سرکاری ترجیحات میں صاف ستھرے ماحول کو انتہائی اہمیت حاصل ہے
کینیڈا میں ہر درخت سرکاری حفاظت میں ہے ، اپنے گھر میں بھی درخت کاٹنے کی اجازت نہیں
پانچویں قسط
ہمیں ایک مرتبہ پھر قریبی شہر 'سری' جانا تھا لیکن اب کی بار کسی کے گھر نہیں بلکہ سائمن فریزر یونیورسٹی کی ایک ادبی نشست میں شرکت کرنا تھی۔
جہاں اُدھر کے طالب علموں کے ساتھ برٹش کولمبیا کے مختلف علاقوں سے ادبی شخصیات پہنچ رہی تھیں۔ میں جتندر، ہرِندر کور جی اور پریم مان جی ایک گاڑی میں تھے جبکہ بلی کور نے بارج کے ساتھ آنا تھا۔ ہم لوگ شام سے کچھ پہلے روانہ ہوئے۔
ہوا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔ آکاش پر چاروں جانب شفق کے رنگ گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ ہمیں دریائے فریزر کے ایک بڑے پُل سے گزرنا تھا۔ وینکوور اپنے اندر ایک خاصیت یہ بھی رکھتا ہے کہ اس میں سمندر کا ساحل بھی ہے اور دریا کی گزرگاہ بھی۔
جب ہم دریا کے عظیم الشان پُل سے گزرے تو میں نے ہرِندر کور سے دریائے فریزر کے بارے میں سوال کیا تو ان کے جواب دینے سے پہلے ہی پریم مان بولے'' مدثر جی آپ گوگل سے دیکھ لیجیے گا۔ '' میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔
میرا مقصد بالکل الگ تھا۔ جو معلومات شہر کے باسی کو ہوتی ہیں وہ قطعاً گوگل پر نہیں ہوتیں۔ میں نے اپنے بچپن میں کس طرح کا دریائے راوی دیکھا، وہ مجھے معلوم ہے۔
کس طرح پانی کے معاہدے کے باعث لاہور راوی کے بہاؤ سے محروم ہو چکا ہے، دریا کی گزرگاہوں کے قریب کس طرح سے انسانی بستیاں تعمیر ہوتی گئیں، دریا کی حیات اور قدرتی درختوں کے ذخیرے کس طرح ناپید ہوئے، یہ تو لاہور شہر کا باسی ہی بتا سکتا ہے۔
ہم سائمن فریزر یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہوئے تو ہرِندر کور نے بتایا کہ یونیورسٹی کا پرانا کیمپس وینکوور کی پہاڑیوں پر ہے۔ یہ ایک بہت وسیع پانچ منزلہ عمارت تھی جس کے کچھ حصّوں میں انتظامی دفاتر بھی موجود تھے۔
ہم لوگ پارکنگ میں اُترے تو بارج وہاں پر پہلے ہی سے موجود تھے۔ کینیڈا میں ہر شخص بہت سے وہ کام بھی اپنے ہاتھوں سے کرتا ہے جن کا ہمارے ہاں تصور بھی نہیں۔ بارج نے اپنی گاڑی کی ڈِگی کھولی، دونوں ہاتھوں سے پانی اور جوس کی بوتلوں کی پیکنگ اُٹھائی اور لفٹ کی جانب بڑھے۔ راستے میں کچھ والنٹیئرطالب علم ملے جنہوں نے آگے بڑھ کر سامان لے جانے میں ہاتھ بٹایا۔
اس عمارت کی زمینی منزل پر مختلف برینڈز کے بڑے بڑے اسٹورز تھے جن میں طالب علموں کے لیے کچھ خاص رعایتیں بھی موجود تھیں۔ ہم جس فلور پر تھے اُس پر فیکلٹی آف ایجوکیشن ایس ایف یو سری (Faculty of education SFU Surrey) کا بورڈ نصب تھا۔
اُس کے قریب ہی ہمیں بَلی بھی کچھ دیگر مہمانوں کے ساتھ کھڑی ملیں۔ پھر ہم جس ہال میں داخل ہوئے، اس کے دروازے پر فیکلٹی آف آرٹس (Faculty of Arts)کی تحریر موجود تھی اور اس کے ساتھ ہی دیوار کے ساتھ کچرے کے اسٹینڈ تھے جن پر رنگوں کے حساب سے رہنمائی کے لیے ہدایات موجود تھیں تاکہ صفائی والے عملے کو مکمل سہولت میسر رہے۔
