بی جے پی کی سیاست اور خطے کا امن
جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے تنازعہ کشمیر کا طے ہونا انتہائی ضروری ہے
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔بھارت میں بی جے پی کی سیاست جیسے جیسے عوامی حمایت میں اضافہ کرتی رہی، اس کے رہنماؤں نے کھل کر اپنے نظریات کا اظہار کرنا شروع کردیا۔
اٹل بہاری باجپائی کی حکومت تک بھارتی پالیسی قدرے اعتدال پر رہی لیکن جب بی جے پی نے وزارت عظمیٰ کے لیے نریندر مودی کا نام فائنل کیا تو سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس وقت ہی ان خدشات کا اظہار کردیا تھا کہ اگر بی جے پی الیکشن جیت گئی اور نریندر مودی وزیراعظم بن گئے تو ہندوستان میں انتہاپسندی کو عروج حاصل ہوگا۔
بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور دلتوں کے لیے ترقی کے دروازے بند ہوجائیں گے اور انھیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جائے گا، پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکایا جائے گا۔ یہ سب باتیں سچ ثابت ہوچکی ہیں۔ بھارت کی سیکولر روایات دم توڑ رہی ہیں۔
بھارت میں ہندوؤں کے درمیان بھی ذات پات کی تقسیم گہری ہورہی ہے، جاتی واد اوپر سے نچلی سطح تک پروان چڑھ رہا ہے۔
ہندو کی مراعات یافتہ اور امیر جاتیاں پچھڑی جاتیوں کے لیے بھارتی آئین میں موجود سرکاری ملازمتوں کے کوٹے ختم کرانا چاہتی ہیں اور بی جے پی ایسی بااثر اور امیر جاتیوں کا سیاسی ونگ بن گئی ہے۔ مسلمان تو بی جے پی کے نشانے پر ہیں ہی ، وہ مسیحیوں، سکھوں اور اچھوت جاتیوں کو تو ہر قسم کے حقوق سے محروم کرنا چاہتی ہے۔
بھارت میں آجکل کئی ریاستوں میں الیکشن ہورہے ہیں،عام انتخابات بھی قریب آگئے ہیں، بی جے پی الیکشن جیتنے کے لیے پاکستان مخالف فضا کو ہموار کر رہی ہے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھارت کے ایک منصوبے کو بے نقاب کیا ہے۔
خفیہ اطلاعات کے مطابق مودی سرکار 14فروری کو پلوامہ حملے کی چوتھی برسی پر اسی طرز کا ایک اور ڈرامہ رچانے کی تیاری کر رہی ہے۔
اس منصوبے کے مطابق 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے جنوبی اضلاع میں بارود سے لیس دھماکا خیز گاڑی کی طرز کا حملہ کیا جانا ہے۔ پلوامہ، کولگام، انتناگ اور شوپیاں میں فوجی اہداف پر خود کش حملہ کیے جانے کی قوی اطلاعات ہیں۔ خفیہ اطلاعات کے مطابق کسی نوجوان سے خود کش حملہ کرا کر اس کا الزام پاکستان اور آئی ایس آئی پر تھوپنا ہے۔
بھارت کی 9 ریاستوں میں اس سال انتخابات ہونا ہیں جو 2024کے بھارتی لوک سبھا انتخابات میں فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہیں۔ مودی سرکار فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے پاکستان مخالف جذبات اُبھار کر ایک بار پھر الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔
چاہے اس مقصد کے حصول کے لیے مودی سرکار کو کتنے ہی اپنے فوجی کیوں نہ مروانا پڑیں۔امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے اپنی کتابThe Promised Land میں لکھا تھا کہ پاکستان مخالف جذبات پر ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں انتخابات جیتتی ہیں۔
جنوری 2022 میں کانگریس رہنما ادت راج نے نریندر مودی پر پلوامہ حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔ 16جنوری 2021 کو The Wire کی رپورٹ میں معروف بھارتی میڈیا پرسن ارناب گوسوامی کی لیک واٹس ایپ چیٹ کے مطابق پلوامہ حملے میں مودی سرکار خود ملوث تھی ۔
27اکتوبر 2022 کو بھارتی وزیر دفاع نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو مقبوضہ کشمیر میں طاقت کے زور پر ضم کرنے کا بیان دیا تھا، یکم نومبر 2022کو بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل اوپندرا نے بیان دیا تھاکہ بھارتی فوج آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
حالیہ اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات کا مقصد جنگ کا ماحول بنا کر خطے کا امن داؤ پر لگانا ہے۔ مودی سرکار فالس فلیگ آپریشن کو جواز بنا کر جنگ بندی معاہدہ ختم کرنا چاہتی ہے، اسی لیے پاکستان کو نشانہ بنانے کی غرض سے کسی بھی فالس فلیگ آپریشن کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
