3 نومبر اقدامات پرویز مشرف کی نظرثانی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری

پرویز مشرف کی یہ دلیل ناکافی ہے کہ وہ سابق چیف جسٹس کے رویے کی وجہ سے بروقت نظرثانی اپیل دائر نہیں کرسکے، تحریری فیصلہ


ویب ڈیسک April 10, 2014
عدالت نے سابق فوجی سربراہ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کرنے کی ہدایت نہیں کی بلکہ حکومت کی یقین دہانی پر مقدمہ نمٹادیا تھا، عدالتی فیصلہ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے 3 نومبر کے اقدامات کے حوالے سے عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔


چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست زائد الوقت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی تھی جس کا آج تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کی یہ دلیل کافی نہیں کہ وہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے متعصب ہونے کی وجہ سے بروقت نظر ثانی درخواست دائر نہیں کرسکے تھے، عدالت نے سابق فوجی سربراہ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کرنے کی ہدایت نہیں کی بلکہ پرویز مشرف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی حکومتی یقین دہانی پر مقدمہ نمٹا دیا گیا تھا، اگر عدالت ان کے حوالے سے کوئی تعصب رکھتی تو اس حوالے سے کوئی ہدایت دے سکتی تھی اور جس بینچ نے یہ مقدمہ نمٹایا سابق چیف جسٹس اس کا حصہ ہی نہیں تھے۔


عدالت کے تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ 3 نومبر کے اقدامات سے متعلق مقدمے میں پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوکر یہ مؤقف اپنا سکتے تھے کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ان کے مقدمے کی سماعت نہ کریں یا پھر 31 جولائی کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کردیتے اور عدالت سے استدعا کرتے کہ افتخار محمد چوہدری مقدمے کی سماعت نہ کریں۔


عدالتی فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے خلاف نظرثانی درخواست کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف بیرون ملک مقیم تھے مگر 31 جولائی کے فیصلے سے متعلق وطن واپس آکر نظرثانی کی درخواست دائر کرسکتے تھے، عدالتی فیصلے میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں