آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط اور معاشی منصوبہ بندی

حکومت کی سنجیدہ کوششوں، محنت، توجہ اور ترجیح پر منحصر ہے کہ وہ ان تمام معاملات سے کس طرح نمٹتے ہیں

آئی ایم ایف کے ٹس سے مس نہ ہونے کے باعث ڈالرکو زبردست شے مل رہی تھی لیکن جمعرات کی صبح تک اس امکان کے ساتھ کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا جائے گا انٹر بینک میں ڈالر 271 روپے کا ہوچکا تھا۔

سونے کی قیمت جوکہ 2 لاکھ 7 ہزار روپے فی تولہ تک پہنچ چکی تھی اس میں بھی بتدریج کمی واقع ہوکر سونا ایک لاکھ 98 ہزار روپے تک پہنچ چکا تھا۔ پھر خبر آئی کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ نہ ہو سکا اور مذاکرات ختم ہو گئے۔

اس ناکوں چنے چبائے جانے والے مذاکرات کے دوران معاشی حکام بار بار اس بات کا اعادہ کر رہے تھے کہ مجوزہ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف شرائط نرم کرے۔ اب نجکاری کا عمل انتہائی تیز تر کردیا جائے گا جس کے لیے وزیر اعظم نے احکامات دیتے ہوئے کہا ہے کہ نجکاری کا عمل تیز کیا جائے۔ شفافیت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

بہت سی سخت ترین شرائط پر عملدرآمد کا آغاز کردیا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی توقع کو لے کر بتایا جا رہا ہے کہ کمپنیوں نے پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی بند کردی ہے۔ بدھ کو لاہور شہر میں پٹرولیم مصنوعات کی سخت ترین قلت تھی۔

جمعرات کو پنڈی و دیگر شہروں میں بھی ایسی ہی صورت حال دیکھنے میں آئی، تادم تحریر حکومت اس مسئلے کو کنٹرول نہ کرسکی۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں پٹرول کی قلت پیدا ہونے کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حکام نے ذخیرہ اندوزوں کو یہاں تک خبردار کیا ہے کہ ان کے لائسنس تک منسوخ ہوسکتے ہیں ، ان کے خلاف تادیبی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے بڑھتے ہی اچانک ان پٹرول پمپوں سے تیل نکل آئے گا، جیساکہ گزشتہ ماہ کے آخر میں ہوا تھا۔

اس خبر کے ساتھ ہی کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فوری اضافہ کیا جائے لہٰذا حکومت نے فوری طور پر 35 روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیا اور یہ اعلان اکثر و بیشتر پٹرول پمپوں کی بندش کے باعث اضطراری طور پر کیا گیا تھا۔

حکومت کو چاہیے تھا کہ فوری طور پر 10 روپے تک اضافے کے اعلان کے بعد یکم فروری سے مزید 25 روپے اضافہ کردیتی۔ اب یکایک وہ بھی یکم سے چند دن قبل دن کے گیارہ بجے قیمتوں میں اضافے سے اندازہ ہے کہ کم ازکم 4 سے 5 ارب روپے عوام کی جیب سے نکل کر ان پٹرول پمپس والوں کی جیب میں چلا گیا تھا جو اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کے ٹینک خالی ہو چکے ہیں ، ان کے پاس پٹرول نہیں ہے لہٰذا مجبوری میں وہ اپنا پٹرول پمپ بند کر رہے ہیں اور اب بھی یہی صورت حال پیدا کردی گئی تھی۔


ذخیرہ اندوز مافیاز کو اس طرح کھلی چھوٹ دی جاتی رہی تو ایسی صورت حال میں وہ عوام کے لیے کتنے ہی شدید مسائل پیدا کر رہے ہیں اور یہ وتیرہ اس سے قبل بھی اپنایا جاتا رہا ہے۔ ہر پندرہویں یا ماہ کے اختتام سے کئی گھنٹے قبل اچانک پٹرول ختم ہو جاتا ہے یا غائب ہو جاتا ہے یا ناپید ہو جاتا ہے۔

پٹرول پمپ کے گرد قناتیں لگا کر اسے بند کردیا جاتا ہے۔ پھر جیسے ہی رات 12 بجے سے قیمتوں میں اضافے کا اعلان ہوتا ہے حسب سابق صارفین کو پٹرول مہیا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ پاکستان میں یوں بھی مافیا کا راج ہے لیکن ایک ایسے وقت میں جب ہر طرح سے مہنگائی کا طوفان بڑھتا چلا جا رہا ہے تو ایسے میں پٹرول کی قلت پیدا کرکے مہنگائی کی مارے عوام کو مزید پریشان کیا جا رہا ہے۔

حکومت اور آئی ایم ایف کے تمام تر مطالبات ماننے پر مجبوری ظاہر کر رہی ہے۔ معاشی حکام اس بات کی طرف غور نہیں کرتے کہ ایسی نوبت کیوں آگئی کہ ہمارے گلے میں پابندی کا کڑا طوق ڈال دیا گیا ہے۔

پاکستان جسے اکثر ڈالر کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جاتی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ماہانہ، سالانہ اور پانچ سالہ منصوبہ بندی کی جائے۔ یہ قرض خلاصی، آئی ایم ایف سے چھٹکارے کی بتدریج معاشی منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔

ایک پانچ سالہ ایسا منصوبہ بنا لیا جائے جس پر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کوئی بھی حکومت ہو اس منصوبے کے مطابق عمل پیرا ہوگی۔اس وقت معیشت و سیاست، امن و استحکام یہ سب ملکی معاشی حالات سے جڑے ہوئے ہیں۔

بیرونی سرمایہ کاری ہو یا بیرون ملک سے تاجروں کی پاکستان آمد ہو تاکہ وہ کاروباری معاملات طے کرسکیں، ان سب کے لیے معیشت و سیاست، سیاسی و ملکی امن و امان کے حالات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

معیشت میں بہتری لانے کی خاطر امن و امان کی بہتر صورت حال پیدا کرنے کی خاطر ملک میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو صرف اور صرف ملک کی خاطر ایک پیج پر آنا ہوگا جب تک تمام ادارے حکومت اپوزیشن اس بات پر متفق نہیں ہوجاتے کہ سب سے پہلے ملک و ریاست اس کی معیشت اس کے عوام کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے گا اس کے لیے لائحہ عمل طے کریں۔

قرضوں سے نجات، سود کی ادائیگی سے نجات، دہشت گردی سے نجات اور دیگر معاملات میں بہتری کے لیے پاکستان کی ترقی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر چند ماہ بعد ہی دسواں اقتصادی جائزہ آئی ایم ایف نے لینا ہے اب مہنگائی جوکہ 40 فیصد تک پہنچنے والی ہے بے روزگاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ قرض کا بار بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

ایسی صورت حال سے نکلنے کے لیے آخر کوئی تدبیر تو کارآمد ہو سکتی ہے؟ اب یہ معاشی حکام کی صلاحیت پر منحصر ہے اور حکومت کی سنجیدہ کوششوں، محنت، توجہ اور ترجیح پر منحصر ہے کہ وہ ان تمام معاملات سے کس طرح نمٹتے ہیں تاکہ پاکستان بدامنی سے پاک ہو کر خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکے۔
Load Next Story