سوچ کا دھارا

بلند و بانگ دعوؤں نے دیانت اور تندہی کے تندور میں آگ لگا دی ہے اور قوم کولہو کا بیل بن کر حالات کا مقابلہ کر رہی ہے


م ش خ February 12, 2023
[email protected]

اہل سیاست سے سوال ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے بعد قوم کہاں کھڑی ہے؟ لیکن وہ سوال کا جواب نہیں دے پا رہے،کیونکہ عوامی مشکلات اور تکالیف کا کسی کو بھی رتی برابر احساس نہیں۔

آئی ایم ایف کے نام پر دلاسے دیے جاتے ہیں، قوم مہنگائی کی تشویش ناک کشتی میں ہچکولے کھا رہی ہے، وہ تو شکر کریں کہ کشتی رواں دواں ہے مگر کب تک مہنگائی کی لہروں کا مقابلہ کرے گی، قوم کے لیے سیاسی بصیرت افروز خیالات تو دفن ہوئے۔

بلند و بانگ دعوؤں نے دیانت اور تندہی کے تندور میں آگ لگا دی ہے اور قوم کولہو کا بیل بن کر حالات کا مقابلہ کر رہی ہے۔ سیاسی لوگوں کے بے مقصد تصادم نے قوم کو مایوس کردیا ہے، قوم جب زیادتی پر واویلا مچاتی ہے تو اسے فیشن کا نام دے دیا ہے۔

ہمارے ملک کی اکثریت دیہاتوں میں رہتی ہے اور وہاں کے رہنے والے زمینداروں کی مزدوری کرتے ہیں، وہ تزئین و آرائش کی زندگی سے کوسوں دور ہیں، پیٹ کا دوزخ نہ جانے کیسے بھرتے ہیں، ان کے گھروں میں لالٹینیں استعمال ہوتی ہیں، جس کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہیں وہ رقص و سرور کی محفل کو کیا جانیں، وہ مفلس اور غریب لوگ دیانت اور تندہی سے کام کرنے والے لوگ ہیں، اب بھلا بتائیے مٹی کا تیل 190 روپے فی لیٹر ہوا ہے جو چراغوں کو ختم کرکے ترقی کرتے ہوئے لالٹین پر آئے تھے وہ کیسے زندگی گزاریں گے؟

کیا حکومت وقت نے اس پر توجہ دی، اس میں سلامتی اور استحکام نظر نہیں آرہا، کولہو کا بیل بننے والے بیل نکال کر اب خود کولہو کو چلائیں گے، مہنگائی کے خاتمے کے لیے نکلنے والے انتظامی ڈھانچے کو سنبھال نہ سکے اور قوم کو تقویت کا درس دے رہے ہیں، جس سے قوم کے اداس رنگ مزید بکھرگئے ہیں، مٹی کے تیل کی قیمت 189.83 پیسے اخبارات کے مطابق آئے ہیں، جب کہ تیل خریدنے والے کو 190 روپے دینے پڑیں گے اور جو 17 پیسے بچے وہ واپس نہیں ہوں گے، نہ جانے ہمارے معیشت دان اس موقع پر پیسوں کا اضافہ کیوں کرتے ہیں، اب پیسوں کا رواج ختم ہو گیا ہے تو پھر باضابطہ ذمے داری سے قیمتیں کیوں نہیں لکھی جاتیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کرتا دھرتا اس پر توجہ نہیں دیتے، بڑے ڈیلر حضرات کو کیوں خود ساختہ فائدہ پہنچایا جاتا ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ دیہاتوں میں رہنے والے غریب لوگ تو 10 پیسے بھی اپنے دل کے لاکر میں رکھتے ہیں جب کہ یہاں 17 پیسے کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہے، غلط فیصلے خود کرتے ہیں اور پھر قوم کو مشکل وقت اور صبر کی تلقین کا باضابطہ درس دیا جاتا ہے، قول و فعل کا تضاد دیکھیے۔

اب چلتے ہیں پٹرول کے منطقی انجام کی طرف، اس سے مہنگائی کا ایک عجیب طوفان برپا ہوگا، غیر جانبدار ہوکر لکھ رہا ہوں، ٹرانسپورٹ کے کرائے تشویش ناک حد تک بڑھ جائیں گے اور پھر مزے کی بات دیکھیں کہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا، یہ قابل مذمت فعل ہے، پٹرول کی قیمت 249.80 ہوگی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 249.80 روپے دینے کے بعد کیا 20 پیسے واپس ملیں گے؟