سبز رنگ والے ڈسٹ بن کے باہر یہ تحریر تھا: فوڈ سکریپس پلس کمپوسٹیبلز۔(Food scraps +compositables) اورنج رنگ کے ڈسٹ بِن پر یہ تحریر تھی: مکسڈ پیپرز (Mixed papers)، نیلے آسمانی رنگ والے ڈسٹ بِن پر ''ری سائیکیبلز'' (Recyclables) تحریر تھا اور ہلکے سیاہ رنگ کی ڈسٹ بن کے باہر ''لینڈ فِل گاربیج'' (Land fill garbage) تحریر تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ان تمام پر مختلف قسم کی اشکال بنی ہوئی تھیں تاکہ کسی بھی انجان شخص کے لیے کوڑا ڈسٹ بِن میں درست طریقے سے ڈالنا ممکن ہو۔
جب ہم لوگ ہال میں داخل ہوئے تو پچھلی سیٹوں پر پہلے ہی سے ہرندر کور کی چھوٹی بہن اور اُن کے شوہر نے کھانے پینے کی اشیاء سلیقے کے ساتھ مختلف میزوں پر سجا رکھی تھیں۔
اُن کی چھوٹی بہن کا نام کُلجندر کے شوکر (Kuljinder K. Shoker)اور ان کے شوہر کا نام گورتیغ ایس شوکر (Gurtegh S. Shoker)تھا اور ان کے ساتھ ہی ہرندر کی اپنی بیٹی من وِیر کے ڈھاہاں (Manveer K. Dhahan)تھی۔ ان کے ساتھ دیگر والنٹیئرز نے مل کر تمام ہال کے انتظامات سنبھال لیے تھے۔ مغربی سیدھ میں سائمن فریزر یونیورسٹی کا ڈائس تھا اور اس کے ساتھ ہی دو میزیں رکھ کر ایک اسٹیج کی شکل تیار کی گئی تھی۔
پروگرام کا آغاز بارج نے اپنی بات چیت سے کیا اور اس میں ڈھاہاں کے قیام سے لے کر آج دِن تک کے معاملات کو مختصراً بیان کیا اور بتایا کہ کس طرح ان کی اہلیہ ریٹا ڈھاہاں (Rita Dhahan)نے ان کو کام کی شروعات میں حوصلہ فراہم کیا اور اس کے ساتھ انہوں نے اپنے والد، بہن بھائیوں اور اقربا کا بھی ذکر کیا۔
جنہوں نے اس کام میں ہاتھ بٹایا۔ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہم لوگوں نے بھی اپنے ناول، کہانی پر کچھ گفتگو کرنی تھی۔ ہال کی تقریباًتمام کرسیاں نئے پرانے لکھاریوں اور طالب علموں کے ساتھ بھر چکی تھیں۔ گفتگو کے لیے سب سے پہلے مجھے ڈائس پر بلایا گیا۔
میں نے 'کون' کا ابتدائیہ اور سیاق و سباق حاضرین کو بیان کیا اور اُس کے بعد ابتدا ہی کے چند صفحات پڑھ کر سُنائے۔ میرے بعد باقی لکھاریوں نے بات کی۔ پھر سوال و جواب کا مرحلہ شروع ہوا۔ مجھ سے پہلا سوال فوزیہ رفیق نے کیا۔
شاید یہ لاہوری انگ کی پنجابی کا کمال تھا یا کچھ اور، حاضرین نے تواتر کے ساتھ سوالات شروع کر دیئے اور زیادہ تر سوالات 'کون' پر ہی ہوتے رہے۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد ہم سب لوگ ایک مرتبہ پھر پریم مان کی گاڑی میں تھے۔ میں اور جتندر کچھ اس طرح کھا پی آئے تھے کہ کھانا کھانے کی طلب ہرگز نہ تھی۔ جتندر واپسی میں بھی آدھے جاگتے اور سوتے آئے۔
ہوٹل پہنچنے پر میں نے انہیں جگایا یہ کہتے ہوئے ''بھاء جی اُٹھو، لہور آ گیا اے۔'' یہ سُن کر پہلے تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھے اور نیند کی خماری کچھ کم ہوئی تو استفسار کیاکہ آپ نے کیا کہا تھا۔
میں نے اُنہیں بتایا کہ یہ لاہوریوں کا ازراہِ تفنن بولا جانے مقبول عام فقرہ ہے، جو اُس موقع پر بولا جاتا ہے جب کوئی ضرورت سے زیادہ نیند لے چُکا ہو، یا بے موقع سو رہا ہو، جیسے کہ کئی افراد دفاتر اور کام کی جگہ پر بھی اکثر نیند سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔
بارج اور وَینکوور شہر
آج کے شیڈول میں میرا اور جتندر کا فون پر انٹرویو تھا، بَلی کا ایک ریڈیو چینل پر... اور پھر شہر کی سیر بھی تھی۔ روانہ ہوئے تو راستے میں بارج سے کینیڈا کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے میرے استفسار پر بارج نے بتایا کہ کینیڈا کی سرکاری ترجیحات اور قومی رُجحان میں صاف سُتھرے ماحول کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔
وہاں کے وسیع رقبے پر جنگلات کی بہتات ہے۔ ماہرین کاخیال ہے کہ ان جنگلات کو اگر کاٹ کر لکڑی فروخت کی جائے تو یہ رقم کئی برس تک کینیڈا کے قومی بجٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گی۔ لیکن یہ قوم اپنے ایک ایک درخت کی رکھوالی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہوا اتنی صاف سُتھری ہے کہ جب آپ وہاں سانس لیتے ہیں توپھر محسوس ہوتا ہے کہ آپ پاکستان میں کئی برس سے کتنی آلودہ ہوا میں سانس لیتے رہے ہیں۔
پانی اور ہوا کے صاف ہونے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بارج کے ایک دوست کی فیملی کوئی پندرہ برس قبل ہندوستان سے اُدھر آ کر بسی۔ ہندوستان میں خاندانی رئیس تھے۔
دو تین برس کے بعد ادھر کی انتہائی محنت طلب زندگی اور اپنوں سے دُوری کے باعث واپس جانے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن اُن کے بچوں نے یہ کہہ کر اُنہیں روکا کہ جس طرح کی صاف آب و ہوا کینیڈا کی ہے اُس کا ہندوستان میں تصور بھی نہیں۔ جواب میں والدین نے یہ بھی کہا کہ یہاں ڈرائیور اور گھریلو ملازمین جیسی سہولتیں میسّر نہیںکیونکہ یہاں انتہائی امیرخاندان بھی گھریلو نوکر کم ہی رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں جن صاحب کی ماہانہ آمدن 30سے 35 ہزار روپے ہے، وہ بھی صفائی سُتھرائی کے لیے ملازمہ رکھتے ہیں۔
اُن بچوں نے اپنے والدین کو یہ کہہ کر قائل کیا کہ انسانی صحت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ اس لیے آج بھی وہ لوگ اُدھر ہیںاوراچھے ماحول کے باعث بغیر ڈرائیور اور ماسی کے زندگی گزار رہے ہیں۔
درختوں کے معاملے میں سرکار اتنی سختی کرتی ہے کہ آپ اپنے ہی گھر میں ٹاؤن مینجمنٹ کی مرضی کے بغیر کوئی درخت کاٹ نہیں سکتے۔
گھر کے نقشے میں تبدیلی کرنی ہے تو اُس کی اجازت بھی درکار ہے اور اگر کسی درخت کو کوئی بیماری لگ گئی ہے تو محکمہ جنگلات کا عملہ فاریسٹ آفیسر کی نگرانی میںاُس درخت کو جڑوںسے مٹی سمیت اُکھاڑ کر لے جاتا ہے اور پھر کسی دوسری جگہ لگا کر بیماری کا علاج کسی بھی دوسرے جاندار کی طرح کیا جاتا ہے اور پھر اُکھاڑے جانے والے درخت کی جگہ پر دو نئے پودے لگانا بھی لازم ہے۔
انتظامیہ ایئرکیمرے کی مدد سے رہائشی علاقوں میںمسلسل درختوں کی نگرانی کرتی ہے اور اگر کسی گھر کا مالک بغیر اجازت درخت کاٹ لے تو اُس کو اچھا خاصا جرمانہ بطور سزا ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کینیڈا میں فاریسٹ آفیسر کی دیگر شعبہ جات کی بہ نسبت بہت سخت نوکری ہے، اسی لیے ان کی تنخواہیں بھی بہت بہتر ہیں۔
