آئی ایم ایف اور معیشت

حکومت منی بجٹ لانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ چار ماہ میں 170 بلین مزید ریونیو حاصل کیا جا سکے


Editorial February 12, 2023
حکومت منی بجٹ لانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ چار ماہ میں 170 بلین مزید ریونیو حاصل کیا جا سکے۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعہ کے روز بلائی گئی ہنگامی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ حکومت منی بجٹ لانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ چار ماہ میں 170 بلین مزید ریونیو حاصل کیا جا سکے، بجلی اور گیس سیکٹر میں بھی ریفام لائی جائیں گی تاکہ گردشی قرضوں کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔

انھوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ فنڈ کے ساتھ تمام معاملات طے پا گئے ہیں۔ ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے چار ماہ کے لیے بجلی کے گھریلو صارفین پر 3.39 روپے فی یونٹ سرچارج عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یوں گھریلو صارفین کے لیے بجلی کا فی یونٹ 7 روپے مہنگا ہو جائے گا۔

حکومت نیایکسپورٹرز کے لیے 12.13 روپے فی یونٹ بجلی پر سبسڈی واپس لینے کی بھی منظوری دے دی ہے، اس کا اطلاق مارچ 2023 سے ہو گا تاکہ مزید 51 ارب روپے بچائے جا سکیں۔

صنعتی صارفین بھی 3.39 روپے فی یونٹ سرچارج سے متاثر ہوں گے، جس سے ان کے لیے 15.52 روپے فی یونٹ کا مجموعی اضافہ ہوگا، اس اضافے سے چار ماہ میں اضافی 237 ارب روپے وصول کیے جائیں گے تاہم گردشی قرضوں کا حجم پھر بھی 2.37 ٹریلین روپے تک پہنچ جائے گا، بجلی نرخوں میں اضافے کا فیصلہ پاور سیکٹر سے متعلق آئی ایم ایف شرائط کے تحت پیشگی اقدامات نافذ کرنے کی جانب پہلا اہم قدم ہے۔

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے برآمد کنندگان اور کسانوں کے لیے سبسڈی واپس لے کر براہ راست ٹیرف میں اضافے اور بالواسطہ اضافے کے ذریعے صارفین پر 237 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی منظوری دے دی ہے، ابھی نظرثانی شدہ سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان میں 335 ارب روپے کی اضافی سبسڈیز ظاہر کی گئی ہیں، جس سے حجم 2.34 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے۔

نظرثانی شدہ پلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ گردشی قرضہ جو قبل ازیں 2.1ٹریلین روپے کم ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا اب بڑھ کر 2.374 ٹریلین روپے ہو جائے گا، بجلی کی قیمتوں میں زبردست اضافے کے باوجود 261 ارب روپے کا اضافہ ہو گا، نظرثانی شدہ پلان اس سے مختلف ہے جو گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف کو پیش کیا گیا تھا، جس میں آئی ایم ایف کی تجاویز کو شامل کیا گیا تھا جس میں برآمد کنندگان اور کسانوں کے لیے بجلی سبسڈی کی واپسی بھی شامل تھی۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ای سی سی کے اجلاس میں پیراسیٹامول کی قیمت بڑھانے سمیت اٹھارہ نئی ادویات کی زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمت مقرر کرنے کی منظوری دے دی، 20 ادویات کی زیادہ سے زیادہ قیمتوں میں کمی کی منظوری دے دی، اس کے علاوہ بجلی کے بڑے صارفین سے 76ارب روپے وصول کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے جس کے لیے بجلی کے بڑے صارفین پر ایک روپیہ فی یونٹ سرچارج عائد ہوگا، سرچارج کا اطلاق کے الیکٹرک کے صارفین پر بھی ہو گا۔

ای سی سی نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کمرشل صارفین کے لیے ستمبر 2022 کے مہینے کے بجلی کے بلوں کو اگلے بلنگ سائیکل تک موخر کر دیا اور ای سی سی نے سیلاب متاثرہ علاقوں کے 300یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے لیے اگست اور ستمبر 2022 کے مہینوں کے بجلی کے بل معاف کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے جس کے لیے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے 10 ارب سے زائد کے بجلی کے بل معاف کرتے ہوئے بلوں کے لیے 10ارب 34کروڑ کی گرانٹ منظور کی گئی۔

ای سی سی وزارت دفاع کے لیے 45 کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کی گئی ہے، ای سی سی نے نظرثانی شدہ سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان کی بھی منظوری اور کامیاب پاکستان پروگرام کی بھی منظوری دے دی ہے، اس کے علاوہ ای سی سی نے ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کی سفارش پر 20 ادویات کی زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمتوں میں کمی کی بھی منظوری دے دی ہے۔

اجلاس میں وزارت توانائی (پاور ڈویژن) کی جانب سے پاورہولڈنگ لمیٹڈ کے قرض کی ری فنانسنگ اور مارک اپ ادائیگیوں کی وصولی کے لیے سرچارج کے بارے پیش کردہ سمری کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا اور تفصیلی غور کے بعد منظوری دے دی جس کے لیے ای سی سی نے 76 ارب روپے ریکور کرنے کی منظوری دی ہے۔