یہ اطلاعات تشویشناک بھی ہیں اور بی جے پی حکومت کی سفاک پالیسی کو بھی عیاں کرتی ہیں۔بی جے پی کی قیادت اسرائیل کے انتہا پسند گروپ کی پیروی کرنا شروع ہو گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اس نے اس پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے۔بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں غیرکشمیری لوگوں کی آباد کاری کا آغاز کر دیا ہے۔
اس آباد کاری کو ممکنہ اور قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے بھارت کی باقاعدہ ریاست کا درجہ دے دیا ہے۔
ایک اور ترمیم کے تحت مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے' لداخ کو کشمیر سے الگ کر کے اسے مرکز کے ماتحت کر دیا گیا ہے 'اس اقدام سے لداخ میں بھی غیر کشمیریوں کی آباد کاری کا راستہ کھل گیا ہے' جو کشمیر باقی بچہ ہے۔
اس میں جموں ڈویژن میں ہندوؤں کی معمولی اکثریت ہے' اس اکثریت کو مزید بڑھانے کے لیے جموں میں غیرکشمیریوں کی آباد کاری شروع ہے۔ سرینگر اور وادی میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے لیکن اس کا رقبہ بہت کم ہے' بھارت کی پالیسی یہ ہے کہ وادی کے مسلمانوں کو پاکستان میں دھکیلا جائے اور ملازمتوں اور دیگر مراعات کی آڑ میں وادی کے مسلمانوں کو بھارت کی دیگر ریاستوں میں آباد کیا جائے جب کہ وادی میں ہندوؤں کو آباد کیا جائے۔
یہ طریقہ اسرائیل نے فلسطین کے علاقوں میں یہودی آبادیاں قائم کر کے اختیار کیا ۔بی جے پی حکومت پورے بھارت میں غیرہندوؤں خصوصاً مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
بھارت میں موجود مسیحیوں 'بدھ مت کے ماننے والوں اور جین مت کے ماننے والوں کو ہندوؤں میں شامل کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔
ان عوامل کو ملا کر دیکھا جائے تو بی جے پی کا ایجنڈا اکھنڈ بھارت بھی ہے اور بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا بھی ہے ۔
بھارت میں کشمیری حق خود ارادیت اور استصواب رائے کے لیے 75برسوں سے زائد عرصے سے تحریک چلا رہے ہیں' ان کی تحریک سو فیصد مقامی ہے' یہ تحریک بھارت کے تمام تر مظالم کے باوجود آج بھی جاری و ساری ہے۔ اگلے روز پاکستان اور آزاد کشمیر میںمقبوضہ کشمیر کے ممتاز حریت رہنماء مقبول بٹ شہید کی 39 ویں برسی منائی گئی۔
دنیا بھر میں آزادی پسند تنظیموں کے زیر اہتمام ریلیاں نکالی گئیںاور تقریبات کا انعقاد کیا گیا جب کہ مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی گئی۔ کئی کشمیری رہنما بھارتی جیلوں میں قید ہیں جن میں یاسین ملک سرفہرست ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر کے ایک بڑے رہنما سید علی گیلانی اسیری میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ پاکستان کشمیریوں کی سفارتی مدد کر رہا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے تاکہ کشمیریوں کو ان کا ناقابل تنسیخ حق ، حق خودارادیت مل سکے۔
قائم مقام سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے اسلام آباد میں سفارتی مشنز کے نمائندوں کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ریاست جموں و کشمیر کے تنازعہ کے پرامن حل سے وابستہ ہے۔
انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے اور 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لینے کے لیے بھی بھارت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت پر زور دیاہے۔
قائم مقام سیکریٹری خارجہ نے سفارت کاروں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی اس کی غیر قانونی کوششوں سے آگاہ کیا۔
جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے تنازعہ کشمیر کا طے ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اس پورے خطے میں تعمیر و ترقی کا عمل منجمد ہے۔ جنوبی ایشیا دنیا کے غریب ترین خطوں میں سے ایک ہے ' حالانکہ اس خطے میں ڈیڑھ ارب کے قریب لوگ آباد ہیں ' یہ دنیا کی کسی ایک خطے میں سب سے بڑی افرادی قوت بھی ہے اور تجارتی منڈی بھی ہے۔
یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے' یہاں وافر مقدار میں زیرزمین میٹھا پانی موجود ہے' دریاؤں 'ندی نالوں اور جھرنوں کی بھرمار ہے ' گلیشیئرز اور برف پوش پہاڑ اور وادیاں موجود ہیں' زراعت کاری کے لیے وسیع و عریض سرسبز میدانی علاقے موجود ہیں۔
