قربانی عوام دیں گے
ان کرپٹ حکمرانوں اور کرپٹ سرکاری افسران کو دی گئی مراعات، جو ان کے تنخواہوں کے علاوہ ہیں، ان سے واپس لے لی جائیں
ایک خبر کے مطابق اب تندوری نان 25 روپے اور چپاتی 20 روپے میں بیچی جا رہی ہے ، جب کہ نارمل پراٹھا50 روپے کا بیچا جا رہا ہے ، ویسے تو ہر چیز کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں لیکن روٹی وہ چیز ہے جس کی ہر زندہ شخص کو ضرورت ہے۔
اب ایک دیہاڑی پر کام کرنے والا مزدور دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھرکر نہیں کھا پائے گا۔ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس کا بوجھ بھی عوام پر ہی ڈالا جائے گا۔ ہمارے وفاقی وزیر خزانہ بڑے پرجوش ہیں لیکن اٹھانوے فیصد عوام کی نیندیں اڑ گئی ہیں کیونکہ اس ممکنہ معاہدے کے بعد مہنگائی کا جو طوفان اٹھے گا وہ جانے کتنے خاندانوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے ، لیکن حکمران طبقے کی مراعات اور شاہ خرچیاں نہ کبھی کم ہوئیں اور نہ آیندہ ہوں گی۔
ہمارا قومی مسئلہ اس وقت روٹی اور دیگر اشیاء کی کمر توڑ مہنگائی پر سوچنا نہیں ہے بلکہ اس وقت حکمرانوں کے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں کیسے آئے؟ تحریک اعتماد یا عدم اعتماد کے لیے دوسری پارٹی کے ارکان کو کیسے توڑا جائے؟ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پر جھوٹے مقدمات بنوا کر اپنا انتقام کیسے لیا جائے۔ کروڑوں روپے خرچ کر کے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی مہم کس طرح چلائی جائے ؟
خود کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں سفر کر کے عوام کو سادگی کا درس کیسے دیا جائے؟ انھیں اس سے غرض نہیں ہے کہ کسی باپ نے بے روزگاری سے تنگ آکر کہیں خود اور کہیں اپنے پورے خاندان کے ساتھ خود کشی کر لی ہے ، بلکہ انھیں تو یہ فکر ہے کہ سرکاری فنڈز کا اجراء کروا کر کسی طرح اس کو اپنے ذاتی معاملات کے لیے استعمال کیا جائے؟
ملکی حالات ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن ان کرپٹ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کی عیاشیاں اور شاہ خرچیاں ختم ہوکر ہی نہیں دی رہیں جنہوں نے اپنی بدعنوانی سے اتنا مال اکٹھا کر لیا ہے کہ ان کی آنے والی سات پشتیں بھی کھائیں تو ختم نہ ہو لیکن اس کے باوجود بھی لاکھوں کو کروڑ اور کروڑوں کو ارب بنانے کی لالچ ختم ہو کر ہی نہیں دے رہی کیونکہ بقول شخصے '' جو خون منہ کو لگ گیا ہے وہ کیسے چھوٹ سکتا ہے۔''
سیاستدانوں کو ہمیشہ حکومت میں رہنے کی فکر اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ غریب اور بے روزگار عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہ ان کی سرکاری وسائل اور پروٹوکول کی بھوک ہے جو ختم ہو کر ہی نہیں دے رہی۔ ان کی اس کرپشن میں کرپٹ بیوروکریسی برابر کی شریک جو ان کی خواہشات پر سرکاری وسائل اور فنڈز میں اربوں کی ہیر پھیر صرف کر کے انھیں دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنا '' حصہ بقدر جثہ '' نکال لیتے ہیں۔
اس کرپٹ ٹولے کو مہنگائی اس لیے نظر نہیں آتی ، کیونکہ انھوں نے اپنی ضروریات زندگی حلال کمائی سے تو کبھی خریدی ہی نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کی گھر کے کچن کا سامان بھی کوئی نہ کوئی سرکاری افسر یا تو مفت بھجوا دیتا ہے یاوہ رشوت کی کمائی سے خریدا جاتا ہے ، اگر یہ ایک دن بھی اپنی حلال کی کمائی یا تنخواہ سے اپنے گھر کی ضروریات کی خریداری کریں تو ان کی چیخیں نکل جائیں لیکن انھیں غریب اور پریشان حال عوام کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔
پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ ہے جو اس ملک پر ہر دور میں حکومت کرتا آیا ہے اور جس نے آج تک مہنگائی ، بے روزگاری ، مفلسی کے بارے میں صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سنا ہوگا لیکن مہنگائی ، غربت اور بے بسی کہتے کسے ہیں یہ نام نہاد اشرافیہ اس سے قطعی ناواقف ہے ، کیونکہ اگر انھیں عوام کی غربت اور پریشانیوں کے بارے میں رتی برابر بھی علم ہوتو یہ دیانتداری اور خلوص کے ساتھ عوام کی غربت دور کرنے کے اقدامات کریں۔
