آئی ایم ایف معاہدہ
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرض پروگرام کی بحالی سے توقع ہے کہ دوست ممالک پاکستان کی امداد کے وعدے پورے کریں گے
پاکستان اور آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدہ کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، تاہم فریقین نے ایک وسیع فریم ورک پر اتفاق کیا ہے۔
میمورینڈم فار اکنامک اینڈ فنانشنل پالیسیز کے مسودے اورا سٹاف لیول معاہدے کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف کے تقریباً ہر مطالبے پر آمادگی ظاہر کی، تاہم آئی ایم ایف نے تدریجی اقدامات کرنے کی پاکستان کی تجویز مسترد کردی اور کہا کہ ہر شے واضح طور پر ہونی چاہیے۔
پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے آگے اپنے موقف کو سرنڈر کرنے کے سوا کوئی دوسری صورت نہیں بچی ہے۔ آج وطن عزیز جس نازک صورتحال سے دوچار ہے، اس سے نکلنے کے سخت ترین فیصلے اور ان پر سختی سے کاربند ہوکر ہی ملک کو اقتصادی مشکلات سے نکالا جاسکتا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی مزید بڑھے گی خاص طور پر درآمدی اشیا مزید مہنگی ہوں گی۔ جنوری میں مہنگائی کی شرح 28 فیصد کے لگ بھگ رہی ہے جو کہ 75 سالہ تاریخ میں بلند ترین سطح ہے۔ملکی معاشی صورتحال ، زرمبادلہ کے ذخائر اور خوفناک مہنگائی نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
معیشت کو ڈی ریل کرنے والوں کا تو ابھی تک احتساب شروع نہیں ہوا مگر عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری کی شکل میں ہر روز اس کی قیمت چْکا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرکے پہلے معاہدہ کیا اور پھر گزشتہ برس اقتدار کی رْخصتی بھانپتے ہوئے معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں۔
مقصد صرف ایک تھا کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود عوام کو سستا پٹرول فراہم کیا جائے۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں کو بھی منجمد رکھا جائے تاکہ عوام حکومت کے گْن گائیں۔ سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے وقتی عوامی تائید تو حاصل کر لی مگر اس کے نتیجے میں جو بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں، وہ ابھی تک صاف نہیں کی جاسکی ہیں۔
آئی ایم ایف کی نظر میں معیشت کو سب سے بڑا خطرہ توانائی کے شعبے کی خراب کارکردگی سے ہے جس کا گردشی قرض 29 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
اس رقم میں مزید اضافہ آئی ایم ایف کے لیے باعث تشویش ہے اور امکان ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے جائیں گے ، جس میں برآمدی صنعتوں کو توانائی پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
صنعتکار پہلے ہی توانائی کی سبسڈی کے ممکنہ خاتمے پر اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں لیکن آئی ایم ایف نہ صرف بڑی مقدار میں گردشی قرض میں کمی چاہتا ہے بلکہ اسے دوبارہ بڑھنے سے بھی روکنے کا خواہاں ہے۔ آئی ایم ایف کا ایک اور بڑا مطالبہ ڈیزل پر موجودہ پٹرولیم لیوی 40 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کرنا ہے جو 15 فروری کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے متوقع اعلان میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ ملکی تاریخ کا یہ سب سے کڑا اور خطرناک شرائط کے ساتھ معاہدہ تو لازمی کرنا پڑے گا مگر اس صورتحال سے نکلنے اور دوبارہ اس گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لیے ابھی سے کچھ کرنا ہو گا بصورت دیگر سب کو خوفناک نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اب کام ایک کڑوی گولی سے نہیں بلکہ کڑوی گولیوں کے کئی ڈبوں سے حل ہوگا مگر یہ گولیاں صرف عوام نہیں بلکہ حکمرانوں اور اشرافیہ کو بھی کھا کر عوام کے دْکھوں کا مداوا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح توشہ خانہ پالیسی کے ذریعے بھی کچھ موثر اقدامات کی تیاری کرلی گئی ہے جس سے مال مفت دل بے رحم کا تصور ختم ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔
نئی پالیسی کے تحت غیرملکی سربراہان سے کروڑوں روپے مالیت کی گھڑیاں اور لگژری گاڑیوں کے تحائف وصولی پر پابندی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ غیرملکی سربراہان سے 500 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ لینے پر پابندی عائد ہوگی۔
حالیہ دنوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اضافے سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں ۔ اب آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں جو شرائط سامنے آئی ہیں، ان میں سے دو نہ صرف اقتصادی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد حکومت کے لیے کڑا امتحان ہے۔
ان میں ایک شرط گریڈ17اور اس سے اوپر کے سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے اثاثے ظاہر کرنے اور دوسری بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے مالی معاملات میں اصلاح اور توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کے خاتمے سے متعلق ہے۔
اول الذکر شرط سے جہاں اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ عالمی ادارہ سرکاری ملازمین کی مبینہ کرپشن کی روک تھام چاہتا ہے تو وہاں اس شرط سے کرپٹ ملازمین کی نشاندہی اور ان کے ممکنہ احتساب کو یقینی بنانے کی خواہش کے اظہار سمیت توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے کے خاتمے کے لیے بجلی اور گیس کی چوری اور لائن لاسز کا تدارک بھی مقصود ہے۔
ان دو شرائط کے عائد کرنے سے جہاں عام طور پر بجلی و گیس کی چوری روکنے کے اقدامات حکومت کے لیے چیلنج ثابت ہونگے وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسروں کے اثاثے ظاہر کرنے کی شرط پر عملدرآمد بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا کیونکہ ان اداروں کے اعلیٰ حکام پہلے ہی احتساب کے عمل سے باہر ہیں اور اگر اس شرط پر حکومت عمل کرے گی تو ان اداروں کے افسروں سے بھی اس سلسلے میں بازپرس کے راستے کھل جائیں گے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کی ابتداء ہی کمر توڑ مہنگائی اور عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے مترادف عمل ہے ، ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی عروج پر ہو اور لوگوں کے لیے مہنگا آٹا کی خریداری گھروں کے کرائے ، بچوں کی فیس ، ٹرانسپورٹ، ادویات اور اس طرح کی ناگزیر ضرورتیں پوری کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔
مرے کو مارے شاہ مدار کے زمرے میں آتا ہے ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ جو بم پھٹنا تھا وہ پھٹ چکا یا ابھی عوام کا مزید امتحان ہونا باقی ہے۔
خدشہ ہے کہ یہ آخری نہیں بلکہ مزید ابتر صورتحال کے خدشات ہیں کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ آخری اضافہ نہیں ہے بلکہ اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں، یہ بات ہر خاص و عام کو بخوبی معلوم ہے ہی کہ ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے اثرات کیا ہوتے ہیں اور عوام کو اس طرح کے عوامل کے کیا نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔
پاکستان کے تیزی سے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے قرض معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے۔
پاکستان کے لیے قرض کی رقم سے زیادہ قرض پروگرام کی بحالی اہم تھی۔ اس پروگرام کی بحالی سے پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے درمیان اعتماد بحال ہوگا جب کہ پاکستان اور اس کے دوست ممالک کے درمیان مالیاتی تعلقات بھی بحال ہوجائیں گے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرض پروگرام کی بحالی سے توقع ہے کہ دوست ممالک پاکستان کی امداد کے وعدے پورے کریں گے خاص طور پر چین پاکستان کے قرضوں کو موخر کرے گا اور مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کی پھر مدد کرے گا۔
