امجد اسلام امجد ۔ ایک زندہ شخصیت نے ہمیں خیر باد کہہ دیا
دل نہیں مانتا ۔دماغ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ادبی دنیا کی فضائیں سوگوار ہیں لیکن میری یادوں کی تمام کھڑکیاں کھل گئی ہیں
لوگ کہتے ہیں امجد اسلام امجد بھی دنیا کو خیرباد کہہ گئے۔
دل نہیں مانتا ۔دماغ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ادبی دنیا کی فضائیں سوگوار ہیں لیکن میری یادوں کی تمام کھڑکیاں کھل گئی ہیں اورمیں انہیں خوبصورت غزلیں اور جذبوں سیسرشار نظمیں اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ وہ داد سمیٹ رہے ہیں اور پسندیدہ نظموں کا فرمائشی پروگرام بھی مسکرا کر پورا کررہے ہیں۔میں کیسے مان لوں کہ امجد اسلام امجد اب ہم میں نہیں رہے۔
وہ ادبی محفلوں کی جان بھی ہیں اور اردو ادب کا مان بھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امجد اسلام امجد اس عہد کی پہچان ہیں۔جو جو ادبی شخصیات اس عہد کی پہچان ہیں ، وہ ایک ایک کرکے رخصت ہورہی ہیں اور وہاں جارہی ہیں ، جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آتا۔ کیا واقعی امجد اسلام امجد بھی ہم سے دور چلے گئے ہیں ؟کیا ہم انہیں کبھی نہیں دیکھ سکیں گے؟
بہت سے سوال میرے دل اور دماغ میں سراٹھارہے ہیں اور میں ان کاجواب جاننا بھی نہیں چاہتا۔ کیونکہ امجد اسلام امجد ایک زند دل شخصیت کانام ہے۔ وہ اپنی تحریروں ، نظموں اور اپنی دھڑکتی غزلوں میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے تو میں کیسے مان لوں کہ امجد اسلام امجد اب ہم میں نہیں رہے۔
لاہور نے بڑی بڑی شخصیات کو عزت اور پہچان عطاکی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مضافات یا دوسرے شہروں سے آنے والوں کو پہچان ضرور ملی ہے۔ لاہور شہر نے اہم شعبوں میں بڑی ہستیاں کم ہی پیدا کی ہیں۔فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیرآغا ، عطا الحق قاسمی سمیت ادبی دنیا میں جتنے بڑے لوگ ہیں یا گزرے ہیں۔
ان میں سے بیشتر کا تعلق دوسرے شہروں سے تھا۔ اتنا ضرور ہے کہ لاہور نے انھیں شہرت، عزت اور مقبولت دی۔یایوں کہیے کہ جب ٹیلنٹڈ شخصیات کاتعلق لاہور سے قائم ہوا تو ان کے جوہر کھلے لیکن امجد اسلام امجد سچے اور پکے لاہوری ہیں۔
قیام ِ پاکستان سے تین سال دس دن پہلے 4 اگست 1944ء کو لاہور ہی میں آنکھ کھولی۔پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔
ادبی ذوق و شوق وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا چلاگیا۔تعلیم و تدریس سے وابستہ ہو گئے ۔نسل ِ نو کی ہمیشہ حوصلہ افزائی اور پذیرائی کی۔ اہم سرکاری عہدوں پر بھی فائز رہے ۔ ادب کے کئی شعبوں میں اپنے تخلیقی رنگ دکھائے۔ کتابیں لکھیں۔تراجم کئے۔کالم لکھے۔ تنقیداور ڈرامہ نگاری کے حوالے سے نام کمایا۔ غزلیں تخلیق کیں اور جدید نظم نگاری کے امام قرار پائے۔
امجد اسلام امجد ادب اور ثقافت کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے۔ وہ ڈراما نگاری کی طرف آئے اور پی ٹی وی پر ان کے ڈرامے چلے تو تہلکہ مچ گیا۔ پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی ان کے ڈرامے اتنے شوق سے دیکھے جاتے تھے کہ سڑکیں ویران اور بازار سنسان نظرآتے تھے۔ کیونکہ ان کاڈراما چلنے سے پہلے لوگ اپنا تمام کام نمٹا نیکیبعد ٹی اسکرین کے سامنے آکر بیٹھ جایا کرتے تھے۔تاکہ پوری یکسوئی کے ساتھ ڈراما دیکھ سکیں۔
کئی اداکاروں کی شہرت کو ان کے لکھے ہوئے ڈراموں میں اپنے جوہر دکھانے کے باعث چار چاند لگے۔ پی ٹی وی پر امجد اسلام امجد کے ڈرامے وراث نے غیر معمولی مقبولیت سمیٹی۔ اداکار محبوب عالم نے چوہدری حشمت کا کردار اتنا ڈوب کرادا کیا کہ پھر ساری زندگی ان کے سر پرچوہدری حشمت سوار رہا۔
مجھے یاد ہے ادبی اور ثقافتی تنظیم قافلہ کے پڑاؤ بڑی باقاعدگی کے ساتھ شادمان لاہور میں ہوا کرتے تھے اور بڑے بڑے ادیب اورشاعر شریک ہوا کرتے تھے۔ ایسے ہی قافلے کے ایک پڑاؤ میں امجد اسلام امجد سے ان کا بہت ساکلام سنا گیا۔انہیں سال کا بہترین شاعر قراردیاگیا۔ اس محفل میں انہوں نے اپنا جوکلام سنایا ، لگتا ہے وہ اسی میں سے اپنی ایک خوبصور ت نظم اب بھی سنارہے ہیں۔
میرے ساتھی میرے غم خوار ذرا یاد کرو
اپنے بھولے ہوئے اقرار ذرا یاد کرو
ایسی ہی شام تھی جب مجھ سے کہا تھا تم نے
میں تمھارا ہوں، تمھارا ہی رہوں گا ہمدم
تجھ کوبھولوں تو مِری یاد میں تنویر نہ ہو
اے مِرے چاند مجھے ڈوبتے سورج کی قسم
مجھ سے کتنا تھا تمھیں پیار ذرا یاد کرو
اپنے بھولے ہوئے اقرار ذرا یاد کرو
وہ بھی دن تھے کہ مجھے دیکھے بنا چین تمھیں
آرزو خیز بہاروں میں نہیں آتا تھا
کس طرح پھول بنے خار ذرا یاد کرو
اپنے بھولے ہوئے اقرار ذرا یاد کرو
میرے ساتھی ، میرے غم خوار ذرا یاد کرو
اسی محفل میں انہوں نے ہفت روزہ آواز جرس کے خصوصی شمارے کیلئے آٹوگراف دیا اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اپنے شعر میں مجھ سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں
یہی بہت ہے کہ دل اْس کوڈھونڈ لایا ہے
کسی کے ساتھ سہی، وہ نظر تو آیا ہے
شاید اسی لئے وہ مجھے اپنا کلام سناتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ میں کیسے مان لوں کہ انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔یہ سچ ہے کہ زندگی فانی ہے لیکن اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاکہ جب کسی کی زندگی کاآفتاب ڈوب جاتا ہے تو اس کی یادوں کاسورج طلوع ہوجاتا ہے اور یہ اجالا مجھے اپنے ارد گرد محسوس ہورہاہے۔
امجد اسلام امجد اور عطاالحق قاسمی ہمیشہ ساتھ ساتھ نظر آتے تھے۔اب انہیں بھی ان کی یادوں کے اجالے کے ساتھ رہناہے۔
امجد کل بھی ادبی محفلوں کی جان تھے اور آئندہ جتنی بھی محفلیں سجیں گی ، انھیں یاد رکھا جائے گا۔ہم لائبریریوں میں جائیں گے تو وہاں الماریوں میں سجی ان کی کتابیں ہمیں ان کی یاد دلائیں گی۔ انہوں نے بڑی خوبصورت کتابیں لکھیں ، نثر میں بھی ،نظم میں بھی، چند ایک نام میرے لوح ِ ذہن پر روشن ہیں۔
مثلاً میرے بھی ہیں کچھ خواب، ہم اس کے ہیں، ساتواں در،عکس ، فشار، برزخ، عکس،ذرا پھرسے کہنا، منشایاد کے بہترین افسانے، گیت ہمارے ، آنکھوں میں تیرے سپنے، اور شہردرشہر، پھریوں ہوا۔ ہر کتاب کی اشاعت نے ان کی شہرت کوچار چاند لگائے۔ انہیں بے شمار اعزازات اور ایوارڈز سے بھی نواز اگیا۔ پرائیڈ آف پرفارمنس بھی ملا اور ستارہ ء امتیاز بھی ان کاطرہء امتیاز بنا۔ پی ٹی وی کے بہترین رائٹر کا ایوارڈ بھی انہوں نے پانچ بار اپنے نام کیا۔امجد اسلام امجد روزنامہ ایکسپریس میں چشم ِ تماشا کے زیرعنوان کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔
یہ سلسلہ انہوں نے یکم نومبر 2011 سے شروع کیا تھا اور علمی ، ادبی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ان کے کالم بہت پسند کئے جاتے تھے۔ اب قند ِ مکرر کے طور پر کچھ کالموں سے تو آپ فیضیا ب ہو سکیں گے لیکن یہ نہ سوچئے گا کہ امجد اسلام امجد اب نہیں رہے۔ مجھے اپنے والد بزرگوار سید فخر الدین بلے مرحوم کایہ شعر یادآرہاہے
