توشہ خانہ اور ریاست مدینہ
اسلامی مملکت پاکستان کے ہر قانون کا ماخذ قرآن و حدیث اور اطاعت خدا اور رسولؐ اللہ ﷺ کے سوا کچھ اور نہیں ہے
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان نے کہیں کسی عالم کی تصنیف میں '' ریاست مدینہ '' اصطلاح پڑھ یا سن لی اور پھر انھیں یہ اصطلاح وظیفۂ لب کے لیے بڑی اچھی لگی ، چناں چہ وہ اپنے سیاسی مواعظ میں اکثر و بیش تر یہ اصطلاح استعمال کرتے رہتے ہیں اور اپنے بعض اقدامات کو ریاست مدینہ سے ماخوذ قرار دیتے ہیں۔
بات تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ ایک نہایت آئیڈیل صورتحال ہے اور اس تک رسائی کے لیے کوشاں رہنا ایک الگ بات ہے اور اس تک پہنچ جانا آج کے اس دور میں محض خواب و خیال ہے۔ یہ بڑی دشواری اور اوگھٹ گھاٹی ہے، کیوں کہ ریاست مدینہ کے ابتدائی حکمراں جس طرح کی زندگی گزارتے تھے، ویسی زندگی آج اور اس معاشرے میں گزارنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور شاید یہ ہمت اللہ تعالیٰ نے صرف انھی کو عطا کی تھی۔
وہ مسجد نبویؐ کے فرش پر سوتے بھی تھے، وہیں سے امور سلطنت بھی انجام دیا کرتے تھے، جب کہ ان حکمرانوں کے اپنے گھر بے سر و سامانی کا نمونہ ہوا کرتے تھے اور انھی کا عہد ریاست مدینہ کا عہد زریں کہلاتا تھا۔ اب سیکڑوں کنال کی زمین پر شان دار، پرتکلف آرام دہ اور ہر طرح کی آرائش سے آراستہ آرام گاہوں میں رہنے والے حکمراں کو ریاست مدینہ کا حوالہ دینے میں بھی بہت احتیاط برتنا چاہیے۔
مشعل راہ کے لیے ضرور ہمیں اس جانب دیکھنا چاہیے، کیوں کہ بہ حیثیت مسلمان اور پھر ایک اسلامی ریاست کا حکمراں ہو کر ہمیں اپنے اسلاف ہی سے رجوع کرنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ عملی جدوجہد اور کوشش اور اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ اس کی نظیر دکھائی بھی دینی چاہیے، یہ نہ ہو کہ زبان پر ریاست مدینہ کا ورد ہو اورعملی طور پر معاملہ خراب دکھائی دے، جس سے الٹا ایک اچھے تصور کی بے ادبی ہونے لگے۔
ٹھیک ہے آپ ضرور ریاست مدینہ کی بات کریں، لیکن اس کے لیے خود کو عملی طور پر ڈھالنے کی سعی و کوشش بھی تو کیجیے، اتنی آرام دہ اور پرتعیش زندگی کے ساتھ آپ کیسے خاک پر بسر کرنے والی عظیم ہستیوں کی ریاست کے قریب ہونے کا دعویٰ تو کجا خواہش بھی کرسکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں عملی طور پر بھی اس کی نظیر ملنی چاہیے۔
اب ریاست مدینہ کا ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت ابو حمید ساعدی کہتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ نے ایک شخص کو زکوٰۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر فرمایا ، جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا '' یہ زکوٰۃ کا مال تو آپؐ کے لیے اور یہ مجھے تحفے میں ملا ہے۔ یہ سن کر رسول اکرمؐ مسند پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا '' عامل کا کیا معاملہ ہے کہ ہم اسے وصولی کے لیے بھیجیں تو جب (وہ زکوٰۃ کا مال لے کر) واپس آئے اور پھر یہ کہے کہ یہ مال آپ کے لیے ہے اور یہ مجھے تحفے میں دیا گیا ہے۔ کیوں نہیں، وہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتا ہے کہ نہیں۔ تم میں سے کوئی شخص جو چیز لے گا وہ اسے قیامت کے دن لے کر آئے گا ، اگر اونٹ ہوگا ، تو وہ بِلبلا رہا ہوگا ، اگر بیل ہوگا تو ڈکار رہا ہوگا ، اگر بکری ہوگی تو ممیا رہی ہوگی۔'' (سنن ابو داؤد، رقم 2946)
یہ ریاست مدینہ کے قائم کرنے والے رسول اللہ ﷺ کا مقرر کردہ ضابطہ ہے کہ کوئی شخص جسے سرکاری عہدہ دیا گیا ہو اور کار منصبی سونپا گیا ہو وہ کوئی تحفہ وصول نہیں کر سکتا۔ اگر اسے کوئی تحفہ مل بھی گیا، تو وہ اس کی سرکاری حیثیت کے سبب ہے ، اس لیے وہ حکومت کا مال ہے اور وہ اسے حکمراں وقت یا سیاسی ادارے کے سپرد کرنے کا پابند ہے۔
اب ریاست مدینہ میں کوئی عامل یا سرکاری عہدہ رکھنے والا کوئی شخص کوئی تحفہ وصول کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس لیے ریاست مدینہ میں ہر تحفہ ریاست کی ملکیت ہے اور اسے '' توشہ خانہ '' کی زینت بنانا ہوگا۔
پاکستانی حکومت نے '' توشہ خانہ '' کے قوانین میں یہ قانون بنا دیا کہ اگر عامل تحفہ لینا چاہے اور اپنی ملکیت میں رکھنا چاہے، تو وہ اس کی تخمینی قیمت کا 20 فی صد دے کر اسے اپنی ملکیت میں رکھ سکتا ہے۔ بظاہر یہ آزادی سے قبل انگریز قوانین کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ جہاں تک ریاست مدینہ کا تعلق ہے اس کا کوئی عامل کوئی تحفہ قبول نہیں کر سکتا اور اگر اسے تحفہ مل بھی جائے، تو وہ ریاست مدینہ کے '' توشہ خانے'' کی ملکیت ہوتا ہے۔اس لیے ریاست مدینہ کے حوالے کے بغیر آپ اپنے بتائے ہوئے قوانین کی روشنی میں توشہ خانے کے تحائف کے معاملات کو نمٹائیں۔
یہ خیال رہے کہ توشہ خانہ کے موجودہ قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین ہیں، بلکہ زیادہ درست بات یہ ہے کہ یہ ہمارے پرانے آقاؤں کے مرتب کردہ قوانین ہیں، جن پر عمل درآمد ایام غلامی کی یاد دلاتے رہتے ہیں، جب کہ ریاست مدینہ کے قوانین خدا کے احکام ، رسولؐ کی تعبیر و تشریح اور خلفائے راشدین کے انتہائی محتاط رویے کے آئینہ دار ہیں۔
صرف '' توشہ خانہ '' کی بات تو برائے بات نکل آئی ہے، ورنہ اسلامی مملکت پاکستان کے ہر قانون کا ماخذ قرآن و حدیث اور اطاعت خدا اور رسولؐ اللہ ﷺ کے سوا کچھ اور نہیں ہے، مگر ہم نے اپنے دستور اور قانون کو قرآن و حدیث کے تابع کرنے کا ارادہ ہی کب کیا ہے کہ ریاست مدینہ جیسی بلکہ یوں کہیے کہ اس کے مشابہ ریاست وجود میں آسکے۔
