سنا ہے ان کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
مختلف شعبہ ہائے زندگی کی نام ور شخصیات کی شعر گوئی کا تذکرہ
(حصہ دوم )
مولانا عبدالماجد دریا آبادی:
نام ور عالم دین اور ادیب عبدالماجد دریا آبادی کی سلیس، رواں اور زود فہم نثر ان کے قلم کا معتبر حوالہ ہے۔ فیض آباد اور لکھنؤ جیسے سخن وری سے لبریز علاقوں کے وسط میں واقع دریا آباد سے تعلق کی بنا پر عبدالماجد صاحب کا شعروشاعری سے لاتعلق رہنا ناممکن تھا۔
اگرچہ شعر گوئی کو مستقل اپنائے بغیر انہوں نے نثرنگاری کو ہی اپنی شناخت کا ذریعہ بنائے رکھا، تاہم شاعری سے بھی وہ اپنا دامن نہ چھڑا سکے اور یوں ''تغزل ماجدی'' کے نام ایک مختصر سا مجموعہ کلام منظرعام پر آ یا، جس میں ان کی کہی گئی غزلیں اور نعتیہ کلام شامل ہے۔ آپ شاعری میں ناظرؔ تخلص کرتے تھے۔ لکھنوی طرزسخن کی نمائندہ ان کی ایک غزل کے چند اشعار:
؎آہ منت ِکش اثر نہ ہوئی
شبِ غم کی کبھی سحر نہ ہوئی
نہ ہوئی ہم سے ترک خوئے وفا
ہم نے چاہا کہ ہو، مگر نہ ہوئی
کس قدر ہے غیور میری دعا
کبھی شرمندہِ اثر نہ ہوئی
ہم گدایانِ عشق کو ناظرؔ
فکرِالطاف ِاہلِ زر نہ ہوئی
حکیم محمد اجمل خان:
نام ور طبیب، سیاست داں، ادیب و شاعر حکیم محمد اجمل خان ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ طب کی دنیا میں اپنی بے مثال حکمت سے مسیح الملک کا خطاب پایا، جب کہ دلی کی ادبی محافل ان کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی تھیں۔ دلی شہر کی ادبی فضا نے انہیں بھی شعرگوئی کی جانب مائل کیا اور شعروسخن کی محافل میں حکیم اجمل خان شیداؔ سامنے آئے۔
حسرت موہانی کا یہ مصرعہ ذرا سی ترمیم کے ساتھ ان پر صادق آتا ہے کہ ''ہے مشق سخن جاری،'حکمت' کی مشقت بھی ۔'' ان کی فارسی اور اردو غزلوں پر مشتمل مجموعہ دیوان شیدا ؔکے نام سے موجود ہے جو ان کی کلاسیکی انداز میں رچی بسی شاعری کا لا جواب نمونہ ہے ۔ ان کی
غزل کے چند اشعار:
؎کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں مگر گئے
دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیںگزارنے اور کچھ گزر گئے
جانے لگا ہے دل کی طرف ان کا دھیان اب
نالے شب فراق کے کچھ کا م کر گئے
بس ایک ذات حضرت شیدا ؔکی ہے یہاں
دہلی سے رفتہ رفتہ سب اہل ِہنر گئے
سجاد حیدر یلدرم:
منشی پریم چند کے معاصر، عمدہ مترجم، رومانوی افسانہ نگار اور معروف ادیبہ قرۃالعین حیدر کے والد سجاد حیدر یلدرم کے لازوال اور باکمال افسانوں نے انہیں اردو ادب کی تاریخ میں امر کر دیا۔ انہوں نے نثرنگاری میں تو اپنا سکہ خوب جمایا، مگر ان کے قارئین میں سے بہت کم لوگ اس امر سے واقف ہوں گے کہ وہ غزل و نظم کے پختہ طبع شاعر بھی تھے۔
