جمہوریت سمجھ میں نہیں آتی

’’مرزا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لوگ جانتے بوجھتے ہوئے غلط فیصلہ کریں۔‘‘


Owais Mangal Wala September 16, 2012
[email protected]

مرزا اکثر عجیب و غریب باتیں کیا کرتا تھا لیکن کل شام تو اس نے حد ہی کردی۔ نہایت دھڑلے سے کہنے لگا کہ اسے جمہوریت سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ '''ذرا پھر دہراؤ کہ تم نے کیا کہا؟''

مرزا اطمینان سے بولا ''منگل والا صاحب! میں نے کہا کہ مجھے جمہوریت سمجھ میں نہیں آتی۔ جمہوریت، جسے انگریزی میں آپ لوگ ڈیموکریسی کہتے ہیں، وہ مجھے سمجھ میں نہیں آتی۔''

''مرزا مجھے تم سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔''

''ارے میں نے ایسا کیا کہہ دیا؟''

''جمہوریت مرزا... جمہوریت جو دنیا کا سب سے بہترین سیاسی نظام ہے، جس میں بنی نوع انسان کی کامیابی پنہاں ہے، جس کی بدولت تم جیسے عام آدمی ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور وہ جمہوریت جو اگر صحیح طریقے سے چلنے دی جائے تو روٹی، کپڑا، مکان کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ایک ایسا نظام جس نے...''

''ہاں ہاں بھائی وہی جمہوریت، میری سمجھ میں نہیں آتی۔'' مرزا نے میری بات کاٹی۔

''تو پھر تم کیا چاہتے ہو؟ آمریت! کوئی فوجی حکمران ڈنڈا لے کر تمھارے سر پر مسلط رہے اور تم سے تمھارے تمام بنیادی حقوق چھین لے۔''

''تم جذباتی ہورہے ہو۔ میں نے تو آمریت کا نام بھی نہیں لیا۔'' وہ مسکرایا۔

''اچھا، اب سمجھا... جن مولویوں کے ساتھ تم آج کل اٹھ بیٹھ رہے ہو، انھوں نے ہی تمھیں شریعت اور خلافت کا درس دیا ہے ناں؟''

''یعنی تمہاری نظر میں جو خلافت کی بات کرے وہ مولوی ہوگا؟ کوئی اور شخص خلافت کی بات نہیں کرسکتا۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ جس کی داڑھی ہوگی وہ یقیناً مسلمان ہی ہوگا۔'' مرزا نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ''اور خلافت کا لفظ اس پوری گفتگو میں آپ نے استعمال کیا ہے، میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔''

''پھر تمہاری بات کا مطلب کیا ہے؟'' میں زچ ہوگیا۔

''مجھے یہ بتائو کہ ڈیموکریسی کا مطلب کیا ہے؟''

میں مسکرایا۔ ''تمہیں یاد نہیں؟ Democracy is the best revenge''

''منگل والا، یہ اچھا کارتوس ہے مگر پچھلے الیکشن میں چل چکا ہے، کوئی نئی بات کرو۔'' مرزا نے کہا۔

"Democracy is a system of the people, by the people, for the people.."۔ اب میں نے امریکی کارتوس چلایا۔

''اب بھی تم صرف اور صرف جملے بازی کر رہے ہو۔ میں ڈیموکریسی کا اصل مطلب پوچھ رہا ہوں۔''

''مرزا بالکل سیدھی سی بات ہے۔ ڈیموکریسی کا مطلب ہے کہ سب لوگوں سے ان کی رائے پوچھی جائے اور پھر جو سب لوگ کہیں، اس کے مطابق کام کیا جائے۔'' میں نے سمجھایا۔

''ہاں! مگر کسی بھی نظام میں سب لوگ تو کبھی اپنی رائے نہیں دیتے۔ پاکستان ہو یا امریکا، چالیس پچاس فیصد لوگ ہی اپنی رائے کا حق استعمال کرتے ہیں۔ اس حساب سے جمہوریت تمام لوگوں کی نہیں بلکہ آدھے لوگوں کی نمائندہ ہوئی۔ بلکہ کہیں کہیں تو اس سے بھی کم۔''

