وصیت نامہ
پاکستان کے عوام نے اپنی 64 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں ابتدائی کامیابی حاصل کرلی ہے۔
اسے آمریت، اشرافیت اور ملائیت سے نفرت تھی مگر وہ ہر اتوار کو ان کے واسطے دعا کر نے پر مجبور تھا اور اسے اپنے مبدیوں سے بلا چو ں و چرا ان کی اطاعت کرنے کی اپیل کرنی پڑتی تھی۔
مگر ایسا کرتے ہوئے ملیئر کو اپنے الفاظ میں ''سخت نفرت''ہوتی تھی اس میں اتنی جرات تھی کہ اس زمانے میں مقدس سمجھنے والی ساری چیزوں سے اس نے اپنے دل میں قطع تعلق کر لیا مگر وہ اتنا بہادر نہ تھا کہ اس کا اظہار کرتا۔
اس نے اپنی ساری زندگی منقسم جذبات کے تھپڑوں کا سامنا کرتے ہوئے گزاری مگر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی میں جس چیز کا اظہار نہ کرسکا تھا اس کی موت کے بعد اس سے پوری دنیا کو آشنا ہونا چاہیے ۔ اس کی موت کے بعد اس کے کاغذات میں سے 366 صفحات پر مشتمل ایک مسودہ ملا جس کا عنوان تھا ''وصیت نامہ'' اس پر یہ لکھا ہوا تھا ''عزیز دوستو! میں اپنی زندگی میں کھلم کھلا وہ کچھ نہ کہہ سکا جو اخلاقیات، مذہب اور حکمرانی کے اطوار کے بار ے میں سوچتا تھا، اس لیے کہ اس کے بہت ہی خطرناک اور افسوسناک نتائج نکلنے لازمی تھے۔
اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ مرنے کے بعد آپ کو بتا دوں میرا مقصد آپ کو ان بے ہودہ واہموں کی اصلیت بتانی ہے جن کے درمیان بدقسمتی سے ہم سب کو پیدا ہونا پڑتا ہے اور زندہ رہنا پڑتا ہے۔ مذہب اور اقتدار دو جیب کترے ہیں جو مل کر لوگوں کو لوٹتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں۔''
ملیئر نے لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ دوسروں پر ممتاز ہونے اور زندگی کی تمام اچھی چیزوں سے لطف اندوز ہونے کا واحد مقصد لے کر پیدا ہوئے جب کہ اس کے بر عکس دوسرے لوگ غربت زدہ، دھتکارے ہوئے اور آلام زدہ لوگ کمر توڑ مشقت اور تذلیل کے بوجھ تلے اپنی زندگیوں کو سڑانے، گلانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، ایسی نابرابری یقیناً غیر منصفانہ ہے، سارے لوگ برابر پیدا ہوئے، زندہ رہنے کا ان سب کا برابر کا حق ہے۔
انھیں آزادی اور زندگی کی اچھی چیزوں کے حقدار ہونے کا حق ہے۔ اس کے مطابق زندگی کی اچھی چیزوں کی غیر منصفانہ تقسیم ہی فراڈ، خیانت، ٹھگی، ڈاکا، قتل اور دیگر جرائم کی ذمے دار ہے۔ اس کے خیال میں برائی اس حرکت سے جنم لیتی ہے کہ لوگ زمین کے وسائل اور اس کی نعمتوں کو جائیداد کی حیثیت سے ذاتی ملکیت بنالیتے ہیں جب کہ یہ ساری نعمتیں سانجھی ہونی چاہییں۔
وصیت نامے کے کئی حصے استبدادی حکومت کو بے نقاب کرنے کے لیے وقف کیے گئے تھے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ظلم لوگوں کی اکثریت کی زندگیوں کو اذیتناک بنا دیتا ہے۔ ظلم اقتدار اور قوت ہی کی بدولت ممکن ہوتا ہے، یہ اقتدار خواہ بادشاہ کا ہو یا نوابوں کا، ان لوگوں کو عوام پر لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ ''وصیت نامہ'' اپنی بے باکی اور تخیل کی گہرائی میں آج تک بے مثال ہے۔ کلیسا والوں اور حکمرانوں نے اس باغی کے مسودے کا نشان تک مٹا ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ''وصیت نامے'' کے مصنف کے تمام حوالے ختم کر دیے، خواہ وہ کہیں بھی سامنے آئے۔
والٹیئر نے 1736 میں اسے پڑھا ''یہ ایک نہایت ہی نایاب کتاب ہے، ایک خزانہ ہے، اس کی وسیع پیمانے پر تشہیر کرنی چاہیے۔'' یہ تھا وصیت نامے پر والٹیئر کا تبصرہ۔ ''وصیت نامے'' میں ملیئر نے یہ تخیل پیش کیا کہ ظلم و استحصال کی مختلف صورتوں سے نجات خو د عوام کو حاصل کرنا ہے، اس معاملے میں کسی اور پر انحصار کیا ہی نہیں جاسکتا، کسی اور ایسی طاقت کا وجود نہیں جو انھیں آزادی دلائے۔