اس لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی اگر ایسی مقدس اصطلاحات استعمال کرے ، تو بہت احتیاط کرے ، آئیڈیل اور راہ نما صورت قرار دینا یقیناً ایک اچھا عمل ہے، لیکن ایسا کرنا اپنے آپ میں ایک محاسبے کا راستہ بھی کھولتا ہے کہ آپ بنیادی طور پر اس منزل کو پانے کی یا اس طرف کی جستجو میں کتنا اخلاص دکھاتے ہیں۔ صرف زبانی کلامی کہہ دینا اکثر اس مثال کے حوالے اور مرتبے کے لیے مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
بات تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ ایک نہایت آئیڈیل صورتحال ہے اور اس تک رسائی کے لیے کوشاں رہنا ایک الگ بات ہے اور اس تک پہنچ جانا آج کے اس دور میں محض خواب و خیال ہے۔ یہ بڑی دشواری اور اوگھٹ گھاٹی ہے، کیوں کہ ریاست مدینہ کے ابتدائی حکمراں جس طرح کی زندگی گزارتے تھے، ویسی زندگی آج اور اس معاشرے میں گزارنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور شاید یہ ہمت اللہ تعالیٰ نے صرف انھی کو عطا کی تھی۔
وہ مسجد نبویؐ کے فرش پر سوتے بھی تھے، وہیں سے امور سلطنت بھی انجام دیا کرتے تھے، جب کہ ان حکمرانوں کے اپنے گھر بے سر و سامانی کا نمونہ ہوا کرتے تھے اور انھی کا عہد ریاست مدینہ کا عہد زریں کہلاتا تھا۔ اب سیکڑوں کنال کی زمین پر شان دار، پرتکلف آرام دہ اور ہر طرح کی آرائش سے آراستہ آرام گاہوں میں رہنے والے حکمراں کو ریاست مدینہ کا حوالہ دینے میں بھی بہت احتیاط برتنا چاہیے۔
مشعل راہ کے لیے ضرور ہمیں اس جانب دیکھنا چاہیے، کیوں کہ بہ حیثیت مسلمان اور پھر ایک اسلامی ریاست کا حکمراں ہو کر ہمیں اپنے اسلاف ہی سے رجوع کرنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ عملی جدوجہد اور کوشش اور اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ اس کی نظیر دکھائی بھی دینی چاہیے، یہ نہ ہو کہ زبان پر ریاست مدینہ کا ورد ہو اورعملی طور پر معاملہ خراب دکھائی دے، جس سے الٹا ایک اچھے تصور کی بے ادبی ہونے لگے۔
ٹھیک ہے آپ ضرور ریاست مدینہ کی بات کریں، لیکن اس کے لیے خود کو عملی طور پر ڈھالنے کی سعی و کوشش بھی تو کیجیے، اتنی آرام دہ اور پرتعیش زندگی کے ساتھ آپ کیسے خاک پر بسر کرنے والی عظیم ہستیوں کی ریاست کے قریب ہونے کا دعویٰ تو کجا خواہش بھی کرسکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں عملی طور پر بھی اس کی نظیر ملنی چاہیے۔
اب ریاست مدینہ کا ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت ابو حمید ساعدی کہتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ نے ایک شخص کو زکوٰۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر فرمایا ، جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا '' یہ زکوٰۃ کا مال تو آپؐ کے لیے اور یہ مجھے تحفے میں ملا ہے۔ یہ سن کر رسول اکرمؐ مسند پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا '' عامل کا کیا معاملہ ہے کہ ہم اسے وصولی کے لیے بھیجیں تو جب (وہ زکوٰۃ کا مال لے کر) واپس آئے اور پھر یہ کہے کہ یہ مال آپ کے لیے ہے اور یہ مجھے تحفے میں دیا گیا ہے۔ کیوں نہیں، وہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتا ہے کہ نہیں۔ تم میں سے کوئی شخص جو چیز لے گا وہ اسے قیامت کے دن لے کر آئے گا ، اگر اونٹ ہوگا ، تو وہ بِلبلا رہا ہوگا ، اگر بیل ہوگا تو ڈکار رہا ہوگا ، اگر بکری ہوگی تو ممیا رہی ہوگی۔'' (سنن ابو داؤد، رقم 2946)
