پشاور ایشیا کا قدیم ترین ’’زندہ‘‘ شہر
موجودہ دور کا پشاور شہر کسی نسلی و ثقافتی عجائب گھر سے کم نہیں ہے
پہلی قسط
درہ خیبر کے مشرقی سَرے پر واقع برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک پشاور، وسط و جنوبی ایشیا کی اہم اور قدیم ترین گزرگاہوں پر آج بھی شان سے قائم ہے۔ موجودہ دور کا پشاور شہر کسی نسلی و ثقافتی عجائب گھر سے کم نہیں ہے جہاں اس وقت کئی مختلف زبانوں، قوموں اور قبیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد رہائش پذیر ہیں۔
ماضی میں اس شہر کو کئی ناموں سے پکارا گیا ہے۔ کبھی اسے ''کسپاپوروس'' کہا گیا تو کبھی ''پشکبور''، کبھی پارس پُور و کشان پُور پکارا گیا تو کبھی پَرشاپور لکھا گیا۔ انہی ناموں سے بگڑتے بگڑتے یہ موجودہ نام پشاور تک پہنچ گیا جو ایک دور میں پھولوں کا شہر کہلایا جاتا تھا۔
وسطی، جنوبی اور مغربی ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے پشاور صدیوں سے افغانستان، جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان میں ایک مرکز کی حیثیت سے قائم چلا آیا ہے۔
چلیں اس علاقے کے بارے میں اور جانتے ہیں۔
جُغرافیہ؛خیبر پختونخواہ کے تقریباً مرکز میں واقع ضلع پشاور، نوشہرہ، چارسدہ، مہمند، خیبر اور کوہاٹ کے اضلاع سے گھرا ہوا ہے۔ صوبائی صدر مقام کے علاوہ یہ ایک ڈویژن اور ضلعی صدر مقام بھی ہے۔
سطح مُرتفع ایران (جس کا ایک حصہ سطح مرتفع بلوچستان بھی ہے) میں واقع پشاور کے شمالی سِرے پر دریائے کابل جب کہ جنوب میں ''دریائے باڑہ'' بہتا ہے۔ پشاور کے میدان میں داخل ہوتے ہی دریائے کابل کئی شاخوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔
جن میں پشاور کی طرف آنے والی دو بڑی شاخیں شامل ہیں، مشرق کو جانے والی شاخ ادیزئی کہلاتی ہے جو چارسدہ تک جاتی ہے اور شاہ عالم شاخ آگے جا کر دریائے نگومن میں مل جاتی ہے۔ ضلع کا شمالی حصہ زرخیز میدانوں جب کہ جنوبی حِصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔
تاریخ: ہندوؤں کی مقدس کتاب ''رگ وید'' میں پشاور اور آس پاس کے علاقے کا ذکر "پُشکلاوتی" کے نام سے کیا گیا ہے جو "رامائن" کے بادشاہ بھارت کے بیٹے "پُشکل" کے نام سے منسوب تھا۔ تاریخ کے مطابق اس علاقے کا عمومی نام "پرش پورہ" (انسانوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور بن گیا۔
دوسری صدی عیسوی میں مختصر عرصے کے لیے "کشان" نے اس علاقے پر قبضہ کر کے اسے اپنا دارلحکومت بنایا۔ اس کے بعد اس علاقے پر یونانی باختر بادشاہوں نے حکم رانی کی اور پھر پارتھی، ہند پارتھی، ایرانی اور پھر کشان حکم رانوں نے قبضہ کیے رکھا۔
کشان حکم راں "کنیشکا" نے اپنا دارالحکومت پُشکلاوتی (موجودہ چارسدہ) سے پرش پورہ (موجودہ پشاور) منتقل کردیا۔ کشان حکم رانوں نے جب بدھ مت قبول کیا تو یہ ان کی سلطنت اور اِس شہر کا سرکاری مذہب بھی قرار پایا۔
روایات میں ہے کہ بدھ مت کے پیروکار کنِشک نے اُس دور کی بلند ترین عمارت بنوائی جو بدھ مت کا ایک متبرک اسٹوپا تھا اور جہاں بدھ مت سے متعلق مذہبی تبرکات جمع کئے گئے تھے۔ یہ اسٹوپا پرانے پشاور کے گنج دروازے کے ساتھ باہر بنایا گیا تھا جو آج ''کنشک اسٹوپا'' کے نام سے مشہور ہے۔
اس کے بعد ہندو شاہی سلطنت کا دور شروع ہوا جس کے راجا جے پال نے کافی عرصے تک اس علاقے کو دفاع کیے رکھا۔
دوسری طرف جب خُراسان میں اسلام پھیلنے لگا اور ترک بادشاہ محمود غزنوی برسر اقتدار آیا تو اس نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے کئی جنگیں لڑیں یہاں تک کہ راجا جے پال کو بھی ایک معرکے میں شکست دے دی۔
اس کے بعد جے پال نے اپنی قوت مجتمع کر کہ غزنی پر ایک اور حملہ کیا لیکن پشاور کے قریب محمود غزنوی سے شکست کھانے کے بعد اس نے خودکشی کر لی۔ اُس کے بعد اس کے بیٹے آنند پال نے بھی پشاور پر قبضے کی کئی کوششیں کیں جو کامیاب نہ ہو سکیں۔
اس کے بعد پشاور بہلول لودھی کے زیرِسایہ لودھی سلطنت کا حصہ بنا یہاں تک کہ بابر نے وسط ایشیا سے آ کر مغل حکومت کی بنیاد رکھی۔ مغل سلطنت کے کمانڈر اور پھر صوبہ بِہار کے گورنر شیر شاہ سوری نے 1540 میں مغل علاقوں پہ قبضہ کر کہ ''سْور'' سلطنت کی بنیاد رکھی اور اس شہر کا سنہری دور شروع ہوا۔
شیر شاہ سوری کے دور میں پشاور کی تعمیرنو کی گئی اور دہلی سے کابل تک جاتی جرنیلی سڑک پشاور سے گزاری گئی۔ ایک بار پھر یہ شہر مغل سلطنت کا حصہ بنا تو شہنشاہ اکبر نے اس شہر کا نام تبدیل کر کہ ''پیشوا'' (یا پیشوا) کر دیا اور یہاں وسیع پیمانے پر باغات لگوائے جس سے یہ ''باغات کا شہر'' مشہور ہو گیا۔ ساتھ ہی اکبر نے اس علاقے میں چھوٹے قلعے بھی بنوائے۔
اٹھارویں صدی میں ناصر شاہ کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد پشاور پر ایران نے قبضہ کر لیا۔ پھر یہ درانیوں کے قبضے میں چلا گیا اور پشتون احمد شاہ درانی کی حکم رانی شروع ہوئی۔
1758 کی جنگِ پشاور میں پونے سے آئے مراٹھوں نے سکھوں کہ ساتھ مل کر درانیوں کو شکست دی اور اس افغان سرحد تک علاقے کا کنٹرول چھین لیا۔
کچھ عرصے بعد پشتونوں کا ایک بڑا لشکر احمد شاہ درانی کی قیادت میں پشاور کو واپس حاصل کرنے میں کام یاب رہا اور سکھوں کے قبضے تک یہ درانی سلطنت کا حصہ رہا۔
1818ء میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے پشاور پر قبضہ کر کے یہاں کا دورہ کیا اور 1834ء میں اسے سکھ ریاست میں شامل کر لیا اس کے بعد شہر کا زوال شروع ہوگیا۔