آئی ایم ایف معاہدہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے نکال سکتا ہے مگر مالی مشکلات سے نہیں بچا سکتا۔ اس معاہدے سے پاکستان کو قرضہ مل جائے گا مگر ہمارے حالات ایک مقروض ملک کی طرح ہی رہیں گے جو ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسری جگہ واپس کر رہا ہے۔ مالی مشکلات کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو کافی وقت اور محنت لگے گی۔
حکومت سوائے قرض لینے اور عوام پر ہی مزید سے مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے باقی اقدامات کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی حالانکہ حکومت کے پاس اختیار کرنے کے دیگر راستے موجود ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر سخت فیصلے تو کر سکتی ہے لیکن خود ملک و قوم کے مفاد میں اس کا کوئی ایک ٹھوس قدم نہ اٹھانا لمحہ فکریہ ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ان حالات میں عوام کا بوجھ کم کرنے کے اقدامات کرے جس کا آغاز حکومتی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی سے کیا جائے تمام سرکاری ملازمین کو گھر پٹرول اور سرکاری گاڑیوں کی سہولت فوری طور پر ختم کی جائے۔ ساری زرعی زمینوں کی لیز ختم کی جائے ، زراعت میں پٹہ سسٹم کا خاتمہ کیا جائے ، مفت یونٹ اور مفت سفر کی سہولت ختم کی جائے ، بھارت سے تجارت پر پابندیاں ختم کی جائیں ، تاپی گیس پائپ لائن پر کام شروع کیا جائے تاکہ سستے ایندھن کی فراہمی کی راہ ہموار ہو۔
حکومت کو رئیل اسٹیٹ کے حوالے سے بھی اہم اور سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ، جن لوگوں کے پاس سونا اور غیر ملکی کرنسی ہے ان کو بینکوں اور کاروبار میں لانے کی ترغیب دی جائے اور اس کا آغاز حکومتی حامی جماعتوں کے وابستگان کریں۔
آئی ایم ایف کی شرائط کی مجبوری اپنی جگہ لیکن اس قوم کے پاس جو کچھ ہے اور جو وسائل اور امکانات ہیں ان کو بروئے کار لایا جائے تو حالات میں بہتری ہو سکتی ہے۔ اس وقت سیاست بچانے اور سیاست کرنے کی نہیں ملک بچانے کی ضرورت ہے اور یہ ملک کسی ایک کا نہیں ہم سب کا ہے۔
میمورینڈم فار اکنامک اینڈ فنانشنل پالیسیز کے مسودے اورا سٹاف لیول معاہدے کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف کے تقریباً ہر مطالبے پر آمادگی ظاہر کی، تاہم آئی ایم ایف نے تدریجی اقدامات کرنے کی پاکستان کی تجویز مسترد کردی اور کہا کہ ہر شے واضح طور پر ہونی چاہیے۔
پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے آگے اپنے موقف کو سرنڈر کرنے کے سوا کوئی دوسری صورت نہیں بچی ہے۔ آج وطن عزیز جس نازک صورتحال سے دوچار ہے، اس سے نکلنے کے سخت ترین فیصلے اور ان پر سختی سے کاربند ہوکر ہی ملک کو اقتصادی مشکلات سے نکالا جاسکتا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی مزید بڑھے گی خاص طور پر درآمدی اشیا مزید مہنگی ہوں گی۔ جنوری میں مہنگائی کی شرح 28 فیصد کے لگ بھگ رہی ہے جو کہ 75 سالہ تاریخ میں بلند ترین سطح ہے۔ملکی معاشی صورتحال ، زرمبادلہ کے ذخائر اور خوفناک مہنگائی نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
معیشت کو ڈی ریل کرنے والوں کا تو ابھی تک احتساب شروع نہیں ہوا مگر عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری کی شکل میں ہر روز اس کی قیمت چْکا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرکے پہلے معاہدہ کیا اور پھر گزشتہ برس اقتدار کی رْخصتی بھانپتے ہوئے معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں۔
مقصد صرف ایک تھا کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود عوام کو سستا پٹرول فراہم کیا جائے۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں کو بھی منجمد رکھا جائے تاکہ عوام حکومت کے گْن گائیں۔ سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے وقتی عوامی تائید تو حاصل کر لی مگر اس کے نتیجے میں جو بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں، وہ ابھی تک صاف نہیں کی جاسکی ہیں۔