اتنے بڑے رقبے پر جنگلات ہونے کے باوجود سرکار ماحول کوآلودگی سے پاک رکھنے کے لیے مسلسل سوچ بچار میں رہتی ہے۔ اُنہوں نے ''گرین رُوف'' کا طریقہ کار بھی اپنا رکھا ہے۔ وہاںپر برٹش کولمبیا(B.C) میں کئی بڑے شاپنگ مالز اور ہوٹلوں کی چھتوں پر میں نے خود گھاس کے ساتھ اچھے خاصے بڑے پودے دیکھے۔ چھتوںپر مٹی کی تہہ خاص طریقہ کار سے بچھاکر مسلسل آکسیجن کی فراہمی کے لیے پودوں اوردرختوں کو لگانے کے تجربے جاری ہیں۔
پٹرول کے کم سے کم استعمال کے لیے شہروں میں الیکٹرک بسیں اور ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔مختلف مقامات پر سولر پلانٹ نصب کیے گئے ہیں تاکہ سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کی جائے اور اُس بجلی سے ٹرینیں اور بسیں چلائی جائیں۔
اس حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ (B.C )کینیڈا میں الیکٹرک بسیں ایک اچھی خاصی تعداد میں ہندوستانی خواتین چلاتی ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ وہاں گھر کے تقریباً تمام افراد ہی کام کرتے ہیں۔ ڈالر کمانے کے ساتھ ساتھ یہ اُن کو صحت مند اور چُست بھی رکھتی ہے۔ میں نے ایک سٹور پر ایک ہندوستانی سکھ سے بات چیت کی جن کی عمر ستر برس سے زائد ہوگی۔ اُنہوں نے مجھے کہا کہ میں اپنی اولاد پر بوجھ نہیں بننا چاہتا، حالانکہ کینیڈا سرکار کی جانب سے اچھی خاصی پنشن بھی مل جاتی ہے لیکن میں اس لیے بھی یہاں آتا ہوں کہ یہاں روز نئے سے نئے لوگوں سے بات چیت کا موقع ملتا ہے جو کئی دیگر ممالک سے یہاں آکر بسے ہیں ۔
ہر مرد، خاتون اور بچے کا ''گڈمارننگ'' اور ''گڈ ایوننگ'' کہنے کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے اور کبھی کسی نے دوسرے کسی بھی شخص سے بدتمیزی نہیں کی۔
بارج ہمیں شہر اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی معلومات دیتے ہوئے دریائے فریزر کے کنارے بسے ایک انتہائی پوش علاقے میں لے آئے جہاں پر بڑے بڑے فارم ہاؤسز بنے ہوئے تھے۔ نارنجی رنگوں سے لدے پتوں سے بھرے کئی اقسام کے درخت دکھائی دیے۔
یہاں پر موجود گھر بظاہر ایکڑوں میں دکھائی دے رہے تھے جن میں گھوڑوں کے اصطبل تک بھی موجود تھے۔ کچھ جوان انگریز خواتین سڑکوں پر گھڑ سواری کرتے ہوئے بھی دکھائی دیں۔ ہیلووین کے باعث ہر گھر کے باہر مختلف اقسام کے کھلونے اور ڈراؤنی اشکال دکھائی دیں۔ اُن کے گھروں کو دیکھ کر بچپن میں دیکھی ہارر(Horror) فلمیں یاد آگئیں۔
بارج نے اپنی ایک فون کال سُننے کے لیے سڑک کے کنارے گاڑی روکی تو میں دریا کی جانب چل پڑا اور چند گز پر محیط یہ گلی جو کہ آپ کو آبادی سے دریا کے کنارے پر لے جاتی ہے، میرے لیے یہ گلی کسی خواب سے کم نہ تھی۔
اس گلی میں سبز اور زرد پتوں کی گہری تہیں یوں بچھی تھیں جیسے برسوں سے اس جگہ سے کسی ذی رُوح کا گزر نہ ہوا ہو۔
یہاں بس درخت، گھروں کی دیواروں کے ساتھ بہتے برساتی نالے اور دریا کی جانب سے آتی ہوا، جس میں پانی کی باس انتہائی نمایاں تھی۔ میں گلی میں چند قدم چل کر اُن پتوں کے ساتھ جا بیٹھا اور دریا کی جانب بھی نہ گیا۔ کچھ دیر بعد جتندر نے مجھے ہاتھ ہِلا کر گاڑی میں واپس بُلا لیا۔