رنجیت سنگھ نے ایک اطالوی ''جنرل پاؤلو ایویٹیبل'' (جسے مقامی ابو تبیلا کے نام سے یاد کرتے ہیں) کو یہاں کا سربراہ بنا دیا۔
اس جنرل نے کئی لوگوں کو پھانسی پہ چڑھایا اور شہر میں خوف کی فضا قائم کر دی۔ مغلوں کے باغات اور مسجد مہابت خان کو تباہ کردیا گیا۔ اسی دور میں ہری سنگھ نلوہ نے شہر میں گردوارہ جوگا سنگھ اور گردوارہ بھائی بیبا سنگھ تعمیر کروائے۔
1835 میں افغانستان کے امیر دوست محمد خان نے اس شہر کو فتح کرنا چاہا لیکن اپنے لوگوں کی بے وفائی کی وجہ سے ناکامی کا سامنا ہوا۔
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھ سلطنت کی گرفت پشاور پر کم زور پڑگئی۔ 1849 میں انگریز سرکار نے سِکھوں کو جنگ میں ہرا کر اس علاقہ پر قبضہ کر لیا اور تقسیمِ ہند تک قابض رہے۔
برطانوی دور اور پشاور کی تعمیرِ نو؛برطانوی راج میں پشاور نے خوب ترقی کی۔ شہر کے غربی کونے پر چھاؤنی بنائی کی گئی جس سے یہ شہر سرحد کے قریب مرکزی علاقہ بن گیا۔ اسلامیہ کالج اور ایڈورڈز کالج کی بنیاد رکھی گئی۔
پشاور کو ریل کے ذریعے لاہور و دہلی سے ملایا گیا۔ ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی پر کننگھم ٹاور بنایا گیا۔ پشاور کے وکٹوریہ ہال (موجودہ عجائب گھر) سمیت شہر میں مختلف مقامات پر چرچ تعمیر کیے گئے۔
کچھ قوانین کو لے کر 1930 میں باچا خان نے ہزاروں لوگوں کے مجمع سمیت قصہ خوانی بازار میں انگریز حکومت کے خلاف پُرامن احتجاج کیا جہاں ظالم برٹش انڈین آرمی نے مظاہرین پر فائر کھول دیا۔
سیکڑوں اموات ہوئیں اور کئی زخمی ہوئے، پشاور کا قصہ خوانی بازار لہو سے رنگ دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد آزادی کی جدوجہد اور تیز ہوگئی۔
1947 میں باچا خان اور موہن داس کرم چند گاندھی کی شدید خواہش کے باوجود قائداعظم کی کوششوں سے مقامی سیاست دانوں اور پختون عوام نے پاکستان میں شمولیت کی منظوری دے دی اور پھولوں کا شہر مملکت پاکستان کا حصہ بنا۔
پشاور جو میں نے دیکھا: 2018 میں مجھے یہ شہر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ لاہور کی محبت کا مارا ہوا میں، جو سمجھتا تھا کہ لاہور جیسا آثارِقدیمہ و ثقافتوں کا حسین امتزاج کہیں نہیں مل سکتا پشاور کو دیکھ کہ ہکا بکا رہ گیا۔
اس شہر کی فضا میں ایک الک ہی رنگ اور خوشبو ہے۔ پشاور، ہمیں صحیح طریقے سے دِکھایا ہی نہیں گیا۔ اس شہر کی کئی قدیم اور تاریخی جگہیں اب بھی گم نام پڑی ہیں۔
بہت سی جگہیں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ختم ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں۔ پھولوں کا یہ شہر اب گرد اور کچرے کا شہر لگتا ہے۔ لیکن اس کے لوگ اب بھی پھولوں کا سا دل رکھتے ہیں اور مہمان نوازی کے تو کیا ہی کہنے۔
چلیں ایک نظر پشاور کے چیدہ چیدہ ورثے پر ڈالتے ہیں۔
پشاور شہر کی سیر کرنی ہو تو سب سے پہلے جی ٹی روڈ کے پاس اندرون شہر میں محلہ باقر شاہ کا رُخ کریں یہاں آپ کو مسجد مہابت خان، کننگھم ٹاور، کپور حویلی، سیٹھی محلہ ، قصہ خوانی اور گوڑکھتری کمپلیکس پاس پاس ملیں گے جِنہیں آپ آسانی سے ایک دن میں دیکھ سکتے ہیں۔
مسجد مہابت خان:تین خوب صورت گنبدوں، دو بڑے و چھ چھوٹے میناروں اور پانچ محرابی دروازوں پر مشتمل مسجد مہابت خان، 1670 میں یہاں کے مغل گورنر مہابت خان نے تعمیر کروائی تھی جو اس وقت شہر کی مشہور ترین اور بڑی مسجد ہے۔
مسجد کا نام مغل شاہنشاہ اورنگزیب کے دور میں لاہور کے گورنر نواب دادن خان کے پوتے اورمغل گورنر پشاور نواب مہابت خان کے نام پر رکھا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پشاور پہ سکھوں کے قبضے کے دوران اس مسجد کے میناروں کو پھانسی گھاٹ کے طور پہ بھی استعمال کیا گیا تھا (جس کی حتمی طور پہ تصدیق نہیں کی جا سکی) پھر برطانوی دور میں اسے مسلمانوں کو واپس کر دیا گیا۔
اندرون شہر کے تنگ بازاروں میں واقع اس مسجد کا صحن کافی بڑا ہے جس کے بیچوں بیچ وضو کے لیے نیلی ٹائل والا ایک بڑا تالاب موجود ہے۔
مسجد کی دیواروں پر کیے جانے والے نقش و نگار مغلیہ دور کے فن تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں جب کہ مرکزی ہال میں بھی گل بوٹے اور خطاطی کا خوب صورت کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسجد کا ایک دروازہ اندرون شہر جب کہ دوسرا شمالی جانب کھلتا ہے۔
یادگار چوک: یہ چوک مسجد مہابت خان کے پاس ہی واقع ہے جہاں 1892 میں جنرل ہیسٹنگ کی یاد میں ایک یادگار بنائی گئی تھی جسے ہیسٹنگ میموریل کہا جاتا ہے۔ 1930 میں قصہ خوانی بازار کے خونریز سانحے کے بعد یہ یادگار ان شہدا کے نام کر دی گئی۔ موجودہ دور میں یہ جگہ مذہبی و سیاسی اجتماعات کے لیے بکثرت استعمال ہوتی ہے۔
کننگھم ٹاور: پشاور کی کئی تاریخی عمارتیں اس کے ماضی کی شان و شوکت کی عکاس ہیں۔ یہ تاریخی عمارتیں صدیوں پرانی روایات اور برطانوی راج کی یادیں تازہ کرتی ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر اب خستہ حالی کا شکار ہوچکی ہیں۔
انہی میں سے ایک پشاور کا گھنٹہ گھر بھی ہے۔ مسجد مہابت خان کے کچھ مشرق میں چلیں تو چوک یادگار کے پاس پشاور شہر کا گھنٹہ گھر واقع ہے جس کا اصل نام ''کننگھم ٹاور'' ہے۔ چوںکہ عام شہریوں کو یہ نام بولنے میں مشکل پیش آتی ہے سو اسے گھنٹہ گھر ہی کہا جاتا ہے۔
دو بازاروں کے سنگم پر واقع کننگھم ٹاور انگریز سرکار نے 1900 میں اس وقت کی برطانوی ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی یادگار کے طور پہ بنوایا تھا۔
