غیرمسلم پاکستانیوں کا ووٹ

وہ تین نکات جو مذہبی اقلیتوں کو مطمئن کرسکتے ہیں

فوٹو : فائل

پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری اور یہ کیسے ممکن ہے؟

آئیں اس سوال کا جواب ماضی اور حال میں پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لیے وضع کیے گئے انتخابی نظاموں اور اس سوال سے متعلق دستیاب اعداد و شمار اور زمینی حقائق کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔

پاکستان بھر کی مذہبی اقلیتوں کے کل ووٹوں کی تعداد 7 جون 2022ء تک الیکشن کمیشن کے مطابق 3956336ہے، جن میں ہندو ووٹرز 2073983 مسیحی1703288اور دیگر اقلیتوں کے ووٹ 174165ہیں۔

(یہ حیران کن بات ہے کہ مارچ2018 میں ہندو ووٹر 1777289 ، مسیحی ووٹرز1638748 تھے اس طرح مسیحی ووٹرز تب ہندوؤں سے138541کم تھے لیکن اب مسیحی ووٹرز ہندو ووٹروں سے370695 کم ہیں)۔ حالیہ اعداد وشمار کے مطابق سندھ میں مذہبی اقلیتوں کے کل ووٹوں کی تعداد2217141 ہے، جس میں سے ہندو ووٹر 1936749مسیحی ووٹر254731 جب کہ دیگر ووٹرز کی تعداد 25661ہے۔

پنجاب میں کل اقلیتی ووٹر 1641838جس میں سے مسیحی ووٹر 1399468ہندو ووٹر 103658اور دیگر اقلیتی ووٹر 138709ہیں۔ بلوچستان میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 51245 جسں میں ہندو ووٹر 28551 مسیحی ووٹر 20761 دیگر اقلیتی ووٹر 1933ہیں۔

کے پی کے میں کل اقلیتی ووٹر 46115 مسیحی ووٹر 33328 ہندو ووٹر 5025 دیگر اقلیتی ووٹرز 7762ہے۔ اسلام آباد میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 41977 مسیحی ووٹر 38744 دیگر اقلیتی ووٹروں کی تعداد 3233ہے۔

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی کے بارے میں بھی بہت ابہام پائے جاتے ہیں۔ جس کا اندازہ آپ ماضی و حال کے اعداد و شمار سے بھی لگا سکتے ہیں۔

پاکستان میں1951ء کی افراد شماری کے اعدادوشمار کچھ یوں ہیں۔ مسیحی432706، شیڈول کاسٹ369831، ہندو جاتی160664 تھے۔ کل ہندو آبادی 530495 تھی۔ مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے97789 زیادہ تھی۔ 1961ء کی افرادشماری میں مسیحیوں کی آبادی583884 تھی۔ شیڈول کاسٹ 418011، ہندو جاتی 203794 تھی۔ کل ہندو آبادی621805 تھی۔ مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے 37921 زیادہ تھی۔

1972ء کی افراد شماری میں مسیحی 907861، شیڈول کاسٹ 603369 اور ہندو جاتی 296837 آبادی تھی۔ کل ہندو آبادی900206 تھی۔ مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے7655کم تھی۔1981ء کی افراد شماری میں مسیحی1310426تھے اس افراد شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ نہیں تھا اور ہندو جاتی آبادی 1276116 تھی۔

1981میں ہندو آبادی مسیحیوں سے 34310کم تھی۔ 1998ء کی افراد شماری میں مسیحی 2092902 اور ہندو جاتی 2111271، شیڈول کاسٹ 285212 مجموعی ہندو آبادی 2396483تھی اور مسیحی آبادی ہندو آبادی سے 303581 سے کم ہو گئی، جب کہ 2017ء کی افراد شماری میں مسیحی2642048، ہندو جاتی3595256 اور شیڈول کاسٹ 849614 ہے۔ پاکستان کی تاریخ کی اس سب سے متنازع افراد شماری میں مجموعی ہندو آبادی4444870 ہوگئی ہے، جو مسیحیوں کی آبادی سے 1802822 افراد زیادہ ہوگئی ہے۔