یہ ریاست مدینہ کے قائم کرنے والے رسول اللہ ﷺ کا مقرر کردہ ضابطہ ہے کہ کوئی شخص جسے سرکاری عہدہ دیا گیا ہو اور کار منصبی سونپا گیا ہو وہ کوئی تحفہ وصول نہیں کر سکتا۔ اگر اسے کوئی تحفہ مل بھی گیا، تو وہ اس کی سرکاری حیثیت کے سبب ہے ، اس لیے وہ حکومت کا مال ہے اور وہ اسے حکمراں وقت یا سیاسی ادارے کے سپرد کرنے کا پابند ہے۔
اب ریاست مدینہ میں کوئی عامل یا سرکاری عہدہ رکھنے والا کوئی شخص کوئی تحفہ وصول کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس لیے ریاست مدینہ میں ہر تحفہ ریاست کی ملکیت ہے اور اسے '' توشہ خانہ '' کی زینت بنانا ہوگا۔
پاکستانی حکومت نے '' توشہ خانہ '' کے قوانین میں یہ قانون بنا دیا کہ اگر عامل تحفہ لینا چاہے اور اپنی ملکیت میں رکھنا چاہے، تو وہ اس کی تخمینی قیمت کا 20 فی صد دے کر اسے اپنی ملکیت میں رکھ سکتا ہے۔ بظاہر یہ آزادی سے قبل انگریز قوانین کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ جہاں تک ریاست مدینہ کا تعلق ہے اس کا کوئی عامل کوئی تحفہ قبول نہیں کر سکتا اور اگر اسے تحفہ مل بھی جائے، تو وہ ریاست مدینہ کے '' توشہ خانے'' کی ملکیت ہوتا ہے۔اس لیے ریاست مدینہ کے حوالے کے بغیر آپ اپنے بتائے ہوئے قوانین کی روشنی میں توشہ خانے کے تحائف کے معاملات کو نمٹائیں۔
یہ خیال رہے کہ توشہ خانہ کے موجودہ قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین ہیں، بلکہ زیادہ درست بات یہ ہے کہ یہ ہمارے پرانے آقاؤں کے مرتب کردہ قوانین ہیں، جن پر عمل درآمد ایام غلامی کی یاد دلاتے رہتے ہیں، جب کہ ریاست مدینہ کے قوانین خدا کے احکام ، رسولؐ کی تعبیر و تشریح اور خلفائے راشدین کے انتہائی محتاط رویے کے آئینہ دار ہیں۔
صرف '' توشہ خانہ '' کی بات تو برائے بات نکل آئی ہے، ورنہ اسلامی مملکت پاکستان کے ہر قانون کا ماخذ قرآن و حدیث اور اطاعت خدا اور رسولؐ اللہ ﷺ کے سوا کچھ اور نہیں ہے، مگر ہم نے اپنے دستور اور قانون کو قرآن و حدیث کے تابع کرنے کا ارادہ ہی کب کیا ہے کہ ریاست مدینہ جیسی بلکہ یوں کہیے کہ اس کے مشابہ ریاست وجود میں آسکے۔
اس لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی اگر ایسی مقدس اصطلاحات استعمال کرے ، تو بہت احتیاط کرے ، آئیڈیل اور راہ نما صورت قرار دینا یقیناً ایک اچھا عمل ہے، لیکن ایسا کرنا اپنے آپ میں ایک محاسبے کا راستہ بھی کھولتا ہے کہ آپ بنیادی طور پر اس منزل کو پانے کی یا اس طرف کی جستجو میں کتنا اخلاص دکھاتے ہیں۔ صرف زبانی کلامی کہہ دینا اکثر اس مثال کے حوالے اور مرتبے کے لیے مناسب نہیں معلوم ہوتا۔