اس خطے میں دودھدیل جانوروں کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اگر اس خطے کی حکومتوں خصوصاً پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازعات طے ہو جائیں تو جنوبی ایشیا دنیا کا پرامن اور ترقی یافتہ خطہ بن سکتا ہے۔
اٹل بہاری باجپائی کی حکومت تک بھارتی پالیسی قدرے اعتدال پر رہی لیکن جب بی جے پی نے وزارت عظمیٰ کے لیے نریندر مودی کا نام فائنل کیا تو سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس وقت ہی ان خدشات کا اظہار کردیا تھا کہ اگر بی جے پی الیکشن جیت گئی اور نریندر مودی وزیراعظم بن گئے تو ہندوستان میں انتہاپسندی کو عروج حاصل ہوگا۔
بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور دلتوں کے لیے ترقی کے دروازے بند ہوجائیں گے اور انھیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جائے گا، پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکایا جائے گا۔ یہ سب باتیں سچ ثابت ہوچکی ہیں۔ بھارت کی سیکولر روایات دم توڑ رہی ہیں۔
بھارت میں ہندوؤں کے درمیان بھی ذات پات کی تقسیم گہری ہورہی ہے، جاتی واد اوپر سے نچلی سطح تک پروان چڑھ رہا ہے۔
ہندو کی مراعات یافتہ اور امیر جاتیاں پچھڑی جاتیوں کے لیے بھارتی آئین میں موجود سرکاری ملازمتوں کے کوٹے ختم کرانا چاہتی ہیں اور بی جے پی ایسی بااثر اور امیر جاتیوں کا سیاسی ونگ بن گئی ہے۔ مسلمان تو بی جے پی کے نشانے پر ہیں ہی ، وہ مسیحیوں، سکھوں اور اچھوت جاتیوں کو تو ہر قسم کے حقوق سے محروم کرنا چاہتی ہے۔
بھارت میں آجکل کئی ریاستوں میں الیکشن ہورہے ہیں،عام انتخابات بھی قریب آگئے ہیں، بی جے پی الیکشن جیتنے کے لیے پاکستان مخالف فضا کو ہموار کر رہی ہے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھارت کے ایک منصوبے کو بے نقاب کیا ہے۔
خفیہ اطلاعات کے مطابق مودی سرکار 14فروری کو پلوامہ حملے کی چوتھی برسی پر اسی طرز کا ایک اور ڈرامہ رچانے کی تیاری کر رہی ہے۔
اس منصوبے کے مطابق 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے جنوبی اضلاع میں بارود سے لیس دھماکا خیز گاڑی کی طرز کا حملہ کیا جانا ہے۔ پلوامہ، کولگام، انتناگ اور شوپیاں میں فوجی اہداف پر خود کش حملہ کیے جانے کی قوی اطلاعات ہیں۔ خفیہ اطلاعات کے مطابق کسی نوجوان سے خود کش حملہ کرا کر اس کا الزام پاکستان اور آئی ایس آئی پر تھوپنا ہے۔
بھارت کی 9 ریاستوں میں اس سال انتخابات ہونا ہیں جو 2024کے بھارتی لوک سبھا انتخابات میں فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہیں۔ مودی سرکار فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے پاکستان مخالف جذبات اُبھار کر ایک بار پھر الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔
چاہے اس مقصد کے حصول کے لیے مودی سرکار کو کتنے ہی اپنے فوجی کیوں نہ مروانا پڑیں۔امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے اپنی کتابThe Promised Land میں لکھا تھا کہ پاکستان مخالف جذبات پر ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں انتخابات جیتتی ہیں۔
جنوری 2022 میں کانگریس رہنما ادت راج نے نریندر مودی پر پلوامہ حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔ 16جنوری 2021 کو The Wire کی رپورٹ میں معروف بھارتی میڈیا پرسن ارناب گوسوامی کی لیک واٹس ایپ چیٹ کے مطابق پلوامہ حملے میں مودی سرکار خود ملوث تھی ۔
27اکتوبر 2022 کو بھارتی وزیر دفاع نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو مقبوضہ کشمیر میں طاقت کے زور پر ضم کرنے کا بیان دیا تھا، یکم نومبر 2022کو بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل اوپندرا نے بیان دیا تھاکہ بھارتی فوج آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
حالیہ اشتعال انگیز بیانات اور اقدامات کا مقصد جنگ کا ماحول بنا کر خطے کا امن داؤ پر لگانا ہے۔ مودی سرکار فالس فلیگ آپریشن کو جواز بنا کر جنگ بندی معاہدہ ختم کرنا چاہتی ہے، اسی لیے پاکستان کو نشانہ بنانے کی غرض سے کسی بھی فالس فلیگ آپریشن کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
یہ اطلاعات تشویشناک بھی ہیں اور بی جے پی حکومت کی سفاک پالیسی کو بھی عیاں کرتی ہیں۔بی جے پی کی قیادت اسرائیل کے انتہا پسند گروپ کی پیروی کرنا شروع ہو گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اس نے اس پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے۔بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں غیرکشمیری لوگوں کی آباد کاری کا آغاز کر دیا ہے۔