ان کا کوئی شعری مجموعہ تو وجود نہ پا سکا، تاہم امرتسر سے شائع ہونے والے ماہنامہ ''پگڈنڈی'' نے ان کی حیات اور شاعری کے حوالے ایک خصوصی نمبر ترتیب دیا جس میں کافی محنت اور تحقیق کے بعد ان کا بہت سا کلام پہلی مرتبہ منظرعام پر لایا گیا، جس سے ان کی شعرگوئی کے اعلٰی معیار اور شعری استعداد کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے
ان کی ایک غزل کے چند اشعار:
؎عشق کے کوچے میں ہم کھاتے ہیں ٹھوکر دیکھ کر
وہ بھی کیا رہرو جو چلتا ہے سنبھل کر، دیکھ کر
یہ بہارِ ابر و باراں یہ فضائیِ جاں فزاء
مے کشو! بیٹھے ہو کیوں مینا و ساغر دیکھ کر
فکرِ انساں تک نہ پہنچے رہ گئے روح الامیں
اپنے بازو تول کر اور اپنے شہپر دیکھ کر
وہ بھی ہیں جو منتظر رہتے ہیں وصلِ یار کے
ہوش میرے اڑ گئے دلبر کو گھر پر دیکھ کر
جاوید احمد غامدی:
شہر سیالکوٹ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے اقبالؔ اور فیضؔ جیسے قیمتی جواہر ملے، جنہوں نے اس شہر کو ایک نئی ادبی پہچان اور ابدی عظمت سے ہم کنار کیا۔ یہ بلاشبہہ اقبالؔ و فیض ؔکی فکری و وجودی برکت کا ثمر ہے کہ اس شہر نے جاوید احمد غامدی جیسے دانش ور کو بھی دنیا سے متعارف کروایا۔ تعلیمات اسلام کی فکری و نظریاتی تشریحات سے متعلق غامدی صاحب کا نقطہ نظر اپنی جگہ، مگر بطور شاعر ان کی ادبی حیثیت سے صرف نظر بجائے خود شعری ادب کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
عربی، فارسی اور اردو پر مکمل دسترس رکھنے والے جاویداحمد کی فکر و فلسفے سے بھرپور اقبال ؔکے رنگ میں ڈھلی سنجیدہ آہنگ شاعری، سخن وری کے تمام تقاضوں کو بہ خوبی نبھاتی نظر آتی ہے:
؎ترا وجود نظر کی تلاش میں ہے ابھی
یہ خاک اپنے شرر کی تلاش میں ہے ابھی
پہنچ ہی جائے گا منزل پہ کارواں اپنا
اگرچہ رخت سفر کی تلاش میں ہے ابھی
تری نوا میں کمال ہنر تو ہے پھر بھی
ذرا سے خون جگر کی تلاش میں ہے ابھی
سمجھ ہی لے گا حقیقت سے آشنا ہو کر
زمانہ فوق بشر کی تلاش میں ہے ابھی
میرا غزال سواد ختن میں آ پہنچا
سنا ہے اپنے ہی گھر کی تلاش میں ہے ابھی
قاضی احسان احمد شجاع آبادی:
علامہ عطا اللہ شاہ بخاری کے جانشین، مجلس احرار کے دوسرے امیر اور تحریک آزادی ہند کے نام ور راہ نما قاضی احسان شجاع آبادی تحریروتقریر کے دھنی تھے۔ سید انیس شاہ جیلانی کے تحریر شدہ خاکوں کا مجموعہ ''آدمی غنیمت ہے'' میں قاضی صاحب کا خاکہ ان کی شخصیت کی مکمل اور جامع تصویر ہے۔ اپنا بیشتر وقت مطالعہ اور خطابت میں بتانے والے قاضی صاحب شعر پسند بھی تھے اور شاعر بھی۔ فی البدیہہ کہنے میں کمال حاصل تھا۔