''تمہاری بات کسی حد تک درست مانی جاسکتی ہے لیکن اس میں جمہوریت کا تو کوئی قصور نہیں ہوا۔ یہ تو ان لوگوں کا مسئلہ ہے جو رائے نہیں دیتے۔ جمہوریت تو سب کو موقع دیتی ہے کہ سب اپنی رائے دیں۔'' میں نے اسے پھر سمجھایا۔

''اچھا چلو اگر سب لوگ بھی اپنی رائے دیں، تو رائے میں تو بہت اختلاف ہوتا ہے۔ ہر کوئی ایک جیسا تو نہیں ہوتا۔'' مرزا کا اگلا اعتراض سامنے آیا۔

''میرے دوست یہی تو ڈیموکریسی کا حسن ہے۔ رائے میں اختلاف ہو تو اکثریت کی بات سنی جاتی ہے، جو زیادہ لوگ کہیں گے، وہ مانا جائے گا۔''

''یعنی اگر کسی الیکشن میں تین امیدوار ہوں، دو کو تینتیس تینتیس فیصد ووٹ ملیں اور تیسرے کو چونتیس فیصد، تو اکثریتی رائے کے مطابق چونتیس فیصد ووٹ لینے والا امیدوار جیت جائے گا؟ اس بات سے قطع نظر کہ چھیاسٹھ فیصد لوگوں نے اسے مسترد کیا ہے؟''

''اس کے علاوہ چارہ بھی کیا ہے؟''

''اس کے علاوہ کیا کیا چارہ ہوسکتا ہے، یہ بات تو بعد میں آئے گی۔ پہلے تم یہ بتاؤ کہ کیا زیادہ لوگوں کی بات ماننا درست ہے؟'' اس نے پوچھا۔

''ظاہر ہے۔'' میں نے فوراً کہا۔

''ظاہر نہیں ہے۔ تم اس وقت جھوٹ بول رہے ہو۔''

''کیا بات کررہے ہو مرزا۔ تم جانتے ہو کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔'' میں نے اپنا دفاع کیا۔

''ہاں، مگر اس وقت بول رہے ہو۔''

''کیسے؟''

''تم سگریٹ نہیں پیتے۔'' وہ بولا۔

''مگر سگریٹ کا اکثریتی رائے سے کیا تعلق ہے؟'' میںنے استفسار کیا۔

''اور تمھارے دونوں چھوٹے بھائی پیتے ہیں۔''

''تو پھر؟'' میں اب بھی سمجھ نہ پایا تھا۔

''اور میری اطلاع کے مطابق تم نے اپنے گھر میں سگریٹ نوشی پر پابندی لگائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے تمہارے چھوٹے بھائیوں کو یہ کام گھر سے باہر تم سے چھپ کر کرنا پڑتا ہے۔ اگر تم اپنے گھر میں جمہوریت پر عمل کرو تو ان کی بات مانی جائے گی، تمہاری نہیں۔'' مرزا معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

''مگر سگریٹ تو ایک بری چیز ہے۔'' میں نے کہا۔

''اس وقت بات اچھے برے کی نہیں بلکہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے ماننے کی ہو رہی ہے۔'' مرزا بولا۔

''مرزا یہ انتہائی غلط مثال دی ہے تم نے۔ میری عمر، میرا تجربہ، میری تعلیم ان سے کہیں زیادہ ہے۔ میں زیادہ بہتر جانتا ہوں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔''

''مگر جمہوریت تو عمر، تجربہ، تعلیم نہیں دیکھتی۔ سب کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔ تمھارے بھائی دو ہیں اور تم ایک۔ جمہوری طریقے سے تو ان ہی کی چلے گی۔'' اب وہ مکمل ترنگ میں تھا۔

''کسی بھی جمہوری ملک میں قوانین صرف اس بنا پر نہیں بنتے کہ زیادہ لوگ کیا کہتے ہیں۔ قوانین پر بحث ہوتی ہے، لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، پھر فیصلے کیے جاتے ہیں۔'' میں نے اسے سیاسی طریقہ سمجھانے کی کوشش کی۔

''مگر تمام بحث مباحثے کے بعد، لوگوں کو صحیح غلط سمجھانے کے بعد آخر میں فیصلہ کس طرح کیا جاتا ہے؟'' اس نے سوال کیا۔

''اس سارے عمل کے بعد لوگ ووٹ دیتے ہیں اور فیصلہ ووٹوں کی گنتی سے ہوتا ہے، جس کے ووٹ زیادہ، اس کی بات مانی جاتی ہے۔'' میں نے اس پر طریقہ واضح کیا۔

''اور اگر سمجھانے کے باوجود لوگ کوئی بات نہ مانیں یا کسی غلط قانون کے حق میں فیصلہ دیں تو پھر؟''

''مرزا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لوگ جانتے بوجھتے ہوئے غلط فیصلہ کریں۔''

''بالکل ہوسکتا ہے۔ تمہارے بھائی بھی پڑھے لکھے نوجوان ہیں جو سگریٹ کے نقصانات اچھی طرح جانتے ہیں۔ تم نے انھیں کافی سمجھایا بھی مگر وہ نہ مانے۔ اور تم ذرا دنیا کو دیکھو، فرانس میں مذہبی نشانات پر پابندی کا قانون، سوئیٹزرلینڈ میں مینار بنانے پر پابندی کا قانون، یہ سارے مضحکہ خیز قوانین پڑھے لکھے جمہوری لوگ ہی لائے ہیں۔ امریکا نے جتنے بھی ممالک سے جنگ کی، جمہوری طریقے سے کی۔ تم کہو تو کچھ اور غلط قوانین بتاؤں جمہوری معاشروں کے؟''

اب میں سوچ میں تھا۔

''اور چلو تمہاری خواہش پر میں مثال تبدیل کردیتا ہوں۔ دو مہینے پہلے تم اپنے دفتر میں اپنے ڈپارٹمنٹ کے سربراہ بنے ہو۔ تمہیں اس عہدے پر کس نے فائز کیا؟'' مرزا اب دوسری طرف آیا۔

''ہماری کمپنی کے مالک نے۔''

''کیا تمہاری کمپنی کے مالک نے کمپنی میں کام کرنے والوں سے رائے لی کہ تمہیں یہ عہدہ دیا جائے یا نہیں؟'' یہ شاید مرزا کا نیا جال تھا۔

''وہ کیوں کسی سے رائے لے ؟ اس کی کمپنی ہے، اس کا پیسہ ہے، جو وہ چاہے گا وہ ہوگا۔''

''یعنی جو پیسہ لگائے، اس کے لیے ڈکٹیٹر بننا جائز ہے۔'' مرزا مسکرایا۔

''مرزا تم ایک بار پھر غلط مثال دے رہے ہو۔ ہر شخص آزاد ہے کہ اپنے لیے جو چاہے نظام پسند کرے۔ کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند کا نظام دوسروں پر مسلط کرے۔''

''کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ گھر میں جمہوریت نہیں چلتی، آفس میں جمہوریت نہیں چلتی، مگر جب ملک کی بات ہو تو صرف اور صرف جمہوریت۔'' مرزا نے طنز کیا۔ ''تمھارے باس کو اگر تمہارا کام صحیح نہ لگے تو وہ کیا کرے گا؟''

''وہ فوراً مجھے نکال دے گا۔'' میں جھلّایا۔

''مگر جمہوریت۔ اس میں تو عوام کو پانچ سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے، زبردستی۔ چاہے انھیں فوراً ہی احساس ہوجائے کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔ اس لیے منگل والا صاحب، مجھے جمہوریت سمجھ میں نہیں آتی۔'' مرزا نے ایک بار پھر اپنا بیان دہرایا۔

''مرزا تمھیں سمجھانا بالکل فضول ہے کیونکہ تم سمجھنا چاہتے ہی نہیں ہو۔'' میں نے آخری جملہ کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ویسے اس گفتگو کا ایک فائدہ ضرور ہوا۔ مجھے یہ سمجھ آگیا کہ مرزا کے ترقی نہ کرنے کی وجہ کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں