پاکستان کی ایک مشہور موبائل فون کمپنی کو جنگل چاہیے تھا' یہ لوگ اس قسم کا اشتہار بنوانا چاہتے تھے جس میں نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں سے کہا جائے آپ ہمارا فری نائیٹ پیکیج لیں اور ساری رات اپنے ''لورز'' سے گفتگو کرتے رہیں' یہ لوگ اپنی اشتہار کمپنی کے ساتھ امجد اسلام امجد کے پاس آئے۔
امجد صاحب ان دنوں معاشی مسائل کا شکار تھے' انھیں پیسوں کی ٹھیک ٹھاک ضرورت تھی' یہ آئیڈیا جب ان کے سامنے رکھا گیا تو یہ مسکرائے اور معذرت کر لی' اشتہاری کمپنی کا مالک ان کا فین اور دوست تھا' اس نے وجہ پوچھی تو امجد صاحب کا جواب تھا'' میں خود بیٹیوں کا باپ ہوں' کیا میں یہ چاہوں گا میری بیٹی موبائل پر ساری رات کسی غیر مرد سے بات کرتی رہے؟ یہ اشتہار پورے ملک کی اخلاقیات تباہ کر دے گا لہٰذا میں اس گناہ میں شریک نہیں ہو سکتا''۔
امجد اسلام امجد کا یہ واقعہ مجھے عرفان جاوید نے سنایا تھا' عرفان جاوید پاکستان میں اپنی طرز کے انوکھے خاکے لکھتے ہیں' یہ صنف اردو زبان میں تقریباً انتقال کر چکی تھی' عرفان جاوید نے اسے قبر سے نکال کر دوبارہ زندہ کر دیا' عرفان کے خاکے مشاہیر کے پروفائل ہیں اوریہ پروفائلز مشاہیر کے بعد بھی انھیں لوگوں کے دلوں اور ریسرچ میں زندہ رکھیں گے۔
عرفان نے امجد صاحب کا خاکہ بھی لکھا' یہ خاکہ ان کی کتاب ''سرخاب'' میں موجود ہے' یہ جب بھی لاہور جاتے ہیں یہ عطاء الحق قاسمی' امجد اسلام امجد اور مستنصر حسین تارڑ سے ضرور ملتے ہیں' یہ تینوں ہستیاں لیجنڈز ہیں' مجھے بھی بار ہا ان کی محفلوں میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا' امجد صاحب سے میرا پہلا رابطہ 1997 میں ہوا تھا' میں ان دنوں جنگ میں کالم لکھتا تھا' مجھے ایک دن فون آیا اور دوسری طرف ایک شیریں اور مہذب آواز میں پوچھا گیا ''میں امجد اسلام امجد بول رہا ہوں' کیا میں جاوید چوہدری صاحب سے بات کر سکتا ہوں؟''
اور میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا' میں مدتوں سے ان کا فین تھا' میری عمر کے لوگوں نے اپنا بچپن امجد صاحب کے ڈرامے وارث کے کرداروں کیساتھ گزارا تھا' ہم سب چوہدری حشمت خان ہوتے تھے' مجھے جوانی میں ان کی درجنوں غزلیں اور نظمیں بھی زبانی یاد ہوتی تھیں لہٰذا میرا فشار خون بڑھ گیا اور میں نے کم زور سی آواز میں عرض کیا ''جی میں بول رہا ہوں'' اور اسکے ساتھ ہی میرا ان کے ساتھ عمر بھر کا رشتہ بن گیا۔
میں نے امجد صاحب کے ساتھ سفر بھی کیے' ان کے ساتھ سیکڑوں ملاقاتیں بھی کیں اور ان کے ساتھ کھانے بھی کھائے' یہ میرے ''شوگر برادر'' بھی تھے' ہم شوگر اور انسولین کے سلسلے میں بھی ایک دوسرے سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔
امجد اسلام امجد ہنر مندوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے' بچپن فلیمنگ روڈ لاہور پر گزرا' خاندان غریب لیکن ایمان اور سیلف ریسپکٹ کی دولت سے مالا مال تھا' ان کی ایک خالہ بینائی کی نعمت سے محروم تھیں' یہ اسے دیکھ دیکھ کر بڑے ہوئے' شاعری کی نعمت اللہ تعالیٰ نے انھیں قدرتی طور پر عنایت کی تھی' نثر ان پر عاشق تھی اور وزڈم خود چل کر ان کے پاس آتی تھی۔
امجد صاحب کی آنکھیں لیزر مشین تھیں' یہ چلتے پھرتے سیکنڈز کے ہزارویں حصے میں پورے ماحول کو سکین کر لیتے تھے اور پھر اس ماحول کو لفظوں میں پینٹ کر دیتے تھے'ان کی ذات میں بے انتہا کشش تھی' یہ جب کالج میں پڑھاتے تھے تو سائنس کے طالب علم بھی اپنی کلاسیں چھوڑ کر ان کی اردو کلاس میں بیٹھ جاتے تھے' یہ بلا کے محفل باز تھے' انھیں لاکھوں لطیفے' چٹکلے' واقعات اور اقوال زریں یاد تھے' یہ بولتے جاتے تھے اور محفل میں قہقہے لگتے جاتے تھے۔
عطاء الحق قاسمی صاحب کے ساتھ ان کی دائمی دوستی تھی' پاکستان میں ان دونوں سے زیادہ بہتر کمپنی کوئی نہیں تھی' آپ ان دونوں کے درمیان بیٹھ جائیں' آپ پوری زندگی وہاں سے اٹھیں گے نہیں' یہ دونوں ایک دوسرے پر چوٹ کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے' چند دن پہلے عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد کسی محفل میں بیٹھے تھے' لوگ تھیسس کا ذکر کرنے لگے' امجد صاحب نے بتایا ترکی میں ایک لڑکی میری شاعری پر پی ایچ ڈی کر رہی ہے' عطاء الحق قاسمی نے فوراً کہا' میرے اوپر بھی ایک لڑکی پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔
امجد صاحب نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ''لیکن میری والی لڑکی زیادہ معقول ہے'' یہ جب بھی اسلام آباد آتے تھے مجھے فون کر کے کہتے تھے ''لو جی پارٹنر میں اسلام آباد آ گیا ہوں'' اور پھر میں انھیں گھر لا کر گھنٹوں ان کے ساتھ بیٹھا رہتا تھا' ان کے پاس ہزار واقعات اور کہانیاں تھیں'یہ سناتے جاتے تھے اور میں سنتا جاتا تھا' امجد صاحب پاکستان میں پاپولر ٹیلی ویژن سیریز کے بانی ہیں' آج اگر ملک میں ٹی وی ڈراموں کی صنعت ہے تو اس کا سارا کریڈٹ امجد صاحب کو جاتا ہے۔
یہ اگر 1980کی دہائی میں وارث جیسا شاہکار تخلیق نہ کرتے تو آج ملک میں ڈراموں کی صنعت نہ ہوتی' میں نے بچپن میں لوگوں کو چاند کی طرح وارث کی اگلی قسط کا انتظار کرتے دیکھا' ان کے دوسرے ڈرامے دن' فشار' ساتواں در' دہلیز اور سمندر بھی کمال تھے لیکن وارث جیسا ڈرامہ ملک میں دوبارہ تخلیق نہیں ہوا' امجد صاحب کی ذات میں سات لوگ بیٹھے تھے' یہ بلا کے رومانوی شاعر تھے' آپ ان کی نظمیں یا غزلیں پڑھیں' آپ کو ان میں ہجر کی ماری ہیریں' وچھوڑے سے چور رانجھے' شدت الفت میں پگھلتے مہینوال اور یقین کے تیشے سے ٹوٹتے بنتے فرہاد ملیں گے۔
امجد صاحب کی شاعری میں محبت کو بھی محبت سے محبت ہو جاتی ہے' یہ ایک امجد صاحب تھے' دوسرے امجد صاحب ڈرامہ نگار تھے' یہ جدید ڈراموں کے بانی ہیں اور ان کے ڈراموں نے تیس سال اسکرین پر حکمرانی کی' تیسرے امجد صاحب کالم نگار تھے' یہ 2010تک ملک کے ہر سروے میں کالم نگاری میں پہلے نمبر پر آتے تھے' ریگولر کالم لکھتے تھے اور ان کے لاکھوں ریڈرز تھے' چوتھے امجد صاحب سیاح تھے' یہ آدھی دنیا گھوم چکے تھے اور انھوں نے اس آدھی دنیا کے بارے میں جم کر لکھا بھی' پانچویں امجد صاحب محفل باز دوست تھے۔
میں نے قاسمی صاحب اور امجد صاحب سے زیادہ خوش مزاج شخص آج تک نہیں دیکھا' ہمارے ملک میں انسان جب چالیس سال کی حد کو چھوتا ہے تو یہ بوریت' چڑچڑے پن اور تنقید پسندی کا ہمالیہ بن جاتا ہے اور لوگ اس سے اچھوت کی طرح پرہیز کرنے لگتے ہیں مگر یہ دو لوگ دنیا کے ننانوے فیصد لوگوں سے مختلف تھے' دس سال کے بچے بھی ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور سارا سارا دن ان کے ساتھ گزار دیتے تھے۔
چھٹے امجد اسلام امجد ایک سوشل ریفارمسٹ تھے' ان سے ایک بار پوچھا ''بھائی جان آپ نے ڈرامہ لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟'' یہ بولے ''میں پروڈیوسرز کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا' میں اپنے ڈراموں میں بیٹی کو ماں' خاوند کو بیوی اور بیٹے کو باپ سے بدتمیزی کرتے نہیں دکھا سکتا'' امجد صاحب کہا کرتے تھے''میں حیران ہوں پاکستان کے ہر ڈرامے میں فیملی کو کھانے کی میز پر لڑتے دکھایا جاتا ہے' کھانا اللہ کی نعمت ہے' ڈائننگ ٹیبل پر دعائیں پڑھی جانی چاہئیں اور آمین کہنا چاہیے جب کہ ہم لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے اور پلیٹیں توڑتے دکھاتے ہیں' ہم کیا کلچر پروان چڑھا رہے ہیں؟''
امجد صاحب نے اس رجحان کی وجہ سے ڈراموں کی انڈسٹری چھوڑ دی تھی' یہ دس برسوں سے زنانہ کالجوں اور خواتین کی محفل میں اپنی رومانوی نظمیں اور غزلیں بھی نہیں سناتے تھے' ان کا کہنا تھا میرے سامنے میری بیٹیوں کی عمر کی لڑکیاں بیٹھی ہوتی ہیں' مجھے انھیں اپنے شعر سناتے ہوئے شرم آتی ہے اور ساتویں امجد صاحب استاد تھے' یہ 35 سال کالج میں پڑھاتے رہے' یہ ہم جیسے نالائقوں کی رہنمائی بھی کرتے رہتے تھے۔
انھوں نے بے شمار موقعوں پر میری رہنمائی کی' میں دس پندرہ سال پہلے ناپسندیدہ لوگوں کو بھگا دیا کرتا تھا' میں دوسرے کو دیکھتا تھا' دو چار منٹ میں اس کا اندازہ کرتا تھا اور پھر اسے رکھائی سے ٹال دیتا تھا' امجد صاحب نے مشورہ دیا' تم ایک خوش گوار پرسنیلٹی ہو 'تم خشک اور سخت شخص کی ایکٹنگ نہ کیا کرو' یہ ٹھیک نہیں'یہ آہستہ آہستہ تمہارا مزاج بن جائے گی' میں نے ان کے مشورے پر فوراً اپنی اصلاح کر لی۔
میں تبت سے ہو کر آیا تو مجھ سے پوچھا ''تم نے وہاں سے کیا سیکھا؟'' میں نے عرض کیا' مہاتما بودھ کا ایک فقرہ سیکھا' بودھ سے کسی نے کہا''مجھے خوشی چاہیے'' بودھ بولے ''تمہارے فقرے میں دو لفظ اضافی ہیں' مجھے اور چاہیے یعنی انا اور خواہش' تم یہ ہٹا دو پیچھے خوشی رہ جائے گی'' امجد صاحب دیر تک سرشاری کے عالم میں سر دھنتے رہے۔
امجد اسلام امجد اوپر سے مسکراتے ہوئے ریلیکس لیکن اندر سے دکھی انسان تھے' یہ زندگی کے آخری حصے میں اپنی والدہ کو بہت یاد کرتے تھے' ان کی والدہ نے بڑی مشکل اور غریبانہ زندگی گزاری تھی لیکن جب امجد صاحب کی خوش حالی کا زمانہ آیا تو وہ انتقال کر گئیں' امجد صاحب کہا کرتے تھے میں نے جب سب کچھ پانے کے بعد پیچھے مڑکر دیکھا تو میری ماں نہیں تھی' وہ یہ کہہ کر آب دیدہ ہو جاتے تھے۔
امجد صاحب نے اپنا یہ دکھ جس کو بھی سنایا وہ اس کے بعد اپنی ماں کی زیادہ قدر کرنے لگا' وہ دوستوں کے رویوں سے بھی زیادہ خوش نہیں تھے اور ملک کی صورت حال بھی انھیں بے چین اور پریشان کر دیتی تھی لیکن اس کے باوجود یہ ایک شان دار انسان تھے اور انھوں نے ایک شان دار زندگی گزاری' یہ 10 فروری کی صبح چلتے پھرتے' ہنستے کھیلتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔
امجد اسلام امجد نے اپنی زندگی کا آخری دن بھی بھرپور اور زندہ گزارا'یہ مسکراتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے لیکن جاتے جاتے ہم جیسے مداحوں کو رلا گئے اور اپنے یار غار عطاء الحق قاسمی کو اکیلا چھوڑ گئے۔