افتادطبع کے باعث ان کا بیشتر کلام ضائع ہو گیا۔ بقیہ کلام تحریری صورت میں کم اور سینہ بہ سینہ زبانی صورت میں بہت کم موجود ہے۔ ان کے شعری اثاثے کی قدر وقیمت کا تعین ان چار ناصحانہ مصرعوں سے کیا جا سکتا ہے۔
؎گر سامنے تیرے کوئی بدخو آئے
تجھ میں نہ ذرا فرق سرِ مو آئے
احساں ؔسے نہیں عود سے خوش خلقی سیکھ
جو تجھ کو جلائے اسے خوشبو آئے
طارق عزیز:
پاکستان ٹیلیویژن پر ریکارڈ پانچ دہائیوں تک مسلسل جاری رہنے والے مقبول عوامی شو ''نیلام گھر'' کے میزبان، پاکستان کے پہلے ٹی وی نیوز براڈکاسٹر، اداکار اور سیاست داں طارق عزیز نے کئی نسلوں تک عوام کے دلوں پر راج کیا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جو شعر پسند اور شعر فہم ہونے کے علاوہ بذات خود ا ردو اور پنجابی کے بہترین شاعر بھی تھے۔ ان کی پنجابی شاعری پر مشتمل مجموعہ کلام ''ہمزاد دا دکھ'' شائع ہو چکا ہے۔ اردو زبان میں ان کے کہے گئے بہت سے اشعار زبان زدخاص و عام رہے۔ چند ایک پیش خدمت ہیں:
؎ ہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارق ؔکہ شہر میں
کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں
............
؎میں نے خود کو بہت سنبھالا ہے
گر نہ جاؤں کہیں میں پستی میں
اس قدر نفرتیں نہ دے مجھ کو
میں مسافر ہوں تیری بستی میں
اک ترا غم ہے اک غم دنیا
اور کیا ہے ہماری ہستی میں؟؟
میں وہ دیوانہ ِبہار ہوں جو
ہوش رکھتا ہے اپنی مستی میں
اداکار سید کمال:
پاکستان کی فلمی صنعت کے پہلے کامیڈین ہیرو، پاکستانی راج کپور کے کہلانے والے اداکار سید کمال اپنے زمانے کے رجحان ساز فن کاروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ کم و بیش 48 فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والے سید کمال ایک باکمال شاعر بھی تھے۔
ان کی شخصیت کا یہ ادبی پہلو ان کی زندگی میں غیرمعروف ہے رہا لیکن اس ہنرآزمائی کو انہوں نے پس پشت نہیں ڈالا، جس کا نتیجہ ان کے مجموعہ کلام ''کسب کمال'' کی صورت میں سامنے آیا۔ جو اب کم یاب بلکہ نایاب ہو چکا ہے۔ ان کے مداحوں کے لیے ان کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں:َ
؎جو ترے غم میں ہیں شامل ترے غم خوار نہیں
تیرے دکھتے ہیں مگر تیرے وفادار نہیں
کل تلک مجھ پہ جو ہوتے تھے دل و جاں سے نثار
اب میرا نام بھی سننے کے روادار نہیں
روز اک روپ نیا دھارتے ہیں لوگ یہاں
کون اس شہر کی بستی میں اداکار نہیں
کچھ تو یہ دل بھی بغاوت پہ ہے آمادہ کمالؔ
اور اس شخص کی آنکھوں میں بھی اب پیار نہیں
جسٹس رانا بھگوان داس:
سندھ دھرتی کے باسی ایک ہندو گھرانے میں جنم لینے والا بچہ، اپنی تعلیمی قابلیت اور پیشہ وارانہ اہلیت کے بل بوتے پر اعلٰی عدلیہ کے پہلے ہندو جج کے منصب تک پہنچ کر جسٹس رانا بھگوان داس کہلایا۔ قانون کی اعلی تعلیم کے علاوہ اسلامیات کے مضمون میں ایم اے کرنے والے جسٹس رانا بھگوان داس شعر و شاعری کا بھی نفیس ذوق رکھتے تھے۔