1951ء میں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی آبادی سے 209167 زیادہ تھی۔ 1961ء میں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی کی آبادی سے214217 زیادہ تھی۔ 1972ء میں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی سے 306532 زیادہ تھی،1981ء کی افراد شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ ہی نہیں تھا اور پھر 1998 میں ہندو جاتی آبادی شیڈول کاسٹ سے 1826059زیادہ ہوگئی، جس پر شیڈول کاسٹ کی آبادی کا جو تناسب ہندو جاتی آبادی سے زیادہ تھا وہ کیا ہوا؟ اور1982ء میں یہ خانہ کیوں غائب ہوگیا اور 1998ء میں شیڈول کاسٹ جو 1951ء 1961ء میں ہندو جاتی سے بہت زیادہ تھے وہ اچانک اتنے کم کیسے ہو گئے ؟ اورپھر 2017ء میں ہندوؤں جاتی کی آبادی 3595256 ہوگئی ہے۔

جب کہ شیڈول کاسٹ اور خصوصاً مسیحیوں کی آبادی پچھلی پانچ افراد شماریوں کے نتائج سے حیران کن طور پر بہت کم ہوگئی۔ ان حقائق کے ساتھ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ رہے گی کہ جب مسیحیوں کی آبادی میں یہ ڈرامائی کمی اور ہندوؤں کی آبادی میں یہ ہوش ربا اضافہ ہوا تو وزیرشماریات ایک مسیحی تھا اور نیشنل اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات کا چیئرمین ایک ہندو تھا اور دونوں کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا۔

کون سی کمیونٹی فائدے میں رہی اور کون سی خسارے میں یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سوال بنتا ہے کہ یہ کیوں ہوا کیسے ہوا؟ ان سوالوں کے جواب اُس وقت کی حکومت اور ریاست پاکستان کے وہ ادارے ہی دے سکتے ہیں جو آبادی کا حساب کتاب رکھتے ہیں یا مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ کے سماجی و سیاسی راہ نما ہی جواب لے سکتے ہیں۔

شیڈول کاسٹ اور مسیحیوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان کے ہاں سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں اور این جی اوز کی بھر مار ہے، لیکن حقیقی مسائل کی طرف ان کی توجہ ذرا کم ہے۔

ان اعداد وشمار سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتیں اپنی آبادی سے متعلق اعدادوشمار سے مطمئن کیوں نہیں ہیں۔2017ء کی افراد شماری جس میں مسیحیوں کی آبادی جو کہ ماضی کے اعدادوشمار کے مطابق 3738323 ہونی چاہیے تھی جو کہ یک لخت کم ہو کر 2642048 ہوگئی۔

یعنی وزارت شماریات کے کاغذات سے 1096275 تقریباً11لاکھ جیتے جاگتے انسان غائب ہوگئے جب کہ ان 17سالوں میں کوئی ایسے عوامل سامنے نہیں آئے، مثلاً نہ لاکھوں لوگوں کی اجتماعی نسل کشی یا اجتماعی ہجرت ہوئی ہے۔

افراد شماری کے ماضی کا ریکارڈ شیڈول کاسٹ کی آبادی کے بارے میں بھی ایسے ہی حقائق بیان کر رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی اس وقت تقریباً 90 لاکھ ہونی چاہیے۔ تقریباً اس لیے کہ پاکستان کی تاریخ کی متنازعہ ترین افرادشماری2017ء کے مطابق اقلیتوں کی پاکستان میں تعداد 7321908 جب کہ اگست 2022ء کے الیکشن کمیشن اعداد وشمار کے مطابق اقلیتی ووٹرز کی تعداد 4112761 ہے، جب کہ پاکستان میں ووٹ اور آبادی کا تناسب تقریباً آدھا آدھا ہے۔ اس حساب سے اقلیتوں کی آبادی 8225522 ہونی چاہیے۔

کچھ غیرسرکاری تنظیموں کی تحقیق کے مطابق مجموعی آبادی، خصوصاً خواتین کے شناختی کارڈ اور اسی حساب سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہونے کی تعداد10فی صد کم ہے، اگر اس دس فی صد کو بھی شامل کرلیا جائے جو کہ 822552 بنتا ہے تو اس طرح یہ آبادی 9048074 بنتی ہے۔

لیکن اگست2022ء کے الیکشن کمیشن کے مطابق اتنی آبادی کے 866 حلقوں میں پھیلے 4112762 ووٹرز جن کی شناخت پر 38 نمائندے ایوانوں میں ہیں اس کے باوجود یہ سب اس نظام سے مستفید ہونے والوں کے علاوہ اپنے آپ کو لاوارث اور سیاسی یتیم سمجھتے ہیں۔ ساری مذہبی اقلیتیں اس نظام سے خوش نہیں ہیں۔