اس آباد کاری کو ممکنہ اور قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے بھارت کی باقاعدہ ریاست کا درجہ دے دیا ہے۔
ایک اور ترمیم کے تحت مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے' لداخ کو کشمیر سے الگ کر کے اسے مرکز کے ماتحت کر دیا گیا ہے 'اس اقدام سے لداخ میں بھی غیر کشمیریوں کی آباد کاری کا راستہ کھل گیا ہے' جو کشمیر باقی بچہ ہے۔
اس میں جموں ڈویژن میں ہندوؤں کی معمولی اکثریت ہے' اس اکثریت کو مزید بڑھانے کے لیے جموں میں غیرکشمیریوں کی آباد کاری شروع ہے۔ سرینگر اور وادی میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے لیکن اس کا رقبہ بہت کم ہے' بھارت کی پالیسی یہ ہے کہ وادی کے مسلمانوں کو پاکستان میں دھکیلا جائے اور ملازمتوں اور دیگر مراعات کی آڑ میں وادی کے مسلمانوں کو بھارت کی دیگر ریاستوں میں آباد کیا جائے جب کہ وادی میں ہندوؤں کو آباد کیا جائے۔
یہ طریقہ اسرائیل نے فلسطین کے علاقوں میں یہودی آبادیاں قائم کر کے اختیار کیا ۔بی جے پی حکومت پورے بھارت میں غیرہندوؤں خصوصاً مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
بھارت میں موجود مسیحیوں 'بدھ مت کے ماننے والوں اور جین مت کے ماننے والوں کو ہندوؤں میں شامل کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔
ان عوامل کو ملا کر دیکھا جائے تو بی جے پی کا ایجنڈا اکھنڈ بھارت بھی ہے اور بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا بھی ہے ۔
بھارت میں کشمیری حق خود ارادیت اور استصواب رائے کے لیے 75برسوں سے زائد عرصے سے تحریک چلا رہے ہیں' ان کی تحریک سو فیصد مقامی ہے' یہ تحریک بھارت کے تمام تر مظالم کے باوجود آج بھی جاری و ساری ہے۔ اگلے روز پاکستان اور آزاد کشمیر میںمقبوضہ کشمیر کے ممتاز حریت رہنماء مقبول بٹ شہید کی 39 ویں برسی منائی گئی۔
دنیا بھر میں آزادی پسند تنظیموں کے زیر اہتمام ریلیاں نکالی گئیںاور تقریبات کا انعقاد کیا گیا جب کہ مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی گئی۔ کئی کشمیری رہنما بھارتی جیلوں میں قید ہیں جن میں یاسین ملک سرفہرست ہیں۔
تحریک آزادی کشمیر کے ایک بڑے رہنما سید علی گیلانی اسیری میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ پاکستان کشمیریوں کی سفارتی مدد کر رہا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے تاکہ کشمیریوں کو ان کا ناقابل تنسیخ حق ، حق خودارادیت مل سکے۔
قائم مقام سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے اسلام آباد میں سفارتی مشنز کے نمائندوں کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ریاست جموں و کشمیر کے تنازعہ کے پرامن حل سے وابستہ ہے۔
انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے اور 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لینے کے لیے بھی بھارت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت پر زور دیاہے۔
قائم مقام سیکریٹری خارجہ نے سفارت کاروں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی اس کی غیر قانونی کوششوں سے آگاہ کیا۔
جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے تنازعہ کشمیر کا طے ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اس پورے خطے میں تعمیر و ترقی کا عمل منجمد ہے۔ جنوبی ایشیا دنیا کے غریب ترین خطوں میں سے ایک ہے ' حالانکہ اس خطے میں ڈیڑھ ارب کے قریب لوگ آباد ہیں ' یہ دنیا کی کسی ایک خطے میں سب سے بڑی افرادی قوت بھی ہے اور تجارتی منڈی بھی ہے۔
یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے' یہاں وافر مقدار میں زیرزمین میٹھا پانی موجود ہے' دریاؤں 'ندی نالوں اور جھرنوں کی بھرمار ہے ' گلیشیئرز اور برف پوش پہاڑ اور وادیاں موجود ہیں' زراعت کاری کے لیے وسیع و عریض سرسبز میدانی علاقے موجود ہیں۔
اس خطے میں دودھدیل جانوروں کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اگر اس خطے کی حکومتوں خصوصاً پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازعات طے ہو جائیں تو جنوبی ایشیا دنیا کا پرامن اور ترقی یافتہ خطہ بن سکتا ہے۔