آئی ایم ایف مشن کے دورہ پاکستان کے اختتام پر وزارت خزانہ میں میڈیا کوبریفنگ دیتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ اسحاق ڈارنے کہا ہے کہ آئی ایم ایف مشن کے ساتھ بات چیت مکمل ہوچکی، شرائط پر اتفاق ہو گیا، حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ میں پرعزم ہے۔

آئی ایم ایف بورڈکی منظوری کے بعد پاکستان کو 1.2 ارب ڈالرکی قسط مل جائے گی، آئی ایم ایف کے ساتھ جن امورکوحتمی شکل دی گئی ہے ان کے مطابق 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے مگراس بات کویقینی بنایا جائے گا کہ اس کا بوجھ براہ راست عام آدمی پرنہ پڑے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے آئی ایم ایف مشن کے دورے کے اختتام پرجاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اندرونی اور بیرونی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے پالیسی اقدامات پر خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے، پالیسیوں کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کے لیے پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل بات چیت جاری رہے گی۔

پاکستان میں جو معاشی بحران ہے، اس کے نتیجے میں ملک کے دیوالیہ ہونے کے حوالے سے جو باتیں کی جا رہی تھیں، وہ اب ختم ہو گئی ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں موجودہ حکومت نے بھی تاخیر کی ہے۔ اگر تین چار ماہ قبل ہی معاملات طے کر لیے جاتے تو اب تک معیشت اپنے ٹریک پر واپس آ چکی ہوتی۔

بہرحال اب بھی صورت حال بہت زیادہ اچھی نہیں ہے، عوام خصوصاً درمیانہ طبقہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت کے پاس ایسے آپشنز بہت کم ہیں جن کے ذریعے وہ مڈل کلاس پر اضافی بوجھ ڈالنے کی بجائے دیگر شعبوں سے ٹیکس وصول کرے۔

پاکستان میں کاروباری اور تاجر طبقے کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ پورا ٹیکس نہیں دے رہا۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا بھی ٹیکس اکٹھا ہو رہا ہے، وہ اسی کاروباری اور تاجر طبقے سے لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ انکم ٹیکس کی مد میں تنخواہ دار طبقہ شامل ہے۔

اس کے علاوہ پروفیشنلز کے اوپر بھی ٹیکس عائد ہے، یوں آ جا کے یہی مخصوص طبقے ہیں جن سے مزید ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا۔ یہ ٹیکس چاہے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر کے لیا جائے، گیس کے نرخوں میں اضافہ کر کے لیا جائے اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کر کے لیا جائے، یہ سارے ٹیکس عام آدمی بالخصوص درمیانے طبقے پر زیادہ عائد ہوتے ہیں۔

اس طرح مینوفیکچررز اور ریٹیلرز پر جو جی ایس ٹی عائد ہوتا ہے، وہ بھی اینڈ یوزر یعنی گاہک کی جیب سے جاتا ہے۔ ایک مزدور بھی دکان سے پیکٹ میں بند جو بھی چیز خریدتا ہے، اس کی قیمت میں ایکسائز ڈیوٹی اور جی ایس ٹی شامل ہوتا ہے۔

پاکستان کے محصولات کو بڑھانے کے لیے ایسے سیکٹرز کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے جو ابھی تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ملک بھر میں خیراتی اداروں کی بھرمار ہے۔ یہ خیراتی ادارے عوام سے چندے کے نام پر پیسے بھی اکٹھے کرتے ہیں اور بیرون ملک سے اپنے ادارے یا ٹرسٹ کے لیے مشینری وغیرہ بھی درآمد کرتے ہیں۔ ان پر ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے نام پر بھی ایسے اداروں کی بھرمار ہے جو بھاری فیسیں بھی لیتے ہیں اور انھیں ٹیکس وغیرہ میں بھی رعایت ملتی ہے۔

کئی خیراتی اسپتال ہیں جن کی کمرشل بنیادوں پر ٹیسٹ لیبارٹریز کام کر رہی ہیں۔ ان لیبارٹریز میں مختلف ٹیسٹوں کی لاگت بھی زیادہ ہے۔ پاکستان کو اب اس قسم کے رفاعی اداروں اور وقف اداروں کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

اگر کوئی شخص یا خاندان یا کوئی کاروباری ادارہ اپنے خاندان کے نام یا ادارے کے نام پر کوئی خیراتی ادارہ بناتا ہے تو اسے عام لوگوں سے چندہ یا فنڈز مانگنے اور وصول کرنے سے روکا جانا چاہیے۔ اگر کوئی شخص یا خاندان یا ادارہ ٹرسٹ قائم کرتا ہے تو اس کا خرچہ بھی خود اپنی جیب سے ادا کرے کیونکہ نیکی اور ثواب کا تقاضا یہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