آئی ایم ایف کی نظر میں معیشت کو سب سے بڑا خطرہ توانائی کے شعبے کی خراب کارکردگی سے ہے جس کا گردشی قرض 29 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
اس رقم میں مزید اضافہ آئی ایم ایف کے لیے باعث تشویش ہے اور امکان ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے جائیں گے ، جس میں برآمدی صنعتوں کو توانائی پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
صنعتکار پہلے ہی توانائی کی سبسڈی کے ممکنہ خاتمے پر اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں لیکن آئی ایم ایف نہ صرف بڑی مقدار میں گردشی قرض میں کمی چاہتا ہے بلکہ اسے دوبارہ بڑھنے سے بھی روکنے کا خواہاں ہے۔ آئی ایم ایف کا ایک اور بڑا مطالبہ ڈیزل پر موجودہ پٹرولیم لیوی 40 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کرنا ہے جو 15 فروری کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے متوقع اعلان میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ ملکی تاریخ کا یہ سب سے کڑا اور خطرناک شرائط کے ساتھ معاہدہ تو لازمی کرنا پڑے گا مگر اس صورتحال سے نکلنے اور دوبارہ اس گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لیے ابھی سے کچھ کرنا ہو گا بصورت دیگر سب کو خوفناک نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اب کام ایک کڑوی گولی سے نہیں بلکہ کڑوی گولیوں کے کئی ڈبوں سے حل ہوگا مگر یہ گولیاں صرف عوام نہیں بلکہ حکمرانوں اور اشرافیہ کو بھی کھا کر عوام کے دْکھوں کا مداوا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح توشہ خانہ پالیسی کے ذریعے بھی کچھ موثر اقدامات کی تیاری کرلی گئی ہے جس سے مال مفت دل بے رحم کا تصور ختم ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔
نئی پالیسی کے تحت غیرملکی سربراہان سے کروڑوں روپے مالیت کی گھڑیاں اور لگژری گاڑیوں کے تحائف وصولی پر پابندی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ غیرملکی سربراہان سے 500 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ لینے پر پابندی عائد ہوگی۔
حالیہ دنوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اضافے سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں ۔ اب آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں جو شرائط سامنے آئی ہیں، ان میں سے دو نہ صرف اقتصادی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد حکومت کے لیے کڑا امتحان ہے۔
ان میں ایک شرط گریڈ17اور اس سے اوپر کے سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کے اثاثے ظاہر کرنے اور دوسری بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے مالی معاملات میں اصلاح اور توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کے خاتمے سے متعلق ہے۔
اول الذکر شرط سے جہاں اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ عالمی ادارہ سرکاری ملازمین کی مبینہ کرپشن کی روک تھام چاہتا ہے تو وہاں اس شرط سے کرپٹ ملازمین کی نشاندہی اور ان کے ممکنہ احتساب کو یقینی بنانے کی خواہش کے اظہار سمیت توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے کے خاتمے کے لیے بجلی اور گیس کی چوری اور لائن لاسز کا تدارک بھی مقصود ہے۔
ان دو شرائط کے عائد کرنے سے جہاں عام طور پر بجلی و گیس کی چوری روکنے کے اقدامات حکومت کے لیے چیلنج ثابت ہونگے وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسروں کے اثاثے ظاہر کرنے کی شرط پر عملدرآمد بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا کیونکہ ان اداروں کے اعلیٰ حکام پہلے ہی احتساب کے عمل سے باہر ہیں اور اگر اس شرط پر حکومت عمل کرے گی تو ان اداروں کے افسروں سے بھی اس سلسلے میں بازپرس کے راستے کھل جائیں گے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کی ابتداء ہی کمر توڑ مہنگائی اور عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے مترادف عمل ہے ، ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی عروج پر ہو اور لوگوں کے لیے مہنگا آٹا کی خریداری گھروں کے کرائے ، بچوں کی فیس ، ٹرانسپورٹ، ادویات اور اس طرح کی ناگزیر ضرورتیں پوری کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔
مرے کو مارے شاہ مدار کے زمرے میں آتا ہے ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ جو بم پھٹنا تھا وہ پھٹ چکا یا ابھی عوام کا مزید امتحان ہونا باقی ہے۔
خدشہ ہے کہ یہ آخری نہیں بلکہ مزید ابتر صورتحال کے خدشات ہیں کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ آخری اضافہ نہیں ہے بلکہ اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں، یہ بات ہر خاص و عام کو بخوبی معلوم ہے ہی کہ ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے اثرات کیا ہوتے ہیں اور عوام کو اس طرح کے عوامل کے کیا نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔
پاکستان کے تیزی سے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے قرض معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے۔
پاکستان کے لیے قرض کی رقم سے زیادہ قرض پروگرام کی بحالی اہم تھی۔ اس پروگرام کی بحالی سے پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے درمیان اعتماد بحال ہوگا جب کہ پاکستان اور اس کے دوست ممالک کے درمیان مالیاتی تعلقات بھی بحال ہوجائیں گے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرض پروگرام کی بحالی سے توقع ہے کہ دوست ممالک پاکستان کی امداد کے وعدے پورے کریں گے خاص طور پر چین پاکستان کے قرضوں کو موخر کرے گا اور مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کی پھر مدد کرے گا۔
آئی ایم ایف معاہدہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے نکال سکتا ہے مگر مالی مشکلات سے نہیں بچا سکتا۔ اس معاہدے سے پاکستان کو قرضہ مل جائے گا مگر ہمارے حالات ایک مقروض ملک کی طرح ہی رہیں گے جو ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسری جگہ واپس کر رہا ہے۔ مالی مشکلات کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو کافی وقت اور محنت لگے گی۔
حکومت سوائے قرض لینے اور عوام پر ہی مزید سے مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے باقی اقدامات کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی حالانکہ حکومت کے پاس اختیار کرنے کے دیگر راستے موجود ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر سخت فیصلے تو کر سکتی ہے لیکن خود ملک و قوم کے مفاد میں اس کا کوئی ایک ٹھوس قدم نہ اٹھانا لمحہ فکریہ ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ان حالات میں عوام کا بوجھ کم کرنے کے اقدامات کرے جس کا آغاز حکومتی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی سے کیا جائے تمام سرکاری ملازمین کو گھر پٹرول اور سرکاری گاڑیوں کی سہولت فوری طور پر ختم کی جائے۔ ساری زرعی زمینوں کی لیز ختم کی جائے ، زراعت میں پٹہ سسٹم کا خاتمہ کیا جائے ، مفت یونٹ اور مفت سفر کی سہولت ختم کی جائے ، بھارت سے تجارت پر پابندیاں ختم کی جائیں ، تاپی گیس پائپ لائن پر کام شروع کیا جائے تاکہ سستے ایندھن کی فراہمی کی راہ ہموار ہو۔
حکومت کو رئیل اسٹیٹ کے حوالے سے بھی اہم اور سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ، جن لوگوں کے پاس سونا اور غیر ملکی کرنسی ہے ان کو بینکوں اور کاروبار میں لانے کی ترغیب دی جائے اور اس کا آغاز حکومتی حامی جماعتوں کے وابستگان کریں۔
آئی ایم ایف کی شرائط کی مجبوری اپنی جگہ لیکن اس قوم کے پاس جو کچھ ہے اور جو وسائل اور امکانات ہیں ان کو بروئے کار لایا جائے تو حالات میں بہتری ہو سکتی ہے۔ اس وقت سیاست بچانے اور سیاست کرنے کی نہیں ملک بچانے کی ضرورت ہے اور یہ ملک کسی ایک کا نہیں ہم سب کا ہے۔