اب سوچیں کہ یہ کتنی بڑی غلطی کی گئی ہے اربوں لیٹر پٹرول فروخت ہوگا، مگر قوم سے یہ پٹرول پمپ والے پورے 250 روپے لیں گے، پیسوں کا تذکرہ کرکے کس کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، حکومت وقت کو چاہیے تھا کہ اس کی قیمت اگر بڑھائی ہے تو اس میں غریب اور تہی دامانوں کا خیال رکھا جاتا مگر قوم اب مجبوری کی حالت میں کھڑی ہے فیصلے عجیب و غریب کیے جاتے ہیں، 250 روپے وصول کرکے کیا عوام کو 20 پیسے واپس ملیں گے؟

یہ ماہانہ اربوں روپے کس کی جیب میں جائیں گے کبھی سوچا ہے، سب گڑبڑ گھوٹالا کے تحت جاری و ساری ہے، مہنگائی کی بپھری ہوئی موجیں تو قوم کو سانس بھی نہیں لینے دیں گی، قوم بے شک واویلا مچاتی رہے، وہ تو گزشتہ 30 سال سے چیخ رہی ہے، اب تو امیدوں کا گلا ہی بیٹھ گیا ہے، اس میں کہیں بھی عوامی پذیرائی کا عنصر نظر نہیں آرہا، بلکہ ناکامی دل گرفتہ کا چراغ جل رہا ہے، سلگتے عوام اس معتبر جمہوری نظام کو دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے کیا کارہائے نمایاں ترقیاں کی ہیں قواعد و ضوابط کی تدفین کردی گئی ہے۔

سیاسی طور پرکہا جا رہا ہے کہ اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط پرکیا ہے، اپنی مراعات پر بھی روشنی ڈالیں، جو آپ حضرات کے لیے قابل مذمت فعل ہے، گفتگو کے سمندر میں قوم کو ڈبویا جا رہا ہے، قومی سلامتی اور استحکام کی باتیں کرنے والے اپنی مراعات بھی ختم کریں۔

ملک کو آگے لے جانے کے لیے بحرانوں کا سامنا کرنا ہوگا تو کیا سارے بحران قوم ہی ختم کرے گی؟ آپ حضرات بحرانوں کے ذمے دار نہیں ہیں، پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں خاموش ہیں، انھوں نے پٹرول کی قیمتوں پر اضافے کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا، وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو فیصلہ کیا گیا وہ درست ہے جب آنے والے الیکشن ووٹ کے حوالے سے بہت مایوسی کی گردان سیاست دانوں پر ڈال کر جائیں گے ابھی آپ اقتدار کی زینت ہیں مگر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب آپ قوم کے سامنے جائیں گے اور اپنے بنیادی نقطے بیان کریں گے تو مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ آپ کی بات کوکیا تسلیم کرلیں گے؟

اس وقت قوم ڈفلی بجائے گی اور آپ حضرات دیکھتے رہ جائیں گے، امیر ملکوں کی مثالیں دی جاتی ہیں، مہنگائی کے حوالے سے ان ملکوں میں جہاں قانون کی پاسداری ہے کیا آپ نے کبھی ہمارے ہاں ہونے والی لاقانونیت پر روشنی ڈالی ہے، تو پھر بے مقصد دلائل دینے کی کیا ضرورت ہے، پہلے آپ صراط مستقیم کا راستہ اپنائیں، پھر صراط مستقیم کی بات کریں۔

قوم اب ان چونچلوں کی عادی ہوگئی ہے، پٹرول کی قیمت جو 249.80 روپے مقرر کی گئی ہے یہ تو 5 سال کے بعد ہونی چاہیے تھی، آپ حضرات نے 5 سال کا سفر لمحوں میں طے کرکے قوم کو آگاہ کر دیا ہے مگر آپ حضرات کے اس فیصلے سے سبزی، پھل، چینی، دال اور دیگر چیزوں میں کمر توڑ اضافہ ہوگا، غریب تو زمیں بوس ہوجائے گا، یہ بات سوچنے کی ہے پٹرول کی وجہ سے آل پاکستان پبلک ٹرانسپورٹ نے کرایوں میں 10 فیصد اضافہ کردیا ہے۔

ان کا مطالبہ درست ہے شہروں میں چلنے والی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ نے بھی کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے، اب پٹرول کے حوالے سے فیصلہ کرنے والوں کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں جو کرائے بڑھائے جائیں اس پر حکومت سنجیدگی سے توجہ دے ایسا نہ ہو کہ لوگ اپنی مرضی سے کرایہ بڑھا دیں جو عوام کے لیے ایک درد سر بن جائے لہٰذا کرایوں کے حوالے سے خصوصی توجہ حکومت وقت کا کام ہے کہ عوام کی قوت برداشت جواب نہ دے جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