پچھتر سال میں پندرہ بار انتخابات میں تین انتخابی نظاموں کے تجربات غیرمسلم پاکستانیوں پر پانچ بار کیے گئے، جس کی خوبیوں خامیوں کی تفصیلات تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے بے لوث رضاکار کتابوں، کتابچوں، قومی و کمیونٹی کے اخبارات رسائل پمفلٹس، پوسٹرز، وڈیو کلپس، ٹی وی انٹرویوز اور دیگر ذرائع سے تقریباً ایک دہائی سے بیان کر رہے ہیں۔

ان پچھتر سال کے تجربات اور پاکستان کے معاشرتی، سیاسی و جمہوری معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے۔

کہ اگر غیرمسلم پاکستانیوں کو ایوانوں میں ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی دینی ہے اور انہیں قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے، جو کہ ان کا بنیادی انسانی شہری اور سیاسی حق ہے، تو انہیں آئین میں ترامیم کرکے دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔

''کیوںکہ ماضی کے مخلوط اور جداگانہ طریقہ انتخاب سے مخلوط طریقہ انتخاب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی ملنے کے امکانات نہایت کم اور جداگانہ سے وہ قومی دھارے سے کٹ کر سماجی طور پر اچھوت اور سیاسی شودر بن گئے تھے، جب کہ حالیہ مخلوط متناسب نمائندگی سے دوہری نمائندگی کے باوجود وہ ان نمائندوں کو اپنا نہیں چند سیاسی پارٹی راہ نماؤں کا نمائندہ سمجھ کر ان سے غیرمطمئن اور بے چین ہیں۔''


لہٰذا جس طرح 1947ء سے 1970ء تک کے تجربات سے سیکھ کر چوتھی آئینی ترمیم کی گئی پھر 1985ء سے1997ء تک کے تجربے سے سیکھ کر2002ء میں انتخابی نظام تبدیل کیا گیا۔ اسی طرح اب75سالہ اس ارتقائی سفر سے سیکھ کر اس انتخابی نظام میں بے ضرر سی آئینی ترامیم سے دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ کے ذریعے سے نافذ العمل کروایا جائے، یہ آئینی ترمیم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا مطالبہ اور آئین پاکستان کی شق 226 کا بھی تقاضا ہے۔

اس سے یقیناً ملک و قوم کو مضبوط کرنے میں اور اقوام عالم میں ملک کے وقار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔

اس سوال کے دوسرے حصے کے جواب کے ساتھ، پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لیے دوہرے ووٹ کے ذریعے شفاف اور انصاف پر مبنی انتخابی نظام کے لیے جدو جہد کرتے سیاسی سماجی اور مذہبی ورکروں! آپ سے گزارش ہے کہ اقلیتوں کے موجود انتخابی نظام میں تبدیلی اور مذہبی اقلیتوں کے لیے دوہرے ووٹ کے مطالبے کا محور و مرکزان تین نکات کو بنائیں۔

1۔ ہر غیرمسلم شہری کا پاکستان کے ہر حلقے میں قومی، صوبائی، ضلعی، تحصیل اور یوسی سطح پر ووٹ ڈالنے اور جنرل الیکشن لڑنے کا حق محفوظ رہے۔

2001 میں اسی خیال سے دوہری نمائندگی کے نظام کو بحال کیا گیا تھا تاکہ ہر مذہبی اقلیت کی نمایندگی کو ایوانوں میں یقینی بنایا جائے، لیکن اس انتخابی نظام کے اس مثبت پہلو کے ساتھ تاریک پہلو یہ ہے کہ اس نظام میں مذہبی اقلیتوں کے مذہبی شناخت پر اپنے نمائندے چننے کے حق کو سلب کرلیا گیا ہے۔

2۔ دوسرے مذہبی شناخت والے ووٹ کے لیے بنیادی فارمولا وہ ہی ہوگا جو 1985سے 1997تک پانچ بار آزمایا جا چکا ہے۔ گوکہ اس نظام سے جڑا دوسرا حصہ بہت ہی خطرناک تھا جو مذہبی اقلیتوں کو قومی سیاست، معاشرے سے کاٹ کر اچھوت اور سیاسی شودر بناتا تھا۔

3۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر وفاقی اکائی میں سے اقلیتوں کی نمائندگی سینٹ، قومی، صوبائی اسمبلیوں میں ہو جس کے لیے حلقہ بندیاں پنجاب میں جہاں مسیحیوں اور سندھ میں جہاں ہندوؤں کی آبادی مناسب تعداد میں ہے وہاں تو چھوٹی بڑی قومی وصوبائی حلقہ بندیاں ہوسکتی ہیں، لیکن جن وفاقی اکائیوں میں مثلاً بلوچستان، کے پی کے اور اسلام آباد جہاں اقلیتی آبادی کی تعداد نمائندگی کے لیے درکار تعداد سے بہت کم ہے، وہاں آئین کے دیباچے/تمہیدِ (preamble) کے اس پیرا گراف کی بنیاد پر مذہبی شناخت پر اقلیتی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے:

Wherein adequate provision shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes.

''ترجمہ: جس میں اقلیتوں اور پس ماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔'' اس فارمولے سے یہ بات یقینی ہوجائے گی کہ اقلیتوں کی نمائندگی وفاق کی ہر اکائی سے ہو۔

یہ بے ضرر آئینی ترامیم کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کے مفادات کے متصادم بھی نہیں ہوں گی اور یہ ملک و قوم کے استحکام کی بھی ضمانت بنیں گی۔

دوہرے ووٹ کے مطالبے کو تین نکات کا محور و مرکز بنانے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی پاکستان کے ہر حلقے سے قومی نمائندگی بھی ہو اور ہر وفاقی اکائی سے مذہبی شناخت پر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی نمائندگی یقینی ہو۔ اس مطالبے کو بخوبی سمجھ کر اس کے لیے اس یقین سے کوشش کریں کہ یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم کسی بھی سیاسی جماعت، گروہ یا ریاست، حکومت کے مفادات سے متصادم بھی نہیں ہوگی۔

یہ آئینی ترمیم ملک وقوم کے استحکام کی بھی ضمانت ہوگی۔ ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔ چاروں صوبوں کے ساتھ اسلام آباد سے بھی اقلیتوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی نمائندگی دی جائے، جس سے اقلیتی سینٹرز کی تعداد 5 ہوجائے گی۔ قومی اسمبلی کی تعداد 10 سے بڑھا کر 19کی جائے جس کی تفصیل یوں ہے: پنجاب سے قومی اسمبلی کے لیے اوسطاً ایک ایم این اے 504274 ووٹوں کے حلقے سے بنتا ہے، جس کے مطابق مسیحیوں کے تقریباً 3 ممبر قومی اسمبلی کے حلقے بنائے جاسکتے ہیں، لیکن آئین میں دی گئی راہ نمائی کی بدولت رعایت دے کر5 مسیحیوں کی نشستیں اور ایک ہندوؤں کی اور ایک دیگر سب اقلیتوں کی نشست مخصوص ہو، جس سے اقلیتوں کے لیے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں کی جاسکتی ہیں۔

اس کے لیے مسیحیوں کے 5 چھوٹے بڑے حلقے اور ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے لیے حلقہ پورا پنجاب ہی ہوگا، جب کہ پنجاب میں ایک ممبر صوبائی اسمبلی 239403 ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ اس حساب سے مسیحیوں کے تقریبا ً6 ارکان صوبائی اسمبلی بن سکتے ہیں، لیکن آئینی رعایت کی رو سے 1399468 ووٹوں کو چھوٹے بڑے حلقے بنا کر8 نشستیں دی جاسکتی ہیں۔ ہندو اور دیگر اقلیتوں کے لیے ایک نشست پورا صوبہ حلقہ انتخاب بنا کر دی جاسکتی ہے جس سے پنجاب اسمبلی میں مجموعی اقلیتی ارکان کی تعداد 10 ہوجائے گی۔

اسلام آباد، 312760کے پی کے4736949 اور بلوچستان سے 323055 اوسط ووٹوں سے قومی اسمبلی کا ایک ممبر منتخب ہوتا ہے، جب کہ اقلیتی ووٹوں کی تعداد ان وفاقی اکائیوں اور دارالحکومت میں اس معیار کے مطابق درکار ووٹوں سے انتہائی کم ہے، لہٰذا ان اکائیوں میں سے سب اقلیتوں کو ملا کر ایک ایک قومی اسمبلی کی نشست ہونی چاہیے۔ بلوچستان سے صوبائی ممبر اوسطاً 101429 ووٹوں سے اور کے پی کے میں سے صوبائی اسمبلی کا ممبر اوسطاً 186996 ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔

ان وفاقی اکائیوں میں اقلیتی ووٹروں کی مجموعی تعداد (اوپر درج ہے) بھی اس معیار سے بھی بہت کم ہے، لیکن آئینی رعایت کی بدولت بلوچستان سے مسیحیوں کی ایک، ہندوؤں کی ایک اور دیگر اقلیتوں کے لیے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پورے صوبے کو حلقہ انتخاب بنا کر دی جاسکتی ہے،

جب کہ کے پی کے سے بلوچستان والے فارمولے سے تین صوبائی نشستیں اور ایک اضافی نشست پاکستان کی جغرافیائی، عقیدے وتہذیب کے اعتبار سے بالکل منفرد شناخت کی حامل اقلیت کیلاش کمیونٹی کے لیے مخصوص کی جاسکتی ہے۔

یاد رہے کے پی کے سے اس وقت بھی اقلیتوں کی (4) چار صوبائی نشستیں مخصوص ہیں (لیکن وہ قومی سطح کے پارٹی سربراہان کی صوابدید ہے وہ چاہے تو ساری نشستیں کسی ایک اقلیت کو ہی بخش دیں) اس طرح کے پی کے سے اس فارمولے میں بھی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 4 ہوجائیں گی۔

سندھ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست اوسطاً 429953 ووٹوں کے حلقہ انتخاب پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس طرح اس معیار سے ہندوؤں کے ووٹوں کی تعداد ساڑھے 4 نشستوں کی بنتی ہے، لیکن آئین کی رو سے انہیں رعایت دے کر 7 نشستوں پر حلقہ بندی کی جاسکتی ہے اور مسیحیوں کے لیے صوبہ سندھ سے ایک قومی اسمبلی کی نشست کے لیے حلقہ بنایا جاسکتا ہے۔

گوکہ مسیحیوں کے ووٹوں کی تعداد درکار تعداد سے کم ہے، دیگر اقلیتوں کی تعداد بھی بہت کم ہونے کے باوجود ان ساری اقلیتوں کی نمائندگی بھی سندھ جیسی اہم وفاقی اکائی سے یقینی بنانے کے لیے پورے صوبے کو ایک حلقہ بنا کر ایک قومی اسمبلی کی نشست دینی چاہیے جس سے سندھ سے قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد 9 ہوجائے گی۔

سندھ اسمبلی میں اوسطاً ایک رکن صوبائی اسمبلی 188684ووٹوں کے حلقہ انتخاب سے منتخب ہوتا ہے۔ اس حساب سے سندھ کے 1936749ووٹوں سے سوا گیارہ نشستیں بنتی ہیں، جنہیں تیرہ ( 13) نشستوں کی چھوٹی بڑی حلقہ بندیوں میں تقسیم کردیا جائے اور مسیحیوں کے ووٹ جو کہ دو نشستوں سے کم ہیں انھیں ایک نشست کراچی کی اور ایک باقی سارے سندھ کی دی جائے۔

یعنی دو حلقے بنا دیے جائیں اور دیگر اقلیتوں کی تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے انھیں پورے صوبے کو حلقہ بنا کر ایک نشست دی جائے۔ اس طرح سندھ سے اقلیتی ارکان صوبائی اسمبلی کی تعداد 16 ہوجائے گی۔

یوں مجموعی طور پر 5پانچ سینیٹر ، 19ایم این اے 33 ایم پی اے ایز ملا کر یہ تعداد 57 ہوجائے گی، جن کی تفصیل یوں ہے۔ اسلام آباد، کے پی کے اور بلوچستان سے قومی اسمبلی کی ایک ایک اقلیتی نشست، پنجاب سے 7 اور سندھ سے 9 ارکان قومی اسمبلی ہوں گے۔

بلوچستان، سے 3 کے پی کے سے 4 ارکان صوبائی اسمبلی اور پنجاب سے 10 سندھ سے صوبائی اسمبلی کی 16نشستیں ہوںگی۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ آئین پاکستان کی کم زور طبقات کو دی گئی رعایت کے پیش نظر ہی ممکن ہے، ورنہ اقلیتی ووٹوں کی سرکاری تعداد کے مطابق تو موجودہ38 کی تعداد بھی زیادہ ہی ہے۔

اس سلسلے میں مزید تفصیلی کتابچہ پڑھنے کے لیے آپ تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے کسی بھی رضا کار سے رابط کر سکتے وہ آپ کی فکری معاونت و راہ نمائی کے لیے حاضر ہیں۔
Load Next Story