ترکیہ و شام زلزلے کی درد ناک تصاویر وائرل ہر آنکھ اشکبار
ٹنوں وزنی ملبے کے ڈھیر سے نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں کے زندہ ملنے پر اللہ اکبر کے نعروں سے فضا گونج اُٹھی
ترکیہ اور شام میں 6 فروری میں آنے والے زلزلے میں جاں بحق افراد کی تعداد 28 ہزار سے تجاوز کرگئی اور 85 ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں جب کی ریسکیو آپریشن میں اب بھی لوگوں کو معجزاتی طور پر زندہ نکالا جا رہا ہے جس کی تصاویر دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق ترکیہ میں زلزلے سے 24 ہزار سے زائد جبکہ شام میں 3 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور 85 ہزار سے زائد شہری زخمی ہیں۔
ترکیہ اور شام میں تین روز قبل 7.8 شدت کے قیامت خیز زلزلے کے بعد 8 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد شدید سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہوگئی۔
6 فروری سے جاری ریسکیو آپریشن کے دوران تاحال ملبے سے لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دونوں ممالک میں زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 50 ہزار تک بھی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب ملبے سے معجزاتی طور پر زندہ افراد کو بھی نکالا جا رہا ہے۔ چار دن بعد ملبے تلے دبے 10 دن کے بچے اور اس کی ماں کو زندہ نکالنے پر رضاکاروں کے حوصلے بلند ہوگئے اور لوگوں کے زندہ ملنے کی امیدیں جاگ اُٹھیں۔
جیسے ہی ملبے کے ڈھیر سے کسی زندہ شخص کا نکالا جاتا ہے فضا اللہ اکبر اور الحمد اللہ کے نعروں سے گونج اُٹھتی ہے۔ ہر چہرے پر خوشی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
ترکیہ اور شام میں زلزلے میں 5 ہزار سے زائد بلند و بالا رہائشی عمارتیں مٹی کا ڈھیر بن گئیں اور اسی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ معذور ہونے والوں کی تعداد بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
زلزلے میں چند نوزائیدہ بچے ملبے کے ڈھیر میں دبنے کے باوجود معجزاتی طور پر دو دو اور تین تین دن کے بعد زندہ حالت میں نکالے گئے۔ یہ مناظر دیکھ کر ہر ایک کی آنکھ اشکبار ہوگئی۔
بڑے بہن اور بھائیوں کے جذبہ ایثار کی مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ ایک بڑے اور بھاری سمینٹ کے پلر کے نیچے دبی ایک بچی جو بمشکل دس سال کی ہوگئی نے اپنی چھوٹی بہن کے سر کو اپنے نیچے دبایا ہوا تھا تاکہ اس کا سر زخمی نہ ہو۔
ٹنوں وزنی ملبے تلے ایک ایسے باپ کی لاش بھی ملی جسے ملبے سے نکالا گیا تو اس کی گود کی حصار میں ایک زندہ بچہ ملا۔ باپ نے خود کو قربان کرکے اپنے بچے کو بچالیا تھا۔
ملبے کے اندر ہی ایک ماں اپنے بچے کو جنم دیکر زندگی کی بازی ہار گئی لیکن وہ جو زندگی دیکر گئی اسے رضاکاروں نے بروقت نکال لیا۔ اس خاندان میں واحد یہ نومولود تھا جو زندہ بچا۔
زلزلے کے چار دن بعد ایک عمارت کے ملبے سے 10 دن کے نوزائیدہ بچے کو بھی زندہ نکالا گیا اور خوش قسمتی سے اس کی ماں بھی زندہ تھی۔ دنوں ایک اور زندگی پانے پر بے پناہ خوش تھے۔
زلزلے میں لاچارگی اور بے بسی کی کئی داستانیں رقم ہوئیں۔ ایک باپ کو پوری رات ملبے کے ڈھیر پر بیٹھا دیکھا گیا جس نے ایک ہاتھ سے ملبے کے اندر بری طرح دبی 14 سالہ بیٹی کے ہاتھ کو تھامے رکھا تھا۔ بیٹی امداد ملنے سے قبل جان کی بازی ہار گئی لیکن باپ نے بیٹی کا ہاتھ نہ چھوڑا۔
جذبہ ایمانی کے ساتھ موت اور جاں بلب کلمہ کی توفیق ملنا بھی ایک طرح کی خوش نصیبی ہی ہے۔ پہلی منزل پر ملبے میں آدھے دبے اور آدھے لٹکے بیٹے کو بچاتے باپ کو دیکھا گیا۔ بیٹا جب دم توڑنے لگتا ہے تو باپ اسے کلمہ پڑھنے کی تاکید کرتا ہے۔
جاں بحق ہونے والوں کی اجتماعی تدفن کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ زخمیوں کو اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔ زلزلے سے متاثر ہونے والوں کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل کے لیے تھراپیز بھی کروائی جائیں گی۔