محض ایک گلی کے فاصلے پر دریائے فریزر گزر رہا تھا۔ شہر کے منتظمین نے اُس کے قدرتی بہاؤ کو قائم رکھتے ہوئے اُس کے گرد آبادیاں تعمیر کی تھیں۔
وہاں پر ایک چوک پر بارج نے گاڑی روکی۔ بَلی دریا کی سیر کو نکل گئیں اور ہمارے میزبان ہرپریت سنگھ کی کال بھی آگئی۔ میں چاہتا تھا کہ پروٹوکول کی حیثیت سے پہلے جتندر بات چیت کریں لیکن جتندر ہی کے کہنے پر ہرپریت سنگھ نے مجھ سے بات چیت کی جو لائیو ریڈیو پر چلنی تھی۔
اُس انٹرویو میں میرے ساتھ اُنہوں نے تفصیلی طور پر شاہ مکھی میں ادب پر مختلف موضوعات کے حوالے سے گفتگو کی۔ میرے لاہور کی تاریخ اور فکشن کے کام کے متعلق بھی کئی طرح کے سوالات کیے۔ یہ انٹرویو تقریباً بیس سے پچیس منٹ طویل رہا۔
میں گھروں کے گرد گھومتا دریا کی جانب بڑھا۔ گلیاں زرد، ہرے رنگ کے پتوں سے بھری پڑی تھیں۔ میں دو گھروں کے بیچ کی ایک چھوٹی سی رہگذر سے دریا پر جا پہنچا۔ کنارے پر لکڑی کا بینچ تصوراتی منظر لگتا تھا۔ اُس گلی کے اختتام پر چھوٹے دریائی جہازوں کو کنارے تک لانے والا ایک اسٹینڈ بھی تھا جس کے ساتھ مختلف طرح کی چرخیاں اور لوہے کی بھاری زنجیریں تھیں۔
دریا کا پانی اپنی ایک خاص مستی میں تھا جس میں دُور کچھ موٹر بوٹس چلتی دکھائی دیں۔ پانی کی کنارے پر مسلسل مار کی وجہ سے پتھروں پر کائی بھی جمی دکھائی دی۔
یہاں سے ہم سمندر کے کنارے جا پہنچے۔ ساحل سمندر کے ساتھ ہی بائیں جانب نیچے ایک کنارے کو سیڑھیاں جا رہی تھیں۔ جہاں'کاما گاٹا مارو' نامی ایک بحری جہاز کے ساتھ انتہائی درد ناک واقعہ پیش آیا تھا۔
اُس واقعہ کی وہاں ایک یادگار تعمیر کی گئی ہے۔ وہاں تصاویر بنوائیں۔ کوئی پانچ منٹ اس یادگار اور شہداء کی تصاویر کو دیکھتا رہا اور رنجیدہ دل سے واپس مڑا۔
کوماگاٹا مارو کا دل دوز سانحہ برطانوی سامراج کے ماتھے پر ایک اور بڑا سا کلنک ہے۔ دراصل 20 ویں صدی کے آغاز میں بے آباد کینیڈا کو بسانے کے لیے دُنیا بھر سے آنے والے افراد کو خوش آمدید کہا جا رہا تھا۔ انگریزوں کے زیر قبضہ متحدہ ہندوستان کے باشندوں سے اس معاملے میں امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ بیشتر باشندوں کو انگریز سرکار کے خلاف سازشیں کرنے کے بہانے سے کینیڈا میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔
کینیڈا حکومت نے ایک نیا قانون پاس کیا جس کے تحت صرف براہِ راست کینیڈا پہنچنے والے مسافروں کو ہی اس ملک میں اُترنے اور قیام کی اجازت دی گئی تھی۔ اس قانونی پیچیدگی کو حل کرنے کے لیے گوردت سنگھ سرہالی نے ایک جاپانی بحری جہاز مارو (Komagata Maru) کرائے پر لیا اور پھراُن کی قیادت میں یہ بحری جہاز پنجاب سے تعلق رکھنے والے 376 مسافروں کو لے کر روانہ ہوا۔ان مسافروں میں 340 سکھ، 24 مسلمان اور 12 ہندو شامل تھے۔
ہانگ کانگ سے براستہ جاپان 22 مئی 1914ء کینیڈا کی ریاست برٹش کولمبیا کے شہر وینکوور پہنچ گیا۔ تاہم یہاں کی حکومت نے امتیازی سلوک برتتے ہوئے صرف 24 مسافروں کو مملکت میں داخلے کی اجازت دی اور باقی 352 مسافروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ جہاز سمیت واپس ہندوستان پلٹ جائیں۔ مسافروں نے جہاز سے باہر آنے کی بہت کوشش کی تاہم انتظامیہ نے انہیں دھمکی دی کہ یہ غیر قانونی حرکت تصور ہو گی جس کے نتیجے میں ان پر گولی بھی چلائی جا سکتی ہے۔
بس اتنی مہربانی ضرور کی گئی کہ جہاز کے مسافروں کو کھانے پینے کا سامان فراہم کیا جاتا رہا۔ اس موقع پر وینکوور میں موجود سینکڑوں سِکھوں نے مقامی گوردوارہ میں بحری جہاز میں محصور ہم وطن مسافروں کے لیے ایک قرارداد پاس کی جس میں کینیڈا حکومت کو انتباہ کیا گیا کہ اگر ان کے ہم وطنوں پر گولی چلائی گئی تو وہ وینکوور شہر کو جلا کر راکھ بنا دیں گے۔
اس دھمکی سے کینیڈا حکومت لرز گئی اور اس نے کوئی انتہائی قدم اُٹھانے سے گریز کیا۔البتہ ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے مسافروں کو اُترنے کی اجازت نہ دی گئی۔
تقریباً دو ماہ تک ساحل سمندر پر لنگر انداز رہنے کے بعد کوماگاٹا مارو جہاز 23 جولائی کو واپس ہندوستان کی بندرگاہ کلکتے کی جانب روانہ ہو گیا۔
پھر دو ماہ کے سفر کے بعد29 ستمبر 2014ء کو جہاز کلکتہ کے بج بج گھاٹ پر پہنچا تو وہاں پولیس کے سینکڑوں اہلکار موجود تھے اور مسافروں کو پنجاب لے جانے کے لیے ایک خصوصی ریل گاڑی بھی کھڑی تھی
۔ تاہم مسافروں نے ٹرین میں بیٹھنے سے نہ کر دی اور گورو گرنتھ صاحب اُٹھائے کلکتہ کے بڑا بازار والے گوردوارے کی جانب چل پڑے۔ پولیس نے ساڑھے تین سو مسافروں کے اس جلوس پر گولی چلا دی جس کے نتیجے میں 15 کی شہادت ہو گئی جبکہ سینکڑوں گرفتار ہو گئے تاہم بابا گُردت سنگھ سمیت 30 کے قریب سِکھ مسافر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔یہ واقعہ برطانوی سامراج کی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مجید شیخ اس واقعے کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
میرے والد ہمیشہ حیرت انگیز واقعات سے لبریز رہتے تھے۔ ایک روز جب، اور یہ 1960ء کی دہائی کا زمانہ تھا، ہم دونوں موچی دروازے کے اندر ایک پتلی سی گلی میں سے پیدل گزر رہے تھے تو وہ ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے رُکے اور کہا۔ ''یہ جگہ ہے جہاں وہ شخص رہتا تھا، جس نے کوماگاٹا مارو کو کرائے پر حاصل کیا تھا۔ ایک ہمیں اسے اور اس کے ساتھیوں کو سچا ہیرو تسلیم کرنا پڑے گا۔''
کوماگاٹا مارو میرے شعور میں کئی برس تک موہوم سا خیال رہا۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ جنگِ عظیم اول کے شروع ہونے سے پہلے پنجابیوں کے ایک گروہ نے، جو مغربی دُنیا میں کیلیفورنیا میں سونے کی کان کی تلاش میں اور برطانوی حکومت کے خلاف جنگِ آزادی میں شرکت کے لیے مغرب میں جا بسے تھے، مجتمع ہو کر اپنے مادرِ وطن کے لیے کچھ کرنے کا ارادہ کیا۔ ان لوگوں میں سے اکثریت کا تعلق جالندھر، لُدھیانہ اور لاہور سے تھا۔
آج بھی کیلیفورنیا کے کسانوں کی خاصی بڑی تعداد لاہور اور اس کے نواحی علاقوں کے پنجابیوں پر مشتمل ہے اور یہ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کامیاب کسان ہیں۔ اب امریکا میں ان کی پانچویں نسل رہ رہی ہے۔ (جاری ہے)