خواتین کے حقوق کیلیے ریاست اسٹیک ہولڈرز کو ملکر کام کرنا ہوگا مقررین
معاشرتی رویوں میں تبدیلی ضروری،خواتین کے حقوق واحترام پر پرائمری سے ہی نصاب میں مضامین شامل کیے جائیں
1983 میں خواتین کی جدوجہد بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی، خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے آج جتنی بھی قانون سازی ہوئی، اس کا کریڈٹ وویمن ایکشن فورم کی صورت میں ترقی پسند لوگوں کے اکٹھ کو جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، حبیب جالب سمیت سینکڑوں شخصیات نے اہم سنگ میل عبور کیا، خواتین کو ماضی کی تحریکوں سے سیکھ کر آئندہ کا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔
خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بہت ساری قانون سازی ہوئی مگر عملدرآمد کا موثر میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا، ریاست اور تمام سٹیک ہولڈرز کو خواتین کے حقوق و تحفظ اور خودمختاری کیلیے مل کر کام کرنا ہوگا۔
خواتین کے حوالے سے معاشرتی رویوں میں تبدیلی ضروری ہے، پرائمری کی سطح سے ہی تعلیمی نصاب میں خواتین کے احترام اور حقوق کے حوالے سے مضامین شامل کیے جائیں۔
ان خیالات کا اظہار مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ''خواتین کے قومی دن'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔
انچارج وویمن ڈویلپمنٹ سینٹر، یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور ڈاکٹر ارم رباب نے کہا کہ بدقسمتی سے عورت بطور شہری سوالیہ نشان ہے، تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی خواتین کو ان کا جائز کردار نہیں دیا گیا، اسمبلی میں صرف 2 خواتین کو جگہ ملی، پھر مادر ملت فاطمہ جناحؒ کے ساتھ بعد میں جو کچھ ہوا، وہ بھی سب جانتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں ضرورت سے زائد قوانین موجود ہیں مگر عملدرآمد کے نظام کا فقدان ہے، 2000ء کے بعد سے بہت ساری قانون سازی ہوئی مگر آج بھی خواتین اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں، ووٹ کا حق نہیں، وراثت سے محروم، افسوس ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلامی قانون پر عملدرآمد میں تاخیر، عورت کو وراثت کا حق اسلام نے دیا مگرآج بھی صرف 10 فیصد خواتین کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق ہیں۔
نمائندہ سول سوسائٹی بشریٰ خالق نے کہا کہ خواتین کا قومی دن ماضی کی جدوجہد کو یاد کرنے کا دن ہے، 12 فروری1983ء کو خواتین نے آمریت کے خلاف کھڑے ہوکر ایک سنگ میل عبور کیا، پیپلز پارٹی نے اس دن کو خواتین کا قومی دن قرار دیا اور ان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔
انھوں نے کہا کہ 1983ء کے بعد خواتین کی جدوجہد میں تیزی آئی، سول سوسائٹی، این جی اوز کو فروغ ملا، خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا گیا۔ ان حقوق و تحفظ کیلیے قانون سازی ہوئی، خواتین کو بین الاقوامی سپورٹ ملی، آج خواتین ماضی کی نسبت مضبوط ہیں۔
نمائندہ سول سوسائٹی عنبرین فاطمہ نے کہا کہ خواتین کے حوالے سے آج جتنی بھی قانون سازی ہوئی ہے اس کا کریڈٹ 1983ء میں خواتین کے مال روڈ پر احتجاج اور وویمن ایکشن فورم کو جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، حبیب جالب سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور عوام، خواتین کے حق میں باہر نکلے، لاٹھی چارج اور تشدد کا سامنا کیا،اگرچہ خواتین کے حوالے سے کافی قانون سازی ہوئی، ادارے بنائے مگر ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے، عورت کی سیاسی، سماجی اور معاشی خودمختاری کیلیے کام کرنا ہوگا۔
عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، حبیب جالب سمیت سینکڑوں شخصیات نے اہم سنگ میل عبور کیا، خواتین کو ماضی کی تحریکوں سے سیکھ کر آئندہ کا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔
خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بہت ساری قانون سازی ہوئی مگر عملدرآمد کا موثر میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا، ریاست اور تمام سٹیک ہولڈرز کو خواتین کے حقوق و تحفظ اور خودمختاری کیلیے مل کر کام کرنا ہوگا۔
خواتین کے حوالے سے معاشرتی رویوں میں تبدیلی ضروری ہے، پرائمری کی سطح سے ہی تعلیمی نصاب میں خواتین کے احترام اور حقوق کے حوالے سے مضامین شامل کیے جائیں۔
ان خیالات کا اظہار مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ''خواتین کے قومی دن'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔
انچارج وویمن ڈویلپمنٹ سینٹر، یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور ڈاکٹر ارم رباب نے کہا کہ بدقسمتی سے عورت بطور شہری سوالیہ نشان ہے، تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی خواتین کو ان کا جائز کردار نہیں دیا گیا، اسمبلی میں صرف 2 خواتین کو جگہ ملی، پھر مادر ملت فاطمہ جناحؒ کے ساتھ بعد میں جو کچھ ہوا، وہ بھی سب جانتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں ضرورت سے زائد قوانین موجود ہیں مگر عملدرآمد کے نظام کا فقدان ہے، 2000ء کے بعد سے بہت ساری قانون سازی ہوئی مگر آج بھی خواتین اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں، ووٹ کا حق نہیں، وراثت سے محروم، افسوس ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلامی قانون پر عملدرآمد میں تاخیر، عورت کو وراثت کا حق اسلام نے دیا مگرآج بھی صرف 10 فیصد خواتین کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق ہیں۔
نمائندہ سول سوسائٹی بشریٰ خالق نے کہا کہ خواتین کا قومی دن ماضی کی جدوجہد کو یاد کرنے کا دن ہے، 12 فروری1983ء کو خواتین نے آمریت کے خلاف کھڑے ہوکر ایک سنگ میل عبور کیا، پیپلز پارٹی نے اس دن کو خواتین کا قومی دن قرار دیا اور ان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔
انھوں نے کہا کہ 1983ء کے بعد خواتین کی جدوجہد میں تیزی آئی، سول سوسائٹی، این جی اوز کو فروغ ملا، خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا گیا۔ ان حقوق و تحفظ کیلیے قانون سازی ہوئی، خواتین کو بین الاقوامی سپورٹ ملی، آج خواتین ماضی کی نسبت مضبوط ہیں۔
نمائندہ سول سوسائٹی عنبرین فاطمہ نے کہا کہ خواتین کے حوالے سے آج جتنی بھی قانون سازی ہوئی ہے اس کا کریڈٹ 1983ء میں خواتین کے مال روڈ پر احتجاج اور وویمن ایکشن فورم کو جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، حبیب جالب سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور عوام، خواتین کے حق میں باہر نکلے، لاٹھی چارج اور تشدد کا سامنا کیا،اگرچہ خواتین کے حوالے سے کافی قانون سازی ہوئی، ادارے بنائے مگر ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے، عورت کی سیاسی، سماجی اور معاشی خودمختاری کیلیے کام کرنا ہوگا۔