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
دل نہیں مانتا ۔دماغ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ادبی دنیا کی فضائیں سوگوار ہیں لیکن میری یادوں کی تمام کھڑکیاں کھل گئی ہیں اورمیں انہیں خوبصورت غزلیں اور جذبوں سیسرشار نظمیں اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ وہ داد سمیٹ رہے ہیں اور پسندیدہ نظموں کا فرمائشی پروگرام بھی مسکرا کر پورا کررہے ہیں۔میں کیسے مان لوں کہ امجد اسلام امجد اب ہم میں نہیں رہے۔
وہ ادبی محفلوں کی جان بھی ہیں اور اردو ادب کا مان بھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امجد اسلام امجد اس عہد کی پہچان ہیں۔جو جو ادبی شخصیات اس عہد کی پہچان ہیں ، وہ ایک ایک کرکے رخصت ہورہی ہیں اور وہاں جارہی ہیں ، جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آتا۔ کیا واقعی امجد اسلام امجد بھی ہم سے دور چلے گئے ہیں ؟کیا ہم انہیں کبھی نہیں دیکھ سکیں گے؟
بہت سے سوال میرے دل اور دماغ میں سراٹھارہے ہیں اور میں ان کاجواب جاننا بھی نہیں چاہتا۔ کیونکہ امجد اسلام امجد ایک زند دل شخصیت کانام ہے۔ وہ اپنی تحریروں ، نظموں اور اپنی دھڑکتی غزلوں میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے تو میں کیسے مان لوں کہ امجد اسلام امجد اب ہم میں نہیں رہے۔
لاہور نے بڑی بڑی شخصیات کو عزت اور پہچان عطاکی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مضافات یا دوسرے شہروں سے آنے والوں کو پہچان ضرور ملی ہے۔ لاہور شہر نے اہم شعبوں میں بڑی ہستیاں کم ہی پیدا کی ہیں۔فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیرآغا ، عطا الحق قاسمی سمیت ادبی دنیا میں جتنے بڑے لوگ ہیں یا گزرے ہیں۔
ان میں سے بیشتر کا تعلق دوسرے شہروں سے تھا۔ اتنا ضرور ہے کہ لاہور نے انھیں شہرت، عزت اور مقبولت دی۔یایوں کہیے کہ جب ٹیلنٹڈ شخصیات کاتعلق لاہور سے قائم ہوا تو ان کے جوہر کھلے لیکن امجد اسلام امجد سچے اور پکے لاہوری ہیں۔
قیام ِ پاکستان سے تین سال دس دن پہلے 4 اگست 1944ء کو لاہور ہی میں آنکھ کھولی۔پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔
ادبی ذوق و شوق وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا چلاگیا۔تعلیم و تدریس سے وابستہ ہو گئے ۔نسل ِ نو کی ہمیشہ حوصلہ افزائی اور پذیرائی کی۔ اہم سرکاری عہدوں پر بھی فائز رہے ۔ ادب کے کئی شعبوں میں اپنے تخلیقی رنگ دکھائے۔ کتابیں لکھیں۔تراجم کئے۔کالم لکھے۔ تنقیداور ڈرامہ نگاری کے حوالے سے نام کمایا۔ غزلیں تخلیق کیں اور جدید نظم نگاری کے امام قرار پائے۔
امجد اسلام امجد ادب اور ثقافت کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے۔ وہ ڈراما نگاری کی طرف آئے اور پی ٹی وی پر ان کے ڈرامے چلے تو تہلکہ مچ گیا۔ پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی ان کے ڈرامے اتنے شوق سے دیکھے جاتے تھے کہ سڑکیں ویران اور بازار سنسان نظرآتے تھے۔ کیونکہ ان کاڈراما چلنے سے پہلے لوگ اپنا تمام کام نمٹا نیکیبعد ٹی اسکرین کے سامنے آکر بیٹھ جایا کرتے تھے۔تاکہ پوری یکسوئی کے ساتھ ڈراما دیکھ سکیں۔
کئی اداکاروں کی شہرت کو ان کے لکھے ہوئے ڈراموں میں اپنے جوہر دکھانے کے باعث چار چاند لگے۔ پی ٹی وی پر امجد اسلام امجد کے ڈرامے وراث نے غیر معمولی مقبولیت سمیٹی۔ اداکار محبوب عالم نے چوہدری حشمت کا کردار اتنا ڈوب کرادا کیا کہ پھر ساری زندگی ان کے سر پرچوہدری حشمت سوار رہا۔