یہ کرپٹ سیاستدان اور بیوروکریٹس جن کا شمار پاکستان کی '' ایلیٹ (elite) کلاس میں ہوتا ہے، جن کے بڑے بڑے گھروں میں بجلی کی بلا تعطل روانی بر قرار رکھنے کے لیے '' اسٹینڈ بائی جنریٹرز'' لگے ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت بجلی جانے کی صورت میں اس طرح خود بخود اسٹارٹ ہوجاتے ہیں کہ انھیں بجلی کے جانے یا آنے کا احساس تک نہیں ہو پاتا اس لیے انھیں کیسے معلوم ہو کہ جب بجلی چلی جاتی ہے تو ان کے محکوم عوام کا اٹھانوے فیصد طبقہ کس ذہنی اور جسمانی اذیت سے گزرتا ہے۔
کس طرح وہ رات بھر جاگ کر گزارتے ہیں اور پھر صبح خوابیدہ آنکھوں کے ساتھ خود بھی روزگار کے لیے نکلنا ہوتا ہے اور اپنے رات بھر کے جاگے ہوئے بچوں کو بھی اسکول جانے کے لیے آمادہ کرنا پڑتا ہے۔ ان کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا ایک nexus ہے جو ہر دور حکومت میں قائم رہتا ہے جن کی بڑی بڑی پر تعیش گاڑیوں میں پٹرول بھی سرکاری کھاتے سے ڈلوایا جاتا ہے تو پھر ان کی بلا سے پٹرول پچاس روپے لیٹر ہو یا تین سو پچاس روپے۔
یہ بوجھ اور تکلیف بھی وہی اٹھانوے فیصد عوام اٹھاتے ہیں، جن کا تمام تر دارومدار ہی محدود وسائل اور محدود آمدنی پر ہوتا ہے۔ اس کرپٹ ٹولے کو اس شخص کی تکلیف کا اندازہ بھی کیسے ہوکہ جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر جارہا ہو اور راستے میں پٹرول ختم ہو جائے اور وہ سڑک پر بے بسی کی تصویر بنے کسی غیبی امداد کے منتظر ہوں۔ بچپن میں سنا تھا کہ جب کراچی کے علاقے کورنگی کو بسایا جا رہا تھا تو اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر جنرل اعظم خان تھے۔
کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور بتایا کہ ہمارے علاقے میں ابھی تک پانی کی لائنیں نہیں ڈالی گئیں۔ انھوں نے اس وقت کے ایگزیکٹو انجینئر کو بلایا اور پوچھا کہ '' کتنے دن میں یہ کام ہو جائے گا۔'' انجینئر کا کہنا تھا کہ ''اس کام میں شاید ایک ماہ بھی لگ سکتا ہے۔'' جنرل اعظم نے حکم جاری کیا کہ '' اس انجینئر کے گھر کی پانی کی لائن کاٹ دی جائے اور اس وقت تک اسے بحال نہ کیا جائے جب تک کورنگی کے اس علاقے میں پانی کی لائنیں نہ ڈال دی جائیں۔''
کہتے ہیں اس کے بعد ایک ماہ کا کام ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں مکمل کر دیا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس واقعے میں کتنی صداقت ہے لیکن اس ملک کو ایسے حکمران چاہئیں جو اس طرح کے اقدامات کریں تو یقینا شہر کے ہر علاقے میں ترقیاتی کام دی گئی مدت کے اندر ہی تکمیل کو پہنچ جائیں۔ اس واقعے کی ''مورال آف دی اسٹوری'' یہ ہے کہ جب تک کوئی کرپٹ سیاستدان یا بیوروکریٹ خود یا اس کی فیملی کسی تکلیف سے نہیں گزرے گی تو انھیں کیسے اندازہ ہوگا کہ اٹھانوے فیصد سہولتوں سے محروم عوام پر کیا گزر رہی ہے۔
اس ملک کے مسائل کا حل صرف یہی ہے، عوام جس تکلیف سے گذر رہی ہے اسی تکلیف سے ان کرپٹ حکمرانوں، بیوروکریٹس اور ان کے خاندان کو بھی گزارہ جائے تو ہم دیکھیں گے کہ تمام مسائل ایک ایک کر کے کتنی جلدی حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ان کرپٹ حکمرانوں اور کرپٹ سرکاری افسران کو دی گئی مراعات ، جو ان کے تنخواہوں کے علاوہ ہیں ، ان سے واپس لے لی جائیں۔ انھیں مفت پٹرول کی سپلائی بند کر دی جائے، ان کے گھروں میں مفت پانی کے ٹینکرز ڈلوانے پر پابندی لگا دی جائے۔
ان کے گھروں سے اسٹینڈ بائی جنریٹرز ہٹوا دیے جائیں ، تب انھیں احساس ہو گا کہ عام آدمی کسی زندگی گزار رہا ہے۔ اسی طرح جو پولیس افسران ہر چند روز بعد بڑی ڈھٹائی سے کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے کم ہو نے کا دعویٰ کرتے ہیں خود ان سے اور ان کے اہل خانہ سے سرکاری گارڈز واپس لے لی جائیں تاکہ جب یہ اکیلے باہر نکلیں تو انھیں علم ہو کہ اسٹریٹ کرائم یا اسٹریٹ کرمنل کس بلا کا نام ہے۔
گارڈز کے ہتھیاروں کے سائے میں گھروں سے نکلنے والوں کو کیا معلوم کہ کس طرح کسی کا باپ، کسی کا بیٹا یا کسی کا بھائی ہر آئے دن جرائم پیشہ افراد کی بے رحم گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ انھوں نے اس شہر کو صرف اپنے ٹھنڈے دفتروں اور ٹھنڈی گاڑیوں کی کھڑکیوں سے دیکھا ہے جہاں سے باہر کا موسم بھی سہانا لگتا ہے۔