اس نے کہا تھا کہ آزادی صرف انقلابی طریقوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ چینی زبان میں ایک لوک کہانی ہے جس کا نام ہے ''وہ بیوقوف بوڑھا جس نے پہاڑوں کو ہلادیا '' یہ ایک ایسے بوڑھے سے متعلق ہے جو بہت مدت ہوئی شمالی چین میں رہتا تھا اور شمالی پہاڑ کا بیوقوف بوڑھا پکارا جاتا تھا۔
اس کے گھر کا منہ جنوب کی جانب تھا اور اس کے مکان کے قریب تائی ہانگ اور ولینگو نامی دو بڑے پہاڑ تھے جو اس کے گھر کے راستے میں حائل تھے، ایک دن وہ مصمم ارادے کے ساتھ اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں کدالیں دے کر ان پہاڑوں کو کھودنے اور اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے چل پڑا، اس علاقے کے ایک دوسرے آدمی نے جو عقل مند بوڑھے کے نام سے مشہور تھا اسے پہاڑوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر ازراہ تمسخر کہا 'تم کتنے احمق ہو، تم دو چار آدمی اتنے بڑے پہاڑوں کو کسی طرح کھود سکو گے'۔
احمق بوڑھے نے جواب دیا جب میں مرجائوں گا تو میرے بیٹے یہ کام جاری رکھیں گے، جب وہ مرجائیں گے تو میرے پوتے پہاڑوں کو کھودتے رہیں گے اور ان کے بعد ان کے بیٹے اور ان کے پوتے یہ ہی کام کرتے رہیں گے، یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا، اگرچہ پہاڑ اونچے ہیں مگر یہ مزید اونچے نہیں ہوسکتے، انھیں آہستہ آہستہ کھودتے رہنے سے ایک دن انھیں زمین کی سطح کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔
آج بھی 3 بڑے پہاڑ پاکستان کے عوام کو دبائے ہوئے ہیں ان میں سے ایک اشرافیت، دوسرا آمریت، اور تیسرا مذہبی انتہا پسندی کا ہے۔ پاکستان کے عوام نے ان پہاڑوں کو کھود کر اپنے راستے سے ہٹانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور پاکستان کے عوام آہستہ آہستہ اپنا کام کررہے ہیں۔ ہماری تاریخ محدود اور سمٹی ہوئی تاریخ ہے۔
اس میں حکمران طبقے کی تاریخ تو ہے عوام کی نہیں، زمین داروں کی ہے کسانوں کی نہیں، صنعت کاروں کی ہے مزدوروں کی نہیں۔ فرانسیسی مورخ مثلے نے فرانسیسی انقلاب پرایک پراثر کتاب لکھی، اس نے کہا ہے ''میں جتنی زیادہ گہرائی میں گیا اتنے ہی یقین کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا کہ جو کچھ بہتر ہے وہ زمین کے نیچے ہے، جو گمنامی میں روپوش ہے، رہنما عنصر عوام ہیں''۔ عوام اور فقط عوام ہی وہ متحر ک قوت ہیں جو عالمی تاریخ کی تشکیل کرتے ہیں ۔
پاکستان کے عوام نے اپنی 64 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں ابتدائی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ پاکستان کو جمہوری تمام تعصبات سے پاک امیر اور مضبوط بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی ضرورت ہے، اتحاد کی ضرورت ہے۔ مشکلات بہت ہیں لیکن ہمیں اپنی فتوحات کو بھی نہ بھولنا چاہیے اور ہمت اور جرات قائم رکھتے ہوئے روشن مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے۔ زندگی عمل ہے اور عمل جدوجہد ہے، بغیر جدوجہد کے کوئی خوبی نہیں پیدا ہوسکتی، بغیر خوبی کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا اور بغیر عمل کے زندگی ممکن نہیں۔ اشرافیت، رجعت پسندی، بنیادپرستی اپنی آخری سانسیں لی رہی ہیں۔ آخری فتح ہمیشہ عوام کو ہی حاصل ہوئی ہے، پاکستان کے عوام کی فتح قریب بلکہ انتہائی قریب ہے۔