ان کا باقاعدہ مجموعہ کلام تو شائع نہ ہو سکا مگر مختلف رسائل و تقریبات میں ان کا اردو و وفارسی میں کہا گیا نعتیہ کلام موجود ہے۔ ان کا کلام فکری پختگی اور الفاظ و تراکیب کے ماہرانہ استعمال کا آئینہ دار ہے۔ ایک ہندو سرکار دو عالمؐ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کس طرح کرتا ہے اس کا اندازہ اس نعت سے لگایا جا سکتا ہے:
؎ جمال دو عالم تریؐ ذات عالی
دو عالم کی رونق تریؐ خوش جمالی
توؐ فیاض عالم ہے دانائے اعظم
مبارک ترےؐ در کا ہر اک سوالی
ترےؐ آستاں سے اے شاہ معظمؐ
نہ جاؤں نہ جاؤں نہ جاؤں گا خالی
کرکٹر امتیاز احمد:
شان دار اور ریکارڈ ساز ٹیسٹ کرکٹر امتیاز احمد پاکستانی کرکٹ کی اب تک کی تاریخ کے واحد بلے باز ہیں جو صاحب دیوان شاعر بھی ہیںَ۔
اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے باوجود انہوں نے سخن وری سے اپنا ناتا قائم رکھا اور ''میرے شعر'' کے نام سے ایک شعری مجموعی ترتیب دینے میں کام یاب رہے۔ ان کے شعری مجموعے میں شوکت تھانوی اور ابراہیم جلیس جیسے وقیع اہل قلم حضرات کے تعریفی مضامین شامل ہیں۔ ان کی کتاب سے ایک غزل کا انتخاب:
؎ اک کرن تھی جو دل میں تیر گئی
نگہہ اولیں کی بات نہ پوچھ
زلف کونین ہوگئی برہم
ان کی چین جبیں کی بات نہ پوچھ
ذکر وہم و گماں بھی چھیڑ کبھی
صرف علم و یقیں کی بات نہ پوچھ
ہر غم زندگی گوارا ہے
بادہ انگبیں کی بات نہ پوچھ
جو ستاروں میں رقص کرتے ہیں
ان سے اہل زمیں کی بات نہ پوچھ
نفیس الحسینی (نفیس رقم):۔
خطاطی میں خط نفیس کے موجد، عالم اور روحانی شخصیت سید انور حسین نفیس الحسینی کو خطاطی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ آپ خطاطی کی دنیا میں ''نفیس رقم'' کے نام سے مشہور ہوئے۔ خطاطی کے شعبے میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈآف پرفارمنس حاصل کرنے والے آپ پہلے خطاط تھے۔
خطاطی کے علاوہ آپ شاعری میں بھی خاصی دل چسپی رکھتے تھے، جس کا ثبوت ''برگِ گل'' کے نام سے شائع ہونے والا آپ کا شعری مجموعہ ہے۔ کلاسیکی انداز میں ان کی کہی گئی یہ غزل پاکیزہ خیالات، رموزِتصوف اور الفاظ کے نفیس استعمال کے حوالے سے قابل داد ہے:
؎ کیوں شکوہِ غم اے دلِ نا شاد کرے ہے
اک غم ہی تو ہے جو تجھے برباد کرے ہے
کس حال میں اب ہائے وہ آزاد کرے ہے
دل قید سے چھٹتے ہوئے فریاد کرے ہے
یہ عشق تو ہر حال میں راضی بہ رضا ہے
اب جو بھی ترا حسن ِخداداد کرے ہے
اے باد ِصبا راہ تری دیکھ رہا ہوں
آ کے تو سنا جو بھی وہ ارشاد کرے ہے
رہتا ہے نفیسؔ ان دنوں اربابِ جنوں میں
دیوانہ ہے رسوائیِ اجداد کرے ہے
مولانا عبدالماجد دریا آبادی:
نام ور عالم دین اور ادیب عبدالماجد دریا آبادی کی سلیس، رواں اور زود فہم نثر ان کے قلم کا معتبر حوالہ ہے۔ فیض آباد اور لکھنؤ جیسے سخن وری سے لبریز علاقوں کے وسط میں واقع دریا آباد سے تعلق کی بنا پر عبدالماجد صاحب کا شعروشاعری سے لاتعلق رہنا ناممکن تھا۔
اگرچہ شعر گوئی کو مستقل اپنائے بغیر انہوں نے نثرنگاری کو ہی اپنی شناخت کا ذریعہ بنائے رکھا، تاہم شاعری سے بھی وہ اپنا دامن نہ چھڑا سکے اور یوں ''تغزل ماجدی'' کے نام ایک مختصر سا مجموعہ کلام منظرعام پر آ یا، جس میں ان کی کہی گئی غزلیں اور نعتیہ کلام شامل ہے۔ آپ شاعری میں ناظرؔ تخلص کرتے تھے۔ لکھنوی طرزسخن کی نمائندہ ان کی ایک غزل کے چند اشعار:
؎آہ منت ِکش اثر نہ ہوئی
شبِ غم کی کبھی سحر نہ ہوئی
نہ ہوئی ہم سے ترک خوئے وفا
ہم نے چاہا کہ ہو، مگر نہ ہوئی
کس قدر ہے غیور میری دعا
کبھی شرمندہِ اثر نہ ہوئی
ہم گدایانِ عشق کو ناظرؔ
فکرِالطاف ِاہلِ زر نہ ہوئی
حکیم محمد اجمل خان:
نام ور طبیب، سیاست داں، ادیب و شاعر حکیم محمد اجمل خان ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ طب کی دنیا میں اپنی بے مثال حکمت سے مسیح الملک کا خطاب پایا، جب کہ دلی کی ادبی محافل ان کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی تھیں۔ دلی شہر کی ادبی فضا نے انہیں بھی شعرگوئی کی جانب مائل کیا اور شعروسخن کی محافل میں حکیم اجمل خان شیداؔ سامنے آئے۔
حسرت موہانی کا یہ مصرعہ ذرا سی ترمیم کے ساتھ ان پر صادق آتا ہے کہ ''ہے مشق سخن جاری،'حکمت' کی مشقت بھی ۔'' ان کی فارسی اور اردو غزلوں پر مشتمل مجموعہ دیوان شیدا ؔکے نام سے موجود ہے جو ان کی کلاسیکی انداز میں رچی بسی شاعری کا لا جواب نمونہ ہے ۔ ان کی
غزل کے چند اشعار:
؎کچھ بات ہی تھی ایسی کہ تھامے جگر گئے
ہم اور جاتے بزمِ عدو میں مگر گئے
دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیںگزارنے اور کچھ گزر گئے
جانے لگا ہے دل کی طرف ان کا دھیان اب
نالے شب فراق کے کچھ کا م کر گئے
بس ایک ذات حضرت شیدا ؔکی ہے یہاں
دہلی سے رفتہ رفتہ سب اہل ِہنر گئے
سجاد حیدر یلدرم:
منشی پریم چند کے معاصر، عمدہ مترجم، رومانوی افسانہ نگار اور معروف ادیبہ قرۃالعین حیدر کے والد سجاد حیدر یلدرم کے لازوال اور باکمال افسانوں نے انہیں اردو ادب کی تاریخ میں امر کر دیا۔ انہوں نے نثرنگاری میں تو اپنا سکہ خوب جمایا، مگر ان کے قارئین میں سے بہت کم لوگ اس امر سے واقف ہوں گے کہ وہ غزل و نظم کے پختہ طبع شاعر بھی تھے۔
ان کا کوئی شعری مجموعہ تو وجود نہ پا سکا، تاہم امرتسر سے شائع ہونے والے ماہنامہ ''پگڈنڈی'' نے ان کی حیات اور شاعری کے حوالے ایک خصوصی نمبر ترتیب دیا جس میں کافی محنت اور تحقیق کے بعد ان کا بہت سا کلام پہلی مرتبہ منظرعام پر لایا گیا، جس سے ان کی شعرگوئی کے اعلٰی معیار اور شعری استعداد کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے
ان کی ایک غزل کے چند اشعار:
؎عشق کے کوچے میں ہم کھاتے ہیں ٹھوکر دیکھ کر
وہ بھی کیا رہرو جو چلتا ہے سنبھل کر، دیکھ کر
یہ بہارِ ابر و باراں یہ فضائیِ جاں فزاء
مے کشو! بیٹھے ہو کیوں مینا و ساغر دیکھ کر
فکرِ انساں تک نہ پہنچے رہ گئے روح الامیں
اپنے بازو تول کر اور اپنے شہپر دیکھ کر
وہ بھی ہیں جو منتظر رہتے ہیں وصلِ یار کے
ہوش میرے اڑ گئے دلبر کو گھر پر دیکھ کر
جاوید احمد غامدی:
شہر سیالکوٹ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے اقبالؔ اور فیضؔ جیسے قیمتی جواہر ملے، جنہوں نے اس شہر کو ایک نئی ادبی پہچان اور ابدی عظمت سے ہم کنار کیا۔ یہ بلاشبہہ اقبالؔ و فیض ؔکی فکری و وجودی برکت کا ثمر ہے کہ اس شہر نے جاوید احمد غامدی جیسے دانش ور کو بھی دنیا سے متعارف کروایا۔ تعلیمات اسلام کی فکری و نظریاتی تشریحات سے متعلق غامدی صاحب کا نقطہ نظر اپنی جگہ، مگر بطور شاعر ان کی ادبی حیثیت سے صرف نظر بجائے خود شعری ادب کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
عربی، فارسی اور اردو پر مکمل دسترس رکھنے والے جاویداحمد کی فکر و فلسفے سے بھرپور اقبال ؔکے رنگ میں ڈھلی سنجیدہ آہنگ شاعری، سخن وری کے تمام تقاضوں کو بہ خوبی نبھاتی نظر آتی ہے:
؎ترا وجود نظر کی تلاش میں ہے ابھی
یہ خاک اپنے شرر کی تلاش میں ہے ابھی
پہنچ ہی جائے گا منزل پہ کارواں اپنا
اگرچہ رخت سفر کی تلاش میں ہے ابھی
تری نوا میں کمال ہنر تو ہے پھر بھی
ذرا سے خون جگر کی تلاش میں ہے ابھی
سمجھ ہی لے گا حقیقت سے آشنا ہو کر
زمانہ فوق بشر کی تلاش میں ہے ابھی
میرا غزال سواد ختن میں آ پہنچا
سنا ہے اپنے ہی گھر کی تلاش میں ہے ابھی
قاضی احسان احمد شجاع آبادی:
علامہ عطا اللہ شاہ بخاری کے جانشین، مجلس احرار کے دوسرے امیر اور تحریک آزادی ہند کے نام ور راہ نما قاضی احسان شجاع آبادی تحریروتقریر کے دھنی تھے۔ سید انیس شاہ جیلانی کے تحریر شدہ خاکوں کا مجموعہ ''آدمی غنیمت ہے'' میں قاضی صاحب کا خاکہ ان کی شخصیت کی مکمل اور جامع تصویر ہے۔ اپنا بیشتر وقت مطالعہ اور خطابت میں بتانے والے قاضی صاحب شعر پسند بھی تھے اور شاعر بھی۔ فی البدیہہ کہنے میں کمال حاصل تھا۔
افتادطبع کے باعث ان کا بیشتر کلام ضائع ہو گیا۔ بقیہ کلام تحریری صورت میں کم اور سینہ بہ سینہ زبانی صورت میں بہت کم موجود ہے۔ ان کے شعری اثاثے کی قدر وقیمت کا تعین ان چار ناصحانہ مصرعوں سے کیا جا سکتا ہے۔
؎گر سامنے تیرے کوئی بدخو آئے
تجھ میں نہ ذرا فرق سرِ مو آئے
احساں ؔسے نہیں عود سے خوش خلقی سیکھ
جو تجھ کو جلائے اسے خوشبو آئے
طارق عزیز:
پاکستان ٹیلیویژن پر ریکارڈ پانچ دہائیوں تک مسلسل جاری رہنے والے مقبول عوامی شو ''نیلام گھر'' کے میزبان، پاکستان کے پہلے ٹی وی نیوز براڈکاسٹر، اداکار اور سیاست داں طارق عزیز نے کئی نسلوں تک عوام کے دلوں پر راج کیا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جو شعر پسند اور شعر فہم ہونے کے علاوہ بذات خود ا ردو اور پنجابی کے بہترین شاعر بھی تھے۔ ان کی پنجابی شاعری پر مشتمل مجموعہ کلام ''ہمزاد دا دکھ'' شائع ہو چکا ہے۔ اردو زبان میں ان کے کہے گئے بہت سے اشعار زبان زدخاص و عام رہے۔ چند ایک پیش خدمت ہیں:
؎ ہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارق ؔکہ شہر میں
کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں
............
؎میں نے خود کو بہت سنبھالا ہے
گر نہ جاؤں کہیں میں پستی میں
اس قدر نفرتیں نہ دے مجھ کو
میں مسافر ہوں تیری بستی میں
اک ترا غم ہے اک غم دنیا
اور کیا ہے ہماری ہستی میں؟؟
میں وہ دیوانہ ِبہار ہوں جو
ہوش رکھتا ہے اپنی مستی میں
اداکار سید کمال:
پاکستان کی فلمی صنعت کے پہلے کامیڈین ہیرو، پاکستانی راج کپور کے کہلانے والے اداکار سید کمال اپنے زمانے کے رجحان ساز فن کاروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ کم و بیش 48 فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والے سید کمال ایک باکمال شاعر بھی تھے۔
ان کی شخصیت کا یہ ادبی پہلو ان کی زندگی میں غیرمعروف ہے رہا لیکن اس ہنرآزمائی کو انہوں نے پس پشت نہیں ڈالا، جس کا نتیجہ ان کے مجموعہ کلام ''کسب کمال'' کی صورت میں سامنے آیا۔ جو اب کم یاب بلکہ نایاب ہو چکا ہے۔ ان کے مداحوں کے لیے ان کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں:َ
؎جو ترے غم میں ہیں شامل ترے غم خوار نہیں
تیرے دکھتے ہیں مگر تیرے وفادار نہیں
کل تلک مجھ پہ جو ہوتے تھے دل و جاں سے نثار
اب میرا نام بھی سننے کے روادار نہیں
روز اک روپ نیا دھارتے ہیں لوگ یہاں
کون اس شہر کی بستی میں اداکار نہیں
کچھ تو یہ دل بھی بغاوت پہ ہے آمادہ کمالؔ
اور اس شخص کی آنکھوں میں بھی اب پیار نہیں
جسٹس رانا بھگوان داس:
سندھ دھرتی کے باسی ایک ہندو گھرانے میں جنم لینے والا بچہ، اپنی تعلیمی قابلیت اور پیشہ وارانہ اہلیت کے بل بوتے پر اعلٰی عدلیہ کے پہلے ہندو جج کے منصب تک پہنچ کر جسٹس رانا بھگوان داس کہلایا۔ قانون کی اعلی تعلیم کے علاوہ اسلامیات کے مضمون میں ایم اے کرنے والے جسٹس رانا بھگوان داس شعر و شاعری کا بھی نفیس ذوق رکھتے تھے۔
