے اتحادیوں کو شامل کر کے اس کے 272 کی عددی اکثریت کے قریب تر ہو جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ایک بات صاف ہے وزیر اعظم کا امیدوار ایک ہی ہے اور وہ ہے گجرات کا مردِ آہن نریندر مودی۔ بی جے پی سے زیادہ یہ مودی لہر ہے۔ لوگ ایک اچھی حکومت، معاشی ترقی کے حامی اور کرپشن ومہنگائی سے نجات چاہتے ہیں جبکہ کانگریس، بری حکومتی کارکردگی اور کرپشن کے ہاتھوں بدنامی کے باعث ''کھسیانی بلی'' کا سا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی کے سامنے کوئی نہیں کھڑا۔ کچھ کمیونسٹ سیکولرحلقے اور اقلیتیں خاص کر مسلمان اور نچلی ذات کی پارٹیاں ہندتوا کیخلاف خم ٹھونک کرکھڑی ہیں۔


سونیا گاندھی نے جامعہ مسجد دہلی کے امام بخاری سے ملاقات کی اور انھوں نے مسلمانوں سے کانگریس کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔ بی جے پی پر مظفر نگر میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کا الزام تکرار سے لگ رہا ہے اور جب اس کے ایک لیڈر نے بدلے کی دھمکی دی تو سخت ردعمل دیکھنے میں آیا اور جواب میں سماج وادی پارٹی کے اعظم خان نے غازی آباد (یو پی) میں خطاب کرتے ہوئے یہ دہلا مارا کہ ''ہندو بھائیو، مسلمان بھائیوں سے اس لیے محبت کرو کہ کارگل کی پہاڑیوں کو فتح کرنیوالا کوئی ہندو نہیں تھا بلکہ کارگل کی پہاڑیوں کو فتح کرنے والا نعرہ تکبیر لگانے والا مسلمان فوجی تھا۔'' یو پی، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال، دہلی، بہار کی بڑی ریاستوں میں مسلمانوں کو ووٹنگ میں پانسہ پلٹنے کی استعداد حاصل ہے۔ انتخابی معرکے کا فیصلہ اصل میں 23 کروڑ سے زیادہ وہ ووٹرز کرنے جا رہے ہیں جو 18-19 برس کے ہیں یا پھر پہلی بار ووٹ ڈال رہے ہیں، لیکن یہ مختلف ریاستوں، لسانی گروہوں، ذاتوں اور طبقوں میں بٹے ہیں۔

عام آدمی پارٹی کو البتہ اروند کیجریوال کے دلی کی وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ سے کافی نقصان پہنچا ہے کہ یہ سنجیدہ نہیں ہیں اور فقط نعرے بازی کر رہے ہیں۔ نچلی ذات والوں کے تحفظ کیلیے آئین میں 543 نشستوں میں سے 131 محفوظ ہیں جہاں صرف نچلی ذات کے لوگ امیدوار بن سکتے ہیں، بہار میں لالو پرشاد یادیو کی راشٹریہ جنتا دل10 سال حکمران رہی۔ نچلی ذات کی سیاست کو وزیر اعظم وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کے ذریعہ ایک بڑی قوت بنا دیا۔ اس وقت بھی اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی علاقائی جماعتوں سے کتنے اچھے اتحاد بناتی ہے۔ اس میں آندھرا پردیش، بمل چندرا، بابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی، مغربی بنگال کی ترینمل کانگرس (TNC )، تامل ناڈو میں جے للیتا کی پارٹی، اڑیسہ میں ہیجو جنتا دل، مہاراشٹر میں شیوسینا اور پنجاب میں اکالی دل اہم کردار ادا کرنے والی ہیں۔
Load Next Story