زلزلے کے اثرات آہستہ آہستہ ختم ہوجائیں گے۔ عمارتیں دوبارہ تعمیر ہوجائیں گی، شہر آباد ہوجائیں گے۔ رونقیں بھی بحال ہوجائیں گی لیکن یہ ناقابل فراموش ناگہانی آفت جن کے پیاروں کو نگل گئی وہ زندگی بھر ایک خلش محسوس کرتے رہیں گے۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے۔ آسمان کو چھوتی عمارتوں اور کنکریٹ کے جنگل آباد کرنے کے بجائے مکانوں کی تعمیر کے لیے ایسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں جانی نقصان کم سے کم ہو۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق ترکیہ میں زلزلے سے 24 ہزار سے زائد جبکہ شام میں 3 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور 85 ہزار سے زائد شہری زخمی ہیں۔
ترکیہ اور شام میں تین روز قبل 7.8 شدت کے قیامت خیز زلزلے کے بعد 8 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد شدید سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہوگئی۔
6 فروری سے جاری ریسکیو آپریشن کے دوران تاحال ملبے سے لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دونوں ممالک میں زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 50 ہزار تک بھی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب ملبے سے معجزاتی طور پر زندہ افراد کو بھی نکالا جا رہا ہے۔ چار دن بعد ملبے تلے دبے 10 دن کے بچے اور اس کی ماں کو زندہ نکالنے پر رضاکاروں کے حوصلے بلند ہوگئے اور لوگوں کے زندہ ملنے کی امیدیں جاگ اُٹھیں۔
جیسے ہی ملبے کے ڈھیر سے کسی زندہ شخص کا نکالا جاتا ہے فضا اللہ اکبر اور الحمد اللہ کے نعروں سے گونج اُٹھتی ہے۔ ہر چہرے پر خوشی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
ترکیہ اور شام میں زلزلے میں 5 ہزار سے زائد بلند و بالا رہائشی عمارتیں مٹی کا ڈھیر بن گئیں اور اسی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ معذور ہونے والوں کی تعداد بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
زلزلے میں چند نوزائیدہ بچے ملبے کے ڈھیر میں دبنے کے باوجود معجزاتی طور پر دو دو اور تین تین دن کے بعد زندہ حالت میں نکالے گئے۔ یہ مناظر دیکھ کر ہر ایک کی آنکھ اشکبار ہوگئی۔
بڑے بہن اور بھائیوں کے جذبہ ایثار کی مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ ایک بڑے اور بھاری سمینٹ کے پلر کے نیچے دبی ایک بچی جو بمشکل دس سال کی ہوگئی نے اپنی چھوٹی بہن کے سر کو اپنے نیچے دبایا ہوا تھا تاکہ اس کا سر زخمی نہ ہو۔
ٹنوں وزنی ملبے تلے ایک ایسے باپ کی لاش بھی ملی جسے ملبے سے نکالا گیا تو اس کی گود کی حصار میں ایک زندہ بچہ ملا۔ باپ نے خود کو قربان کرکے اپنے بچے کو بچالیا تھا۔
ملبے کے اندر ہی ایک ماں اپنے بچے کو جنم دیکر زندگی کی بازی ہار گئی لیکن وہ جو زندگی دیکر گئی اسے رضاکاروں نے بروقت نکال لیا۔ اس خاندان میں واحد یہ نومولود تھا جو زندہ بچا۔
زلزلے کے چار دن بعد ایک عمارت کے ملبے سے 10 دن کے نوزائیدہ بچے کو بھی زندہ نکالا گیا اور خوش قسمتی سے اس کی ماں بھی زندہ تھی۔ دنوں ایک اور زندگی پانے پر بے پناہ خوش تھے۔
زلزلے میں لاچارگی اور بے بسی کی کئی داستانیں رقم ہوئیں۔ ایک باپ کو پوری رات ملبے کے ڈھیر پر بیٹھا دیکھا گیا جس نے ایک ہاتھ سے ملبے کے اندر بری طرح دبی 14 سالہ بیٹی کے ہاتھ کو تھامے رکھا تھا۔ بیٹی امداد ملنے سے قبل جان کی بازی ہار گئی لیکن باپ نے بیٹی کا ہاتھ نہ چھوڑا۔
جذبہ ایمانی کے ساتھ موت اور جاں بلب کلمہ کی توفیق ملنا بھی ایک طرح کی خوش نصیبی ہی ہے۔ پہلی منزل پر ملبے میں آدھے دبے اور آدھے لٹکے بیٹے کو بچاتے باپ کو دیکھا گیا۔ بیٹا جب دم توڑنے لگتا ہے تو باپ اسے کلمہ پڑھنے کی تاکید کرتا ہے۔
جاں بحق ہونے والوں کی اجتماعی تدفن کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ زخمیوں کو اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے۔ زلزلے سے متاثر ہونے والوں کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل کے لیے تھراپیز بھی کروائی جائیں گی۔
زلزلے کے اثرات آہستہ آہستہ ختم ہوجائیں گے۔ عمارتیں دوبارہ تعمیر ہوجائیں گی، شہر آباد ہوجائیں گے۔ رونقیں بھی بحال ہوجائیں گی لیکن یہ ناقابل فراموش ناگہانی آفت جن کے پیاروں کو نگل گئی وہ زندگی بھر ایک خلش محسوس کرتے رہیں گے۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے۔ آسمان کو چھوتی عمارتوں اور کنکریٹ کے جنگل آباد کرنے کے بجائے مکانوں کی تعمیر کے لیے ایسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں جانی نقصان کم سے کم ہو۔