اس زمانے میں شمال مغربی سرحدی صوبے کے گورنر "سر جارج کنِنگھم" ہوا کرتے تھے جنہوں نے اس شاہ کار عمارت کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا اور 1898 میں اس کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ان کے ذوق و شوق کی بدولت یہ ٹاور ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔ تاریخی عمارات سے محبت رکھنے والے سر جارج کننگھم سکاٹ لینڈ کی رگبی ٹیم کے کپتان بھی رہے تھے۔
چار منزلہ کننگھم ٹاور کو پشاور میونسپلٹی کے انجینیئر جیمس اسٹریچن نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس خوبصورت ٹاور کی اونچائی 26 میٹر ( 85 فیٹ) اور چوڑائی 31 فیٹ رکھی گئی۔ سب سے اوپر والی منزل پر چاروں طرف بڑی بڑی گھڑیاں لگائی گئی تھیں۔
ٹاور کی ایک دیوار پر ایک سفید کتبہ لگا ہے جس پر درج ذیل عبارت لکھی گئی ہے؛
''اس شہر سے 200 لوگوں نے جنگِ عظیم دوئم میں شرکت کی، جن میں سے 7 لوگوں نے جان کی بازی ہار دی۔''
یہ عبارت غالباً بعد میں لکھی گئی ہوگی۔ کُتبے کے اوپر دونوں جانب داؤدی ستارہ (سٹار آف ڈیوڈ) بھی بنا ہوا ہے۔
ابتدا میں اس عمارت کا نام جارج کنگھم کلاک ٹاور رکھا گیا جو بعد میں گھنٹہ گھر کے نام سے پکارا جانے لگا اور یہی نام آج تک زبان زدعام ہے۔
بڑی گھڑی کی وجہ سے گھنٹہ گھر کہلانے والے اس چوک کے تینوں اطراف مختلف دکانیں واقع ہیں جہاں ہمہ وقت لوگوں کا رش لگا رہتا ہے اور اب یہاں تجاوزات کی بھرمار ہے۔ صد افسوس کہ کلاک ٹاور کی خوبصورت عمارت کو اشتہارات اور بینرز نے چھپا دیا ہے۔
سیٹھی ہاؤس و محلہ سیٹھیاں:گھنٹہ گھر سے جانبِ مشرق چلیں تو بائیں ہاتھ پہ محلہ سیٹھیاں آئے گا جہاں واقع سیٹھی ہاؤس پشاور شہر میں ہنرمندی و دست کاری کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ محلہ سیٹھیاں اندرون شہر کا وہ علاقہ ہے جہاں جہلم سے پشاور آنے والے سیٹھی خاندان نے رہائش اختیار کی اور اپنے ذوق کے مطابق لکڑی کے خوب صورت گھر تعمیر کیے، جو فنِ تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں۔
سیٹھی خاندان کے سربراہ ''سیٹھی کریم بخش'' مرحوم لکڑی کے بین الاقوامی تاجر اور بہترین کاری گر تھے۔ الحاج سیٹھی کریم بخش صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نہایت سخی اور فیاض تھے جس کا منہ بولتا ثبوت پشاور کے مختلف فلاحی منصوبے ہیں جن میں سڑکیں، پُل، کنویں، تالاب اور مساجد شامل ہیں۔
اسلامیہ کالج پشاور کی تاریخی مسجد بھی آپ نے اپنے خرچے سے تعمیر کروائی جب کہ پہلا دارالعلوم یکہ توت محلہ جٹاں میں قائم کیا اور اس دارالعلوم کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ جناب سیاسی جدوجہد اور سیاسی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
مرحوم نے اس علاقے میں اپنے سات بیٹوں کے لیے سات گھر بنوائے جو اپنی تعمیر اور دلکشی کی بدولت جلد ہی علاقے شہرت اختیار کرگئے۔
ان گھروں کی تعمیر 1884 میں لگ بھگ پچاس سال کے عرصے بعد تکمیل کو پہنچی۔ سیٹھی کریم بخش نے اپنے تمام بیٹوں کو ایک ساتھ رکھنے کی غرض سے ان گھروں کے تہہ خانوں کو آپس میں ملا دیا۔ یہ تہہ خانے نہ صرف ہوادار تھے بلکہ ان میں روشنی کا بھی خاص انتظام تھا۔
سیٹھی خاندان نے اپنا ایک خوب صورت گھر صوبائی حکومت کو پیش کر دیا جسے خیبر پختونخوا حکومت نے 2013 میں مرمت کے بعد میوزیم کا درجہ دے دیا ہے اور یہی گھر اب ''سیٹھی ہاؤس میوزیم '' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ گھر کم اور لکڑی کا محل زیادہ لگتا ہے۔
گھر کے خوب صورت مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو صحن میں چلتا ہوا نیلا فوارہ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اسی صحن کے چاروں جانب لکڑی کی محرابی کھڑکیاں، چھجے اور دالان بھی نگاہوں کو خیرہ کرنے کو کافی ہیں۔
بالا خانے کے دالان ایک سے بڑھ کر ایک جہاں کے دروازے لکڑی اور رنگین شیشے سے بنے ہیں جب کہ چھتیں نفیس طریقے سے بنائے گئے نقش و نگار اور شیشے کے کام سے دمکتی ہیں۔
کمروں میں لگے چھوٹے چھوٹے طاقچوں سے بنے چینی خانے دیکھنے والے کو بخارہ تک لے جاتے ہیں۔ شیشے اور لکڑی سے بنے یہ چینی خانے پرانے وقتوں میں خوبصورت برتن یا نوادرات رکھنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
ان کمروں سے تہہ خانوں کو راستہ جا نکلتا ہے جہاں سیاحوں کے لیے حکومت نے روشنی کا بہترین انتظام کر رکھا ہے۔ یوں تو اس گھر کی چھت بھی لکڑی کے بہتین کام سے مُزین ہے لیکن سیاحوں کو وہاں تک جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اس گھر کے باہر احاطے میں بھی آپ بہت سے روایتی و قدیم گھر، محرابی دروازے، چھجے اور منفرد کھڑکیاں دیکھ سکتے ہیں۔
گورکھتری کمپلیکس و سٹی میوزیم:مشہور چینی سیاح ''ہیوین سانگ'' جب پشاور کے علاقے سے گزرا تو اُس نے یہاں موجود ایک ایسی جگہ کا ذکر کیا جہاں بُدھا کا متبرک دیوہیکل پیالہ رکھا گیا تھا، بہت سے مؤرخین کا ماننا ہے کہ وہ جگہ ''گورکھتری'' ہے۔
یہ پیالہ بدھ مت میں بہت متبرک خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں گوتم بْدھ بھیک مانگا کرتے تھے ''سر الیگزینڈر کُننگھم'' کی ایک رپورٹ کے مطابق پتھر سے بنے اس پیالے کا وزن لگ بھگ 350 کلوگرام تھا جو کنشکا کے دور میں پہلے پشاور اور پھر قندھار لے جا کہ رکھا گیا۔ کافی عرصہ قندھار رہنے کے بعد اب یہ پیالہ کابل میوزیم میں موجود ہے۔
