اسرائیل اور بھارت کے سائبر انٹیلی جنس رابطے
پیگاسس ایک اسپائی ویئر ہے جسے ایک اسرائیلی ٹیکنالوجی اور سائبر اسلحہ فرم این ایس او گروپ نے تیار کیا ہے
چین کا ایک جاسوس غبارہ امریکا میں کیا داخل ہوا کہ دنیا بھر میں شور مچ گیا۔ امریکا نے 4 فروری کو اس چینی غبارے کو اس وقت مارگرایا تھا ، جب وہ اس کی سمندری حدود کے اوپر محوِ پرواز تھا۔
پینٹاگون کا دعویٰ ہے کہ یہ غبارہ ، جسے امریکی پانیوں کے اوپر سے پرواز کرتے وقت مار گرایا گیا تھا ، حساس فوجی مقامات کی جاسوسی کر رہا تھا۔ غبارے کا ملبہ جنوبی کیرولائنا کے ساحل سے کچھ پرے ایک وسیع علاقے میں پھیلا ہوا ہے، جب کہ چین کا موقف ہے کہ یہ ایک موسمی غبارہ تھا جو راستے سے بھٹک گیا تھا۔ اس نے اسے مارگرائے جانے پر '' شدید عدم اطمینان '' کا اظہارکیا ہے۔
امریکا کی تشویش نہایت بلندیوں پر ہے لیکن پاکستان کی حکومتوں کو یہ فکر نہیں ہے کہ بھارت اور اسرائیل کا آپس میں سائبر انٹیلی جنس کے رابطے بڑھ رہے ہیں ، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بھارت جاسوس ادارے ''را '' اور اسرائیلی جاسوس ادارے '' موساد '' کے روابط گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت اپنا جاسوسی نیٹ ورک بڑھانے کے لیے بہت رقم خرچ کر رہا ہے۔
بھارت نے اسرائیلی سائبر انٹیلی جنس فرم سے یہ غیر اخلاقی جاسوس اسپائی ویئر خریدا ہے۔ اسرائیل سے پیگاسس اسپائی ویئرکی خریداری پر وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ نیویارک ٹائمز نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ جولائی 2017 میں مودی حکومت نے پیگاسس کو اسرائیلی فرم سے خریداہے۔
اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2017 میں بھارت اور اسرائیل نے ہتھیاروں اور انٹیلی جنس سے متعلق آلات کے ایک پیکیج کی 2 ارب ڈالر میں فروخت پر اتفاق کیا تھا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ پیگاسس اور میزائل سسٹم اس معاہدے کا مرکزی حصہ ہیں۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ اپریل 2017 میں یہ خبر آئی تھی کہ بھارت نے اپنی فوج کو فضائی دفاعی میزائلوں کی فراہمی کے لیے اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کے ساتھ 2 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔
درخواست میں ایف آئی آر کے اندراج اور عوامی رقم کی وصولی کے لیے جو غیر قانونی معاہدے کے لیے ادا کی گئی ہے، نریندر مودی اور دیگر متعلقہ حکام کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ چلانے کی استدعا کی گئی تھی۔
بھارت میں پیگاسس پروجیکٹ کی تحقیقات میں الزام لگایا گیا ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال وزراء، اپوزیشن لیڈروں، سیاسی حکمت عملی اور حکمت عملی سازوں، صحافیوں، کارکنوں، اقلیتی رہنماؤں، سپریم کورٹ کے ججوں، مذہبی رہنماؤں، منتظمین جیسے الیکشن کمشنرز اور سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے سربراہوں پر کیا گیا تھا۔ (سی بی آئی)۔
ان میں سے کچھ فونز کا بعد میں تجزیہ کیا گیا اور اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔ پیگاسس پروجیکٹ 17 میڈیا تنظیموں نے مشترکہ تحقیقاتی صحافتی اقدام کے طور پر شروع کیا تھا۔
پیگاسس ایک اسپائی ویئر ہے جسے ایک اسرائیلی ٹیکنالوجی اور سائبر اسلحہ فرم این ایس او گروپ نے تیار کیا ہے، یہ اسپائی ویر خفیہ طور پر موبائل فونز اور دیگر آلات میں ڈالا جاسکتا ہے، جو اینڈرائیڈ اور آئی او ایس کے زیادہ تر ورژن چلاتے ہیں۔
پیگاسس ٹیکسٹ میسجز پڑھنے، کالز کو ٹریک کرنے، پاس ورڈز جمع کرنے، لوکیشن ٹریکنگ ، ٹارگٹ ڈیوائس کے مائیکرو فون اور کیمرے تک رسائی اور ایپس سے معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، چونکہ پیگاسس کو اسرائیلی حکومت نے سائبر ہتھیاروں کے طور پر درجہ بندی کیا ہے، اس لیے اسرائیلی حکومت کی اجازت کے بعد صرف حکومتیں ہی اسپائی ویئر خرید سکتی ہیں۔
پیگاسس پروجیکٹ کے اقدام نے صحافیوں، اپوزیشن کے سیاست دانوں، کارکنوں اور کاروباری لوگوں پر حکومتوں کی طرف سے پیگاسس سپائی ویئر کے استعمال کی تحقیقات کی۔ 50,000 فون نمبروں پر مشتمل ایک ہدف کی فہرست لیک ہوگئی ، جسے ممکنہ طور پر اسپائی ویئرکے ذریعے نشانہ بنایا جا سکتا تھا، جس نے اس تحقیقات کو جنم دیا۔ ان میں سے 300 کا تعلق بھارت سے تھا۔
پاکستان میں بھی ٹیلی فون جاسوسی کی شکایات پر سپریم کورٹ نے ایک ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دی اور کہا کہ ان افراد کی تحقیقات کے لیے فون جمع کروائے جائیں جن پر حکومت کی جارحیت کا شبہ ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ ان کے پاس ایسے 29 فونز میں سے کسی پر پیگاسس کے استعمال کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ہے جن پر حکومت کی طرف سے جاسوسی کرنے کا شبہ ہے، یہ فون سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ تکنیکی کمیٹی کے پاس جمع کرائے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی نوٹ کیا۔ کمیٹی کا پتہ چلا کہ '' پانچ فونز میں انھیں کچھ مالویئر ملا ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ پیگاسس کا میلویئر ہے۔''
اس سے ظاہر ہوتا کہ بھارتی سپریم کورٹ کی آزادی بھی حکومت کی خوشنودی کے ساتھ مشروط ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے پیگاسس اور میزائل سسٹم اس وقت کے جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ اور انٹیلی جنس ٹولز کی اسرائیل سے خریداری کے تقریباً 2 ارب ڈالر کے سودے کا ''مرکز'' تھے۔ بھارت نے دراصل یہ اسپائی ویر پاکستان پر حملے کے لیے خریدا ہے ، یہ 2017 سے بھارت کے زیر استعمال ہے۔
بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیز نے پاکستان کے خلاف متعدد سائبر جرائم کا ارتکاب کرنے کی کوشش کی جس میں حکومتی افسران کے ذاتی موبائل اور تکنیکی آلات کی ہیکنک شامل ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ دشمن انٹیلی جنس ایجنسیز کے متعدد اہداف کی تحقیقات کی جارہی ہے۔
پاکستان میں مقیم ایک تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں اس بات پر بحث کی گئی کہ پاکستان ، بھارت اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے سائبر تعاون سے پریشان ہے۔ بات چیت کرنے والوں نے سائبر سیکیورٹی، انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام ڈومینز میں ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون پر زور دیا تاکہ باہمی تجربات سے استفادہ کیا جا سکے۔
جولائی 2021 میں، دفتر خارجہ اسلام آباد نے ایک بیان جاری کیا جس میں '' بھارت کے بارے میں میڈیا رپورٹس پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ مبینہ طور پر پاکستان کی اہم شخصیات سمیت غیر ملکیوں کے خلاف اسرائیلی سپائی ویئر پیگاسس کے استعمال کو چھپایا جا رہا ہے۔''
بیان میں '' بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی، مسلسل اور وسیع پیمانے پر نگرانی اور ذمے دار ریاستی رویے کے عالمی اصولوں کی واضح خلاف ورزی میں جاسوسی کی کارروائیوں کی مذمت کی گئی۔'' بھارت اور اسرائیل نے جنوری 2018 میں سائبر سیکیورٹی تعاون پر ایک مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے تھے۔ اس مفاہمت نامے کا مقصد سائبر سیکیورٹی کے نام پر پڑوسی ممالک کی ناجائز طور پر جاسوسی کرنا ہے۔