ان کا باقاعدہ مجموعہ کلام تو شائع نہ ہو سکا مگر مختلف رسائل و تقریبات میں ان کا اردو و وفارسی میں کہا گیا نعتیہ کلام موجود ہے۔ ان کا کلام فکری پختگی اور الفاظ و تراکیب کے ماہرانہ استعمال کا آئینہ دار ہے۔ ایک ہندو سرکار دو عالمؐ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کس طرح کرتا ہے اس کا اندازہ اس نعت سے لگایا جا سکتا ہے:
؎ جمال دو عالم تریؐ ذات عالی
دو عالم کی رونق تریؐ خوش جمالی
توؐ فیاض عالم ہے دانائے اعظم
مبارک ترےؐ در کا ہر اک سوالی
ترےؐ آستاں سے اے شاہ معظمؐ
نہ جاؤں نہ جاؤں نہ جاؤں گا خالی
کرکٹر امتیاز احمد:
شان دار اور ریکارڈ ساز ٹیسٹ کرکٹر امتیاز احمد پاکستانی کرکٹ کی اب تک کی تاریخ کے واحد بلے باز ہیں جو صاحب دیوان شاعر بھی ہیںَ۔
اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے باوجود انہوں نے سخن وری سے اپنا ناتا قائم رکھا اور ''میرے شعر'' کے نام سے ایک شعری مجموعی ترتیب دینے میں کام یاب رہے۔ ان کے شعری مجموعے میں شوکت تھانوی اور ابراہیم جلیس جیسے وقیع اہل قلم حضرات کے تعریفی مضامین شامل ہیں۔ ان کی کتاب سے ایک غزل کا انتخاب:
؎ اک کرن تھی جو دل میں تیر گئی
نگہہ اولیں کی بات نہ پوچھ
زلف کونین ہوگئی برہم
ان کی چین جبیں کی بات نہ پوچھ
ذکر وہم و گماں بھی چھیڑ کبھی
صرف علم و یقیں کی بات نہ پوچھ
ہر غم زندگی گوارا ہے
بادہ انگبیں کی بات نہ پوچھ
جو ستاروں میں رقص کرتے ہیں
ان سے اہل زمیں کی بات نہ پوچھ
نفیس الحسینی (نفیس رقم):۔
خطاطی میں خط نفیس کے موجد، عالم اور روحانی شخصیت سید انور حسین نفیس الحسینی کو خطاطی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ آپ خطاطی کی دنیا میں ''نفیس رقم'' کے نام سے مشہور ہوئے۔ خطاطی کے شعبے میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈآف پرفارمنس حاصل کرنے والے آپ پہلے خطاط تھے۔
خطاطی کے علاوہ آپ شاعری میں بھی خاصی دل چسپی رکھتے تھے، جس کا ثبوت ''برگِ گل'' کے نام سے شائع ہونے والا آپ کا شعری مجموعہ ہے۔ کلاسیکی انداز میں ان کی کہی گئی یہ غزل پاکیزہ خیالات، رموزِتصوف اور الفاظ کے نفیس استعمال کے حوالے سے قابل داد ہے:
؎ کیوں شکوہِ غم اے دلِ نا شاد کرے ہے
اک غم ہی تو ہے جو تجھے برباد کرے ہے
کس حال میں اب ہائے وہ آزاد کرے ہے
دل قید سے چھٹتے ہوئے فریاد کرے ہے
یہ عشق تو ہر حال میں راضی بہ رضا ہے
اب جو بھی ترا حسن ِخداداد کرے ہے
اے باد ِصبا راہ تری دیکھ رہا ہوں
آ کے تو سنا جو بھی وہ ارشاد کرے ہے
رہتا ہے نفیسؔ ان دنوں اربابِ جنوں میں
دیوانہ ہے رسوائیِ اجداد کرے ہے