گورکھتری (جس کا سنسکرت میں مطلب جنگجو کی قبر ہے) ایک قلعہ بند، مربع شکل کمپلیکس ہے جو فوڈ سٹریٹ و سیٹھی محلے کے پاس، پشاور کے بلند ترین مقام پر واقع ہے۔ روایات کے مطابق اس جگہ کو لگ بھگ 2000 سال سے زیادہ عرصے سے مقدس سمجھا جاتا ہے۔
دوسری صدی عیسوی میں، یہ بدھ مت کی عبادت گاہ اور خانقاہ تھی جہاں بدھا کا پیالہ ایک اونچے مقام پر رکھا گیا تھا۔ پاکستانی تاریخ داں جناب ایس ایم جعفر کے نزدیک یہ ایک ایسا ہندو تیرتھ استھان ہوا کرتا تھا جہاں زائرین سر منڈوانے کی رسم ادا کرتے تھے۔
مغلیہ دور میں شاہ جہاں کی بیٹی، جہاں آرا بیگم نے گورکھتری کو کاروان سرائے میں تبدیل کر کہ اس کا نام ''سرائے جہان آباد'' رکھ دیا۔ یہاں مسافروں کی سہولت کے لیے رہائشی کمروں کے علاوہ ایک جامع مسجد، حمام اور کنویں بھی بنائے گئے۔
مغلوں کے بعد جب سِکھوں کا دور آیا تو اس جگہ کو اُس وقت کے گورنر پشاور ''جنرل ایویٹیبل'' کی رہائش گاہ اور سرکاری ہیڈکوارٹر میں تبدیل کر دیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ سکھ حکم رانوں نے مغلیہ دور کی مسجد کو شہید کر دیا اور احاطے کے جنوبی حصے میں بھگوان شیو کے لیے گورکھ ناتھ مندر تعمیر کیا جو اب بھی موجود ہے۔ مندر کے قریب بودھی (پیپل) کا گھنا پیڑ بھی ہے جسے ہندومت میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔
گورکھتری کمپلیکس کے مغربی اور مشرقی اطراف میں دو مرکزی دروازے ہیں جب کہ جنوب میں اینٹوں اور چونے سے بنے ہوئے 25 ، مغربی جانب 14، شمالی جانب 13 اور مشرقی جانب آٹھ محرابی کمرے ایک دل کش منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں موجود ایک قابل توجہ چیز وہ بیرک ہے جو شاید برطانوی دور میں بنائی گئی تھی۔
انگریز دور میں ''برٹش میونسپل کمیٹی پشاور'' نے شرقی حصے میں فائر بریگیڈ اسٹیشن بنا دیا جس کے ماتھے پر اب بھی 1912 لکھا دیکھا جا سکتا ہے۔ بعدازآں سٹی پولیس اسٹیشن اور ریونیو آفس بھی وہاں قائم کر دیا گیا۔
آثار قدیمہ کی اس اہم جگہ پہ پہلی کھدائی ڈاکٹر فرزند علی درانی نے 1992-93 میں شروع کی تھی۔ گورکھتری کے شمال مشرقی حصے میں کی جانے والی دوسری کھدائی (جو 2007 تک جاری رہی تھی) نے یہ ثابت کر دیا کہ پشاور، ایشیا کے اس حصے میں آباد قدیم ترین زندہ شہروں میں سے ایک ہے، جو مسلسل آباد ہے۔
یہاں ایک عمارت کی اوپری منزل پر عوام کی دل چسپی کے لیے چھوٹا سا عجائب گھر قائم کیا گیا ہے جو پشاور شہر کی تاریخ اور پختون ثقافت کا عکاس ہے۔ یہاں شیشے کی بڑی بڑی الماریوں میں چاندی اور مختلف دھاتوں کے زیورات، مردانہ و زنانہ ملبوسات، جوتے خصوصاً مختلف اقسام کی پشاوری چپل، کانسی و تانبے کے برتن، پرانے وقتوں میں تجارت کے لیے لائے جانے والے چینی کے برتن، روز مرہ زندگی کا سامان، آلاتِ موسیقی، مٹی کے ظروف اورکھنڈرات سے دریافت کردہ کچھ تاریخی چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس میوزیم کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ باقی عجائب گھروں کی طرح یہاں بھی عکس بندی منع ہے۔
کپور حویلی:یہ حویلی مسجد مہابت خان کے قریب بازاروں میں واقع ہے جو برطانوی ہندوستان کے کپور خاندان کا گھر تھا۔ اس کی تعمیر 1918 سے 1922 کے درمیان مشہور بولی وڈ اداکار پرتھوی راج کپور کے والد "دیوان بشیشورناتھ کپور" نے کی تھی۔ پرتھوی راج کے بیٹے اور مشہور اداکار و ہدایتکار راج کپور نے اسی حویلی میں جنم لیا تھا۔
1947 میں تقسیم کے بعد، خاندان کے افرادیہ شہر اور عمارت چھوڑ گئے، جس کے بعد یہ مختلف لوگوں کے پاس رہی۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ اس عمارت کو شادی کی تقریبات کے لیے استعمال کرتے تھے۔
تاریخی عمارت کے موجودہ مالکان نے دو دہائیاں قبل اس تین منزلہ عمارت کی اوپری منزل کو منہدم کردیا تھا کیوںکہ اس کے اوپری حصے میں زلزلے کے نتیجے میں دراڑیں پڑگئی تھیں۔ یہ عمارت آج کمرشل عمارتوں سے گھری ہوئی ہے۔
کہتے ہیں کہ جب راج کپور کے چھوٹے بھائی ششی کپور اور بیٹوں رندھیر کپور و رشی کپور نے نوے کی دہائی میں اپنے آبائی گھر کا دورہ کیا تو عقیدتاً یہاں کے صحن سے اٹھائی کچھ مٹی بھی ساتھ لے گئے۔
مسجد قاسم علی:کپور حویلی کے جنوب میں قصہ خوانی بازار کی چہل پہل میں مسجد قاسم علی واقع ہے جو پشاور کی ایک پرانی مرکزی جامع مسجد ہے۔ ہر سال یہ مسجد اس وقت توجہ کا باعث بنتی ہے جب یہاں سے مفتی پوپلزئی کا اعلان کرتے ہیں۔
قلعہ بالا حصار: افغانستان کے راستے برِصغیر پر حملہ کرنے والے جنگجوؤں سے بچاؤ کے لیے پشاور شہر کے شمال مغرب میں ''بالا حصار'' کے نام سے ایک قلعہ بنایا گیا جو آج پشاور شہر کی پہچان بن چکا ہے۔
بالا حصار فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی '' اونچے قلعے'' کے ہیں کیوںکہ یہ ایک بلند چٹان پہ واقع ہے۔ اس کو یہ نام درانی سلطنت کے سلطان ''تیمور شاہ درانی'' نے دیا جو اسے اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرتا تھا۔
یہ قلعہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ پشاور کا شہر، قلعہ کی زمین سے مجموعی بلندی 92 فٹ ہے اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ دہری دیواروں والے اس قلعہ کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ رقبہ پر محیط ہے جب کہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعہ کے اندر تک جاتی ہے۔ اس قلعے کو کئی بار مسمار اور تعمیر کیا گیا۔
( جاری ہے )
درہ خیبر کے مشرقی سَرے پر واقع برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک پشاور، وسط و جنوبی ایشیا کی اہم اور قدیم ترین گزرگاہوں پر آج بھی شان سے قائم ہے۔ موجودہ دور کا پشاور شہر کسی نسلی و ثقافتی عجائب گھر سے کم نہیں ہے جہاں اس وقت کئی مختلف زبانوں، قوموں اور قبیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد رہائش پذیر ہیں۔
ماضی میں اس شہر کو کئی ناموں سے پکارا گیا ہے۔ کبھی اسے ''کسپاپوروس'' کہا گیا تو کبھی ''پشکبور''، کبھی پارس پُور و کشان پُور پکارا گیا تو کبھی پَرشاپور لکھا گیا۔ انہی ناموں سے بگڑتے بگڑتے یہ موجودہ نام پشاور تک پہنچ گیا جو ایک دور میں پھولوں کا شہر کہلایا جاتا تھا۔
وسطی، جنوبی اور مغربی ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے پشاور صدیوں سے افغانستان، جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان میں ایک مرکز کی حیثیت سے قائم چلا آیا ہے۔
چلیں اس علاقے کے بارے میں اور جانتے ہیں۔
جُغرافیہ؛خیبر پختونخواہ کے تقریباً مرکز میں واقع ضلع پشاور، نوشہرہ، چارسدہ، مہمند، خیبر اور کوہاٹ کے اضلاع سے گھرا ہوا ہے۔ صوبائی صدر مقام کے علاوہ یہ ایک ڈویژن اور ضلعی صدر مقام بھی ہے۔
سطح مُرتفع ایران (جس کا ایک حصہ سطح مرتفع بلوچستان بھی ہے) میں واقع پشاور کے شمالی سِرے پر دریائے کابل جب کہ جنوب میں ''دریائے باڑہ'' بہتا ہے۔ پشاور کے میدان میں داخل ہوتے ہی دریائے کابل کئی شاخوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔
جن میں پشاور کی طرف آنے والی دو بڑی شاخیں شامل ہیں، مشرق کو جانے والی شاخ ادیزئی کہلاتی ہے جو چارسدہ تک جاتی ہے اور شاہ عالم شاخ آگے جا کر دریائے نگومن میں مل جاتی ہے۔ ضلع کا شمالی حصہ زرخیز میدانوں جب کہ جنوبی حِصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔
تاریخ: ہندوؤں کی مقدس کتاب ''رگ وید'' میں پشاور اور آس پاس کے علاقے کا ذکر "پُشکلاوتی" کے نام سے کیا گیا ہے جو "رامائن" کے بادشاہ بھارت کے بیٹے "پُشکل" کے نام سے منسوب تھا۔ تاریخ کے مطابق اس علاقے کا عمومی نام "پرش پورہ" (انسانوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور بن گیا۔
دوسری صدی عیسوی میں مختصر عرصے کے لیے "کشان" نے اس علاقے پر قبضہ کر کے اسے اپنا دارلحکومت بنایا۔ اس کے بعد اس علاقے پر یونانی باختر بادشاہوں نے حکم رانی کی اور پھر پارتھی، ہند پارتھی، ایرانی اور پھر کشان حکم رانوں نے قبضہ کیے رکھا۔
کشان حکم راں "کنیشکا" نے اپنا دارالحکومت پُشکلاوتی (موجودہ چارسدہ) سے پرش پورہ (موجودہ پشاور) منتقل کردیا۔ کشان حکم رانوں نے جب بدھ مت قبول کیا تو یہ ان کی سلطنت اور اِس شہر کا سرکاری مذہب بھی قرار پایا۔
روایات میں ہے کہ بدھ مت کے پیروکار کنِشک نے اُس دور کی بلند ترین عمارت بنوائی جو بدھ مت کا ایک متبرک اسٹوپا تھا اور جہاں بدھ مت سے متعلق مذہبی تبرکات جمع کئے گئے تھے۔ یہ اسٹوپا پرانے پشاور کے گنج دروازے کے ساتھ باہر بنایا گیا تھا جو آج ''کنشک اسٹوپا'' کے نام سے مشہور ہے۔
اس کے بعد ہندو شاہی سلطنت کا دور شروع ہوا جس کے راجا جے پال نے کافی عرصے تک اس علاقے کو دفاع کیے رکھا۔
دوسری طرف جب خُراسان میں اسلام پھیلنے لگا اور ترک بادشاہ محمود غزنوی برسر اقتدار آیا تو اس نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے کئی جنگیں لڑیں یہاں تک کہ راجا جے پال کو بھی ایک معرکے میں شکست دے دی۔
اس کے بعد جے پال نے اپنی قوت مجتمع کر کہ غزنی پر ایک اور حملہ کیا لیکن پشاور کے قریب محمود غزنوی سے شکست کھانے کے بعد اس نے خودکشی کر لی۔ اُس کے بعد اس کے بیٹے آنند پال نے بھی پشاور پر قبضے کی کئی کوششیں کیں جو کامیاب نہ ہو سکیں۔
اس کے بعد پشاور بہلول لودھی کے زیرِسایہ لودھی سلطنت کا حصہ بنا یہاں تک کہ بابر نے وسط ایشیا سے آ کر مغل حکومت کی بنیاد رکھی۔ مغل سلطنت کے کمانڈر اور پھر صوبہ بِہار کے گورنر شیر شاہ سوری نے 1540 میں مغل علاقوں پہ قبضہ کر کہ ''سْور'' سلطنت کی بنیاد رکھی اور اس شہر کا سنہری دور شروع ہوا۔
شیر شاہ سوری کے دور میں پشاور کی تعمیرنو کی گئی اور دہلی سے کابل تک جاتی جرنیلی سڑک پشاور سے گزاری گئی۔ ایک بار پھر یہ شہر مغل سلطنت کا حصہ بنا تو شہنشاہ اکبر نے اس شہر کا نام تبدیل کر کہ ''پیشوا'' (یا پیشوا) کر دیا اور یہاں وسیع پیمانے پر باغات لگوائے جس سے یہ ''باغات کا شہر'' مشہور ہو گیا۔ ساتھ ہی اکبر نے اس علاقے میں چھوٹے قلعے بھی بنوائے۔
اٹھارویں صدی میں ناصر شاہ کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد پشاور پر ایران نے قبضہ کر لیا۔ پھر یہ درانیوں کے قبضے میں چلا گیا اور پشتون احمد شاہ درانی کی حکم رانی شروع ہوئی۔
1758 کی جنگِ پشاور میں پونے سے آئے مراٹھوں نے سکھوں کہ ساتھ مل کر درانیوں کو شکست دی اور اس افغان سرحد تک علاقے کا کنٹرول چھین لیا۔
کچھ عرصے بعد پشتونوں کا ایک بڑا لشکر احمد شاہ درانی کی قیادت میں پشاور کو واپس حاصل کرنے میں کام یاب رہا اور سکھوں کے قبضے تک یہ درانی سلطنت کا حصہ رہا۔
1818ء میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے پشاور پر قبضہ کر کے یہاں کا دورہ کیا اور 1834ء میں اسے سکھ ریاست میں شامل کر لیا اس کے بعد شہر کا زوال شروع ہوگیا۔
رنجیت سنگھ نے ایک اطالوی ''جنرل پاؤلو ایویٹیبل'' (جسے مقامی ابو تبیلا کے نام سے یاد کرتے ہیں) کو یہاں کا سربراہ بنا دیا۔
اس جنرل نے کئی لوگوں کو پھانسی پہ چڑھایا اور شہر میں خوف کی فضا قائم کر دی۔ مغلوں کے باغات اور مسجد مہابت خان کو تباہ کردیا گیا۔ اسی دور میں ہری سنگھ نلوہ نے شہر میں گردوارہ جوگا سنگھ اور گردوارہ بھائی بیبا سنگھ تعمیر کروائے۔
1835 میں افغانستان کے امیر دوست محمد خان نے اس شہر کو فتح کرنا چاہا لیکن اپنے لوگوں کی بے وفائی کی وجہ سے ناکامی کا سامنا ہوا۔
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھ سلطنت کی گرفت پشاور پر کم زور پڑگئی۔ 1849 میں انگریز سرکار نے سِکھوں کو جنگ میں ہرا کر اس علاقہ پر قبضہ کر لیا اور تقسیمِ ہند تک قابض رہے۔
برطانوی دور اور پشاور کی تعمیرِ نو؛برطانوی راج میں پشاور نے خوب ترقی کی۔ شہر کے غربی کونے پر چھاؤنی بنائی کی گئی جس سے یہ شہر سرحد کے قریب مرکزی علاقہ بن گیا۔ اسلامیہ کالج اور ایڈورڈز کالج کی بنیاد رکھی گئی۔
پشاور کو ریل کے ذریعے لاہور و دہلی سے ملایا گیا۔ ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی پر کننگھم ٹاور بنایا گیا۔ پشاور کے وکٹوریہ ہال (موجودہ عجائب گھر) سمیت شہر میں مختلف مقامات پر چرچ تعمیر کیے گئے۔
کچھ قوانین کو لے کر 1930 میں باچا خان نے ہزاروں لوگوں کے مجمع سمیت قصہ خوانی بازار میں انگریز حکومت کے خلاف پُرامن احتجاج کیا جہاں ظالم برٹش انڈین آرمی نے مظاہرین پر فائر کھول دیا۔
سیکڑوں اموات ہوئیں اور کئی زخمی ہوئے، پشاور کا قصہ خوانی بازار لہو سے رنگ دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد آزادی کی جدوجہد اور تیز ہوگئی۔
1947 میں باچا خان اور موہن داس کرم چند گاندھی کی شدید خواہش کے باوجود قائداعظم کی کوششوں سے مقامی سیاست دانوں اور پختون عوام نے پاکستان میں شمولیت کی منظوری دے دی اور پھولوں کا شہر مملکت پاکستان کا حصہ بنا۔
پشاور جو میں نے دیکھا: 2018 میں مجھے یہ شہر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ لاہور کی محبت کا مارا ہوا میں، جو سمجھتا تھا کہ لاہور جیسا آثارِقدیمہ و ثقافتوں کا حسین امتزاج کہیں نہیں مل سکتا پشاور کو دیکھ کہ ہکا بکا رہ گیا۔
اس شہر کی فضا میں ایک الک ہی رنگ اور خوشبو ہے۔ پشاور، ہمیں صحیح طریقے سے دِکھایا ہی نہیں گیا۔ اس شہر کی کئی قدیم اور تاریخی جگہیں اب بھی گم نام پڑی ہیں۔
بہت سی جگہیں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ختم ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں۔ پھولوں کا یہ شہر اب گرد اور کچرے کا شہر لگتا ہے۔ لیکن اس کے لوگ اب بھی پھولوں کا سا دل رکھتے ہیں اور مہمان نوازی کے تو کیا ہی کہنے۔
چلیں ایک نظر پشاور کے چیدہ چیدہ ورثے پر ڈالتے ہیں۔
پشاور شہر کی سیر کرنی ہو تو سب سے پہلے جی ٹی روڈ کے پاس اندرون شہر میں محلہ باقر شاہ کا رُخ کریں یہاں آپ کو مسجد مہابت خان، کننگھم ٹاور، کپور حویلی، سیٹھی محلہ ، قصہ خوانی اور گوڑکھتری کمپلیکس پاس پاس ملیں گے جِنہیں آپ آسانی سے ایک دن میں دیکھ سکتے ہیں۔
مسجد مہابت خان:تین خوب صورت گنبدوں، دو بڑے و چھ چھوٹے میناروں اور پانچ محرابی دروازوں پر مشتمل مسجد مہابت خان، 1670 میں یہاں کے مغل گورنر مہابت خان نے تعمیر کروائی تھی جو اس وقت شہر کی مشہور ترین اور بڑی مسجد ہے۔
مسجد کا نام مغل شاہنشاہ اورنگزیب کے دور میں لاہور کے گورنر نواب دادن خان کے پوتے اورمغل گورنر پشاور نواب مہابت خان کے نام پر رکھا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پشاور پہ سکھوں کے قبضے کے دوران اس مسجد کے میناروں کو پھانسی گھاٹ کے طور پہ بھی استعمال کیا گیا تھا (جس کی حتمی طور پہ تصدیق نہیں کی جا سکی) پھر برطانوی دور میں اسے مسلمانوں کو واپس کر دیا گیا۔
اندرون شہر کے تنگ بازاروں میں واقع اس مسجد کا صحن کافی بڑا ہے جس کے بیچوں بیچ وضو کے لیے نیلی ٹائل والا ایک بڑا تالاب موجود ہے۔
مسجد کی دیواروں پر کیے جانے والے نقش و نگار مغلیہ دور کے فن تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں جب کہ مرکزی ہال میں بھی گل بوٹے اور خطاطی کا خوب صورت کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسجد کا ایک دروازہ اندرون شہر جب کہ دوسرا شمالی جانب کھلتا ہے۔
یادگار چوک: یہ چوک مسجد مہابت خان کے پاس ہی واقع ہے جہاں 1892 میں جنرل ہیسٹنگ کی یاد میں ایک یادگار بنائی گئی تھی جسے ہیسٹنگ میموریل کہا جاتا ہے۔ 1930 میں قصہ خوانی بازار کے خونریز سانحے کے بعد یہ یادگار ان شہدا کے نام کر دی گئی۔ موجودہ دور میں یہ جگہ مذہبی و سیاسی اجتماعات کے لیے بکثرت استعمال ہوتی ہے۔
کننگھم ٹاور: پشاور کی کئی تاریخی عمارتیں اس کے ماضی کی شان و شوکت کی عکاس ہیں۔ یہ تاریخی عمارتیں صدیوں پرانی روایات اور برطانوی راج کی یادیں تازہ کرتی ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر اب خستہ حالی کا شکار ہوچکی ہیں۔
انہی میں سے ایک پشاور کا گھنٹہ گھر بھی ہے۔ مسجد مہابت خان کے کچھ مشرق میں چلیں تو چوک یادگار کے پاس پشاور شہر کا گھنٹہ گھر واقع ہے جس کا اصل نام ''کننگھم ٹاور'' ہے۔ چوںکہ عام شہریوں کو یہ نام بولنے میں مشکل پیش آتی ہے سو اسے گھنٹہ گھر ہی کہا جاتا ہے۔
دو بازاروں کے سنگم پر واقع کننگھم ٹاور انگریز سرکار نے 1900 میں اس وقت کی برطانوی ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی یادگار کے طور پہ بنوایا تھا۔
اس زمانے میں شمال مغربی سرحدی صوبے کے گورنر "سر جارج کنِنگھم" ہوا کرتے تھے جنہوں نے اس شاہ کار عمارت کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا اور 1898 میں اس کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ان کے ذوق و شوق کی بدولت یہ ٹاور ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔ تاریخی عمارات سے محبت رکھنے والے سر جارج کننگھم سکاٹ لینڈ کی رگبی ٹیم کے کپتان بھی رہے تھے۔
چار منزلہ کننگھم ٹاور کو پشاور میونسپلٹی کے انجینیئر جیمس اسٹریچن نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس خوبصورت ٹاور کی اونچائی 26 میٹر ( 85 فیٹ) اور چوڑائی 31 فیٹ رکھی گئی۔ سب سے اوپر والی منزل پر چاروں طرف بڑی بڑی گھڑیاں لگائی گئی تھیں۔
ٹاور کی ایک دیوار پر ایک سفید کتبہ لگا ہے جس پر درج ذیل عبارت لکھی گئی ہے؛
''اس شہر سے 200 لوگوں نے جنگِ عظیم دوئم میں شرکت کی، جن میں سے 7 لوگوں نے جان کی بازی ہار دی۔''
یہ عبارت غالباً بعد میں لکھی گئی ہوگی۔ کُتبے کے اوپر دونوں جانب داؤدی ستارہ (سٹار آف ڈیوڈ) بھی بنا ہوا ہے۔
ابتدا میں اس عمارت کا نام جارج کنگھم کلاک ٹاور رکھا گیا جو بعد میں گھنٹہ گھر کے نام سے پکارا جانے لگا اور یہی نام آج تک زبان زدعام ہے۔
بڑی گھڑی کی وجہ سے گھنٹہ گھر کہلانے والے اس چوک کے تینوں اطراف مختلف دکانیں واقع ہیں جہاں ہمہ وقت لوگوں کا رش لگا رہتا ہے اور اب یہاں تجاوزات کی بھرمار ہے۔ صد افسوس کہ کلاک ٹاور کی خوبصورت عمارت کو اشتہارات اور بینرز نے چھپا دیا ہے۔
سیٹھی ہاؤس و محلہ سیٹھیاں:گھنٹہ گھر سے جانبِ مشرق چلیں تو بائیں ہاتھ پہ محلہ سیٹھیاں آئے گا جہاں واقع سیٹھی ہاؤس پشاور شہر میں ہنرمندی و دست کاری کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ محلہ سیٹھیاں اندرون شہر کا وہ علاقہ ہے جہاں جہلم سے پشاور آنے والے سیٹھی خاندان نے رہائش اختیار کی اور اپنے ذوق کے مطابق لکڑی کے خوب صورت گھر تعمیر کیے، جو فنِ تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں۔
سیٹھی خاندان کے سربراہ ''سیٹھی کریم بخش'' مرحوم لکڑی کے بین الاقوامی تاجر اور بہترین کاری گر تھے۔ الحاج سیٹھی کریم بخش صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نہایت سخی اور فیاض تھے جس کا منہ بولتا ثبوت پشاور کے مختلف فلاحی منصوبے ہیں جن میں سڑکیں، پُل، کنویں، تالاب اور مساجد شامل ہیں۔
اسلامیہ کالج پشاور کی تاریخی مسجد بھی آپ نے اپنے خرچے سے تعمیر کروائی جب کہ پہلا دارالعلوم یکہ توت محلہ جٹاں میں قائم کیا اور اس دارالعلوم کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ جناب سیاسی جدوجہد اور سیاسی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
مرحوم نے اس علاقے میں اپنے سات بیٹوں کے لیے سات گھر بنوائے جو اپنی تعمیر اور دلکشی کی بدولت جلد ہی علاقے شہرت اختیار کرگئے۔
ان گھروں کی تعمیر 1884 میں لگ بھگ پچاس سال کے عرصے بعد تکمیل کو پہنچی۔ سیٹھی کریم بخش نے اپنے تمام بیٹوں کو ایک ساتھ رکھنے کی غرض سے ان گھروں کے تہہ خانوں کو آپس میں ملا دیا۔ یہ تہہ خانے نہ صرف ہوادار تھے بلکہ ان میں روشنی کا بھی خاص انتظام تھا۔
سیٹھی خاندان نے اپنا ایک خوب صورت گھر صوبائی حکومت کو پیش کر دیا جسے خیبر پختونخوا حکومت نے 2013 میں مرمت کے بعد میوزیم کا درجہ دے دیا ہے اور یہی گھر اب ''سیٹھی ہاؤس میوزیم '' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ گھر کم اور لکڑی کا محل زیادہ لگتا ہے۔
گھر کے خوب صورت مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو صحن میں چلتا ہوا نیلا فوارہ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اسی صحن کے چاروں جانب لکڑی کی محرابی کھڑکیاں، چھجے اور دالان بھی نگاہوں کو خیرہ کرنے کو کافی ہیں۔
بالا خانے کے دالان ایک سے بڑھ کر ایک جہاں کے دروازے لکڑی اور رنگین شیشے سے بنے ہیں جب کہ چھتیں نفیس طریقے سے بنائے گئے نقش و نگار اور شیشے کے کام سے دمکتی ہیں۔
کمروں میں لگے چھوٹے چھوٹے طاقچوں سے بنے چینی خانے دیکھنے والے کو بخارہ تک لے جاتے ہیں۔ شیشے اور لکڑی سے بنے یہ چینی خانے پرانے وقتوں میں خوبصورت برتن یا نوادرات رکھنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
ان کمروں سے تہہ خانوں کو راستہ جا نکلتا ہے جہاں سیاحوں کے لیے حکومت نے روشنی کا بہترین انتظام کر رکھا ہے۔ یوں تو اس گھر کی چھت بھی لکڑی کے بہتین کام سے مُزین ہے لیکن سیاحوں کو وہاں تک جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اس گھر کے باہر احاطے میں بھی آپ بہت سے روایتی و قدیم گھر، محرابی دروازے، چھجے اور منفرد کھڑکیاں دیکھ سکتے ہیں۔
گورکھتری کمپلیکس و سٹی میوزیم:مشہور چینی سیاح ''ہیوین سانگ'' جب پشاور کے علاقے سے گزرا تو اُس نے یہاں موجود ایک ایسی جگہ کا ذکر کیا جہاں بُدھا کا متبرک دیوہیکل پیالہ رکھا گیا تھا، بہت سے مؤرخین کا ماننا ہے کہ وہ جگہ ''گورکھتری'' ہے۔
یہ پیالہ بدھ مت میں بہت متبرک خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں گوتم بْدھ بھیک مانگا کرتے تھے ''سر الیگزینڈر کُننگھم'' کی ایک رپورٹ کے مطابق پتھر سے بنے اس پیالے کا وزن لگ بھگ 350 کلوگرام تھا جو کنشکا کے دور میں پہلے پشاور اور پھر قندھار لے جا کہ رکھا گیا۔ کافی عرصہ قندھار رہنے کے بعد اب یہ پیالہ کابل میوزیم میں موجود ہے۔
گورکھتری (جس کا سنسکرت میں مطلب جنگجو کی قبر ہے) ایک قلعہ بند، مربع شکل کمپلیکس ہے جو فوڈ سٹریٹ و سیٹھی محلے کے پاس، پشاور کے بلند ترین مقام پر واقع ہے۔ روایات کے مطابق اس جگہ کو لگ بھگ 2000 سال سے زیادہ عرصے سے مقدس سمجھا جاتا ہے۔
دوسری صدی عیسوی میں، یہ بدھ مت کی عبادت گاہ اور خانقاہ تھی جہاں بدھا کا پیالہ ایک اونچے مقام پر رکھا گیا تھا۔ پاکستانی تاریخ داں جناب ایس ایم جعفر کے نزدیک یہ ایک ایسا ہندو تیرتھ استھان ہوا کرتا تھا جہاں زائرین سر منڈوانے کی رسم ادا کرتے تھے۔
مغلیہ دور میں شاہ جہاں کی بیٹی، جہاں آرا بیگم نے گورکھتری کو کاروان سرائے میں تبدیل کر کہ اس کا نام ''سرائے جہان آباد'' رکھ دیا۔ یہاں مسافروں کی سہولت کے لیے رہائشی کمروں کے علاوہ ایک جامع مسجد، حمام اور کنویں بھی بنائے گئے۔
مغلوں کے بعد جب سِکھوں کا دور آیا تو اس جگہ کو اُس وقت کے گورنر پشاور ''جنرل ایویٹیبل'' کی رہائش گاہ اور سرکاری ہیڈکوارٹر میں تبدیل کر دیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ سکھ حکم رانوں نے مغلیہ دور کی مسجد کو شہید کر دیا اور احاطے کے جنوبی حصے میں بھگوان شیو کے لیے گورکھ ناتھ مندر تعمیر کیا جو اب بھی موجود ہے۔ مندر کے قریب بودھی (پیپل) کا گھنا پیڑ بھی ہے جسے ہندومت میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔
گورکھتری کمپلیکس کے مغربی اور مشرقی اطراف میں دو مرکزی دروازے ہیں جب کہ جنوب میں اینٹوں اور چونے سے بنے ہوئے 25 ، مغربی جانب 14، شمالی جانب 13 اور مشرقی جانب آٹھ محرابی کمرے ایک دل کش منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں موجود ایک قابل توجہ چیز وہ بیرک ہے جو شاید برطانوی دور میں بنائی گئی تھی۔
انگریز دور میں ''برٹش میونسپل کمیٹی پشاور'' نے شرقی حصے میں فائر بریگیڈ اسٹیشن بنا دیا جس کے ماتھے پر اب بھی 1912 لکھا دیکھا جا سکتا ہے۔ بعدازآں سٹی پولیس اسٹیشن اور ریونیو آفس بھی وہاں قائم کر دیا گیا۔
آثار قدیمہ کی اس اہم جگہ پہ پہلی کھدائی ڈاکٹر فرزند علی درانی نے 1992-93 میں شروع کی تھی۔ گورکھتری کے شمال مشرقی حصے میں کی جانے والی دوسری کھدائی (جو 2007 تک جاری رہی تھی) نے یہ ثابت کر دیا کہ پشاور، ایشیا کے اس حصے میں آباد قدیم ترین زندہ شہروں میں سے ایک ہے، جو مسلسل آباد ہے۔
یہاں ایک عمارت کی اوپری منزل پر عوام کی دل چسپی کے لیے چھوٹا سا عجائب گھر قائم کیا گیا ہے جو پشاور شہر کی تاریخ اور پختون ثقافت کا عکاس ہے۔ یہاں شیشے کی بڑی بڑی الماریوں میں چاندی اور مختلف دھاتوں کے زیورات، مردانہ و زنانہ ملبوسات، جوتے خصوصاً مختلف اقسام کی پشاوری چپل، کانسی و تانبے کے برتن، پرانے وقتوں میں تجارت کے لیے لائے جانے والے چینی کے برتن، روز مرہ زندگی کا سامان، آلاتِ موسیقی، مٹی کے ظروف اورکھنڈرات سے دریافت کردہ کچھ تاریخی چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس میوزیم کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ باقی عجائب گھروں کی طرح یہاں بھی عکس بندی منع ہے۔
کپور حویلی:یہ حویلی مسجد مہابت خان کے قریب بازاروں میں واقع ہے جو برطانوی ہندوستان کے کپور خاندان کا گھر تھا۔ اس کی تعمیر 1918 سے 1922 کے درمیان مشہور بولی وڈ اداکار پرتھوی راج کپور کے والد "دیوان بشیشورناتھ کپور" نے کی تھی۔ پرتھوی راج کے بیٹے اور مشہور اداکار و ہدایتکار راج کپور نے اسی حویلی میں جنم لیا تھا۔
1947 میں تقسیم کے بعد، خاندان کے افرادیہ شہر اور عمارت چھوڑ گئے، جس کے بعد یہ مختلف لوگوں کے پاس رہی۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ اس عمارت کو شادی کی تقریبات کے لیے استعمال کرتے تھے۔
تاریخی عمارت کے موجودہ مالکان نے دو دہائیاں قبل اس تین منزلہ عمارت کی اوپری منزل کو منہدم کردیا تھا کیوںکہ اس کے اوپری حصے میں زلزلے کے نتیجے میں دراڑیں پڑگئی تھیں۔ یہ عمارت آج کمرشل عمارتوں سے گھری ہوئی ہے۔
کہتے ہیں کہ جب راج کپور کے چھوٹے بھائی ششی کپور اور بیٹوں رندھیر کپور و رشی کپور نے نوے کی دہائی میں اپنے آبائی گھر کا دورہ کیا تو عقیدتاً یہاں کے صحن سے اٹھائی کچھ مٹی بھی ساتھ لے گئے۔
مسجد قاسم علی:کپور حویلی کے جنوب میں قصہ خوانی بازار کی چہل پہل میں مسجد قاسم علی واقع ہے جو پشاور کی ایک پرانی مرکزی جامع مسجد ہے۔ ہر سال یہ مسجد اس وقت توجہ کا باعث بنتی ہے جب یہاں سے مفتی پوپلزئی کا اعلان کرتے ہیں۔
قلعہ بالا حصار: افغانستان کے راستے برِصغیر پر حملہ کرنے والے جنگجوؤں سے بچاؤ کے لیے پشاور شہر کے شمال مغرب میں ''بالا حصار'' کے نام سے ایک قلعہ بنایا گیا جو آج پشاور شہر کی پہچان بن چکا ہے۔
بالا حصار فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی '' اونچے قلعے'' کے ہیں کیوںکہ یہ ایک بلند چٹان پہ واقع ہے۔ اس کو یہ نام درانی سلطنت کے سلطان ''تیمور شاہ درانی'' نے دیا جو اسے اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرتا تھا۔
یہ قلعہ اتنا پرانا ہے جتنا کہ پشاور کا شہر، قلعہ کی زمین سے مجموعی بلندی 92 فٹ ہے اس کی دیواریں پختہ سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ دہری دیواروں والے اس قلعہ کا کل رقبہ سوا پندرہ ایکڑ رقبہ پر محیط ہے جب کہ اس کا اندرونی رقبہ دس ایکڑ بنتا ہے ایک پختہ سڑک بل کھاتی ہوئی قلعہ کے اندر تک جاتی ہے۔ اس قلعے کو کئی بار مسمار اور تعمیر کیا گیا۔
( جاری ہے )