مجھے یاد ہے ادبی اور ثقافتی تنظیم قافلہ کے پڑاؤ بڑی باقاعدگی کے ساتھ شادمان لاہور میں ہوا کرتے تھے اور بڑے بڑے ادیب اورشاعر شریک ہوا کرتے تھے۔ ایسے ہی قافلے کے ایک پڑاؤ میں امجد اسلام امجد سے ان کا بہت ساکلام سنا گیا۔انہیں سال کا بہترین شاعر قراردیاگیا۔ اس محفل میں انہوں نے اپنا جوکلام سنایا ، لگتا ہے وہ اسی میں سے اپنی ایک خوبصور ت نظم اب بھی سنارہے ہیں۔
میرے ساتھی میرے غم خوار ذرا یاد کرو
اپنے بھولے ہوئے اقرار ذرا یاد کرو
ایسی ہی شام تھی جب مجھ سے کہا تھا تم نے
میں تمھارا ہوں، تمھارا ہی رہوں گا ہمدم
تجھ کوبھولوں تو مِری یاد میں تنویر نہ ہو
اے مِرے چاند مجھے ڈوبتے سورج کی قسم
مجھ سے کتنا تھا تمھیں پیار ذرا یاد کرو
اپنے بھولے ہوئے اقرار ذرا یاد کرو
وہ بھی دن تھے کہ مجھے دیکھے بنا چین تمھیں
آرزو خیز بہاروں میں نہیں آتا تھا
کس طرح پھول بنے خار ذرا یاد کرو
اپنے بھولے ہوئے اقرار ذرا یاد کرو
میرے ساتھی ، میرے غم خوار ذرا یاد کرو
اسی محفل میں انہوں نے ہفت روزہ آواز جرس کے خصوصی شمارے کیلئے آٹوگراف دیا اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اپنے شعر میں مجھ سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں
یہی بہت ہے کہ دل اْس کوڈھونڈ لایا ہے
کسی کے ساتھ سہی، وہ نظر تو آیا ہے
شاید اسی لئے وہ مجھے اپنا کلام سناتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ میں کیسے مان لوں کہ انہیں سپرد خاک کردیا گیا۔یہ سچ ہے کہ زندگی فانی ہے لیکن اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاکہ جب کسی کی زندگی کاآفتاب ڈوب جاتا ہے تو اس کی یادوں کاسورج طلوع ہوجاتا ہے اور یہ اجالا مجھے اپنے ارد گرد محسوس ہورہاہے۔
امجد اسلام امجد اور عطاالحق قاسمی ہمیشہ ساتھ ساتھ نظر آتے تھے۔اب انہیں بھی ان کی یادوں کے اجالے کے ساتھ رہناہے۔
امجد کل بھی ادبی محفلوں کی جان تھے اور آئندہ جتنی بھی محفلیں سجیں گی ، انھیں یاد رکھا جائے گا۔ہم لائبریریوں میں جائیں گے تو وہاں الماریوں میں سجی ان کی کتابیں ہمیں ان کی یاد دلائیں گی۔ انہوں نے بڑی خوبصورت کتابیں لکھیں ، نثر میں بھی ،نظم میں بھی، چند ایک نام میرے لوح ِ ذہن پر روشن ہیں۔
مثلاً میرے بھی ہیں کچھ خواب، ہم اس کے ہیں، ساتواں در،عکس ، فشار، برزخ، عکس،ذرا پھرسے کہنا، منشایاد کے بہترین افسانے، گیت ہمارے ، آنکھوں میں تیرے سپنے، اور شہردرشہر، پھریوں ہوا۔ ہر کتاب کی اشاعت نے ان کی شہرت کوچار چاند لگائے۔ انہیں بے شمار اعزازات اور ایوارڈز سے بھی نواز اگیا۔ پرائیڈ آف پرفارمنس بھی ملا اور ستارہ ء امتیاز بھی ان کاطرہء امتیاز بنا۔ پی ٹی وی کے بہترین رائٹر کا ایوارڈ بھی انہوں نے پانچ بار اپنے نام کیا۔امجد اسلام امجد روزنامہ ایکسپریس میں چشم ِ تماشا کے زیرعنوان کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔
یہ سلسلہ انہوں نے یکم نومبر 2011 سے شروع کیا تھا اور علمی ، ادبی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ان کے کالم بہت پسند کئے جاتے تھے۔ اب قند ِ مکرر کے طور پر کچھ کالموں سے تو آپ فیضیا ب ہو سکیں گے لیکن یہ نہ سوچئے گا کہ امجد اسلام امجد اب نہیں رہے۔ مجھے اپنے والد بزرگوار سید فخر الدین بلے مرحوم کایہ شعر یادآرہاہے
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود